بس جرم ہے اتنا کہ مسلمان ہے ہم لوگ!

مفتی محمد صادق حسین قاسمی

ہمارے اس وطن کی تعمیر وترقی میں دل وجان سے مسلمان شریک رہے اور روزِ اول ہی اس کی آزادی ،ترقی ،کامیابی کے لئے جدوجہد کرنے میں مسلمانوں کا کوئی ثانی نہیں ،اپنے خون ِ جگر سے مسلمانوں نے گلشن ِ ہند کی آبیاری کی ،جانوں کا نذرانہ پیش کرکے اس کا تحفظ کیا،مال ومتاع کو لٹاکر آزادی کے خواب پورے کئے ،دیوارِ آہنی بن کر انگریزوں کے سامنے جمے اور ڈٹے رہے ،اس ملک کی طرف نگاہِ بد اٹھانے والوں کے خلاف ہر وقت سینہ سپر رہے ،بلاتفریق مذہب وملت سب کے لئے اس چمن کو سجانے ،گلہائے رنگارنگ سے آراستہ کرنے، دیدہ زیب وخوش نما بنانے اور لٹیروں کے ہاتھ سے اپنے آباء واجداد کی پونجی وسرمایہ کوبچانے کے لئے مسلمان میدان ِعمل میں شروع سے کوششیں کرتے رہے۔

لیکن کیا کیجیے کہ جب سے نفرت کے سوداگر اور امن ومحبت کے دشمن ہمارے اس پیارے ملک پر قابض ہوئے ہیں خوف ودہشت کا ایک خوفناک ماحول چھاگیا ہے ،جن کے دل انسانی ہمدردی سے خالی اور جن کے ذہن ودماغ میں حیوانیت وشیطانیت بسی ہوئی ہے،جو خون ِ مسلم سے اپنی پیاس بجھانا چاہتے ہیں ۔گزشتہ چند مہینوں سے ہمارے ملک میں جو واقعات پیش آرہے ہیں اور مسلمانوں کے ساتھ جوسلوک وبرتاؤ کیا جارہاہے وہ انتہائی درجہ افسوس ناک ہے،دل دہلادینے والے واقعات،انسانیت کومات دینے والے حادثات ہیں ۔

آئے دن ہمارے ملک کے حالات خراب سے خراب تر ہوتے جارہے ہیں ،ملک کی سلامتی اور امن وامان کی فضا بُری طرح متاثر ہوگئی ہے، ظلم وتشدد اور نفرت وعداوت کو مختلف انداز میں ظاہر کیا جارہا ہے۔مسلم دشمنی کا امنڈتاہوا سیلا ب ہے جس کی زد میں پورے ملک کے مسلمان پریشان ہیں ۔فرقہ پرست تنظیموں نے اپنی عوام کے ذہنوں میں مسلمانوں کے خلاف زہر بھرنے کا ایسا کام شروع کررکھا ہے کہ ان کے کارندے مسلمانوں کو لقمہ ٔ تر سمجھ رہے ہیں ،جہاں چاہے اورجس طرح چاہے اپنی سفاکیت و درندگیت کا نشانہ بنانے میں لگے ہوئے ہیں ۔

بہت سے واقعات ہیں جو صرف دو ڈھائی مہینوں کے اندر پیش آئے ہیں اور ملک کے مختلف مقامات بالخصوص شمالی ہندوستان میں بہت سی جگہوں پر مسلمانوں کو مارا پیٹا گیااور بعض جگہ مظلوم ان کے ظلم کی تاب نہ کر موت کے گھاٹ اترگئے ۔ایسا ہی ایک روح فرسا واقعہ عید الفطر سے تقریبا تین چار دن پہلے پیش آیا۔دہلی سے 60 کیلو میٹر دوری پرہریانہ کے ایک گاؤں کھندولی ( بلبھ گڑھ)کے رہنے والے تین مسلم نوجوان جو حافظ ِقرآن بھی تھے ،تراویح میں قرآن کریم کی تکمیل کے بعد عید کی خریداری کرکے دہلی سے واپس متھرا پسنجر ٹرین سے اپنے گاؤں جانے لگے۔ٹرین اوکھلا اسٹیشن سے آگے بڑھی تو ان کے ڈبے میں تقریبا 15 سے 20 افراد سوار ہوئے جو انسانی بھیس میں خون آشام بھیڑئیے تھے،ان فسادیوں نے پہلے سیٹ اور جگہ کے بہانہ ان کو چھیڑااور دھکا دیا،جب ان لوگوں نے اس طرز پر اعتراض کیا تو اب وہ سیدھے شیطانیت پر اتر آئے اور ٹوپی کو اتاردیا،داڑھی کو پکڑکر کھینچنے لگے،اورتم مسلمان ہو، گاؤماتا کا گوشت کھانے والے،دیش کے دشمن ،پاکستان چلے جاؤ ایسے طعنے دینے لگے ،ان لوگوں نے اپنے آپ کو بچانے کے لئے وہاں سے نکلنا چاہا تو مارپیٹ شروع کردی یہاں تک کہ چاقو مارنا شروع کردیا ،اور مسلسل چھری کے وار کی وجہ سے 15 سال کا لڑکا حافظ جنید دم توڑدیا اور ان ظالموں نے اسے بلبھ گڑھ کے پلیٹ فارم نمبر 4 پر خون سے لت پت نیم مردہ حالت میں ٹرین کے ڈبے سے باہر پھینک دیا،اس کا ایک بھائی صغیر،چچازاد بھائی محسن اور اس کا دوست معین زخمی حالت میں کسی طرح جان بچاپائے۔

یہ صرف ایک واقعہ ذکر کیا گیا ،مسلمانوں پر ہونے والے مسلسل مظالم اور جانوں کے اتلاف بہت سے دردناک واقعات ہیں ۔گائے کے نام پر مستقل مسلمانوں کو ہراساں کیاجارہا ہے بلکہ جانوں کو ضائع کیاجارہا ہے، بوڑھوں کو نشانہ بنایاجارہا ہے ،عورتوں پر ظلم کیا جارہا ہے ،نوجوانوں کو پریشان کیاجارہا ہے، پورے ملک کو تباہی کے دہانے پر لے آئے ہیں ،ملک کی حقیقی ترقی اور بنیادی کاموں کو پس ِ پشت ڈال کر نفرت کا بازار گرم کیا جارہا ہے اور مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز ماحول بنانے ،ملک دشمن بتانے کے لئے میڈیا کو بھرپور استعمال کیا جارہا ہے ،اور ذرائع ابلاغ کے ذریعہ مسلمانوں کے خلاف محاذ بناکر محنت کی جارہی ہے ،اور آج کا بکاؤ میڈیا مسلمانو ں پر ہونے والے مظالم کے خلاف تو آواز نہیں اٹھاتا ،لیکن مسلمانوں کی چھوٹی سی بات کو بھی بڑا بناکر پیش کرنے میں لگا ہوا ہے۔اگر فرقہ پرست تنظیم اور اس کے افراد کھلے عام ظلم و تشدد کرے ،عورتوں کے ساتھ غلط سلوک کرے ،گائے کے نام پر مسلمانوں کے مارتے پھرے ،ان کے گھروں کو آگ لگاتے رہے ،لیکن ان کو احساس تک نہیں ہوتا اور جوں ہی طلاق وغیر ہ کا مسئلہ آجائے تو پورے چینلس مل کر پورے ملک میں ایک ہنگامہ برپا کردیتے ہیں ۔اور ہمارے ملک کے حکمراں ،لیڈر اور قائدین بلکہ خود ملک کے وزیر اعظم کا حال یہ ہے کہ وہ مسلسل ہونے والے ان مظالم کے خلاف پرزور انداز میں بولنے ،اور اظہار ِ یگانگت کے طور پر ظالموں کی مذمت کرکے انہیں کیفر کردار تک پہنچانے کی بات تک نہیں کرتے ۔

ہم کو ان سے ہے وفا کی امید

جو نہیں جانتے وفا کیا ہے؟

حقیقت یہ ہے کہ ایک خطرناک رخ پر ملک کو لے جایا جارہا ہے اور یہاں پر پیار ومحبت کی فضا کو ختم کرنے اور نفرت کے ماحول کو پروان چڑھانے کی پوری کوشش کی جارہی ہے ۔جس کے لئے افراد کے ذہن ودل کو بھڑکایا جارہا ہے ،مسلمانوں کی غلط شبیہ پیش کی جارہی ہے ،مسلمانوں کے عائلی اور فیملی مسلمان کو اٹھاکر ماحول تیار کیاجارہا ہے ،جب کہ سچائی یہ ہے کہ مسلمان اپنے ملک کا سب سے بڑا اور حقیقی خیر خواہ تھا ،ہے اور ان شاء اللہ ہمیشہ رہے گا۔

اپنی حکومت اور سلطنت کے نشے میں اور اقتدار واختیار کے ناجائز استعمال میں یہ لوگ بھول گئے کہ خدا کے یہاں کایا پلٹنے میں دیر نہیں لگتی ،تخت ِ شاہی سے ذلیل وخوار کرنے میں وقت نہیں لگتا ،آسمانی کی بلندی سے اتار کر زمین کی پستی میں دھنسانے میں وہ کسی کا محتاج نہیں ہے ۔دنیا کے تاریخ میں بڑے بڑے سے طاقت ور ترین بادشا ہ گزرے ہیں ،اور حکومت وسلطنت کے فرماں روا رہے ہیں لیکن جب ان لوگوں نے انسانوں کے ساتھ ظلم وستم کرنا شروع کیا ،خدا کے بندوں کو ناحق ستانا اور پریشان کرنے کو اپنا شیوہ بنالیا ،مظلوموں پر مصائب ڈھائے جاتے ،کمزوروں کو تشددکانشانہ بنایا کرتے ،ان کے حقوق سے محروم رکھتے،اور خدا کی سرزمین کو ظلم اور قتل وخون سے تباہ کرنے لگے تو اللہ تعالی نے ان کے غرور کو خاک میں ملادیا ،خدا کی پکڑ سے نہ انہیں ان کی سلطنت بچاسکی ،نہ قوت وطاقت نجات لاسکی اور نہ ہی فوج وسپاہی ان کی مدد کرسکے ،اوروہ قیامت تک آنے والے انسانوں اور بالخصوص حکمرانوں کے لئے عبرت کا ذریعہ بن گئے۔

قرآن کریم میں اللہ تعالی نے فرمایا:

فکلا اخذنا بذنبہ فمنھم من ارسلنا علیہ حاصبا ومنھم من اخذتہ الصحیۃ ومنھم من خسفنا بہ الارض ومنھم من اغرقنا وماکا ن اللہ لیظلمھم ولکن کانوا انفسھم یظلمون۔(العنکبوت:40)

’’ہم نے ان سب کو ان کے گناہوں کی وجہ سے پکڑ میں لیا ،چناں چہ ان میں کچھ وہ تھے جن پر ہم نے پتھراؤ والی ہوا بھیجی ،اور کچھ وہ تھے جن کو ایک چھنگاڑ نے آپکڑا،اور کچھ وہ تھے جن کو ہم نے زمین میں دھنسا دیا ،اور کچھ وہ تھے جنہیں ہم نے پانی میں غرق کردیا ۔اور اللہ ایسا نہیں تھا کہ ان پر ظلم کرتا ،لیکن یہ لوگ خود اپنی جانوں پر ظلم کرنے والے تھے۔‘‘

ان حالات میں چند باتوں پر ہمیں توجہ دینے کی سخت ضرورت ہے۔ پہلی چیز یہ ہے کہ مسلمان اپنے اوپر ہونے والے مظالم کے خلاف متحدہ جدوجہد کریں ،مضبوط قیادت کے ذریعہ جمہوری بنیادوں پر ظلم کے خلاف آواز بلند کریں ،ٹکڑوں میں نہ بٹیں ،فرقوں میں تقسیم نہ ہوجائیں ،مسلکی اختلافات میں نہ الجھیں اور مسلک کی بنیاد پر تفریق کا ماحول نہ بنائیں ،بلکہ مسلمان اور انسانیت کے حقوق کی بازیابی اور تمام ہندوستانیوں کے حقوق اور ان کی مذہبی آزادی کی برقراری ،امن ومحبت کی پائیداری کے لئے فکریں کرنے والے بنیں۔

دوسری چیز یہ ہے کہ نفرت کے اس ماحول میں جو غیر مسلم واقعی حقیقت پسند اور خالی الذہن ہوں ان سے تعلقات کو خوشگوار بنائیں ،اسلامی اخلاق کا مظاہر ہ اورسچائیوں کو پیش کریں ،اسلام کی پاکیزہ تعلیمات کو بتائیں ،دینی مدارس کے عظیم کردار سے روشناس کرائیں ،مسلمان کی قربانیوں اور ملک ووطن کے لئے ان کے ایثار ووفاداریوں سے انہیں آگاہ اور باخبر کریں ۔اور امن وامان کے قیام کے لئے متحدہ کوششیں کریں۔

تیسری اہم اور بنیادی چیز یہ ہے ہم حقیقت میں مسلمان بن جائیں ۔یہ کیسی عجیب بات ہے کہ آج پوری دنیا ہمیں اس لئے مٹانا چاہتی ہے کہ ہم مسلمان ہیں ۔اور ہم جانتے ہیں کہ ہم کتنے مسلمان ہیں ؟دنیا میں ہم اس لئے پٹ رہے ہیں ،مررہے ہیں اور کٹ رہے ہیں ہم مسلمان ہیں اور ہمیں معلوم ہے کہ اسلام سے ہمارا رشتہ کتنا مضبوط ہے؟بقول علامہ اقبال ؒ :

وضع میں تم ہونصاری تو  تمدن  میں  ہنود

یہ مسلماں ہیں !  جنہیں دیکھ کر شرمائیں یہود

یوں تو سید بھی ہو،مرزا بھی ہو،افغان بھی ہو

تم  سبھی  کچھ  ہو، بتاؤ  تو مسلمان بھی ہو

زمانہ میں ہماراجرم بس اتنا ہے کہ ہم مسلمان ہیں ،اس لئے ہم پر ظلم وستم برپا ہے اور قیامت ہم پر قائم کی جار ہی ہے ،عدم ِ مساوات کا برتاؤ کیا جارہاہے او ر تنگ نظری وتعصب کا ہم شکار ہے ،اور حقیقت میں ہمارا اسلام سے تعلق اتنا کمزور ہوچکا ہے جو انقلاب برپا نہیں کرسکا ،ورنہ دنیامیں مسلمانوں نے ہر دور میں نئی تاریخ لکھی ہے اورعظمت ِ کردار کے نقوش انسانوں کے دلوں پر ثبت کئے ہیں ۔خدا کے اس فرمان کو ہمیشہ ذہن ودماغ میں تازہ رکھیں :ولا تھنوا ولاتحزنوا وانتم الاعلون ان کنتم مؤمنین۔ (ال عمران:139)

’’(مسلمانو!) تم نہ تو کمزور پڑو،اور نہ غمگین رہو،اگر تم واقعی مومن رہو تو تم ہی سربلند رہوگے۔‘‘

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔