بھاجپا کی فتح اور مسلمان

ریاض فردوسی

 وزیراعظم نریندرمودی نے لوک سبھا انتخابات میں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کو مل رہی جیت کے لئے پارٹی کی قیادت والی حکومت کی ’سب کا ساتھ سب کا وکاس‘کی پالیسی پر سب کے اعتماد کی وجہ سے ملک کی جیت قرار دیا ہے۔مسٹر مودی نے دوپہر ڈھائی بجے کے بعد انتخابات کی تصویر صاف ہونے کے بعد ٹوئٹ کیا ’سب کا ساتھ +سب کا وکاس=ہندستان کی جیت‘۔اپوجیشن کے بے بنیاد حملوں اور بے بنیاد سیاست کے خلاف ملک نے فیصلہ کیا ہے۔مسٹر شاہ نے ٹوئٹ کرکے کہا کہ یہ جیت پورے ہندستان کی جیت ہے۔ ملک کے نوجوان، غریب اور کسان کی امیدوں کی جیت ہے۔ یہ شاندار جیت وزیراعظم مسٹر مودی کی پانچ برس کی ترقی اور مضبوط قیادت پر عوام کے اعتماد کی جیت ہے۔(جاری یو این آئی۔ م ع۔ 1520)

مودی صاحب کے پانچ سالہ اقتدار کا اگر کانگریس حکومتوں سے موازنہ کیا جائے تو شاید اتنا برا نہیں رہا جتنا مسلمانوں نے کانگریس کے اقتدار میں ہوئے مظالم کو برداشت کیا ہے۔لیکن مسلمانوں کو ایسا لگتا ہے کہ کانگریس کے ایام حکومت اسے ہوتے ہیں جیسے دار الاسلام۔

کانگریس کے دور حکومت میں ہوئے مظالم،  مساجد کی شہادت، نمازیوں پر گولیاں چلانے، مسلمان علاقوں میں جرائم کو فروغ دینے، تعلیم سے دور رکھنے، ہماری معیشت کی کمر توڑنے، اربوں کھربوں روپیے کے اوقاف کو برباد کرنے وغیرہ کو ہمارے جھوٹے رہنماؤں نے دبا کر رکھا۔ہمارے درمیان  مایوسی اور دہشت اس وقت بھی نہیں دیکھی گئی تھی جب بابری مسجد شہید کی گئی تھی اور ہندوستان سے مسلمانوں کو ختم کردینے کے نعرے کھلے عام چوراہوں پر لگائے جا رہے تھے۔ایمان فروش رہنماؤں نے مسلمانوں کو دہشت اور مایوسی میں غرق کر دیا ہے۔ ہندوستان کے ہندوؤں کو یہ احساس کرا دیا ہے کہ اگر مسلمان کسی سے ڈرتاہے تو وہ ہے جناب مودی صاحب۔۔۔۔۔کیا اس میں میرے عزیز بھائیوں کو شرک دکھائی نہیں دیتا؟ہندوستان میں انتخاب کیا ہوئے ہر طرف عجیب و غریب ماحول پیدا ہوگیا ہے۔دہشت کا ماحول قائم ہو گیا ہے۔خوف وخطر کا ماحول پیدا ہو گیاہے۔عام مسلمانوں سے لے کر خاص طبقہ سارے لوگ فکر میں ہیں کہیں دوبارہ بھاجپا کی حکومت نہ آ جائے۔جیسے اللہ کا کوئی عذاب ہم پر آنے والا ہے،اور اس کی فکر میں دن و رات پریشان ہیں۔اتنی فکر تو ہمیں آخرت کی بھی نہیں ہوتی ہے، جہاں ہمیں ہمیشہ رہنا ہے۔   کیا اگر مسلمان اللہ نہ کرے ہندوستان سے ختم ہو گئے تو اللہ کا دین بھی ختم ہو جائیگا؟

مسلمانوں کے لئے بھاجپا اور کانگریس میں اتنا ہی فرق ہے جتنا کافر اور منافق میں، یعنی کانگریس(منافق) کی بعض خطرناکیاں مسلمانوں کے لئے بھاجپا سے بھی سخت ثابت ہوئی یں ہیں، لیکن بھاجپا نے دیش کے امن و امان کو ھندتوا اور ظلم و بربریت کی بھٹی میں جھونک دیا ہے، لیکن کیا صرف ہم ہی پریشان ہیں؟ ہندوؤں کی اکثریت ہے اگر انکی حکومت ہے تو اس میں تعجب کی کیا بات ہے۔؟ عظیم اتحاد کی ہار کی سب سے بڑی وجہ ان کے پاس مودی صاحب کے مقابلے کا نیتا موجود ہی نہیں تھا۔عظیم اتحاد میں شامل راہل گاندھی سے لے کر مایاوتی، ممتا بنرجی، لالو پرساد یادو، سیتارام یچوری جیسے مختلف نظریات و خیالات کے حامل لیڈران کے ساتھ ایم کے اسٹالِن و چندرا بابو نائیڈو وغیرہ کے آپسی اختلافات سب پر عیاں تھے۔اس سے قبل لوک سبھا سیٹوں کے لیے ہوئے ضمنی انتخاب میں دیکھا گیا تھا کہ کانگریس کی عدم موجودگی کا فائدہ ایس پی و بی ایسی پی یعنی بی جے پی مخالف پارٹیوں کو ملا۔ دوسری طرف مدھیہ پردیش، راجستھان و چھتیس گڑھ ودھان سبھا چناؤمیں کانگریس کو ملی کامیابی کے بعد اسے علاقائی پارٹیوں سے سودے بازی کرنے میں آسانی پیدا ہوئی۔ حالانکہ تین صوبوں میں ملی اس فتح کے بعد علاقائی پارٹیوں کے نیتاؤں میں کانگریس کو لے کر فکر کی لہر دوڑ گئی تھی۔لیکن سب کا اپنا مفاد جڑا تھا ایسے میں بھاجپا نے یہ تاثر دیا کہ سب مل کر صرف مودی کے خلاف جنگ کر رہے ہیں، اور وزیر اعظم مودی بھگوان کے اوتار ہیں، او ر رام راجیہ قائم کرنا چاہتے ہیں۔(تاریخی اعتبار سے دیکھا جائے تو زیادہ تر علاقائی پارٹیوں کا جنم یا تو کانگریس کی مخالفت میں یا اس سے ٹوٹ کر الگ ہونے کے بعد ہوا ہے) اب جب کسے افراد کو یہ معلوم ہو جائے کہ کہ یہ شخص ہمارے مذہب کو بچانے کے لئے ایک مسیحاہے،تو اس شخص کی محبت میں سارے لوگ متحد ہو جائیں گے۔ہندو بھائیوں کو دھوکے میں رکھا گیا کہ مسلمان اس ملک کو برباد کر دیں گے۔اگر ملک بچانا ہے تو مودی کو ووٹ کریں۔کیوں کہ دیگر پارٹیاں صرف حکومت کی لالچ میں مسلمانوں کا ساتھ دیتی ہیں۔

ابھی کچھ دنوں قبل بی جیپی کے قومی صدر امت شاہ نے کہا تھا کہ کانگریس کے ذہن میں ہار کا ڈر بیٹھ جانے کی وجہ سے وہ ابھی سے ای وی ایم کا بہانا بنانے لگی ہے۔ سوال اٹھتا ہے کی مودی صاحب کی حکومت آجائے،یا کانگریس اقتدار میں آجائے،یا ممتا بنرجی کی حکومت آجائے یا نتیش کمار صاحب وزیر اعظم بن جائیں اس سے ہمارے مسائل کہاں حل ہوتے ہیں؟

ہم صرف ہندوستان کے آ ئینے میں خود کو دیکھ رہے ہیں۔دراصل ہماری لڑائی ہماری جنگ عالمی پیمانے پر ہے۔ یہاں حکومت کسی کی بھی تشکیل ہو گی وہ سب ورلڈ بینک کی غلام ہوں گے۔اور ورلڈ بینک ہمارے ازلی دشمن یہودیوں کے ہاتھ میں ہے اور یہودیت اور طاغوتی نظام جیسا کہے گی کرنے کے لیے ویسا یہاں کی حکومت کرے گی۔ اس طرح ہندوستان سے ہمارے مسائل حل نہیں ہونگے بلکہ اور زیادہ بڑھ جائیں گے۔کام تو سب کو انہی کے اشارے پر کرنا ہے۔سچ تو یہ ہے کہ ہم پریشان اپنے لیے،اپنے کنبے کے لیے ہیں (الا ماشاء اللہ)شاید ہی کوئی مسلمان اللہ کے دین کی فکر میں ہوگا کہ اس ملک ہندوستان میں دین اسلام کا کیا ہوگا؟ اس کا حل یہ ہے کہ ہمیں صرف دو کام کرنا ہے ایک حلال طریقے سے دولت جمع کرنا،اور بہترین ہتھیار رکھنا۔بنا پیسے کہ حج،زکوۃ،جہا د،صدقہ کیسے ممکن ہے؟جب عبدالرحمان ابن عوف ؓ کا انتقال ہوا تو ان کے گھر میں بنی ہوئی سونے کی دیوار جو انہوں نے حلال طریقے سے کماکر اکٹھا کی تھی،اس کو توڑنے کے لئے کئی لوہے کی آڑی ٹوٹ گئی۔(عبد الرحمان ابن عوفؓ  عشرہ مبشرہ میں شامل ہیں)

وہ ہاتھ اچھا ہے جس میں امن کا سفید جھنڈا ہو،لیکن وہی ہاتھ سلامت رہتا ہے جس میں لاتھی ہو۔ ہتھیار ہو۔ہم جب نمرود،ابو جہل،ابولہب،ہلاکوخان،سے پریشان نہ ہوئے تو یہ ظالم تو ان کے مقابل بھی نہیں۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔