بجلی کی نجکاری کی مخالفت کیوں؟

حفیظ نعمانی

اب ایسے کم لوگ رہ گئے ہوں گے جنہوں نے بجلی پرائیویٹ کمپنی کے ہاتھوں میں دیکھی ہوگی۔ ہم نے 1950 ء کے زمانہ میں ایک مکان بلوچ پورہ میں کرایہ پر لیا۔ یہ بعد میں معلوم ہوا کہ اس میں بجلی نہیں ہے۔ ہمارے ایک دوست عرفان لکھنوی تحصیل لکھنؤ میں ملازم تھے ہم نے ان سے معلوم کیا کہ بجلی کیسے لی جائے؟ انہوں نے بتایا کہ اے ڈی ایم سٹی کی اجازت لینا ہوتی ہے۔ تم وہاں جاکر معلوم کرنا کہ سرفراز بابو کہاں ہیں؟ ان سے میرا نام بتانا وہ سب کرادیں گے۔ اور خدا دونوں کی مغفرت فرمائے کہ بہت آسانی سے بجلی منظور ہوگئی۔

اسی زمانہ میں مارٹن کمپنی کے ہاتھ میں بجلی کا انتظام تھا۔ 1953 ء میں ہم نے تنویر پریس لے لیا تو بار بار سابقہ پڑا اور ملک کی تقسیم کو صرف چھ سال ہوئے تھے۔ ملک میں انتشار تھا پاکستان سے آنے والے آرہے تھے اور جانے والے جارہے تھے اس کا نتیجہ یہ تھا کہ ہر کاروبار متاثر تھا انتہا یہ ہے کہ گھر کا خرچ بہت کم ہونے کے باوجود پریس کا بجلی کا بل وقت پر ادا نہیں ہوپاتا تھا اور بجلی کٹ جاتی تھی۔ مارٹن کمپنی کی یہ شرافت آج بھی یاد آتی ہے کہ وہ مہینہ پورا ہونے کے بعد سفید کاغذ پر بل بھیجتے تھے۔ اگر بل جمع نہیں ہوتا تھا تو گلابی رنگ کے کاغذ پر نوٹس بھیجتے تھے جس میں تاریخ دی ہوئی ہوتی تھی کہ بجلی کاٹ دی جائے گی۔ اور جب کاٹنے کی نوبت آتی تھی تو 10  اور 11  بجے کے درمیان آکر کاٹ دیتے تھے اور یہ کہہ کر جاتے تھے کہ بل جمع کراتے وقت یہ بتادیجئے گا کہ بجلی کٹ گئی ہے۔ وہ تین روپئے زیادہ لیں گے اور اسی دن شام کو پانچ بجے کے قریب آکر کنکشن کردیتے تھے۔

آزادی کے بعد یہ حکومت کا شوق تھا کہ اپنی بجلی کا ہم خود انتظام کریں گے۔ ابتدا میں تو انتظام ایسا ہی رہا جیسا مارٹن کمپنی کے زمانہ میں تھا اس کے بعد رفتہ رفتہ وہی ہونے لگا جو سرکاری محکموں میں ہوتا ہے اور آج حالت یہ ہے کہ بجلی کے ملازم ہی بجلی چوری کراتے ہیں اور ہر ملازم یہ سمجھتا ہے کہ بجلی اس کے باپ کی ہے۔

اس وقت بجلی ملازموں کے تیور ایسے ہیں جیسے وہ حکومت میں برابر کے شریک ہوں اور وہ فیصلہ کررہے ہیں کہ بجلی نجی کمپنیوں کی دی جائے یا سرکاری ملازموں کے ہاتھ میں رکھی جائے۔ جن لوگوں نے مارٹن کمپنی کا زمانہ نہیں دیکھا وہ نہیں سمجھ سکتے کہ وہ کتنی بڑی نعمت تھی اگر اسے سمجھنا ہو تو اس طرح سمجھا جاسکتا ہے کہ جب پرائیویٹ ہاتھوں میں تھی تو وہ دکاندار تھے اور ہم خریدار ہم نخرے کرتے تھے اور وہ نخرے اٹھاتے تھے۔ اور سرکاری ہاتھوں میں آتے ہی نوعیت یہ ہوگئی کہ جو ملازم ہیں وہ مالک بن گئے اور جو لاکھوں روپئے بل دے رہے ہیں وہ بھکاری۔ اگر اچانک بجلی چلی جائے اور ایک گھنٹہ کے بعد آپ یہ معلوم کرنا چاہیں کہ بجلی کتنی دیر میں آئے گی تو کبھی ٹیلیفون پر جواب نہیں ملے گا یہ حرام خوری کی انتہا ہے کہ ٹیلیفون پر جواب دینا بھی مشکل ہے۔

ہمارا پریس باغ گونگے نواب میں تھا اور امین آباد پاور ہائوس نعمت اللہ روڈ کے کنارہ پر۔ آندھی طوفان کی وجہ سے اگر پول سے خراب ہوگئی تو کسی کو بھیج کر رپورٹ کرادیتے تھے آدھے گھنٹے کے اندر اندر سیڑھی اور لائن مین آجاتے تھے اور بجلی آجاتی تھی۔ پھر وہ دَور آیا تو لائن مین جو جانتے تھے وہ کہہ دیا کرتے تھے کہ رپورٹ نہ لکھوایئے پھر ہمیں نمبر سے آنا پڑے گا آپ کسی لڑکے کو بھیج کر کہلا دیجئے ہم کہیں جارہے ہوں گے آپ کا کنکشن کرتے ہوئے جائیں گے جس کی فیس دس روپئے ہوتی تھی۔ اگر بجلی کٹ گئی ہے تو پھر لائن مین اور سیڑھی والوں کو تلاش کرتے کرتے پورا دن گذر جاتا تھا۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ سرکاری ملازموں کے تیور تو ایسے ہیں جیسے ان کی جائیداد چھین کر حکومت لے رہی ہے اور عوام بالکل خاموش ہیں جبکہ مسئلہ عوام کا ہے۔

29 مارچ سے یکم اپریل تک چار دن کی چھٹی ہے۔ بجلی ملازمین نے پروگرام بنایا ہے کہ ریاست میں تین بجے سے پانچ بجے تک پرائیویٹ زمرے میں بجلی دیئے جانے کے خلاف جلسے کئے جائیں  اور عوام کو اس کے نقصان سے واقف کرایا جائے۔ مسئلہ وہی ہے کہ آج ہماری عمر اور ہمارے جیسا کاروبار کرنے والوں کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہوگی۔ ہم جس زمانہ کی بات کررہے ہیں اس وقت لکھنؤ کی آبادی تین لاکھ تھی اور اب 35  لاکھ میں ہمارے جیسے کہاں ہوں گے؟ لیکن جتنے بھی ہیں وہ اگر اپنے تجربے بتائیں تو عوام کی اکثریت پرائیویٹ کے حق میں ہوجائے گی۔ جن لوگوں کو چوری کی بجلی مل رہی ہے یا جو چوری کرکے بیچ رہے ہیں یا جن کے گھروں میں میٹر نہ ہے اور نہ وہ لگنے دینا چاہتے ہیں وہ تو اس حق میں ہوں گے کہ جیسے چل رہا ہے ویسے ہی چلے۔ لیکن ہم اور ہمارے جیسے اسے نعمت سمجھیں گے اگر پرائیویٹ زمرے میں دے دی جائے۔ اور یوں بھی ہر وہ چیز جو پرائیویٹ ہے اور وہ جو سرکاری ہے اگر اس کا مقابلہ کیا جائے تو سب تسلیم کریں گے کہ پرائیویٹ بہتر ہے اور جب اس کی لگام حکومت کے ہاتھ میں ہوگی تو وہ پرائیویٹ اسکول اور پرائیویٹ اسپتال نہیں بن پائیں گے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔