برہمن اور بنیا برادری کے  تسلط کا خاتمہ کب ہوگا!

محمد شاہد خان

میں مارکسزم پر یقین رکھنے والا شخص تو نہیں ہوں لیکن اسلام چونکہ اپنے ماننے والوں کو وسعت ذہنی کی تعلیم دیتا ہے اور علمی و فکری ترقی کی خاطر دیگر اقوام کے علوم و تجربات سے استفادہ کو عین تقاضہ حکمت قرار دیتا ہے (بشرطیکہ اس علم کا تعلق ایمان و عقیدہ سے نہ ہو) اس لئے اگر کارل مارکس کے نظریہ مادیت کی تشریح کو پیش نظر رکھتے ہوئے ہم ہندوستانی معاشرہ میں موجود اقتصادی، سیاسی اور سماجی نابرابری کو سمجھنے کی کوشش کریں تو شاید بہت حد تک یہ بات سمجھ میں آ سکتی ہے کہ سماج کا جو طبقہ صنعت و تجارت اور پیداوار کے ذرائع پر قابض ہوتا ہے وہی ملک کی پالیسیاں طے کرتا ہے۔ سیاسیات و سماجیات سے متعلق مسائل سے لے کر روز مرہ کے طرز حیات س پر اسی طبقہ کا رنگ غالب ہوتا ہے۔ میڈیا سے جڑے افراد اپنے منہ میں اسی طبقہ کی زبان رکھتے ہیں ۔ فلم اور کھیل سے تعلق رکھنے والے لوگوں کا استعمال ہر اچھی بری فکر کی ترویج کے لئےاسی مادی قوت کے بل پر کیا جاتا ہے اور اس مقصد میں یہ طبقہ بہت حد تک کامیاب بھی ہو جاتا ہے۔ وجہ یہ ہوتی ہے کہ مادی قوت کا دباؤ اور اس کی دلکشی اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ سماج کا بیشتر حصہ اسی خاص زبان میں باتیں کر نے لگتا ہے۔ مختصر یہ کہ پیسہ کی دھن پر ہر پائوں تھرکنے لگتا ہے۔ یہ بات بھی قارئین کو دلچسپ لگے گی کہ وہی کارل مارکس جو مادیت کی نئی تشریح لے کر آیا تھا خود اس کا فلسفہ زمانہ کی گرد میں گم ہو جاتا اگر اس کے نظریہ کو فریڈرک اینجلس کی بے پناہ ثروت کی پشت پناہی حاصل نہ ہوئی ہوتی۔

اس مقدمہ کو ذہن میں رکھ کر اگر آپ ہندوستان کا منظرنامہ سمجھنے کی کوشش کریں تو شاید بہت سے پہلو خود بخود واضح ہو جائیں گے۔ اس حقیقت سے بھی پردہ اٹھ جائےگا کہ آخر زندگی کے تمام میدانوں میں آج کے ہندوستان میں جن طبقوں کا نشہ سر چڑھ کے بولتا ہے اس کو پیدا کرنے والی قوت کا نام کیا ہے؟ وہ کونسا انجن ہے جو خاص قسم کے نظریہ پر دوڑنے والی گاڑیوں کو مہمیز عطا کرتا ہے جس کی بے ہنگم چال سے سارا ہندوستان بالخصوص اقلیتوں کی زندگیوں میں ناہمواری پیدا ہوگئی ہے؟ اگر آپ نے اس نکتہ کو پا لیا تو یہ سمجھنا بھی آسان ہو جائےگا کہ گاندھی نے اپنے فلسفہ کی ترویج کے لئے برلا جیسے صاحب ثروت کے پائدار مہمان بنے رہنے کی ضرورت کیوں محسوس کی؟ کیا ہندو احیائیت کی خاطر گاندھی اور نہرو نے دانستہ طور پر اپنے افکار کو سہارا دینے اور کامیابی کے ساتھ اسے منزل تک پہونچانے کے لئے مالدار ہندو طبقوں کی مدد لی تھی؟ کیا فرقہ واریت کی چنگاری کو کانگریس پارٹی ہی نے ہوا دی تھی جو آج شعلہ بن کر ہندوستان کی مسلم اقلیت کو خاکستر کر رہی ہے؟ کیا ظاہری خول کے علاوہ بے جے پی اور کانگریس میں پالیسی سازی کے اعتبار سےکوئی واضح فرق بھی ہے؟ ان سوالات کے جوابات تلاش کرنے ہوں گے۔ تاریخ کی تشریح نو کی ضرورت آج سب سے زیادہ ہم کو ہے تاکہ ہم صحیح دائرہ عمل طے کر سکیں لیکن اس مقصد کے حصول کے لئے بھی ہمیں اقتصادی قوت کی ضرورت پڑےگی۔ اگر ہم نے محنت شروع نہیں کی ہے تو آج ہی اس مقصد کے لئے لگ جانا ہے۔ راستہ مشکل ضرور ہے لیکن ناممکن ہرگز نہیں ۔

اب ذرا آپ اپنے ملک کی تصویر پر نظر ڈالئے۔ کیا آپ نے کبھی جاننے کی کوشش کی کہ ہندوستان میں پاور کے سر چشمہ پر کونسا طبقہ براجمان ہے اور سماجی نابرابری کا ذمہ دار بنا ہوا ہے؟ اور سماجی نابرابری کا ہی مسئلہ کیوں خود صحیح اور غلط، سچ اور جھوٹ یہاں تک کہ زندگی اور موت کے لئے معیار قائم کرنے لگا ہے۔ درج ذیل اعداد و شمار سے آپ کو ایک جھلک شاید مل جائے جس سے آپ پاور اور قوت کے اس کھیل کو سمجھ سکیں :

ہندستان میں برہمن ، بنیا اور جین برادری  کی کل آبادی 6 % یا اس سے بھی کم ہے،لیکن جب ہندستان کے پہلے وزیر اعظم کے انتخاب کی ضرورت پڑی تو قیادت جواہرل نہرو کو ملی جو کہ ایک برہمن تھے۔ مہاتما گاندھی جن کے اشیرواد سے نہرو اس منصب تک پہونچنے میں کامیاب ہوئے ان کا تعلق بنیا ذات سے تھا۔ یہ معاملہ صرف سیاست کے گلیاروں تک محدود نہیں ہے بلکہ ہندستان کی بڑی بڑی کمپنیاں اور ان کے مالکان کا تعلق بھی انھیں ذاتوں سے ہے۔ مثال کے طور پر آپ دیکھیں کہ

 اے سی سی (ACC)کمپنی کے مالک ‘ سمیت بنرجی ‘ کا سر رشتہ ہندو برہمن ذات سے جڑا ہوا ہے۔

بھیل BHEL کمپنی کے مالک ‘روی کمارکرشنا سوامی’  بھی ایک برہمن ہیں ۔

جبکہ ایرٹل airtel کمپنی کے مالک ‘ سنیل متّل ‘ کا تعلق بنیا ذات سے ہے- اتنا ہی نہیں بلکہ گراسم اور ہنڈالکو (GRASIM AND HINDALCO )کے مالک ‘ کمار منگلم برلا ‘ بھی ذات سے بنیا ہی ہیں ۔

خود ایچ ڈی ایف سی HDFC کو چلانے والے ‘ دیپک پاریکھ ‘ اسی بنیا طبقہ کے فرد ہیں ۔

ہندستان یونیلیور HINDUSTAN UNILEVER کو چلانے والے ‘ نتن پرانجپی ‘ایک برہمن ہیں ۔

ائی سی آئی سی آئی  ICICI بینک کے ہیڈ ‘ کے وی کامتھ ، بھی برہمن ہیں ۔

جے پرکاشJAI PRAKASH ASSOCIATES کو چلانے والے ‘یوگیش گور’، ایل اینڈ ٹی (L & T )کو چلانے والے ‘ اے ایم نائک ‘ این ٹی پی سی اور او این جی سی  (NTPC)اور (ONGC) دونوں کمپنیوں کے مالک ‘ آر ایس شرما ‘سب  کے سب برہمن ہیں ۔

آپ کو محسوس ہوگا کہ جیسے پاور کا بٹوارہ ان ذاتوں سے تعلق رکھنے والوں نے گویا کسی طے شدہ ایجنڈے کے تحت کیا ہو۔ برہمن کا سلسلہ ختم نہیں ہوتا کہ بنیا کی ریس شروع ہو جاتی ہے۔ اس نکتہ کی وضاحت کے لئے مزید چند مثالوں پر ذرا نظر ڈالئے۔

رلائنس گروپ (RELIANCE GROUP)کے مالکان مکیش امبانی اور انل امبانی بنیا ذات سے تعلق رکھتے ہیں ۔اسٹیٹ بینک آف انڈیا (STATE BANK OF INDIA)کو چلانے والے ‘ او پی بھٹ ‘ کا تعلق بھی اسی ذات سے ہے ۔ سیٹلائٹ انڈسٹری (SATELLITE INDUSTRIES) کو چلانے والے انل اگروال ایک بنیا ہیں ۔

سن فارما (SUN PHARMA) کو چلانے والے ‘ دلیپ سانگھوی’ ایک بنیا ہیں تو ٹاٹا اسٹیل کو چلانے ‘ بی متھورامن ‘ ایک برہمن ہیں۔

اسی طرح پنجاب نیشنل بینک (PUNJAB NATIONAL BANK )کو ‘ کے سی چکرورتی ‘ چلاتے ہیں جو ایک برہمن ہیں ۔ بینک آف بڈودا (BANK OF BADODA)کو قیادت فراہم کرانے والے ‘ ایم ڈی مالیا’ بھی کوئی اور نہیں بلکہ برہمن ہی ہیں . البتہ کینرا بینک (CANARA BANK) کو ‘ اے سی مہاجن ‘ نامی ایک بنیا چلاتے ہیں .

انڈیا کی سوفٹ ویر کمپنی انفوسس (INFOSYS) کو ان دنوں ایک برہمن ‘ کرس گوپال کرشنن  ‘ چلاتے ہیں ۔ ان سے قبل ‘نارائن مورتی اور نندن نلکانی چلاتے تھے۔

یہ فہرست بہت طویل ہے اور پاور پر ان ذاتوں کی گرفت بھی اتنی ہی سخت ہے۔ ان کے چندوں سے سیاسی پارٹیاں الیکشن جیتتی ہیں اور حکومت پر قبضہ جمانے کے بعد ان کارپوریٹ ہاؤسیز کے مفاد میں پالیسیاں بناتی ہیں ۔ جبکہ "اچھے دن” کے خواب میں ووٹ ڈالنے والے عوام کی مشقتیں بڑھتی تو ضرور ہیں کم نہیں ہوتیں ۔ عوام کے تئیں اسی بے حسی کا نتیجہ ہے کہ ملک کو غلہ فراہم کرانے والے کسانوں کے احتجاج کی آواز وزیراعظم کے دروازہ سے اٹھنے کے باوجود اندر تک نہیں پہونچتی۔ وہ برہنہ ہوکر اپنی بے بسی اور بے چارگی کا اظہار کرتے ہیں لیکن میڈیا اس میں دلچسپی نہیں دکھاتا جبکہ یوگی آدتیہ ناتھ اپنے کتوں اور گایوں سے ملتے ہیں تو چینلوں کے اسٹوڈیز میں بیٹھے چمچماتے چہرے والے اینکروں کا رنگ اور کھل اٹھتا ہے۔ کیونکہ ان میڈیا ہاؤسیز کے مالکان انہیں کمپنیوں کو چلانے والے ہوتے ہیں جن کا ذکر اوپر کیا گیا۔ ذیل کی سطروں سے آپ کو مزید پتہ چلےگا کہ کارپوریٹ اور میڈیا کا آپسی رشتہ کتنا گہرا ہے۔ جب نیوز کم اور ایڈورٹزمنٹ آپ کو زیادہ دیکھنے کو ملیں تو اس رشتہ کو سمجھنا اور بھی آسان ہو جاتاہے۔ کچھ اور کمپنیوں اور ان کے مالکان کے ناموں کی فہرست پیش کرنا فائدہ سے خالی نہیں ہوگا۔

* ٹی سی ایس TCS کو چلانے والے ‘ سبرا منیم رامادورائے ‘ ایک برہمن ہیں ۔

*  وپرو (WIPRO )کے مالک عظیم ہاشم پریم جی کا تعلق ‘ کھوجا برادری ‘ سے ہے ، کھوجا دراصل  شیعہ ہیں اور یہ ‘ لوہانا کاروباری برادری’ سے کنورٹ (تبدیل ) ہوئے ہیں ، ایل کے اڈوانی اور محمد علی جناح کا تعلق بھی اسی لوہانا برادری سے ہے ۔

* شہری ہوابازی میں ہندستان کی دو بڑی کمپنیاں کنگ فشر (KING FISHER ) کے مالک وجے مالیا تھے جو کہ ایک برہمن ہیں اور دوسری بڑی کمپنی جٹ ایرویز (JET AIRWAYS)کے مالک نریش گویل کا تعلق بنیا ذات سے ہے ۔

* ٹیلیکام کی بڑی کمپنیاں ، airtel (متّل ) Reliance (امبانی )Essar vodafone (ریا Ruia) Idea (برلا) spice ( مودی ) ان سب کا تعلق بنیابرادری سے ہے BSNL کو چلانے والے کلدیپ گویل بھی بنیا ہیں ، ٹاٹا TTML کو چلانے والے ‘ کے اے چوکر’ کا تعلق بھی بنیا برادری سےہی ہے۔

* میڈیا پر تقریبا جین اور بنیا برادری کا قبضہ ہے، ہندستان کے دو بڑے اخبارات ‘ ٹائمز آف انڈیا ‘ (Times of india ) جین برادری کی ملکیت ہے اور’ ہندستان ٹائمز ‘(Hindustan times) برلا فیملی کی ملکیت ہے جن کا تعلق بنیاذات سے ہے ، تیسرا بڑا اخبار The Hindu  ‘کستوری لینگن فیملی ‘کی ملکیت ہے جوکہ برہمن ہے، indian express  ‘ گوینکا فیملی کی ملکیت ہے وہ بھی برہمن ہے ، zee tv کے مالک ‘ سبھاش چندر گوئل ‘ بنیا ‘ ہیں ،ہندی کے دو بڑے اخبارات ‘ دینک جاگرن ‘ کی ملکیت گپتا فیملی کی ہے جوکہ بنیا ہیں اور ‘ دینک بھاسکر کی ملکیت اگروال گروپ کی ہے اور ان کا بھی تعلق بنیا برادری سے ہی ہے،گجراتی اخبار ‘ دیویا بھاسکر ‘ بھی گپتا ہی فیملی کی ملکیت ہے ، گجرات کا سب سے بڑا اخبار ‘گجرات سماچار ‘ جین ( شاہ ) کی ملکیت ہے، مہاراشٹر کا سب سے بڑا اخبار ‘ لوک مت ‘ جین برادری ( داردا ) کی ملکیت ہے ،راجستھان میگزین ‘جین برادری سے تعلق رکھنے والے ‘ کوٹھاری ‘ کی ملکیت ہے، نوبھارت ٹائمز ‘ جین برادری کی ملکیت ہے جبکہ ‘ ہندستان ‘ برلا فیملی کی ملکیت ہے جن کا تعلق بنیا ذات سے ہے،امر اجالا ‘ مہیشوری ‘کی ملکیت ہے جن کا تعلق بنیا ذات سے ہے ۔

* اسٹیل کی جتنی کمپنیاں ہیں چاہے وہ جندل ہو یا ‘اسپیٹ ‘ہو یا ‘ویزا ‘ہو یا ‘اسّار ‘ہو یا ‘ارکیلر ‘ہو تقریبا سب کی سب بنیوں کی ملکیت ہے ۔

* اسی طرح سے سیمنٹ کی کمپنیاں امبوجا ‘ نیوشیا اور شیکھسریا کی ملکیت ہے جوکہ بنیا ہیں ، ڈالمیاسیمنٹ ‘بنیوں کی ملکیت ہے ،الٹراٹک اور وکرم سیمنٹ بھی برلا کا ہے جن کا تعلق بنیا برادری سے ہے ، جے کے سیمنٹ ‘سنگھا نیا ‘کی ملکیت ہے جو کہ ایک بنیا ہیں ۔

* ہندستان موٹرس ‘ برلا ‘ فیملی کی ملکیت ہے اسی طرح  ‘بجاج آٹو’ بھی بنیوں کی ملکیت ہے۔

* ہندستان کی نئی اور پرانی دونوں ہی اقتصاد پر برہمن اور بنیوں کا قبضہ رہا ہے

* شودر کا مطلب ہم اچھوت سمجھتے ہیں لیکن اسکا حقیقی مفہوم زراعت پر منحصر طبقہ (peasant caste) اور او بی سیز ہیں جیسے پٹیل وغیرہ۔ ان کا تناسب ہندستان کی آبادی کا تقریبا 50% ہے اور زیادہ تر ریاستوں کے وزرائے اعلی کا تعلق انھیں برادریوں سے ہے ، نریندر مودی (تیلی /گانچھی) نتیش کمار ( کرمی ) شیو راج چوہان (OBC) ، جھارکھنڈ اور کرناٹک کے وزرائے اعلاء کا تعلق بھی او بی سیز (OBC)سے ہے، گوا ، مہاراشٹر اور مغربی بنگال کے وزرائے اعلی برہمن ہیں اسلئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ ہندستانی سیاست کو برہمن ، راجپوت اور او بی سیز کنٹرول کرتے ہیں ۔ ظاہر ہے کہ آزادی سے پہلے یہ صورتحال نہیں تھی لیکن آزادی کے بعد دلت اور اوبی سی نے محنت کی جس کی وجہ سے آج قانون ساز اسمبلیوں پر ان کا بول بالا ہے اور انھوں نے اپنی اپنی برادریوں کیلئے رزرویشن بھی حاصل کرلیا ہےلیکن تجارت اور میڈیا ابھی بھی صرف برہمنوں اور بنیوں کے کنٹرول میں ہے یہی وجہ ہے کہ ابتک پرائیویٹ سیکٹر میں رزرویشن نہیں ہوسکا ہے لیکن ان سب کے درمیان اگر کوئی کہیں نہیں دکھائی دیتا ہے تو وہ مسلمان ہے اسلئے مسلمانوں کو تعلیم اور اقتصاد پرسخت توجہ دینے کی ضرورت ہے کیونکہ سیاست ، تعلیم اوراقتصاد  کی باندی ہے اور ملکی اور عالمی دونوں سطح پر مسلمانوں کی کامیابی کا اس کے علاوہ کوئی دوسرا فارمولا نہیں ہے

(ڈاکٹر ضیاءاللہ ندوی صاحب کا خصوصی شکریہ جنھوں اس مضمون کی تیاری میں خصوصی معاونت کی )

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


1 تبصرہ
  1. Firoz Akhtar کہتے ہیں

    All right I agree with you

تبصرے بند ہیں۔