بنک دولت سے نہیں بھروسے سے چلتے ہیں!

ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی

جب سے صحافتی حلقوں میں یہ خبر گشت کرنے لگی ہے کہ حکومت خسارے میں چل رہے بنکوں کے دیوالیہ نکل جانے کی صورت میں ان بنکوں کے استحکام کے لئے پارلیمنٹ کے آنے والے سرمائی اجلاس میں ایک بل منظور کراسکتی ہے جسے مالی حل اور بیمہ جمع کرانے سے متعلق بل 2017(ایف آر ڈی آئی بل ) کہا جارہا ہے۔ یہ بل لوک سبھا میں 11 اگست 2017 میں پیش کیا گیا اور فی الحال اس وقت یہ بل پارلیمنٹ کی مشترکہ کمیٹی کے زیر غور ہے۔ مشترکہ کمیٹی، ایف آر ڈی آئی بل پر تمام شراکت داروں سے مشورہ کر رہی ہے۔ میڈیا میں ، ایف آر ڈی آئی بل کی ’bail-in‘‘ تجویز پر بعض اعتراضات اور شبہات ظاہر کئے جا رہے ہیں ۔ جس کی رو سے حکومت بل کی منظوری کے بعد اس کی ایک شق کے تحت بنکوں میں عوام کی جانب سے جمع کردہ فکسڈ ڈپازٹ رقومات کو منجمد کرتے ہوئے اس رقم سے دیوالیہ نکل گئے بنکوں کا تحفظ کرے گی۔ اور1993میں منظورہ بیمہ رقم کے تحفظ کارپوریشن اسکیم کے تحت بنک میں رقم جمع کرانے والوں کو کسی بنک کے دیوالیہ نکل جانے کی صورت میں صرف ایک لاکھ روپئے تک رقم کی واپسی کی گیارنٹی کا قانون تھا جو اب بھی برقرار ہے۔

ایف آر ڈی آئی بل مجوزہ بل میں عوام کی تشویش کی اہم بات یہی ہے کہ سابق میں اگر کوئی بنک یا مالیاتی ادارہ دیوالیہ نکل جانے کی حالت آجائے تو حکومت اپنے پاس جمع انکم ٹیکس اور دیگر محاصل کی رقومات سے اس کمزور ہونے والے بنک یا مالیاتی ادارے کی مدد کرتی تھی۔ اور حکومت کا یہ فریضہ ہے کہ اگر وہ کسی بنک یا مالیاتی ادارے کے استحکام کے لئے سنجیدہ ہے تو وہ از خود یہ کام کرے لیکن اس بل کی ایک شق یہ ظاہر کرتی ہے کہ حکومت کے بجائے بنکوں میں عوام کی جانب سے جو پیسہ فکسڈ ڈپازٹ کی شکل میں رکھا گیا ہے اسے حاصل کرتے ہوئے بنک کو سہارا دیا جائے۔

عوام کی تشویش پر وزیر اعظم نریندر مودی نے لوگوں کو یقین دلایا کہ ان کا پیسہ محفوظ ہے۔ لیکن وہ عوام کو یہ اعتماد دلانے سے قاصر رہے کہ حکومت کی اس قانون سازی کے بعد عوامی بچت رقوما ت کیسے محفوظ رہیں گی۔  جب کہ معاشی اصطلاح اکویٹی کا مطلب یہ ہے کہ فکسڈ ڈپازت کو اکویٹی میں بدل دیا جائے گا اس کا پیسہ اسی وقت ملے گا جب ادارہ دوبارہ مستحکم ہوجائے جس کے امکانات کم ہوتے ہیں ۔ یہی وجہہ ہے کہ کانگریس کے ترجمان اجے ماکن نے ایک پریس کانفرنس میں کہاکہ حکومت نے پارلیمنٹ کے پچھلے سیشن کے دوران ایف آرڈی آئی بل پیش کیا تھا اور اسے سرمائی اجلاس کے دوران پاس کئے جانے کی کوشش کی جارہی ہے جس کی کانگریس زبردست مخالفت کرے گی۔ چنندہ سرمایہ داروں کے ڈوبے قرض سے بینکوں کو بچانے کے لئے یہ بل لایا گیا ہے۔ مسٹر ماکن نے کہاکہ اس قانون کے بن جانے پر کسی بھی سرکاری مالیاتی اداروں یا انشورنس کمپنی کو کسی کو دیا جاسکے گا۔ اس بل کی وجہ سے 22قوانین میں ترمیم ہوگی اور اور بینکوں میں جمع رقم پر انشورنس کی گارنٹی ختم کردی جائے گی۔

اس قانون کے بننے کے بعد ریاستوں میں واقع سرکاری شعبہ کے بینک بھی اس کے دائرے میں آجائیں گے۔ انہوں نے کہاکہ اس قانون کے آنے کے بعد پارلیمنٹ، ریزرو بینک، سیبی، آئی آر ڈی اے اور کئی دیگر ادارے کمز ور ہوجائیں گے۔ مسٹر ماکن نے کہاکہ مودی حکومت کے دوراقتدار کے دوران بینکوں کا غیر کارآمد اثاثہ (این پی اے ) تیزی سے بڑھا ہے۔ حکومت قرض وصول کرنے میں ناکام رہنے والے بینکوں کو راحت دینا چاہتی ہے اور اسی کے مدنظر اس بل کو لایا گیا ہے۔ انہوں نے کہاکہ کانگریس کی حکمرانی کے دوران این پی اے 3.84فیصد تھا جو اب بڑھ کر 12.47فیصد ہوگیا ہے۔ انہوں نے کہاکہ 12چنندہ صنعت کاروں پر 25فیصد این پی اے ہے۔ کانگریس لیڈر نے کہاکہ اس قانون کے بننے کے بعد بینکوں میں جمع رقم کے تعلق سے لوگوں میں نہ صرف غیریقینی بڑھے گی بلکہ کئی طرح کے دوسرے مسائل کھڑے ہوں گے۔ انہوں نے کہاکہ کانگریس ہر سطح پر اس کی مخالفت کرے گی اور اپوزیشن جماعتوں کو بھی اس کے لئے متحد کرے گی۔

بنک دیوالیہ کیوں ہوتے ہیں یہ سوال عام آدمی کے ذہن میں آتا ہے اس کا جواب یہ ہے کہ خراب لون کے سبب یہ ہوتا ہے اچھا لون وہ ہے جو واپس آئے اور خراب لون وہ ہوتا ہے جو لے کر واپس نہ کرے اور خود کو دیوالیہ ثابت کردے۔ ہمارے بنک نظام میں سودی نظام ہے یعنی حکومت کی جانب سے فکسڈ ڈپازٹ اور دیگر رقومات کو بنک سرمایہ کاری میں استعمال کرتے ہیں بڑی بڑی کمپنیوں اور اداروں کو کروڑوں روپئے کا قرض دیا جاتا ہے یہ قرض بنکوں میں جمع شدہ عوامی سرمایہ سے دیا جاتا ہے اس کے بدلے میں بنک بڑے اداروں سے دئے گئے قرض پر سود حاصل کرتے ہیں اور اس سود کو اپنے انتظامات کے علاوہ عوامی کھاتوں میں جمع رقومات کے اعتبار سے دیا جاتا ہے۔ لوگوں کی سوچ ہے کہ اگر ان کے پاس وظیفہ پر سبکدوشی یا کسی اور ذریعہ سے حاصل کردہ بھاری رقم ہے تو اس سے تجارت کرنے یا مکان بنا کر کرائے پر دینے کے بجائے اسے بنک میں فکسڈ ڈپازٹ کردیا جائے اور اس سے ملنے والے سود سے زندگی گزر بسر کی جائے۔ لیکن مالیاتی نظام ہو یا زندگی کا کوئی اور نظام انسانوں کے بنائے نظام کمزور ہوسکتے ہیں اور فطری اور قدرتی قوانین درست ہوتے ہیں ۔

سودی نظام میں بہ ظاہر کچھ عرصے کے لئے سرمایہ کاروں یا کھاتہ داروں کو ان کی رقم پر سود ملتا نظر آتا ہے لیکن نظام کے غلط ہونے اور فطری یا قدرتی طور پر سود کے نظام کے غلط ہونے کے سبب ایک عرصہ بعد یہ نظام ٹھپ ہوجاتا ہے اور سود کے حصول کے خواہش مندوں کو اپنی اصل رقم سے ہاتھ دھونا پڑتا ہے۔ بنک دیوالیہ کیوں ہوتے ہیں اس کا جواب یہ ہے کہ جن بڑے سرمایہ کاروں کو قرض دیا جاتا ہے وہ قرض تو لے لیتے ہیں لیکن سود سمیت قرض واپس کرنے میں کوتاہی کرتے ہیں ۔ موجودہ نظام میں وجے مالیہ ہی سب سے بڑی مثال ہے جس نے کروڑوں روپئے قرض لئے اور ادا کئے بغیر لندن فرار ہوگیا حکومت چاہتے ہوئے بھی کچھ نہیں کر پارہی ہے اسی طرح کئی بڑے ادارے اگر بنک کو قرض واپس نہ کریں تو حکومت کی امداد کے باوجود بنک استحکام کو نہیں پہونچتے اس لئے اس بل کی ایک شق کے تحت کوشش کی جارہی ہے کہ ایسی صورتحال میں عوامی فکسڈ ڈپازٹ حاصل کرلئے جائیں حکومت عوام کو یہ اعتماد نہیں دلا رہی ہے کہ آیا ان کی رقم پانچ سال بعد یا کبھی واپس بھی ہوگی یا نہیں ۔ گزشتہ سال کی نوٹ بندی کا عوام کو اس قدر شدید جھٹکا لگا کہ اب عوام بنک سے متعلق حکومت کے کسی بھی اعلان پر بھروسہ نہیں کر رہی ہے اور بنکوں کے نظام کے بارے میں ایک ماہر معاشیات کا کہنا درست لگتا ہے کہ بنک دولت یا روپیہ سے نہیں چلتے بھروسے پر چلتے ہیں ۔ اب موجودہ بل کے بارے میں میڈیا میں جن خدشات کا اعلان کیا گیا ہے اور اپوزیشن کانگریس کی جانب سے جس طرح اس بل کی مخالفت کی بات کی گئی ہے اس سے عوام میں ایک مرتبہ پھر خدشات ابھر گئے ہیں کہ بنکوں میں لگا ان کا سرمایہ غیر محفوظ ہے یہی وجہہ ہے کہ اخبارات میں روز اس طرح کی خبریں آرہی ہیں کہ عوام بھاری مقدار میں بنکوں میں امڈ پڑ رہے ہیں اور بنک مینجروں کے یقین دلانے کے باوجود کہ ان کی رقم محفوظ ہے لوگ اپنے فکسڈ ڈپازٹ واپس لینے کے لئے بے چین ہیں ۔

چونکہ نوٹ بندی کے بعد اب بھی بنکوں میں نقدی بھاری مقدار میں نہیں آرہی ہے اور ڈیجیٹل لین دین کی بات ہورہی ہے اس لئے فکسڈ ڈپازٹ کی ادائیگی اور روز مرہ کی بنک سرگرمیوں کے لئے نقد رقم کم پڑ رہی ہے اور عوام ایک مرتبہ پھر افراتفری کا شکار ہیں ۔ ایسے میں میڈیا کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ عوام تک درست اطلاع پہونچائیں کہ اس طرح کی بات سابق سے موجود ہے کہ کسی چھوٹے بنک یا مالیاتی ادارے کے دیوالیہ نکلنے کی صورت میں عوام کی صرف ایک لاکھ رقم تک ہی گیارنٹی تھی لیکن چونکہ اس طرح کے بنکوں کو ماضی میں حکومت اپنی مدد سے بچاتی تھی عوام کا اعتماد بنک نظام پر تھا لیکن اس بل کی وضاحت جس طرح ٹیلی ویژن چینلوں اور اخبارات میں کی گئی ہے بھولی بھالی عوام کو سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ ان کا پیسہ محفوظ ہے۔ اس سارے معاملے پر ماہرین کے مذاکرے ہورہے ہیں این ڈی ٹی وی پر ہوئے ایک مذاکرے میں عام آدمی پارٹی کی خاتون قائد اور سابقہ بنکر میرا سانیال نے درست کہا کہ بنک دولت سے نہیں بھروسے سے چلتے ہیں اس بل کے آنے پر عوام کا حکومت اور بنکنگ نظام سے بھروسہ اٹھ جائے گا ماہرین معاشیات اسے ایک کوشش کہہ رہے ہیں لیکن اس سے بڑے بنکوں سے بھی رقم نکلنی شروع ہوجائے گی اور عوام سونے یا جائیداد کی شکل میں اپنی رقم کو محفوظ کرنے کی کوشش کریں گے۔ کانگریس قائد آنند شرما نے کہا کہ کانگریس اس بل کی مخالفت کرے گی۔ اسی طرح ایک ماہر معاشیات کا کہنا تھا کہ اگر حکومت اس بل کی اس شق کو بھی منظور کراتی ہے تو یہ حکومت کی خودکشی کے مترادف ہوگا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حکومت اس قانون کو کیوں منظور کرانا چاہتی ہے اس کا جواب یہ دیا گیا ہے کہ جی 20ممالک جس میں برطانیہ سمیت ہندوستان بھی شامل ہے انہوں نے اپنے بنکوں کے تحفظ کے لئے اس بل کو لایا تھا اور ایک ملک قبرص میں اس بل پر عمل بھی کیا گیا تھا لیکن بری طرح ناکام رہا تھا۔

ہندوستان میں اس بل کی اس شق کے خلاف عوامی خدشات کو دیکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ عوام تیزی سے اپنے کھاتوں اور فکسڈ ڈپازٹس سے اپنی رقومات نکالنے لگیں گے۔ اس لئے ماہرین معاشیات اور بنک چلانے والوں اور حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ عوامی اعتماد کی بحالی کے اقدامات کریں اور اس شق کے بجائے دیوالیہ نکلے بنکوں کو خود مدد دے اور عوامی پیسے کے تحفظ کو یقینی بنائے۔ اس بل میں عوامی فکسڈ ڈپازٹ کی رقومات کو اکوٹی میں بدلنے کے خدشات یہ ہیں کہ اکوٹی رقم اسی وقت واپس دی جاتی ہے جب مالی ادارہ مستحکم ہوکر منافع کمانے لگے۔ جب کہ موجودہ دور میں کہا جارہا ہے کہ بڑے مالیاتی ادارے دس ہزار کروڑ کے قرض سے محروم ہیں حکومت کی جانب سے دو ہزار کروڑ کی مدد کی گئی ہے اور باقی آٹھ ہزار کروڑ کو عوامی رقومات سے دینے کا ارادہ ہے۔ ان ساری تفصیلات کا خلاصہ یہی ہے کہ ہندوستان اور ساری دنیا میں چل رہا بنکنگ نظام سودی لین دین پر ہے۔  اسلام کے بارے میں کہا گیا ہے کہ یہ فطری مذہب ہے یعنی انسانوں کی فطرت کے اصول و قوانین پیش کرتا ہے اسلامی مالیاتی نظام میں سود دینے اور لینے کو ناجائز قرار دیا گیا ہے اور یہ بھی کہا گیا کہ سود سے رقم بڑھتی نہیں گھٹتی ہے اس کے برخلاف اسلام میں بلا سودی نظام کے ساتھ تجارت کی ترغیب دی گئی ہے اور تجربہ ہے کہ تجارت سے مال میں برکت ہوتی ہے اور مال بڑھتا ہے۔

ہندوستان کی آزادی کے بعد سے اب تک اگر ہم اپنی ترقی دیکھیں تو عالمی بنک سے لئے گئے قرض اور دیگر قرض کو عوام میں تقسیم کریں تو ملک کے ہر شہری کی گردن پر ایک لاکھ روپئے سے زیادہ کا قرض ہے۔ اس لئے سودی نظام پر چلنے والے بنکنگ نظام کے بارے میں کہا جاسکتا ہے کہ مستقبل قریب میں بنک دیوالیہ ہوسکتے ہیں اور عوامی پیسہ خطرے میں پڑ سکتا ہے۔ حکومت کو چاہئے کہ وہ عوامی اعتماد کی بحالی کے اقدامات کرے۔ جو قرض واپس کرتے ہیں ایسے اداروں کو قرض دیں ۔ جو کمپنیاں اور ادارے قرض واپس نہیں کرتے ان کی جائیدادوں کو قرق کرتے ہوئے قرض واپس لیا جائے برے قرض کو کم کیا جائے جیسا کہ وجئے مالیہ کی نظیر ہے۔ اگر حکومت بڑے اداروں کے مفادات کے بجائے عوامی مفادات کو مد نظر رکھے تو مجوزہ قانون منظور نہیں ہونا چاہئے لیکن حکومت عوام کے ووٹ اور عوام کے پیسوں کے بل بوتے پر بڑے اداروں کے مفادات کو ترجیح دیتی ہے تو عوام کو فیصلہ کرلینا چاہئے کہ ان کے حق میں کیا بہتر ہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔