بھاجپا کو فقت قوم واد کا سہارا 

ڈاکٹر مظفر حسین غزالی

سب کا ساتھ سب کا وکاس، کالے دھن کی واپسی، مہنگائی، کرپشن سے نجات اور روزگار کے وعدہ نے ملک کو اچھے دنوں کا خواب دکھایا۔ جس نے بی جے پی کو کامیابی سے ہمکنار کیا۔ اقتدار ملتے ہی بھاجپا نے ستر سالوں کے دوران کچھ نہ ہونے کا ریکارڈ بجانا شروع کر دیا۔ لوگوں کو لگا کہ شاید اب کچھ بہتر ہوگا لیکن یہ بی جے پی کا پیراڈائم شفٹ تھا۔ الیکشن کے وقت کئے گئے وعدے ہوا ہو گئے۔ لو جہاد، کیرانہ سے ہندوؤں کی نکل مکانی اور گائے کے بہانے لوگوں کو آپس میں الجھا دیا۔ وہ بنیادی مسائل بھول کر جذبات میں بہہ گئے۔ اسی کے چلتے بی جے پی کی کئی ریاستوں میں سرکار بن گئی۔

 اس سے قبل کہ بی جے پی کے وعدوں کو لے کر کوئی عوامی تحریک شروع ہوتی سرجیکل سٹرائیک سرخیوں میں چھا گئی۔ گفتگو کا موضوع بدل گیا۔ کئی دنوں تک سرجیکل سٹرائیک پر گرما گرم بحث جاری رہی۔ اس کے بعد ایک بار پھر گائے مرکز میں آگئی۔ گائے کے بہانے مسلمانوں کے ساتھ دلتوں کو بھی نشانہ بنایا گیا۔ ان واقعات نے بین الاقوامی میڈیا کو بھی متوجہ کیا۔ یہاں تک کہ وزیر اعظم کو گئو رکچھا کے نام پر زیادتی کرنے والوں کو تنبیہہ کرنی پڑی۔ دراصل گائے کے نام پر تشدد پھیلانے والے بی جے پی کے ووٹر ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ وزیر اعظم نے بیان کس مجبوری کے تحت دیا ہے۔ لہٰذا ان پر مودی جی کے بیان کا کوئی اثر نہیں ہوا۔ گائے کے نام پر تشدد برابر جاری ہے۔ اس کی وجہ سے ہجومی تشدد (موب لنچنگ) کا نیا لفظ ڈکشنری میں جڑ گیا۔ جسے روکنے کیلئے سپریم کورٹ کو حکومت سے قانون بنانے کو کہنا پڑا۔

لوگ انتظار کر رہے تھے کہ باہر سے کالی دولت آئے گی جس کا ملک کے عوام کو فائدہ ملے گا لیکن اچانک ایک رات وزیر اعظم نے نوٹ بندی کا اعلان کر دیا۔ ملک میں استعمال ہو رہی کرنسی ایک جھٹکے میں غیر قانونی قرار دے دی گئی۔ کہا یہ گیا کہ اس کا غریب لوگوں کو فائدہ ملے گا، نکسل واد، دہشت گردی پر لگام لگے گی۔ کالی دولت چلن سے باہر ہو جائے گی۔ لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا، غریب لوگ پیسے کی قلت اور مزدوری نہ ملنے سے پریشان ہو گئے۔ 125 لوگوں کی لائنوں میں لگنے اور کھانا نہ ملنے سے موت ہو گئی۔ اس کا فائدہ بڑے دوکانداروں، پونجی پتیوں، بی جے پی اور اس کے متعلقین کو ملا۔ نقدی میں کام کرنے والوں کا کاروبار تباہ ہو گیا۔ کتنے ہی لوگ بے روزگار ہو گئے۔ بھاجپا نے پیسے کے دم پر یوپی کا الیکشن جیت لیا۔ دوسری پارٹیوں کے پاس خرچ کرنے کے لئے پیسے ہی نہیں تھے۔

پدماوت فلم کو بھی قوم واد کے حوالے سے طول دیا گیا۔ اس کا فائدہ گجرات الیکشن میں لینے کی کوشش کی گئی۔ پچھلے چار سالوں میں ایک دن بھی ایسا نہیں گزرا جب سماج کو بانٹنے پر لگام لگی ہو۔ کبھی مسلمانوں کی آبادی میں اضافہ کا ہو ہلا کیا گیا تو کبھی نفرت آمیز بیانات دیئے گئے۔ کبھی رام مندر بنانے کے نام پر ماحول خراب کرنے کی کوشش کی گئی تو کبھی گائے کی تسکری کے بہانے ایک مسلمان کو قتل کرنے کے مجرموں کی پھول مالائیں پہنا کر عزت افزائی کی تو کسی وزیر نے فسادیوں کو گلے لگایا۔ طلاق ثلاثہ اور حلالہ کے ذریعہ ایک طرف مسلم خواتین کے ووٹ جھٹکنا مقصود ہے تو دوسری طرف اسلامی مساوات اور اسلامی معاشرہ میں خواتین کو دی گئی عزت کی وجہ سے غیر مسلم عورتوں کو اسلام سے متاثر ہونے سے روکنا ہے۔ انہیں یہ بتانا ہے کہ مسلمانوں میں بھی عورتوں کے ساتھ زیادتی ہوتی ہے۔ دارالقضاء کے قیام کی مخالفت کے پیچھے بھی یہی انصر کارفرما تھا کہ مسلمانوں کے خانگی مسائل تو ان کے ذریعہ حل ہو جائیں گے لیکن غیر مسلم خواتین کو اپنے مسائل حل کرانے کے لئے عدالتوں کے چکر لگانے پڑ رہے ہیں۔

نریندرمودی کے حالیہ اتر پردیش دورے کے درمیان کی گئی تقریروں نے صاف کر دیا ہے کہ 2014 کے مقابلے 2019 کے الیکشن میں قوم واد کا کھیل کھل کر کھیلا جائے گا۔ ایسا لگتا ہے کہ بی جے پی نے خزب اختلاف کے اتحاد اور اس کے ذریعہ ضمنی انتخابات میں ناکامی کو دیکھتے ہوئے اپنی سیاسی حکمت عملی تبدیل کی ہے۔ اعظم گڑھ کی ریلی میں جس طرح مودی جی نے ایک اردو اخبار کی جھوٹی خبر کے حوالے سے کانگریس کو مسلمانوں کے ساتھ نتھی کرنے کی کوشش کی اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ آنے والے انتخابات میں فرقہ واریت کا رنگ اور چٹخ ہوگا۔ اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ ترقی کے وعدوں سے منھ موڑ لیا جائے گا۔ بلکہ بھاجپا اور اس کے حلیفوں کے علاوہ سب کو مسلمانوں کا ہمدرد دکھانے کی کوشش کی جائے گی۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ مسلمانوں کو بےجا فائدہ پہنچانے کے نام پر ٹکراؤ کی صورت پیدا کی جائے۔ کیونکہ مخالفوں کو ہندو مخالف ثابت کرنے کے لئے مسلم حمایتی بتانا بی جے پی اور سنگھ کی سوچی سمجھی پالیسی ہے۔ اس کی شروعات گجرات انتخاب میں ہو گئی تھی، کرناٹک کے چناؤ ميں بھی اس داؤ کو آزمایہ گیا۔ لیکن وہاں تک خود وزیر اعظم نے اپنے منھ سے مخالفین کو مسلمان یعنی "ہندو دشمن ” پارٹی نہیں کہا تھا۔ وہ پردہ بھی اب اٹھ گیا ہے۔

مودی سرکار اقتصادی مورچہ سے لے کر روزگار، زراعت اور عام آدمی کی زندگی کو متاثر کرنے والے ہر پہلو پر بری طرح ناکام ہوئی ہے۔ عوام کا اس سے موہ بھنگ ہو رہا ہے۔ بی جے پی کے خلاف عوام کی آواز کسی تحریک کی شکل نہ اختیار کرلے اس کے لئے فرقہ وارانہ پولرائزیشن کی مہم میں تیزی لانے اور مخالفین پر دباؤ بنانے کے لئے تمام طرح کے ہتھ کنڈے استعمال ہونے کا امکان ہے۔ کیونکہ اس سال کے آخر میں راجستھان، مدھیہ پردیش اور چھتیس گڑھ میں اسمبلی انتخابات ہونے ہیں اور اگلے سال عام انتخابات۔ سی ایس ڈی سی۔ لوک نیتی کے سروے کے مطابق ان تین ریاستوں میں بھاجپا کا ہارنا طے ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ اگر فوراً الیکشن ہو جائے تو این ڈی اے  37 فیصد ووٹ لے سکتا ہے جبکہ یو پی اے کو 31 فیصد رائے دہندگان کی حمایت حاصل ہے۔ غور کرنے والی بات یہ ہے کہ ایک سال پہلے این ڈی اے کو 45 فیصد کی حمایت حاصل تھی اور یو پی اے کو صرف 27 فیصد کی۔

ووٹوں کی اس گراوٹ کو روکنا بی جے پی کے لئے بڑی چنوتی ہے۔ جمو کشمیر کی اتحادی سرکار سے حمایت واپس لینا بھی اپنے ہندو وادی ووٹوں کو پکا کرنے کی کوشش کا ہی حصہ ہے۔ نیشنل رجسٹر آف سٹیژن (این آر سی)  کی ڈرافٹ رپورٹ پر ہونے والی بحث بھی سیاسی فائدہ اٹھانے کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ نے متوازن بیان دے کر چالیس لاکھ لوگوں کی شہریت کے مسئلہ پر سنجیدگی کا اظہار کیا لیکن پارٹی کے دوسرے ذمہ داران کے بیانات سے بی جے پی کی منشاء صاف ظاہر ہوتی ہے۔ اس کی آخری رپورٹ آنے تک زہر افشانی پر کیا روک لگ سکے گی یہ پڑا سوال ہے۔ 2019 کا الیکشن ابھی دور ہے اس وقت تک ملک کو اور کیا کیا دیکھنا پڑے گا اس بارے میں تو ابھی کچھ نہیں کہا جا سکتا لیکن ملک میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی مضبوط ہوگی یہ کہنا ضرور مشکل ہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔