بٹلہ ہاؤس فرضی انکاؤنٹر۔ ناانصافی کے آٹھ سال

   احمد ریحان فلاحی

مشرقی اتر پردیش کا ضلع اعظم گڑھ اپنی ڈھیر ساری خوبیوں کی وجہ سے جانا جاتا ہے یہاں کی تاریخ بڑی شاندار رہی ہے یہاں ایک سے ایک اساطین شعر و ادب علماء و دانشوران قوم علامہ شبلی نعمانی، مولانا حمیدالدین فراہی، مولانا ابوللیث اصلاحی، مولانا صدرالدین اصلاحی، مولانا امین احسن اصلاحی، پنڈت راہل، اقبال سہیل، خلیل الرحمن اعظمی اور کیفی اعظمی وغیرہ جیسے لوگ پیدا ہوئے ہیں سارے لوگوں نے اپنے اپنے میدان میں قابلیت کا لوہا منوایا ہے اور پوری دنیا میں اعظم گڑھ کا پرچم بلند کیا ہے اسی لیے کہا جاتا ہے کہ  ’’جو ذرہ یہاں سے اٹھتا ہے وہ نیراعظم ہوتا ہے ‘‘ یہ مسلمانوں کا ایک مردم خیز علاقہ تصور کیا جاتا ہے جہاں مسلمان تعلیمی سیاسی اور معاشی اعتبار سے مضبوط سمجھا جاتا ہے یہاں عالمی سطح کے عربی ادارے پائے جاتے ہیں عصری تعلیم میں بھی مسلمانوں کا فیصد بڑھتا جا رہا تھا۔ یہاں کے مسلمان پر سکون ماحول میں زندگی کی گاڑی کھینچ رہے تھے یہی ساری چیزیں فرقہ پرست طاقتوں کی آنکھوں میں زیادہ دنوں سے کھٹک رہی تھی آخر کار ان کی نظر بد نے پر امن شہر اعظم گڈھ کو اپنے نرغے میں لے لیا یہاں کے ہنستے کھیلتے کئی گھروں کو ویران کر دیا بٹلہ ہائوس انکاونٹر کو ہوئے آٹھ سال کا طویل عرصہ گزر چکا ہے مگر اہل اعظم گڑھ با لخصو ص سنجر پور کی جبیں پر 19 ستمبر کا دن نقش ہو چکا ہے۔

                واردات انسانی تو بیان کرنا آسان ہے مگر واردات مسلمانی بیان کرنا کافی دشوارکن ہے (خاص طور سے بھارت کے مسلمانوں کے حالات ) کچھ واقعات ایسے رونما ہوتے ہیں جنہیں سن کر یا دیکھکر یا پڑھکر انسان کا ضمیر لرز اٹھتا ہے جسم کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں اسی میں سے ایک واقعہ 19 ستمبر 2008 کو علی ا لصبا ح دارالحکومت دہلی کے جامعہ نگر علاقے کے بٹلہ ہائوس ایل 18میں پیش آتا ہے جسے پورے ملک کے امن پسند عوام آج بھی فرضی مانتے ہیں جسمیں اعظم گڈھ  سنجر پور کے دو نوجوان عاطف اور ساجد کو دہشت گرد بتاکر ہلاک کر دیا جاتا ہے، جیسے ہی یہ منحوس خبر ضلع میں پہونچتے ہی اہل اعظم گڑھ پر غموں کا پہاڑ ٹوٹ پڑتا ہے اتنا ہی نہیں متعدد نوجواں کو دہشت گرد بتاکر جیل کی سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا جاتا ہے اور اعظم گڑھ کو آتنک گڑھ کا ایک نیا نام دے دیا جاتا ہے اس دن کو یاد کرکے آج بھی لوگ روہانسے ہو جاتے ہیں چہروں سے مسکراہٹ غائب ہو جاتی ہے لوگوں کے کانوں میں خاکی وردی والوں کے بوٹوں کی آواز سنائی دینے لگتی ہے یہاں کے حالات ایسے ہو گئے تھے کہ لوگوں کا گھر سے نکلنا دوبھر ہو گیا تھا مائیں اس وقت تک چین کی سانس نہیں لیتی تھیں جب تک ان کا لخت جگر ان کی نظروں کے سامنے حاضر نہ ہوجائے راقم خود فجر کے وقت دروازہ کھولتے وقت دونوں طرف دیکھ لیتا تھا کہ کہیں کوئی ہے تو نہیں پورا اطمنان ہوجانے کے بعد ہی مسجد کی طرف قدم بڑھتے تھے  یہ صرف ایک میرا معاملہ نہیں تھا بلکہ یہاں کا ہر ایک نوجوان اپنے سایہ سے بھی ڈر محسوس کرنے لگا تھا ایسے نا مساعد حالات میں اعظم گڑھ کے مسلمانوں کا کوئی پرسان حال نہیں تھا تمام نام نہاد سیکولر سیاسی جماعتیں صرف تماشائی بنی ہوئی تھیں بلکہ اپنے کو ایک مسلم دوست کہنے والی سیاسی جماعت اپنے ضلع نائب صدر کو یہ کہتے ہوئے عہدہ سے برطرف کر دیتی ہے کہ ہمارا ان سے کوئی رشتہ نہیں تھاان کا قصور صرف یہ تھا کہ ان کے بچے کا نام بھی پولس لسٹ میں موجود تھاتعریف کے قابل ہیں باشندگان اعظم گڑھ جنھوں نے اپنی اعظمیت کا بھرم ٹوٹنے نہ دیا اور صبر کے دامن کو اپنے ہاتھوں سے چھوٹنے نہ دیا سارے سہارے جواب دے چکے تھے کہیں سے کوئی آس نظر نہیں آرہی تھی اب حالات کا مقابلہ خود ہی کرنا تھا جس طرح سے جنگ آزادی میں علماء و اکابرین نے انگریزوں کے خلاف متحد ہو کر ملک کو آزاد کرانے کا کام کیااسی طرح سے اعظم گڑھ کے علماء و اکابرین نے مدرسوں اور خانقاہوں سے نکل کر راشٹریہ علماء کونسل کے پلیٹ فارم سے متحد ہوکر اسکا بخوبی مقابلہ کیا اور لوگوں کے دلوں سے ڈر اور خوف کا ماحول ختم ہوا قابل مبارک باد ہیں راشٹریہ علماء کونسل کے قائدین خاص طور سے مولانا عامر رشادی مدنی اور استاذ محترم مولانا طاہر مدنی ان کی جری اور بہادری کی وجہ سے نا امید ہو چکے نوجوانوں کو ایک حوصلہ ملا اور ظلم کے خلاف لڑنے کی ایک طاقت ملی۔

                آزادی کے بعد سے ملک میں لاتعداد فرضی انکائونٹر ہوئے جیسے رنبیر انکاؤنٹرجسکی جانچ بھی ہوئی ہے خاطی پولس اہلکاروں کو سزائیں بھی ہوئی مگر بٹلہ ہائوس انکائونٹر کی جانچ کا مطالبہ پہلے دن سے اعظم گڑھ اور ملک کی انصاف پسند عوام ہی نہیں بلکہ سیکو لر لیڈران دیوگوڑا اتل کمار انجان وغیرہ نے بھی کیا یہاں تک کی راشٹریہ علماء کونسل کی قیادت میں تاریخ رقم کرتے ہوئے پوری ٹرین لے کر لکھنؤ اور دہلی گئے حکومت کے خلاف مظاہرہ کیا مگر حکومت کے کانوں پر آ ج تک جوں نہیں رینگی کانگریس حکومت یہ کہتے ہوئے مطالبات مسترد کر دیے کہ پولس کا مورل ڈاؤن ہوگا جب کہ سارے ثبوت و شواہد اس انکاؤنٹر کا فرضی بتانے کے لئے کافی ہیں ساری دنیا جانتی ہے کہ ان کو قریب سے گولی ماری گئی یہاں تک کہ انسپکٹر موہن چند سرما کو پیچھے سے گولی لگی بہت ساری ملّی اور رفاہی تنظیموں نے بھی اس پر شک ظاہر کیاصرف پولس کے مورل ڈاؤن کو بہانا بنا کر سارے لوگوں کے مطالبات کو مسترد کر دینا وہ بھی صرف جانچ کا مطالبہ ایک جمہوری ملک میں یہ کہاں کا انصاف ہے اعظم گڑھ کے امن پسند عوام کے جذبے کو سلام جو اپنی جائز مانگ سے ابھی بھی دستبر دار نہیں ہوئے ہیں اور مستحکم ارادہ رکھتے ہیں کہ جب تک ہمارے بے گناہ بچوں کو انصاف نہیں مل جاتا اعظم گڑھ کے ماتھے پر لگا بدنما داغ نہیں مٹ جاتا تب تک ہم چین سے نہیں بیٹھیں گے راقم سے اس ناانصافی  کے آٹھ سال پر استاذ محترم راشٹریہ علماء کونسل کے قومی جنرل سکریڑی مولانا طاہر مدنی نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہمارا  صرف اتنا مطالبہ   ہے کہ اس فرضی انکائونٹر کی اعلی سطحی جانچ کرائی جائے تا کہ بے گناہ شہید عاطف اور شہید ساجد پر جو بدنما داغ لگے ہیں وہ صاف ہو جائے اور متعدد بے قصور نوجوان جو آج بھی قیدوبند کی صعوبتیں جھیل رہے ہیں ان کی رہائی کا راستہ صاف ہو جائے مولانا نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہماری کمزوری ہے کہ ہم مستقل مزاجی کے ساتھ جدو جہد نہیں کر پاتے مایوس ہو کر بیٹھ جاتے ہیں جبکہ کامیابی کے لیے مسلسل قربانی ضروری ہے راشٹریہ علماء کونسل اسی راستے پر چل رہی ہے ہمیں اللہ تعالیٰ سے پوری امید ہیکہ ہمیں کامیابی ضرور ملے گی ہمارے بے قصور بچوں کو انصاف ملے گا۔

         اومیلا کے صدر ڈاکڑ جاوید اخترنے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ مختلف عدالتوں میں مقدمات زیر غور ہیں ا نشاء اللہ فیصلہ جلد اور ہمارے حق میں آئے گا۔

        سیمی کے کل ہند صدر ڈاکٹر شاہد بدر فلاحی کا کہنا ہے کہ بٹلہ ہائوس انکائونٹر فرضی تھا بادی النظر میں جو شواہد ہیں اسکی بنیاد پر ہر ہوشمند یہی کہے گا کہ یہ انکائونٹر فرضی ہے ایک ایسا واقعہ ہے جسمیں تین جانیں گئیں ایک انسپکڑ کی موت اور دوبچے  شہید ہوئے اس پورے معاملے کی انکوائری کا مطالبہ علاوہ بی جے پی کے کانگریس کے سلمان خورشید اور کپل سبل تک نے بھی اسکے صحیح ہونے پر بھی شک ظاہر کیا ہے اور اس آزاد ہندستان کی تاریخ میں پہلی بار یہ ہوا کہ لوگوں نے اپنے پیسے سے ٹرین بک کراکر اعظم گڈھ سے دہلی تک پارلیمنٹ ہائوس پر احتجاج کیا بچے بوڑھے جوان مریض اور صحت مند سب کی زبان پر ایک ہی صدا ایک ہی احتجاج کی حکومت بٹلہ ہائوس کی منصفانہ جانچ کرائے صرف اتنا سا مطالبہ وہ بھی اس شدت کے ساتھ لیکن کانگریس حکومت نے بے حسی کا مظاہر ہ کیا کانگریس سے کسی خیر کی توقع تو ہمیں نہیں تھی لیکن ایک جمہوری ملک میں یہ بات کہنے کے جتنے جائز طریقے تھے سب اپنایا یہ کوشش ہنوز جاری ہے اور وہ اپنے آپ میں قابل قدر ہے۔

        اب سوال یہ اٹھتا ہیکہ اتنا لمبا عرصہ گزر جانے کے بعدبھی ہم اپنے بھائیوں کو بے قصور تو چھوڑیئے اپنے مطالبے کو بھی حکومت وقت سے نہیں منواسکے جبکہ سکھ قوم باوجود اسکے تعداد میں کم ہوتے ہوئے بھی سکھ مخالف فسادات کی جانچ کا مطالبہ منوالیتے ہیں جبکہ ہمارا مطابہ صرف یہ کہ اس انکاونٹر کی جانچ ہوجائے تاکہ قصور وار کون ہے وہ صاف ہوسکے اعظم گڑھ اور مسلمانوں پر لگے بدنما داغ مٹ سکے افسوس تو یہ ہوتا ہے کہ ہم اپنے مطالبات بڑی شدت کے ساتھ شروع کرتے ہیں انجام تک اس پر شدت سے قائم نہیں رہ پاتے جب تک ہم سیاسی و تعلیمی لحاظ سے مضبوط نہیں ہو پاتے ہمارا جائز مطالبہ بھی کوڑے دان کی نذر ہوتا رہے گا تاریخ شاہد ہے کہ جن قوموں نے اپنے کو سیاسی اور تعلیمی میدان میں مضبوط کیا مسند اقتدار نے ان کا  استقبال کیا ذلت کی زندگی گزارنے والی دلت حکومت میں آگئے ان کے مطالبات کوڑے دانوں میں نہیں بلکہ حکومت کی میز پر گردش کرتے ہیں ہمیں اگر اپنے وقار کو پھر سے بحال کرنا ہے تو ایک متحدہ سیاسی قوت  بنانی ہوگی اسی وقت ہم عزت کی زندگی گزار سکیں گے اگر ہم نے ایسا نہیں کیا تو آنے والی نسلیں ہمیں کبھی بھی معاف نہیں کریں گی۔ بٹلہ ہائوس کی اس برسی کے موقع پر وہ تمام لوگ قابل مبارک باد ہیں جو دہلی لکھنؤ اور اعظم گڑھ میں احتجاج دھرنا مظاہرہ اور میمورنڈم دے رہے ہیں بٹلہ ہائوس ہمارے چھاتی کا گھائو ہیجو کبھی مندمل نہیں ہو سکتا ہم اس درد کی ٹیس کو باقی رکھیں گے جب تک ہمیں انصاف نہیں ملتا۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔