بدعنوانی اور مودی کے دعوے

سجاد الحسنین

وزیر آعظم نریندر مودی نے ایک بار پھر اعلان کیا ہے کہ غیر محسوب اثاثوں اور واجب الادا ٹیکس کی ادائیگی کے لئے آخری مہلت تیس ستمبر ہوگی اور انہوںنے انتباہ دیا تھا کہ اس کے بعد حکومت کاروائی میں کسی کے بھی خلاف کوئی رعایت نہیں برتے گی ۔من کی بات میں مودی کی لمبی چوڑی تقریر کا لب لباب یہی تھا کہ وہ بد عنوانی کو برداشت نہیں کرسکتے اور ان کی حکومت کالے دھن کے خلاف کاروائی کے لئے کتنی سنجیدہ ہے تاہم ایک تازہ ترین سروے نے مودی کے تمام دعووں کو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جھٹلادیا ہے اور یہ دعوے ایک مجذوب کی بڑ سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتے ۔ملک میں وزیر اعظم سے لے کر دیگر وزراء اور رہنما اگر چہ مسلسل کارپوریٹ فراڈ میں کمی کا دعویٰ کر رہے ہیں تاہم ایک امریکی ادارے کرول انک کی جانب سے دنیا بھر میں کیے گئے ایک سروے کے مطابق ہندوستان میں ہونے والے کارپوریٹ فراڈ میں بدعنوانی اور رشوت کا حصہ 25 فیصد سے زیادہ ہے۔رپورٹ کے مطابق کارپوریٹ فراڈ کے سلسلے میںہندوستان صحرائے صحارا کی ذیلی خطے کے ممالک اور کولمبیا کے بعد تیسرے نمبر پر ہے۔کرول اور اکنامسٹ انٹیلیجنس یونٹ کی جانب سے کرائے جانے والے اس مشترکہ سروے میں قومی اور بین الاقوامی سطح کی کمپنیوں میں کام کرنے والے دنیا بھر کے 768 ایگزیکٹیوز نے حصہ لیا۔
یہ سروے سنہ 2015 سے مارچ 2016 کے دوران کیا گیا۔سروے میں شامل 80 فیصد کمپنیوں نے گذشتہ سال اپنی کمپنیوں میں دھوکہ دہی کے واقعات کو قبول کیا۔ اس سے قبل سنہ 14-2013 میں اس کا تناسب 69 فیصد تھا۔رپورٹ کے مطابق ہندوستان کے 80 فیصد کارپوریٹ فراڈ اور دھوکے کا شکار ہوئے ہیں جبکہ کولمبیا میں 83 فیصد کارپوریٹ اور جنوبی افریقی ممالک میں 84 فیصد کارپوریٹ اس کا شکار رہے ہیں۔کرول کی جانب سے جاری رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس سروے میں شامل ممالک میںہندوستان وہ ملک ہے جہاں فراڈ کا مسئلہ سنگین ہے۔اس دوران 92 فیصد کمپنیوں میں فراڈ کا پتہ لگا ہے جبکہ 14-2013 میں ایسی کمپنیوں کی تعداد 71 فیصد تھی۔کرول کی منیجنگ ڈائریکٹر اور جنوبی ایشیا کے معاملات کی سربراہ رشم کھرانہ نے ایک بیان میں کہا: ’اندرونی دھوکہ دہی کے معاملے میںہندوستان بہت زیادہ حساس ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ کمپنیوں نے اب اس بات کو سمجھنا شروع کر دیا ہے کہ اس خطرے کو کم کرنے کے لیے کچھ کیا جانا چاہیے۔‘وزیر اعظم نریندر مودی نے ملک کے عوام سے یہ وعدہ کیا تھا کہ وہ غیر ممالک میں جمع بقول ان کے پانچ سو ارب ڈالر سے زیادہ کا کالا دھن ملک واپس لائیں گے۔ آج اپوزیشن جماعتیں بی جے پی کی حکومت کو طعنے دے رہی ہیں کہ اس کے کالے دھن کی واپسی کے وعدے کا کیا ہوا۔
ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے مطابق ہندوستان کا شمار دنیا کے ان اولین ملکوں میں ہوتا ہے جہاں بدعنوانی بہت زیادہ ہے۔ یہ بھی تخمینہ لگایا جاتا ہے کہ غیر ممالک میں بے ایمانی کی ایک بڑی دولت خفیہ کھاتوں میں جمع ہے۔ماہرین کا کہنا ہےکہ ملک میں ٹیکس کا پیچیدہ نظام ، ٹیکس کی اونچی شرح ، سرکاری نیلامیوں اور لین دین میں شفافیت کی کمی، بدعنوان اہلکاروں کو سزائیں نہ ملنا اور اس طرح کے بہت سے دوسرے عوامل ہندوستان میں بڑے پیمانے پر پھیلی ہوئے بدعنوانی کے ذمے دار ہیں۔سیاسی جماعتوں نے بدعنوانی ختم کرنے کے لیے نعروں اور وعدوں کے باوجود بدعنوانی کے خلاف ابھی تک کوئی جامع اور ٹھوس قدم نہیں اٹھایا ہے۔ یہی وجہ ہےکہ بدعنوانی کے معاملے میں رفتہ رفتہ سیاسی جماعتوں اور سیاسی نظام سے عوام کا اعتبار اٹھنے لگا ہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔