بوسیدہ عمارت میں تعلیم کی شمع کیسے روشن ہوگی؟

 وجاید چوہدری

(راجوری، جموں)

علم سیکھنا سبھی کا بنیادی حق ہے۔ سرکار نے کئی اسکیم کے تحت اس حق کو پورا کرنے کی بھر پور کوشش کی ہے۔ سرکاری اسکول بنا ئے چھوٹے بچوں کیلئے آنگن واڑی سینٹر کا قیام کیا اوراس میں کوئی شک نہیں کہ علم سیکھنے کیلئے سرکار نے غریب لوگوں کی مشکلات کو سمجھتے ہوئے ان کے ہی علاقہ میں ان کے نزدیک ہی اسکول دیے تاکہ بچے با آسانی سے تعلیم حاصل کر سکیں۔حکومت کی اس اسکیم سے ملک کے دیہی علاقوں کے بچوں کو بہت فائدہ ہوا ہے۔ لیکن کچھ ایسے بھی علاقے ہیں جہاں اس اسکیم کو بہتر طریقہ سے عمل میں نہیں لایا گیا۔ جس کی وجہ سے اس کا کوئی خاص فائدہ نظر نہیں آتا ہے۔ دراصل اسکیم کو نافذ کرنے کے بعد کبھی بھی افسران نے یہ معلوم کرنے کی زحمت ہی نہیں اٹھائی کہ زمین پر اس سے کتنی تبدیلی آئی ہے؟ اسکول کی حالت کیا ہے؟ بچے کیسے پڑھائی کر رہے ہیں؟ اسکول کا ماحول کیسا ہے؟وغیرہ

 میں آج بات کروں گا جموں و کشمیر کے ضلع راجوری کے سب ضلع کوٹرنکہ کے زون پیڑی کے ساکری پنچائیت کے موڑہ ریاڑی کی۔ جہاں سرکار نے 1992 میں پرائمری اسکول دیا تاکہ بچوں کو دور جانے کے بجائے ان کے گھروں کے نزدیک ہی تعلیم ملے۔ پھر سرکار نے مزید سہولیات فراہم کرنے کیلئے اسی اسکول کو 2008 میں اسکا درجہ بڑھا کر پرائمری سے مڈل اسکول کا درجہ دے دیا تاکہ بچوں کو آٹھویں تک تعلیم حاصل کرنے کے لئے دور نہ جانہ پڑے۔ لیکن شاید سرکار یہ بات بھول گی کہ اسکول کا درجہ بڑھانے سے بچوں کی تعداد بھی بڑھے گی اور بچوں کی تعداد بڑھنے سے انکو بیٹھنے کیلئے مزید کمروں کی بھی ضرورت لاحق ہوگی۔تین کمروں پر مشتمل یہ عمارت آج خرد برد ہو گی ہے۔ اسکول اب کسی کھنڈر سے کم نہیں لگتا۔دیکھنے سے اسکول نہیں بلکہ ایک پرانی بوسیدہ عمارت لگتی ہے۔

اس سلسلہ میں بات کرتے ہوئے ریاڑی کے رہاشی محمد شبیر، عمر پچاس سال، نے کہا کہ ہم نے متعدد وفود انتظامیہ کے زیر غور لاے ہیں لیکن سوا یقین دہانی کے ہمیں کچھ بھی نہیں ملا۔انہوں نے کہا یہ جگہ ان کے والد صاحب نے اسکول کو وقف کی تھی۔ لیکن اسکول والے اسکول کی عمارت نہیں بنا رہیں۔انہوں مزید بتایا کہ ایک بار اس عمارت کے لئے رقم مختص ہو گئی تھی۔ لیکن نا جانے اب وہ پیسہ کہاں وقف ہوا کچھ پتہ نہیں؟وہیں جاوید چوہدری عمر پنتیس سال،نے بتایا کہ تیز دھوپ اور بارش میں بچوں کو چھٹی کر دی جاتی ہے۔ بارش کے موسم میں یا تو اسکول بند ہوتا ہے یا آدہ دن کے بعد بچوں کو چھٹی کردی جاتی ہے۔ انہوں نے کہا یہ حالات دیکھ کر میں نے اپنا بچہ سات کلو میٹر دور پیڑی کے ایک نجی اسکول میں داخل کروا دیا ہے کیونکہ جہاں دھوپ اور تیز بارش میں بچوں کو بیٹھنے کیلئے جگہ دستیاب نہیں تووہاں اعلی میار والی پڑھائی کیسے ممکن ہو سکتی ہے؟

 تیس سالہ ارشاد نامی شخص نے بتایا کہ ان کے بھتیجے یہاں تعلیم حاصل کرتے ہیں۔اساتذہ اگر محنت بھی کرواتے ہیں تو وہ محنت کسی کام کی نہیں کیونکہ ایک ہی کمرہ ہے جس میں رسوئی کا کام بھی ہوتا ہے۔ وہ ہی کمرہ اساتذہ کے بیٹھنے کے لئے بھی ہے۔اسی ایک کمرہ میں دفتر بھی ہے اور آٹھ جماعتیں بھی ہیں۔لہذا یہ کیسے ممکن ہو سکتا ہے کہ ایک ہی کمرے میں یہ سارے کام سرانجام دیے جا سکتے ہیں؟انہوں کہا اگر جلد میڈل اسکول ریاڑی کی عمارت مکمل نہ کی گی تو ہمیں مجبوراً سڑکوں پر آنا پڑے گا۔جہاں لوگ چاند پر جانے کی بات کرتے ہیں وہاں ہمیں آج بھی بنیادی سہولیات سے محروم رکھا گیا ہے۔ ہم اور ہمارے بچے بھی ڈیجیٹل انڈیا میں جینا چاہتے ہیں۔ لیکن افسوس ہمارے پاس اسکول کی عمارت بھی ایک کمرے پر مشتمل ہے۔اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اس اسکول میں بچوں کو کتنی معیاری تعلیم ملتی ہوگی؟ جہاں ایک کمرہ ہے اور آٹھ جماعتیں۔کیا یہ ممکن ہے کہ ایک ساتھ آٹھ کلاسیں اس ایک کمرہ میں پڑھائی جاتی ہونگی؟

کیا یہ غریب لوگوں اور ان کے بچوں کے ساتھ ایک بہت بڑا مزاق نہیں کیا جا رہا؟ انکی زندگیاں تباہ نہیں کی جا رہیں؟ ان تمام سوالوں کے جواب انتظامیہ کو دینے چاہیئے۔ وہیں جب سرپنچ پنچایت حلقہ دھار اجاز چوہدری سے رابطہ کیا تو انہوں نے کہا کہ پنچائیت کے بیشتر اسکولوں کی یہی حالت ہے۔موصوف نے کہا میری پنچایت میں مزیدایسے دواور اسکول ہیں جہاں چھت نہیں ہے۔انہوں نے بھی انتظامیہ سے مطالبہ کیا کہ وہ جلد ہی ان اسکولوں کی عمارت تعمیر کرے تاکہ بچے مزید متاثر نہ ہوں۔ جب راقم نے ان سے پوچھا کہ کیا اپنی پنچائیت فنڈ سے اس اسکول کی عمارت نہیں تعمیر کروا سکتے ہیں؟ تو انہوں نے اس سوال کے جواب میں کہا کہ انتظامیہ عمارت بنائے ہم پنچایت سے اسکول کو گراؤنڈ اور اسکی چار دواری کر کے دیں گے۔

وہیں جب راقم نے زونل ایجوکیشن آفیسر نظر حسین سے رابطہ کیا تو انہوں نے کہا کہ ابھی مجھے پانچ مہینے ہی ہوئے ہیں اس پوسٹ کو سمبہالتے ہوئے،اس لئے اس مسلہ پر مجھے اتنا علم نہیں تھا۔ اب میری نظر میں یہ اسکول آ گیا ہے تومیں اعلیٰ حکام کو اس مسلہ پرلکھوں گا اور امید کرتا ہوں کہ جلد ہی اس اسکول کی خوبصورت عمارت بنے گی۔امید ہے کہ زونل ایجوکیشن آفیسرمقامی لوگوں کی امیدوں کو جلد پورا کروائنگے تاکہ اس علاقے کے بچوں کا مستقبل روشن ہوسکے۔ (چرخہ فیچرس)

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔