بھارت بند کا سلسلہ:فوائد و نقصانات

راحت علی صدیقی قاسمی

ہندوستان جمہوری ملک ہے، جمہوریت ہر شخص کو یکساں حقوق کی ضمانت دیتی ہے، غریب، مفلس، عالم جاہل، اعلیٰ و ادنیٰ سب یکساں طور پر حقوق رکھتے ہیں، ان کی زندگی، معاش و ذرائع معاش، عقائد و نظریات مذاہب و عبادات ان تمام امور کا تحفظ حمہوریت کا نمایاں پہلو ہے، مختلف مذاہب کے ماننے والے افراد جمہوریت کی صحت مند فضا میں خوش رہ سکتے ہیں، اپنے عقائد و نظریات کو ماننے اور اس کے احکامات پر عمل کرنے کے ساتھ ساتھ ان کی اشاعت کرنے کی بھی قدرت اور اجازت رکھتے ہیں، گویا کہ جمہوریت زندگی کے تمام امور میں حصہ لینے کی آزادی فراہم کرتی ہے، سیاسی سماجی اور مذہبی زندگی کے تمام شعبہ جات میں جمہوری ملک کا باشندہ آزاد ہے، وہ اپنے حقوق کا استعمال کرسکتا ہے، البتہ اسے دوسرے کے حقوق تلف کرنے کا حق حاصل نہیں ہے، حتی کہ حکومت وقت کو بھی یہ اختیار نہیں ہے کہ وہ کسی طبقے کے حقوق کو سلب کرے، ان کی زندگی میں دخل اندازی کرے، البتہ اگر کسی قوم یا فرد کے حقوق ختم کردئیے جائیں، اس کا نظام زندگی متاثر کیا جائے، اس پر کوئی نظریہ مسلط کیا جائے، اس کے اصول و ضوابط پر حرف آئے تو وہ اپنے حقوق کی حفاظت کرسکتا ہے، آواز بلند کرسکتا ہے، یہ حق اسے نظام جمہوریت عطا کرتا ہے۔

چنانچہ جس شخص کے ساتھ ظلم و زیادتی ہو رہی ہے، وہ عدل و انصاف کے مطالبہ کے لئے عدلیہ کے دروازہ پر دستک دے سکتا ہے، اپنے حقوق کی حفاظت کے لئے صدائے  احتجاج بلند کرسکتا ہے، ناراضگی کا اظہار کرسکتا ہے تاکہ حکومت اس کی ناراضگی کو مد نظر رکھتے ہوئے، اس کے حقوق کو ادا کرے، اس کے جمہوری حقوق مہیا کئے جائیں، چنانچہ مختلف مواقع پر ہمارے ملک میں احتجاج ہوئے ہیں، جب کسی قوم قبیلہ یا فرقے کو احساس ہوتا ہے کہ ان پر ظلم کیا جارہا ہے، ان کے حقوق پر ڈاکہ ڈالا جارہا ہے، اس صورت میں پوری قوم متحد ہو کر احتجاج کرتی ہے، اس احتجاج کی مختلف صورتیں ہوتی ہیں، ریلیاں نکال کر، مخصوص علاقے میں جمع ہو کر، احتجاجی جلوس منعقد کرکے، انتظامیہ کے ذمہ داروں کو اپنا پیغام پہنچا کر، بھارت بند کا نعرہ دے کر یہ وہ شکلیں ہیں، جن میں انسان اپنے حقوق حاصل کرنے کے لئے موجودہ حکومت کو متوجہ کرتا ہے،اور اپنے حقوق حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔

بھارت بند موجودہ دور میں اپنی آواز حکومت ہند تک پہنچانے کا سب سے مؤثر ذریعہ خیال کیا جارہا ہے، اس طریقہ سے لوگ حکومت متوجہ ہی نہیں بلکہ مجبور کردیتے ہیں اور اپنے مسائل کا حل تلاش کرلیتے ہیں، البتہ کبھی کبھی یہ احتجاج شدت کی شکل اختیار کرلیتا ہے اور سماج پر بجلی بن کر گرتا ہے اور سینکڑوں انسانوں کی زندگی ان کی خوشیوں کو جلا کر خاکستر کردیتا ہے، چنانچہ جاٹوں نے ریزرویشن کے حصول کے سلسلے میں جو تحریک شروع کی، وہ کتنی خطرناک شکل اختیار کر گئی تھی، اس کے نقوش ہم سب کے ذہنوں میں تازہ ہیں، نظام زندگی مفلوج ہوگیا تھا، ریل کی پٹریاں اکھاڑ لی گئیں تھی، بسوں کو نذر آتش کیا جارہا تھا، دکانیں لوٹی جارہی تھیں، لوگ یہ بھول گئے تھے کہ وہ اپنے حقوق کی تلاش میں دوسروں کے حقوق تلف کر رہے ہیں، جانیں ضائع ہوئیں، شدید ترین مالی نقصان ہوا، اور حکومت وقت کانپ گئی، خدا خدا کرکے یہ سلسلہ اختتام پذیر ہوا، لیکن گذشتہ ماہ پھر اس کی جھلک دیکھنے کو ملی، اور ایس ایس ٹی بل میں ہوئی ترمیم پر تمام دلت تنظیمیں چراغ پا ہوگئیں، اور بھارت بند کا اعلان کیا گیا، جس میں مختلف مقامات پر پُر تشددواقعات رو نما ہوئے لوگوں کو سفر میں دشواریاں ہوئیں، بیماروں کو ہسپتال پہنچانے میں دشواریاں ہوئیں، اور بات یہیں تک باقی نہیں رہی بلکہ 10 افراد کو اپنی جان گنوانی پڑی، ہندوستانی کا سب سے کمزور طبقہ جب اپنے حقوق کی حفاظت کے لیے کھڑا ہوتا ہے، تو پورے ملک کو ہلا کر رکھ دیتا ہے، اور یہ بھول جاتا ہے، کہ اپنے حقوق پانے کی دُھن میں وہ نہ جانے کتنے افراد کے حقوق کو اپنے پیروں تلے کچل چکا ہے، اس تلخ حقیقت کو وہ محسوس ہی نہیں کرپاتے۔

اس واقعہ کے تقریباً ایک ماہ بعد ہی جب دوبارہ اس قانون کو بحال کیا جاتا ہے، تو اعلیٰ برادریوں سے متعلق افراد بھارت بند کا اعلان کرتے ہیں، پھر وہی مناظر نگاہوں کا استقبال کرتے ہیں، جن کا مشاہدہ ایک ماہ قبل ہو چکا تھا، اعلیٰ ذات کے افراد مختلف مقامات پر پتھر برساتے ہیں، بہت سے افراد زخمی ہوتے ہیں، بھارت بند کا نعرہ پھر سے پر تشدد واقعات کی تمہید ثابت ہوتا ہے، اور اس کے ساتھ ساتھ اعلیٰ ذات اور نچلی ذات کے افراد کے درمیان جو نفرت کی دیوار حائل ہوئی ہے، وہ بھی جمہوری فضا کے منافی ہے، محبت و اخوت کا جذبہ اس طرح کے واقعات سے سرد ہی نہیں پڑا بلکہ ختم ہونے کے در پہ آچکا ہے،ملک دو طبقات میں آمنے سامنے ہو چکے ہیں، نفرت کا بیج ان کے قلوب میں کاشت کیا جاچکا ہے، جو ماضی قریب میں درخت کی شکل اختیار کرے گا اور ملک کو مشکل ترین حالات کا سامنا ہو سکتا ہے اور ماضی کی وہ تلخیاں جو ہم نے مختلف کتابوں میں پڑھی ہیں، وہ پھر سے روئے زمین پر نمودار ہوسکتی ہیں۔

چنانچہ اس کے علاوہ ہمارا ملک مہنگائی کی مار جھیل رہا ہے، پیٹرول کی قیمتیں ساتویں آسمان کو بوسہ دے رہی ہیں، رسوئی گیس کی قیمت نے تکلیف میں ڈال رکھا ہے، روپئے کی قیمت ڈالر کے مقابلہ میں کم ہوتی جارہی ہے، بہت سے افراد غربت سے پریشان ہیں، بھوک کی شدت سے بلبلا رہے ہیں، اس صورت حال کو مد نظر رکھتے ہوئے اپوزیشن نے متحد ہو کر بھارت کا اعلان کیا ہے، ملک کے مختلف مقامات پر اس بند کا اثر دیکھنے کو ملا، خاص طور پر بہار میں ایک مشہور اردو روزنامہ کے مطابق بہار کے شہر جہان آباد میں بند کے حامیوں نے ایمبولینس کو روک دیا گیا، جس کی وجہ سے ایک معصوم بچی کی جان چلی گئی، وہ بچی جس نے کسی کا نقصان نہیں کیا، کسی کو تکلیف نہیں پہنچائی، اسے دنیا سے جانا پڑا، بہرحال تمام سیاسی جماعتیں رام لیلا میدان اکٹھا ہوئیں اور ملک کی صورت حال پر گفتگو ہوئی، شام کے ساتھ یہ فسانہ ختم ہوا، دونوں سیاسی جماعتیں اس بند کا تجزیہ آنے والے اسمبلی انتخابات کے تناظر میں کررہے ہیں، ملک میں کس کا کتنا نقصان ہوا، اس سے کسی کوئی سروکار نہیں ہے، اور ان مسائل پر اس بند کا کیا اثر پڑے گا اس کا کسی کوئی علم نہیں ہے؟ کیا اس سے پیٹرول کی قیمتوں میں کمی آجائے گی، روپئے کی قیمت میں اضافہ ہو جائے گا؟ ملک ترقی کی راہ پر لوٹ آئے گا؟ ہر ذی شعور فرد کو اس بند کے فوائد پر غور کرنا، اور نقصانات کا اندازہ لگانا چاہیے، کتنے افراد کو پریشانیاں پیش آئیں؟ کتنے افراد بھوک سے دوچار ہوئے، کتنے لوگ ضروریات زندگی کو حاصل کرنے میں ناکام رہے؟ فوائد بھی ہمارے سامنے ہیں اور نقصانات بھی ہمارے سامنے ہیں، ان چند کے واقعات کے ضمن میں یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ ہم اپنے حقوق طلب کرنے میں اتنے متشدد ہوجاتے ہیں، کہ دوسروں کے حقوق پر توجہ نہیں جاتی، ان کی تکالیف اور درد دکھائی نہیں پڑتی، تعلیم یافتہ اور غیر تعلیم یافتہ اس معاملہ برابر نظر آتے ہیں، ہمیں اس سمت غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے، اور بند کے اسے طریقے کے سلسلے میں غور و فکر کرنا ہوگا، کیا یہ طریقہ حقوق طلب کرنے کے لئے مناسب ہے؟ کیا اپنے بھائیوں کے حقوق ضائع کرنا مناسب ہیں؟ اس سلسلے غور کرنا چاہئے اور بند کے نقصانات پر غور و فکر کرتے ہوئے، اسے مناسب طریقے سے بدلنے کی ضرورت ہے، جس میں سماج کا نقصان نہ ہو، نظام زندگی در برہم نہ ہو، ایسے مقامات پر احتجاج کیا جائے جو خالی ہوں، تشدد کی صورت حال اختیار نہ کی جائے، سڑکوں کو جام نہ کیا جائے،اس طرز پر بھی ہم اپنی بات کو پیش کرسکتے ہیں، اور حکومت کو متوجہ بھی کرسکتے ہیں، اس سے عوام کا نقصان نہیں ہوگا، اور زندگی اپنے معمول پر قائم رہے گی۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔