بھکت کہتے ہیں اکھلیش ہیں اورنگزیب!

آو سچ بولیں

آخر باپ بیٹے کا ڈرامہ کتنے دن چلے گا ؟؟؟ یہ سوال کئی بحثوں میں سامنے آیا  تو ہم نے کہا ، ناٹک کا سوتر دھار تو ناگپور میں بیٹھا ہے اور 2003 کی بساط بچھا کر بیٹھا ہے سارے پرانے مہرے ہیں ۔بس 11 مارچ سے شہ اور مات کا اصل کھیل شروع ہوگا۔اکھلیش اورنگزیب تو  ملائم سمراٹ اشوک  ہوسکتے ہیں جسنے اپنے کئی سو بھائیوں کو کاٹ کر  اَگم کوئیں میں پھینک دیا تھا مگر شاہجہاں نہیں ہو سکتے کیوں کہ ابھی  اکھلیش نے انکا وہ حال نہیں کیا جو  اورنگزیب نے شاہجہاں کا کیا تھا ۔کہ سارے مہرے بچ گئے ،شاہ جاتا  رہا۔تاریخ ہم مسلمانوں کو بھی اپنے گریبان میں جھانکنے اور اس سے سبق لینے کو بار بار کہتی ہے  جب ایک باپ کے دل سے آہ نکلتی ہے

آفریں برہنود در ہر باب ۔کہ مردا را دہن در آب

اے پسر تو عجب مسلمانی  زندہ جانم بہ آب نہ رسانی

جس ملک میں صرف تین فیصد آبادی والے برہمن ملک کے تمام آئینی  اداروں پر قابض ہوں تو  وہاں مسلمانوں کی پالیسی کیا ہوگی اسپر غور کرنے کے لئے اللہ میاں ہندوستان کے لئے کوئی اسپیشل پیغمبر تو بھیجنے سے رہےخود ہی غور کرنا ہوگا۔70 سال میں یہ سوال نہ کر پائے خود سے ،کہ فوج میں گورکھا  ریجمنٹ تک ہے تومسلم کیوں نہیں ؟  فوج کے سربراہ کے لئے کولیفائڈ ہونے کے باوجود  تما م ضوابط کو بالاے طاق رکھ کر  لیفٹنٹ جنرل بپن راوت کو ان سے سینئر محمد علی حارث پر ترجیح کیوں دی گئی؟پولس میں ہماری قوم کے جوان کیوں نہیں  ؟جوڈیشیری میں آٹے میں نمک برابر کیوں ؟ کیسے سر اُنچا کر کے چلیں جب تحفظ فراہم کرانے والے ہاتھ ہی قاتل ہیں ۔ہمارے جوان  سالہا سال ناکردہ گناہ کی پاداش میں  کورٹ سے بری ہوجاتے ہیں اور ہم ٹھنڈے پیٹوں برداشت کر لیتے ہیں ۔یہ پوچھنے کے لئے سڑکوں پر نہیں اترتے کہ اگر دلی بلاسٹ  محمد حسین فضلی اور محمد رفیق شاہ نے نہیں کیا تھا تو پھر کس نے کیا تھا؟

اب ملائم سنگھ کی بات کریں تو گزشتہ 27   برسوں میں ملائم نے جو کچھ کیا ہے وہ ڈنکے کی چوٹ پر کیا ہے۔ انہوں نےکارسیوکوں پر جب گولیاں چلوائیں تو کہہ کر چل وائیں ۔ انہوں نے اس کارروائی کے نتیجے میں جب مسلمانوں سے ووٹ مانگے تو اعظم خان انکے شانہ بہ شانہ  تھے۔ یاد رہے کہ 1989 میں ملائم سنگھ بھی بی جے پی کی حمایت سے حکومت چلا چکے ہیں ۔ انہوں نے ہر فیصلہ پوری جرات کے ساتھ  کیا  ہے۔ انہوں نے 65 برس کی عمر میں جب سادھنا گپتا سے دوسری شادی کی توباقاعدہ دعوت دے کر اور تصاویر كھينچوا کر کی،انہوں نے  جب  وزارت دفاع  کا چارج لیا تو امر سنگھ اور رام گوپال  کوآرمز سودوں  میں خوب کھُلنے کھیلنے کا موقع دیا اور میں دعوے سے کہہ سکتی ہوں کہ باپ بیٹے کے تنازعے میں یہی دو  اہم  آرمز ڈیلر مکھیہ بھومکا میں تھے اور ان دونوں اسلحہ ایجنٹوں کی بزنس رنجشوں کا شاخسانہ  ہے کہ آج  یوپی  کے مسلمان ووٹر ایک بار پھر اپنی متحدہ طاقت کو آزمانے کا موقع کھو چکے ہیں جو  بی جے پی ہی نہیں تما  م نام نہاد  سیکیولر پارٹیوں  کا بھی ہِیڈن  ایجنڈہ ہے۔کئی اسمبلی سیٹیں ایسی ہیں جہاں صرف مسلم ووٹ فیصلہ کن ہوتا ہے اور امت شاہ اس توڑ پھوڑ میں  اور جوڑ میں پی ایچ ڈی ہیں جنکے ہاتھ میں نہ صرف بی جے پی کی کمان ہے بلکہ اتر پردیش اسمبلی انتخاب بھی انکی سرپرستی میں لڑا جا رہا ہے اور آخری  مرحلہ آتے آتے وہ اپنا رام بان  یا دیش بھکتی  کےشوشے  کشمیر سے کنّیا کماری  تک چھوڑ چکے ہونگے۔لگ  گیا تو تیر نہیں تو تُکّا ۔ہاں دلی کی طرح یہاں کوئی کرن بیدی نہیں جسکے سر ہار کا ٹھیکرہ پھوڑا جائے کیونکہ اسکی گنجائش بچے گی نہیں ۔

آ ئیے  ذرا  بکرم  کے اس بیتال کی کنڈلی  کا جائزہ لیں ۔سال 2003 کی بات ہے، اتر پردیش میں بی ایس پی اور بی جے پی کی ملی جلی سرکار چل رہی تھی۔مایاوتی وزیر اعلی تھیں ۔ بی جے پی کے لال جی ٹنڈن، اوم پرکاش سنگھ، کلراج مشرا، حکم سنگھ جیسے لیڈر کابینی وزیر تھے۔ یہ حکومت 2002 کے اسمبلی انتخابات میں معلق اسمبلی کا نتیجہ تھی۔ اس میں سماج وادی پارٹی کو 143، بی ایس پی کو 98، بی جے پی کو 88، کانگریس کو 25 اور اجیت سنگھ کی آر ایل ڈی کو 14 نشستیں آئی تھیں ۔کسی بھی پارٹی کی حکومت نہ بنتے دیکھکر پہلے تو صدر راج لگا۔ پھر بی جے پی اور آر ایل ڈی کی حمایت سے تین مئی، 2002 کو مایاوتی وزیر اعلی بن گئیں ۔سال 2003 کا آغاز ہنگامہ خیز رہا۔ مایاوتی نے آزاد ممبر اسمبلی رگھوراج پرتاپ سنگھ عرف راجہ بھیا پر انسداد دہشت گردی ایکٹ (پوٹا) کے تحت کیس لگا دیا۔کیونکہ راجہ بھیا اور دھننجے سنگھ ان 20 اراکین اسمبلی میں شامل تھے، جنہوں نے گورنر وی کے  شاستری سے ملاقات کر کے مایاوتی حکومت کو برخاست کرنے کی مانگ کی تھی۔ اس لیے انہیں نومبر میں جیل میں بند کر دیا گیا ۔

بی جے پی کے اس وقت کے ریاستی صدر ونے کٹیار نے راجہ بھیا پر سے پوٹا ہٹوانے کی کوشش کی، لیکن مایاوتی نے یہ مطالبہ مسترد کر دیا اور کہا کہ راجہ بھیا پر لگا پوٹا نہیں ہٹایا جائے گا۔ اس سے بات بگڑتی چلی گئی۔

اب آپ  اس کہانی کے مہروں کو  ذہن میں رکھئے گا  اور  2017 اسمبلی  انتخاب کے بنتے بگڑتے ثلاثے کے دوران قدآور سیاسی  لیڈروں اور مذہبی  رہنماوٗں کے میڈیا  میں دئے گئے بیانوں اور منبر ومحراب سے  جاری کی گئی اپیلوں  اور ان سب کے ادلتے بدلتے پالوں کو دھیان سے شطرنج کی بساط پر سیٹ کر لیجئے ۔اور اس پوری داستان کو 11 مارچ کو پھر سے پڑھئےگا۔۔۔شائد کہ اتر جائے تیرے دل میں میری بات۔

دونوں سیاسی پارٹیوں کے درمیان تلخی بڑھنے کی ایک اور وجہ پیدا ہو گئی۔ تاج ہیریٹیج کوریڈور کی تعمیر کو کو لے کر یوپی حکومت اور مرکزی حکومت کے مابین رسہ کشی بڑھ گئی، کیونکہ مرکزی وزیر سیاحت جگموہن نے بغیرپروسیجر کو پورا کئے، اصول وضوابط کی دھجیاں اڑاتے تعمیر جاری رکھنے کا الزام یوپی سرکار پر دھر دیا۔اس سے ناراض مایاوتی نے 29 جولائی، 2003 کو پریس کانفرنس کر کے، جگموہن کو مرکزی کابینہ سے ہٹانے کا مطالبہ کر دیا۔اس سے بی جے پی-بی ایس پی کے تعلقات بگڑتے چلے گئے۔ بی جے پی کے ساتھ بڑھتی ہوئی کشیدگی کے درمیان 26 اگست، 2003 کو مایاوتی نے کابینہ کے اجلاس بلا کر اسمبلی تحلیل کرنے کی سفارش کے ساتھ گورنر کو اپنا استعفی سونپ دیا۔یہ سب اس تیزی سے وقوع پذیر ہو رہا تھا کہ بڑے بڑے تجزیہ نگار ہانپ رہے تھے۔مایاوتی کے اس قدم سے حیران بی جے پی ممبران اسمبلی نے لال جی ٹنڈن کی قیادت میں آنا فانا گورنر وشنو کانت شاستری سے ملاقات کر کے انہیں حکومت سے اپنی حمایت واپس لینے کا خط سونپا۔اب یہاں یہ بات  غورطلب ہے کہ گورنر نے یہ کہتے ہوئے اسمبلی تحلیل نہیں کی کہ ان کو مایاوتی حکومت سے حمایت واپسی کا بی جے پی ممبران اسمبلی کا خط، کابینہ کے اسمبلی تحلیل کرنے کی تجویز سے پہلے ہی مل گیاتھا۔ہے نا تفتیش طلب امر،خیر اب یہاں  ہوتی ہے ملائم سنگھ کی انٹری.

26 اگست کو ہی ملائم سنگھ نے حکومت بنانے کا دعوی پیش کر دیا۔ تب تک ان کے حق میں ضروری تعداد جُٹانے کے لئے  ممبر اسمبلی بھی نہیں تھے  تبھی 27 اگست کو بی ایس پی کے 13 ممبران اسمبلی نے گورنر سے ملاقات کر کے انہیں ایک خط سونپا۔ اس میں بتایا گیا تھا کہ وہ ملائم سنگھ یادو کی وزیر اعلی کے عہدے کیلئے حمایت کرتے ہیں ۔بی ایس پی نےپیٹھ میں چھرا گھونپنے والے اس واقعہ پر اعتراض جتایا اور کہا کہ  13 ممبران اسمبلی کا گورنر سے مل کر اپوزیشن پارٹی کے لیڈر ملائم سنگھ یادو کو وزیر اعلی کے عہدے کیلئے حمایت دینا، وولینٹری طور پر اپنی پارٹی (بی ایس پی) چھوڑنا مانا جائے جودَل بدل قانون اور آئین کی 10 ویں شیڈول کی خلاف ورزی ہے، لہذا ان کی رکنیت مسترد کی جائے۔اس کے لئے بی ایس پی رکن اسمبلی کی ٹیم کے اس وقت کے رہنما سوامی پرساد موریہ نے اسمبلی صدر اور بی جے پی کے سینئر لیڈر کیسری ناتھ ترپاٹھی کو ایک پٹیشن سونپی، لیکن اسمبلی صدر نے اس پر کوئی فیصلہ نہیں لیا۔بی ایس پی کے 13 باغی ممبران اسمبلی کی حمایت ملتے ہی ملائم سنگھ نے 210 اراکین اسمبلی کی فہرست گورنر کو سونپ دی اور بغیر وقت گنوائے شاستری نے انہیں حلف برداری کی دعوت دے دی۔اسوقت کی رپورٹیں گواہ ہیں کہ دلی میں بی جے پی کی پارلیمانی بورڈ کی 26 اگست کی صبح ہوئی میٹنگ میں یہ فیصلہ لیا جا چکا تھا کہ یوپی کی اسمبلی تحلیل کرنے سے بہتر آپشن وہاں صدر راج لگایا جانا ہے، کیونکہ پارٹی نئے سرے سے انتخابات کے لئے تیار نہیں ہے۔اسمبلی تحلیل کرنے کی جگہ اگر ملائم سنگھ کی حکومت بنتی ہے تو ایسی حکومت بننے دی جائے۔اس سے صاف ظاہر ہے کہ اسوقت مایا وتی کیجریوال کی طرح کانفیڈنٹ تھیں کہ اگر الیکشن ہوگئے تو وہ میجورٹی میں آئیں گی۔لیکن ایس پی اور بی جےپی کو خدشہ تھا کہ  جیتی ہوئی سیٹیں گنوا سکتے ہیں ۔

گورنر نے 29 اگست، 2003 کو ملائم سنگھ کو وزیر اعلی کے عہدے کا حلف دلا دیا۔ انہیں اکثریت ثابت کرنے کے لئے دو ہفتے کا وقت دیا گیا۔ جس بی جے پی نے فروری، 2002 میں ملائم سنگھ کو وزیر اعلی نہیں بننے دیا، اسی نے انہیں حکومت بنانے میں مدد کی۔ 14 سال سے ملائم سنگھ کی مخالفت کی سیاست کر رہے اجیت سنگھ نے ان کی حمایت کی۔ جو کلیان سنگھ، ملائم سنگھ کو رام سیوكو ں کا قتل کرنے والا راون کہتے تھے، انہوں نے ملائم سنگھ کو اکثریت حاصل کرنے میں مدد کی اور جن سونیا گاندھی کو ملائم سنگھ نے 1999 میں وزیر اعظم بننے سے روک دیا تھا، انہوں نے ملائم سنگھ کی حکومت کو حمایت دی ۔حالانکہانہوں نے اور سی پی ایم نے ملائم کو باہر سے سپورٹ دیا ،مگر دیا۔کس کے خلاف ؟مایا وتی کے خلاف۔پھر  بی ایس پی ٹوٹی 37 ممبران  نے الگ ہو کر پارٹی بنا لی لوک تانترک بہوجن پارٹی جو بعد میں ایس پی میں ضم ہوگئی۔مزے کی بات یہ تھی کہ سارے باغی وزیر بنائے گئے 98 وزرا والی کابینہ تاریخی تھی۔جسکو عرف عام میں جمبو کیبنٹ کہا گیا،پھر نہ بنی ایسی کیبنٹ مگر  آگے نہیں بنے گی اسکی گارنٹی نہیں ۔

اس کے بعد پورا معاملہ کورٹ میں شفٹ ہو گیا۔ بی ایس پی نے الہ آباد ہائی کورٹ کی لکھنؤ بنچ میں ایک رٹ پٹیشن دائر کر 13 باغی بی ایس پی ممبران اسمبلی کی رکنیت مسترد نہیں کرنےاور بی ایس پی میں تقسیم کو تسلیم کرنے کے اسمبلی صدر کے فیصلے کو چیلنج کیا۔ریاستی حکومت اس معاملے میں مسلسل تاریخ مانگتی چلی گئی۔ اس سےکیس ٹلتا رہا۔ تاہم بی جے پی حکومت میں شامل نہیں تھی، لیکن اسمبلی میں اکثریت ہونے کے بعد بھی ملائم سنگھ نے بی جے پی کے کیسری ناتھ ترپاٹھی کو اسمبلی صدر بنے رہنے دیا  ۔ کیسری ناتھ ترپاٹھی نے 19 مئی 2004 کو مرکزی قیادت کے کہنے پر اسمبلی صدر کے عہدے سے استعفی دے کر اترپردیش بی جے پی کے صدر کا عہدہ سنبھالا۔( جی  جناب یہ صاحب آجکل بنگال کے گورنر ہیں  اور  بہن جی کو سِدھانے  کے  تجربے کو بروئے کار لاتے ہوئے دیدی کو کنٹرول کرنے میں نمک کا حق ادا کر رہے ہیں )

ہائی کورٹ نے 12 مارچ 2006 کو اپنا فیصلہ سنایا۔ عدالت نے بی ایس پی سے 37 ممبران اسمبلی کی تقسیم کو الگ پارٹی کے طور پر تسلیم کرنے کے اسمبلی صدر کے فیصلے کو مسترد کر دیا۔ اس کے ساتھ ہی ہائی کورٹ نے اسمبلی صدر سے 13 ممبران اسمبلی کی رکنیت پر دوبارہ فیصلہ کرنے کی اپیل کی۔ ہائی کورٹ کے اس فیصلے کو دونوں ہی فریقین نے سپریم کورٹ میں چیلنج کیا۔سپریم کورٹ نے 14 فروری، 2007 کو اپنے فیصلے میں بی ایس پی میں ہوئی ٹوٹ کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے 13 باغی ممبران اسمبلی کی رکنیت مسترد کر دی۔جن سوامی پرساد کا تزکرہ اوپر آیا ہے وہ اب تک بی ایس پی کے قدآور نیتا تھے ۔سوامی پرساد موریہ  اب بی جے پی  کے ٹکٹ پر پڈرونہ سے انتخابی میدان میں ہیں جہاں انکو  بی جے پی کے باغی  امیدوار پپو پانڈے  بقول انکے دراندازی کا مزہ چکھائیں گے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ 4 مارچ کو ہونے والی پولنگ میں 10 سے زیادہ  سیٹوں  پر بی جے پی کے باغی امیدوار کھڑے ہیں اور انکو  آدتیہ یوگی ناتھ کی  ہندو یُووا واہنی کا زبردست سپورٹ حاصل ہے۔مشرقی  یوپی کے بستی اور  گورکھپور  میں  بی جے پی  کو اپنے ہی چراغوں سے آگ لگنے کے آثار ہیں ۔

خیر سپریم کورٹ نے بی ایس پی کے تمام دلیلوں کو مانتے ہوئے، اتر پردیش اسمبلی صدر کے فیصلے کو پلٹ دیا، لیکن قانونی عمل میں اتنی دیر ہونے کی وجہ سے اس کا کوئی مطلب نہیں رہا کیونکہ اسمبلی کی مدت مکمل ہو چلی تھی۔ اپریل مئی 2007 میں ریاست میں اسمبلی انتخابات ہوئے اس میں بی ایس پی کو مکمل اکثریت حاصل ہوئی۔ہوا وہی جو  2003 میں ہونا تھا  لیکن  ملائم سنگھ نے اپنے اس دور حکومت میں کیا کیا گل کھلائے اسکی پڑتال کیجئے۔  ثابت ہوا کہ مایا وتی کی حکومت بھی  بی جے پی نے بنوائی  اور ملائم سنگھ کی حکومت بھی ۔توسوال اٹھتا ہے کہ بی جے پی نے آخر ایسا کیوں کیا؟جواب یہ ہے کہ اس بات کاقوی  امکان تھا کہ اگر بی ایس پی نہیں ٹوٹتی ، تو بی جے پی ٹوٹ جاتی۔اب آپ شری رام نائک جی سے تو اچھی طرح واقف ہیں ،اور رہ گئے ملائم سنگھ تو ان کی سیاست کو 30 سالوں سے قریب سے دیکھنے والے سیاسی تجزیہ کار بھی اس کے بارے میں اندازہ لگانے سے بچ رہے ہیں ۔

یہی  ملائم سنگھ انتخابات کے وقت سہارا کے ہیلی کاپٹر میں بلا خوف و خطر کھلےعام نوٹوں کی گڈیاں لے کر اڑتے تھے اور سب کے سامنےاپنے امیدوار کو لاکھوں لاکھ بانٹ دیتے تھے۔ 1995میں جب پنچایت انتخابات کو لے کر کانشی رام سے ان کاجھگڑا ہوا تو اسٹیٹ گیسٹ ہاؤس سے انہوں نے کھلے عام بی ایس پی کے ممبران اسمبلی کو بندوق کی نوک پر  اغواکروا لیا۔ یہ الگ بات ہے کہ اسٹیٹ گیسٹ ہاؤس کےجس کمرے میں مایاوتی چھپی تھی اس کمرے میں ان کے henchmenآگ نہیں لگا سکے اور اقتدار ملائم کے ہاتھ  سے پھسل گیا۔

لیکن 2003 میں انکی دیرینہ خواہش پوری ہوئی اور ملائم  اقتدار میں واپس آئے،یہ الگ بات ہے کی سپریم کورٹ میں ان کےخلاف آمدنی سے زیادہ جائیداد حاصل کرنے کامعاملہ درج ہوا …. ایسا سنگین معاملہ جس کی وجہ سےملائم کی گردن سی بی آئی کی شیلف میں آج بھی گروی پڑی ہے۔ انہوں  نےجب 2012 میں سب کو پیچھے چھوڑ کر اپنے بیٹے کووزیر اعلی کی کرسی سونپی تھی تو گھر میں بیوی سادھنا گپتا سے لے کر بھائی شیو پال کے سینے پر سانپ لوٹ گئے تھے۔ لیکن  ملائم ٹھہرے فرنٹ فٹ کےکھلاڑی۔ جو کہہ دیا سو کر بھی دیا۔پارٹی بھی سمبل بھی  وارث کو سونپ دیا ۔رند کے رند رہے ہاتھ سے جنت نہ گئی۔آپ اور ہم اس سازش سے بےخبر رہتے ہوئے کہ ہمارا ووٹ devalue کر  دیا گیا ہے 11 مارچ کو تالیاں بجا رہے  ہونگے۔

کُھلا ہے جُھوٹ کا بازار، آؤ سچ بولیں

نہ ہو بلا سے خریدار، آؤ سچ بولیں

سکُوت چھایا ہے انسانیت کی قدروں پر

یہی ہے موقعِ اِظہار، آؤ سچ بولیں

ہمیں گواہ بنایا ہے وقت نے

بنامِ عظمتِ کِردار، آؤ سچ بولیں

سُنا ہے وقت کا حاکم بڑا ہی مُنصِف ہے

پُکار کر سرِ دربار، آؤ سچ بولیں

تمام شہر میں ایک بھی منصُور نہیں

کہیں گے کیا رَسَن و دار، آؤ سچ بولیں

جو وصف ہم میں نہیں کیوں کریں کسی میں تلاش

اگر ضمیر ہے بیدار، آؤ سچ بولیں

چُھپائے سے کہیں چُھپتے ہیں داغ چہروں کے

نظر ہے آئینۂ بردار، آؤ سچ بولیں

قتیلؔ جِن پہ سدا پتھروں کو پیار آیا

کِدھر گئے وہ گنہگار، آؤ سچ بولیں

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔