برق گرتی ہے تو ’بے چارے‘ مسلمانوں پر

ممتاز میر

میں برسوں پہلے لکھ چکا ہوں کے میرے نزدیک اسلام امن کا مذہب نہیں ہے۔ اور یہ بات میں جس تناظر میں کہتا رہا ہوں اس تناظر کو ہم سے ہمارے علماء سے ہمارے رہنمایان سے بہتر ہمارے دشمن سمجھتے ہیں۔  ابلیس کی مجلس شوریٰ میں علامہ اقبالؒ ابلیس کی زبانی فرماتے ہیں(۱) ہے اگر مجھ کو خطر کوئی تو اس امت سے ہے؍جس کی خاکستر میں ہے اب تک شرار آرزو (۲)خال خال اس قوم میں اب تک نظر آتے ہیں وہ ؍کرتے ہیں اشک سحر گاہی سے جو ظالم وضو۔اور سب سے اہم شعر (۳)ہر نفس ڈرتا ہوں اس امت کی بیداری سے میں ؍ہے حقیقت جس کے دیں کی احتساب کائنات،  آپ سوچئے کے مسلمان اگر اپنے اولین رنگ میں ہوتے تو احتساب کائنات ہوتا یا نہ ہوتا؟کیا پھر دنیا آج کی طرح فتنہ و فساد سے بھری ہوتی؟کیا خود دہشت گردی کرنے والے مسلمانوں پر دہشت گردی کرنے کا الزام دھرنے کی جراء ت کرتے؟کیا دنیا میں اس طرح مسلمانوں کا کیا عام لوگوں کا خون بہہ رہا ہوتا ؟ ایک حدیث مسلمانوں سے یہ تقاضہ کرتی ہے کہ تمہاری تلوار اس وقت تک میان میں نہیں جانی چاہئیں جب تک زمین میں رتی برابر بھی فتنہ و فساد باقی ہے۔  یہ حالات کی ستم ظریفی ہے کہ یہ حدیث اشرارکو تو بری لگتی ہی ہے مسلمانوں کو بھی بری لگتی ہے۔صدیوں کی غلامی اور مسلم ممالک کی ناکارکردگی کے بعد وہ ’غلامی کے طریق‘کے ساتھ زندگی گزارنا چاہتے ہیں۔اب وہ کسی حال مردان حر بننے کو تیار نہیں۔وہ اپنے خلاف ہونے والی عالمی سازشوں کو سمجھتے تو ہیں مگر اس کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے کی ہمت اپنے اندر نہیں پاتےَ۔بہت سارے دانشور کہہ چکے ہیں کہ جتنے مسلمان دنیا کے مختلف ممالک میں سازشوں میں مارے جا چکے ہیں اگر باطل کے خلاف اٹھ کھڑے ہوتے تو اس سے کم مارے جاتے اور دنیا سے فتنہ و فساد کا خاتمہ ہو جاتا۔

حیرت ہے کہ جس بات سے ڈر کر انسانیت کے دشمن مسلمانوں کو ڈرا کر دبا کر رکھے ہوئے ہیں،  مسلمانوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑ رہے ہیں انھیں مجبور کر رکھا ہے کہ وہ اپنی ناک سے آگے نہ دیکھیں،  نوبت یہاں تک پہونچ چکی ہے کہ مسئلہء فلسطین جو کبھی عالم اسلام کا مسئلہ تھا وہ عربوں کا مسئلہ بنا اب وہ بھی نہیں بلکہ اب تو عالم اسلام کے سب سے بڑے مگر خود ساختہ لیڈر نے خود اپنے حقوق اپنی زمین اپنے دین کی خاطر لڑنے والے اپنے بھائیوں کو ہی دہشت گرد قرار دے رکھا ہے،  اس بات کا شعور خود مسلمانوں کو نہیں۔

آخر یہ سب مسلمانوں کے ساتھ کیوں ہو رہا ہے؟دنیا میں مسلمانوں سے کمزور قومیں بھی ہیں اور طاقتور بھی۔ مگر برق صرف مسلمانوں پر ہی کیوں گر رہی ہے۔اس کی وجہ ہے قرآن۔قرآن کی تعلیمات انسانوں کو مجبور کرتی ہے کہ وہ جہاد کریں۔سب سے پہلے خود اپنے خلاف پھرپھر اپنے ماحول اور سلطان جابر کے خلاف پھر ان گروہوں قوموں اور ملکوں کے خلاف جو زمین میں فتنہ و فساد پھیلاتے ہیں۔ظاہر ہے جس دین کے ماننے والوں کو یہ سکھایا جاتا ہو اسے اشرار ٹھنڈے پیٹوں کیسے برداشت کر سکتے ہیں،  اور دنیا ان سے نفرت کیسے کر سکتی ہے۔  اسی شیطان کی ذریت نے پہلے پروپگنڈے کی طاقت پر قبضہ کیا جسے ہم فی زمانہ میڈیا کہتے ہیں اور جانتے بھی ہیں کہ ا س پرشیطان کی ذریت کا قبضہ ہے۔  قبضہ مکمل ہو جانے کے بعد انھوں نے مسلمانوں کو بدنام کرنا شروع کیا اتنا کہ آج مسلمانوں اور دہشت گردی کا نیز مسلمانوں کا اور برے کاموں کا چولی دامن کا ساتھ بنایا جا چکا ہے۔

آئیے دیکھیں قرآن میں ایسا کیا ہے جوظالموں کو، بے انصافوں کو اصلی دہشت گردوں،انسانیت کے مجرموں کو اس شدت سے کھٹکتا ہے کہ انھوں نے نام نہاد ۵۷مسلم ممالک کے خلاف دھاوا بولا ہوا ہے مگر خود قرآن کو ’سر پر ‘ رکھنے والوں کو جس کا علم نہیںیا جس سے صدیوں سے صرف نظر کیا گیا ہے۔سورہء آل عمران۱۱۰ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔  ’دنیا میں وہ بہترین گروہ تم ہوجسے انسانوں کی ہدایت کے لئے میدان میں لایا گیا ہے۔تم نیکی کا حکم دیتے ہو بدی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو‘۔  اس کی تفہیم و تشریح کے سلسلے میں میں نے جو مطالعہ کیا ہے اس سے میں اس نتیجے پر پہونچا ہوں کہ اگر ہم انسانوں کی ہدایت و اصلاح کا کام نہیں کرتے۔  اگر ہم نیکیوں کا حکم نہیں دیتے اور برائیوں سے نہیں روکتے تو نہ ہم بہترین گروہ ہیں نہ اللہ پر ایمان رکھنے کا حق ادا کرتے ہیں۔کیونکہ اس تعلق سے ایک مشہور حدیث میں جو کچھ فرمایا گیا ہے وہ اس کی کچھ ایسی ہی تشریح کرتی ہے۔حضور ﷺ فرماتے ہیں کہ اگر ممکن ہو تو برائی کو ہاتھ سے روکواگر یہ ممکن نہ ہو تو زبان سے روکو۔ اگر یہ بھی ممکن نہ ہو تو کم سے کم دل میں برا سمجھو،  اور یہ ایمان کا آخری درجہ ہے۔

میرا ذاتی تجربہ یہ ہے کہ اب مسلمان آخری درجہ کیا،اس درجہ میں پہونچ گئے ہیں جہاں انھیں برائی سے روکنے والا فتنہ نظر آتا ہے۔  اس تناظر میں سوچئے کے مسلمانوں کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے کیاوہ ان کے اعمال کے نتائج نہیں ہیں؟دنیا کے اشرار،  شیطان کے ساتھی یہی تو چاہتے تھے۔  کہ وہ خیر امت کے منصب سے ہٹا دیئے جائیں اور انھیں نصر من اللہ حاصل نہ رہے۔  آخر قرآن کیوں بار بار اس فریضے کی طرف متوجہ کرتا ہے ؟ سورہ آل عمران ۱۰۴ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ’تم میں کچھ لوگ تو ضرور ہی ایسے ہونے چاہئے جو نیکی کی طرف بلائیں،  بھلائی کا حکم دیں اور برائیوں سے روکتے رہیں۔  جو لوگ یہ کام کریں گے وہی فلاح پائیں گے‘ پھر سورہ توبہ میں۷۱اور ۱۱۲ میں کم و بیش اسی طرح کے احکامات ہیں۔  سورہء اعراف۱۵۷۔سورۃ الحج ۴۱ اور سورہء لقمان ۱۷میں بھی یہی مضامین قرآن میں بار بار آئے ہیں۔  بہت ممکن ہے اور بھی مقامات پر خدائے بزرگ و برتر نے اپنے حکم کو دہرایا ہو۔  سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اللہ نے اپنے اس حکم کو بار بار کیوں دہرایا ہے ؟ اس حکم کے ساتھ صلاح و فلاح پانے کی شرط کیوں رکھی گئی ہے ؟ ایسا لگتا ہے کہ خلافت راشدہ کے خاتمے پر ہمارے بڑے بڑے علمائے کرام نے (چند مستثنیات کے ساتھ) قصداً اس حکم کو اٹھاکر طاق پر رکھ دیا۔  پھر ہمارے دشمن آج اگر ہمارے حکمرانوں سے مطالبہ کرتے ہیں کہ اپنے نصاب سے جہاد اور درج بالا آیات کو نکال دو،  جسے ہمارے بزدل حکمراں مان بھی لیتے ہیں تو غور کیجئے کہ وہ ایسا کیوں کرتے ہیں؟ قرآن کی تعلیمات کے اثرات کا شعور ہمیں تو نہیں ہے،  ہاں انسانیت کے دشمنوں کو خوب ہے۔

اپنے معاشرے کو پھر سے انہی خطوط پر استور کیجئے جہاں ایک عام عورت و مرد خلیفہء دوم امیر المومنین حضرت عمر بن الخطابؓکو بر سر محفل ان کی غلطی بتا دیا کرتے تھے۔بصورت دیگر وہ ہوتا رہے گا جو ہو رہا ہے۔  اللہ کو ہماری ضررت نہیں وہ پھر صنم خانے میں پاسباں پیدا کریگا۔

تبصرے بند ہیں۔