برہمن سماج کے خلاف ہندو بیواؤں کی گونگی چیخ!

عظیم اللہ صدیقی قاسمی

 ادھر کچھ عرصے سے کبھی ‘لوجہاد’، کبھی ‘تین طلاق’ اور کبھی ‘مسلم خواتین پر مظالم’ کے خلاف صدائیں بلند ہورہی ہیں _ مسلم پرسنل لا کو اصل مورد الزام قرارد ے کر، وزیر اعظم ہند سے لے کر اترپردیش کے چیف منسٹر تک، ہر کوئی اشک بہا رہا ہے……اگر ہمار ا سماج اور ہماری حکومت عورتوں پر ہورہے مظالم کا ننگی آنکھوں سے مطالعہ کرتی تو ورنداون کی بیواؤں کی مظلومیت پر بھی بات کی جاتی ، جو ہندو سماج سے متعلق ہے۔

  مغربی اتر پردیش کامقبول مذہبی شہر ورنداون، جو متھرا سے دس کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے ، کبھی مہابھارت کے عظیم کردار شری کرشن کے عہدِ طفولیت کا وطن تھا۔ آج ہندستان کی مظلوم ہندو بیوہ عورتوں اور اپنوں کی جانب سے دھتکاری ہو ئی ابھاگنوں کی آہ و فغاں کا شہر بناہوا ہے ۔ جی ہاں ،  وہ ہندوستان ، جہاں عورت کو کالی ، درگا اور لکچھمی کی شکل میں پوجا جاتا ہے ، جہاں ماں کو مختلف شکلوں میں دیوی مان کر اس کی پرستش کی جاتی ہے…. اسی ہندستان میں ان عورتوں کا ایسا درد چھپا ہے جس پر بدقسمتی سے زیادہ چرچا نہیں ہوتا ۔ ماضی میں فلم ساز دیپا مہتا نے ’واٹر‘ نامی فلم کے ذریعے جب یہ سچ دنیا کے سامنے لانے کا ارادہ کیا توچند شدّت پسند عناصر کو یہ بات ہضم نہیں ہوئی اور بالآخر1999ء میں بنارس میں اس کی شوٹنگ روکنی پڑی تھی ۔

درحقیقت کچھ لوگ نہیں چاہتے کہ ان بیواؤں کے موضوع پر کوئی عام بحث ہو اور دنیا اس سیاہ حقیقت سے کھل کر واقف ہو ، کیوں کہ اس کی زد میں ہندو سماج کا اعلی طبقہ آتا ہے اور یہ وہی طبقہ ہے جو بھارت ماتا، گاؤ ماتا کے تقدس کی بات تو خوب کرتا ہے، مگر جب اپنی اصل ماں اور حقیقی بیوہ بہن اور رشتہ دار کا معاملہ آتا ہے تو احترام تو دور کی بات ہے ، انھیں جینے کے لیے گھر میں جگہ بھی نہیں دیتا۔ جی ہاں ، ہندستان کے برہمن سماج میں جوان لڑکی جب بیوہ ہوجاتی ہے تو دوسری شادی ممنوع ہونے کی وجہ سے وہ ایک لاچار عورت بن کر رہ جاتی ہے وہ نیوگ کے بڑے عذاب سے گزرنا نہیں چاہتی ، اس لیے مٹھوں اور دھرم شالاؤں میں پناہ لیتی ہے _ نیوگ یہ ہے کہ اگر کسی عورت کا شوہر مر جائے اور وہ بے اولاد ہو تو تین بچے ہونے تک آنجہانی شوہر کے سب سے قریبی رشتہ دار سے جسمانی تعلق قائم کرے ظاہر ہے کہ اس چیز کو ایک پاکیزہ عورت کا ضمیر قبول نہیں کرسکتا ۔ کسی عہد میں ہندوؤں میں ستی کا رواج تھا کہ عورت کو شوہر کے انتقال کے بعد جینے کا حق نہیں ہے ، لہذا اسے شوہر کی چِتا کے ساتھ زندہ جلا دیا جاتا تھا شکر ہے کہ ملکہ وکٹوریہ نے باضابطہ قانون بنا کر 1829ء میں اسے مجرمانہ اعمال میں شامل کرایا _ نیپال میں تو 1920ء تک یہ عمل جاری رہا۔آج بھی اسی سوچ کے تحت بیوہ عورت کے ساتھ وہی رویہ اپنایا جاتا ہے۔  بس فرق اتنا ہے کہ کل وہ آگ کے شعلوں میں جل کر کچھ دیر کے بعد ٹھنڈی ہو جاتی تھی اور آج وہ ہر پل جلتی ہے اور ہر پل یہ شعلہ اس کی زندگی اور ارمانوں کے ایندھن سے طاقت پاکر مزید بھڑکتا چلا جاتا ہے ۔

ایک ہندو عورت بیوہ ہونے کے بعد اپنوں کی نگاہ میں ملعون ہو جاتی ہے ، اسے گھر میں ایک حد سے آگے نہیں بڑھنے دیا جاتا  ، شوہر کی جائیداد میں اسے حق نہیں ملتا ، اسے شوہر کے گھر سے بھاگنے پر مجبور کیا جاتا ہے اور پھر وہ مجبور ہو کر اپنے وطن سے دور کسی آشرم میں سدا کے لیے داسی بن کر زندگی گزارنے چلی جاتی ہے ، جہاں اذیتوں کا ایک نیادور شروع ہو تا ہے ۔ ورنداون میں 4000 آشرم ہیں ، جہاں یہ بیوائیں پناہ لیے ہوئے ہیں _ ان کے رشتے دار انھیں یہاں لاکر چھوڑ جاتے ہیں اور وہ بھی اس عقیدے کے ساتھ یہاں آجاتی ہیں کہ کرشن کی نگری میں رہ کر شاید انھیں سکون اور بھگوان کی قربت حاصل ہو جائے ، لیکن یہاں آکر ان کی دشواری مزید بڑھ جاتی ہے _ زیادہ تر آشرموں میں کوئی معقول نظم نہیں ، وہ ان کے لیے دو وقت کی روٹی کا بھی انتظام نہیں کرواتے ، چنانچہ یہ عورتیں بھیک مانگنے پر مجبور ہوتی ہیں _

یہ بھی کہاجاتا ہے کہ آشرم سے جڑے بعض افراد عورتوں کو جسم فروشی کے دھندے میں ڈال دیتے ہیں _ نوجوان بیوہ عورتوں کو مال داروں کے گھروں پر شب گزارنے پر مجبور کیا جاتا ہے _ یہ راقم بھی ایک باروہاں جا چکا ہے۔ وہا ں بے بس ، پاؤں سے معذور، انتہائی کمزور اور بے سہارا عورتوں کو گرتے پڑتے دیکھا ہے ، جن کی مظلومیت دیکھ کر آنکھیں بھر آتی ہیں _  یہ عورتیں زائرین کے لیے بھجن گاتی ہیں ، جس کے بدلے انھیں تین سے چار روپے یا چاول کی ایک دو مٹھی دی جاتی ہیں ، جو بہت ہی ناکافی ہو تی ہے _ افسوس  ہے کہ بھجن گانے کے نام پر کچھ نام نہاد زائرین وہاں عیش کوشی بھی کرتے ہیں _ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ بھجن گانے والی زیادہ تر عورتیں مغربی بنگال اور بہار کی ہوتی ہیں ، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ بہار اور بنگال میں بیوگی کا زخم کافی گہرا ہے۔

کمیونسٹ سرکار کے دور میں ان عورتوں کو ان کے گھروں میں واپس بھیجنے کی کوشش ہوئی تھی ، مگر انھوں نے واپس جانے سے انکار کردیا ، کیوں کہ اب وہ ان مکروہ چہروں کو نہیں دیکھنا چاہتی تھیں جو ان کے قریبی ہونے کے باوجود انھیں ایسی بے چارگی کی زندگی میں ڈھکیل دینے کے ذمے دار تھے _ ایک عورت کے لیے اپنوں کی بے وفائی سے زیادہ بڑا کوئی صدمہ نہیں ہوسکتا ۔ ادھر ان آشرموں میں عورتوں پر ہونے والے مظالم ، عصمت دری کے واقعات پر توجہ دلانے کے باوجود سرکار کارروائی نہیں کرتی ہے اور ان مظلوم بیواؤں کی زبانیں بھی اس خوف سے گنگ رہتی ہیں کہ اگر انھیں یہاں سے بھی بھگا دیا گیا تو وہ کہاں جائیں گی ؟

سوال یہ ہے کہ طلاق کے نا م پر عورتوں پر ہورہے مظالم کے خلاف  سرکار بہت سنجید ہے تو پھر اسے متھرا کے آشرموں میں عورت پر صدیوں سے چلے آرہے نظام کے تحت ہو نے والا ظلم کیوں نہیں نظر نہیں آتاَ؟ اسے ان بیواؤں کی گونگی چیخ کیوں نہیں جگارہی ہے؟ کیا یہ ٰظلم نہیں ہے؟ یا اسے ظلم اس لیے نہیں کہا جارہا ہے کیوں کہ اسے برہمن سماج کا مذہب ایک پاکیزہ عمل سمجھتا ہے ؟ بات جو بھی ہو ، اگر مسلم سماج میں طلاق کے مظالم پر بات ہو گی تو ورنداون کی بیواؤں کی بات بھی ضرور ہو نی چاہیے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔