برداشت (قسط 3)

ندرت کار

ایک مسلمان کے لیے برداشت کا سبق لینا اور اِس پر عمل کر نا کس قدر آسان ہے۔ بس کچھ دیر کیلئے تفکر کے "خیمے” میں داخل ہونے کی ضرورت ہے۔

آخرہم عبادت کس لیے کرتے ہیں ؟

اپنے رب کا تقرب حاصل کرنے کے لیے !

اگرہم معاملات میں تھوڑی سی برداشت پیداکر لیں تو ہماری عبادت کی ریاضت آسان ہو سکتی ہے۔

ایک مسلمان کی معراج یہ ہے کہ وہ اللہ کے حبیب ﷺ کے قریب ہوجائے۔

اور آپ ﷺ معلمِ اخلاق ہیں۔ غور طلب بات ہے،

متعلم اگر تعلیمِ اخلاق کو پسِ پشت ڈال دے تو معلمِ اخلاق ؐ کی قربت کیسے حاصل کرسکتا ہے۔
قرب ‘درحقیقت معنوی قربت ہوتی ہے۔ وگرنہ ظاہری سنگت تو سنگ و خشت کو بھی حاصل ہو تی ہے۔ ہم ایک چھوٹا سا کام کیوں نہیں کر لیتے۔

کسی مسلمان کو اپنے سے کم درجے کا مسلمان سمجھنا چھوڑ دیں۔ ایمان دل کا معاملہ ہے اور دل کو دلیل سے ثابت نہیں کیا جاسکتا۔

پھرہم کسی کے بے ایمان یا کم ایمان ہونے کی دلیل آخر کیسے ڈھونڈ لیتے ہیں؟

کسی مسلمان کو غیر مسلمان سمجھنا چھوڑ دیں تو ہم سب مسلمان ہیں۔

ہمارے دل میں اِسلام کی خدمت کرنے کا جذبہ ٹھاٹھیں مارتا ہے۔

الحمد للہ ! اچھا جذبہ ہے۔

بس اس جذبے کو گوندھنے میں اگرذرا سی برداشت کا نمک ڈال لیا جائے تو لنگر خوب بٹے گا۔۔۔ سب کو کفایت کرے گا۔
اِسلام کی خدمت دراصل انسانیت کی خدمت ہے۔

فلسفۂ اِسلام کی تشریح ‘ اِسلام کی خدمت نہیں۔ تشریحِ اسلام تو ہماری اپنی اپنی فہم ہے۔ کسی کی کم۔ کسی کی زیادہ !

ہم کیا کرتے ہیں؟  اپنی ذاتی فہم کی بنیاد پردوسروں کی فہمائش کرتے رہتے ہیں۔ اخلاقی کلیے خود احتسابی کیلئے دیئے جاتے ہیں، دوسروں کا احتساب کرنے کیلئے نہیں۔  اخلاقیات کے اصول اپنی پیمائش کیلئے مقرر کیے جاتے ہیں۔

دینی اصول اس لیے نہیں پڑھائے جاتے کہ اِن اصولوں کا فٹا پکڑ کرہم دوسروں کے اسلام کا قد ماپتے پھریں۔ ہم پہلے قد ماپتے ہیں۔ پھر گردن !! دین ایک دسترخوان ہے۔ اور جس ذات نے یہ مائدۂ خیال بچھایا ہے، اُس ﷺ کا اوڑھنا بچھونا رحمت ہے ۔ وہ ذات رحمت اللعالمین ﷺ ہے۔  ہم سب اُن کے بچھائے ہوے دسترخوان پر بطور مہمان مدعو ہیں۔

ایک مہمان کیلئے جائز نہیں کہ وہ  دوسرے مہمانوں کو دسترخوان سے اُٹھا ئے۔ برداشت کا تعلق صبر کے ساتھ ہے۔
برداشت اور صبر کے راستے کا مسافر ایک درجے کا شہید ہوتا ہے۔۔۔ وہ شہادت دیتا ہے کہ  کوئی ذات موجود ہے جس کی خاطر وہ سب کچھ برداشت کر رہا ہے ۔۔۔ جس کی معیت پانے کیلئے وہ صبر کررہاہے ۔۔۔ کہ

"اِنّ اللّٰہ مع الصّابرین”

برداشت کیوں پیدا نہیں ہورہی؟

برداشت برداشت برداشت۔ صبح و شام اٹھتے، بیٹھتے، سوتے، جاگتے، یہ لفظ اتنا استعمال ہونے لگا ہے  کہ بچے بچے کو حفظ ہوگیا ہے۔ ٹی وی کیا اخبارات کیا، ہر جگہ لازمی ذکر ہوتا ہے کہ ہماری سوسائٹی سے برداشت ختم ہو گئی ہے۔ لو گ بے صبرے ہو گئے ہیں۔ تحمل اب پہلے جیسا نہیں رہا۔

لوگ معمولی سی بات پر آپے سے باہر ہو جاتے ہیں۔ لڑنے مرنے پر تیار ہو جاتے ہیں۔ کوئی قابو میں آنے کو تیار نہیں، کسی کی کچھ سمجھ نہیں آرہا کہ ایسا کیا ہوا کہ بردا شت ختم ہوتی جا رہی ہے۔ سیمینار ہوں، ورکشاپس ہوں ہر جگہ برداشت کم ہونے کے نتیجے میں نقصانات کا تذکرہ ہوتا ہے۔ خرابی بڑھنے کا بتایا جاتا ہے لیکن۔۔۔۔ لیکن مسئلے کی طر ف تو جہ دلاتے ہوئے پتا نہیں یہ بات نظر سے کیوں رہ جاتی ہے کہ پانی اوپر سے نیچے کی طرف گرتا ہے، مچھلی ہمیشہ منہ سے سڑنا شروع ہوتی ہے۔

ٹھیک اسی طرح برداشت ختم ہونے کا معاملہ بھی بڑوں سے چھوٹوں تک پہنچا ہے۔ خواص سے عام تک آیا ہے۔ لوگ اپنے سے اوپر والوں کو دیکھتے ہیں۔ ان کی باتیں سنتے ہیں۔ متاثر ہوتے ہیں اور اثر قبول کرتے ہیں اور پھر انہی جیسا رویہ اپنا لیتے ہیں۔ انہی جیسی زبان بولتے ہیں۔ جب وہ جلسوں میں اپنے رہنماؤں کو آپ اور تم کے بجائے’ تو‘، ’اوئے‘ اور ’ابے‘ کہتا ہوا سنیں، اور اسی پر بس نہیں بلکہ تقریر کرنے والوں کے منہ سے جھاگ، کانوں سے دھواں اور پیشانی سے پسینہ نکلتے ہوئے ہوئے دیکھیں ساتھ ہی۔ نہیں چھوڑیں گے، مار دیں گے، کاٹ دیں گے، چیر دیں گے، توڑ دیں گے، پھوڑ دیں گے، پھاڑ دیں گے، جیسے الفاظ بڑی توجہ سے سنتے ہیں تو آہستہ آہستہ یہ اور اس طرح کے مزید الفاظ ان کے دماغ میں محفوظ ہو جاتے ہیں۔

پھر ان پر عقیدت کا رنگ بھی چڑھا ہوا ہوتا ہے اس لیے یہ بڑی جلدی دل میں اپنی جگہ بنا لیتے ہیں۔ بس یہاں ایک گڑ بڑ ہو گئی جس کی وجہ سے سب کچھ الٹ پلٹ ہوگیا۔ ہوا کچھ یوں کہ جذبات گرمانے، خون کھولانے والے رہنماﺅں کو اسٹیج میسر تھا، سننے والے بھی، تالیاں بجانے والے، اور واہ واہ کرنے والے بھی۔ اس لیے انہیں تو کوئی مسئلہ نہیں ہوا۔ وہ تقریریں کرتے، اور پھر معمول کی زندگی میں مگن ہو جاتے۔

خرابا تو پیچھے رہ جانے والوں کا ہوا جن کے جذبات گرم اور خون کھول چکا تھا۔ اپنے مخالف کے لیے نفرت کی آگ پیر کے انگوٹھے سے سر کے بالوں تک بھر گئی لیکن کوئی ”اسٹیج“ ان کے لیے تیار نہیں ہوسکا تھا جہاں وہ مجمعے کے سامنے اپنی بھڑاس نکالتے، کلیجہ ٹھنڈا کرتے جب کہ بیزاری، غصہ، جنجھلاہٹ، مزاج کا حصہ ہی نہیں بلکہ پورا مزاج بن گیا تھا اب مشکل یہ تھی کہ غصہ ٹھنڈا کریں تو کیسے؟

جنون کو اعتدال پہ لائیں تو کیسے؟ 

اس کی تو کوئی ترکیب انہیں رہنماﺅں نے سکھائی نہیں تھی اس لیے بالآخر گرمئی جذبات نے اپنے اظہار کا راستہ خود بنا لیا۔
جس کی جہاں سمجھ میں آیا اس نے وہیں ماحول گرمانا شروع کر دیا۔ غصہ ٹھنڈا کر نے لگا۔ چوک ، چوراہو ں میں، گلیوں بازاروں دفتروں میں اسٹاپس پر حتیٰ کہ تسکین نہیں ہوئی تو گھر والو ں پر نزلہ گرنا شروع ہو گیا۔  دیکھتے ہی دیکھتے سوسائٹی میدان جنگ بن گئی جہاں ہر ایک اپنے حصے کا پٹرول لاتا اور آگ کو اور بھڑکاتا اور ایسا لگتا کہ بس ایک دوسرے کو کچا چبانے کی کسر رہ گئی ہے۔

کاش! یہ سادہ بات ان کی سمجھ آجائے جو برداشت ختم ہو نے کی نشا ندہی کرتے ہیں لیکن یہ بھول جاتے ہیں کہ برداشت، برداشت پیدا کریں کہنے سے نہیں، بردا شت کرنے سے پیدا ہوگی۔

تبصرے بند ہیں۔