بہار میں فرقہ وارانہ فساد کا تسلسل

پروفیسرمحمد سجاد

مترجم: نایاب حسن

اکتوبرکی19/20تاریخ کو بہار کاضلع سیتامڑھی ایک بار پھرخوں آشام فرقہ وارانہ فساد کا شکار ہوا، یہ شمالی بہارکا سب سے حساس علاقہ ہے، جو اکثرفرقہ وارانہ فساد کی زد میں رہتاہے، اس علاقے میں فسادات کی ایک طویل تاریخ ہے اور کم ازکم1895ء سے اس کا سلسلہ جاری ہے، جس طرح اکتوبر1992ء میں ہواتھا، اسی طرح اس سال بھی درگاکی مورتی وسرجن کے جلوس کی وجہ سے تشددکے واقعات رونما ہوئے، جس نے ضلع انتظامیہ کی جانب سے طے کردہ روٹ کے برخلاف چھوٹے شہرکے مسلم محلوں کے بیچ سے گزرنے پر اصرار کیاتھا۔ روایتی طورپر سیتامڑھی میں کئی اکھاڑے ہیں، جودرگاپوجاکا نظم کرتے ہیں، ان میں سے ہر اکھاڑے والے مورتی وسرجن کا بھی علیحدہ انتظام کرتے ہیں، 1992ء میں انہی میں سے ایک بھوانی اکھاڑاہے، جس کے صدرناگیندرچودھری تھے، وہ اس وقت ڈی ایس پی بھی تھے اور انھوں نے ہی تشددکو ہوا دی تھی۔ ( Asghar Ali Engineer, 147Sitamarhi on Fire148, EPW, November 14, 1992)
اکتوبر 1967ء میں سیتامڑھی کے سرسنڈتھانہ(جواس وقت مظفر پور ضلع کا سب ڈویژن تھا)میں بھی اسی قسم کے پرتشدد واقعات رونما ہوئے تھے(1895ء سے لے کر1992ء تک سیتامڑھی کے مختلف علاقوں میں رونما ہونے والے فسادات کا میری کتاب Contesting Communalism and Separatism: Muslims of Muzaffarpur since 1857میں تفصیلی جائزہ پیش کیاگیا ہے، اس کتاب کا اردو ترجمہ حال ہی میں قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان سے شائع ہواہے)

مسلم محلے سے جلوس کو لے جانے پر اصرار کرناانتظامیہ کے لیے فسادکی پیشگی دھمکی تھی، اس کے باوجود انتظامیہ نے فساد کو روکنے میں واضح کوتاہی کا مظاہرہ کیا، مدھوبن کے اکھاڑانے اپنا جلوس 19؍ اکتوبر کو نکالا، جوچشم دید مقامی لوگوں کے مطابق مسلح تھا، بھڑکانے والے مسلم مخالف نعرے لگا رہاتھا، اسی دوران یہ افواہ اڑادی گئی کہ ننیاٹولی کے علاقے میں جلوس پر مسلمانوں کی جانب سے پتھراؤ کیاگیا ہے؛چنانچہ جب اگلے دن20؍اکتوبر کوایک دوسرے اکھاڑے کی جانب سے صبح گیارہ بجے مورتی وسرجن کے لیے جلوس نکلا، تواس افواہ کا خاصا اثر تھا، اس جلوس میں غیر معمولی طورپرغصے سے بپھری ہوئی بھیڑاکٹھا تھی، صورتِ حال پوری طرح دھماکہ خیز تھی، مقامی انتظامیہ نے مسلمانوں کے خلاف پھیلائی گئی اس غلط افواہ کو دور کرنے کے لیے کوئی اقدام نہیں کیا، خبروں کے مطابق اس وقت تک انٹرنیٹ سروس بھی بند نہیں کی گئی تھی، دیکھتے ہی دیکھتییہ جلوس لوٹ پاٹ پر اترآیااور کئی مسلم گھروں کو لوٹنے کے بعد نذرِ آتش کردیاگیا، بہارکے دیہی علاقوں میں رونما ہونے والے حالیہ فسادات میں ایک نیاٹرینڈیہ سامنے آیاہے کہ فسادی غریب مسلمانوں کی بکریاں تک کھول کر لے گئے، جوآج بھی معمولی طبقات سے تعلق رکھنے والوں کے لیے گزرانِ معیشت کاایک ذریعہ ہے، یہ سیتامڑھی کے حالیہ فسادات میں بھی کیاگیا اوراسی طرح کاحادثہ عزیزپور(سریا، مظفرپور)میں 18؍جنوری2015ء کوبھی رونما ہوا تھا۔

بہرکیف 20؍اکتوبر کودن کے گیارہ بجے فساداور لوٹ مار شروع ہوئی، جو تین بجے تک چلتی رہی، ایک ستر سالہ ضعیف زین الحق انصاری راجوپٹی میں اپنی بیٹی سے مل کر واپس اپنے گاؤں بھورہالوٹ رہے تھے، جوغائب ہوگئے، ان کے رشتے داروں نے تھانے میں ایف آردرج کروائی، دودن بعد انھیں خبر ملی کہ مظفر پور صدر ہسپتال میں ایک لاش ہے، جس کی شناخت کی جانی ہے، چوں کہ وہ لاش پوری طرح جل چکی تھی؛اس لیے زین الحق کے اہلِ خانہ اس لاش کی شناخت نہ کرسکے، پھرجب مقامی انتظامیہ کی جانب سے انٹرنیٹ سروس شروع کی گئی، توسوشل میڈیاپر ایک ویڈیووائرل ہوئی، جس میں ایک بھیڑزین الحق انصاری کو ماررہی تھی اور اس طرح مظفر پورصدر ہسپتال میں پڑی لاش کی زین الحق کے طورپر شناخت کی جاسکی، ایک سینسرڈویڈیوکے حوالے سے کہاجارہاہے کہ پہلے زین الحق کی گردن کاٹی گئی، پھر انھیں جلانے کی کوشش کی گئی، یہ ویڈیوایک نیوز پورٹل’’ملت ٹائمس‘‘کے ذریعے نشر کی گئی تھی، جس کے بعد پٹنہ پولیس نے پورٹل کے نام ایک نوٹس بھی جاری کیاہے۔ لاش کی شناخت کے بعد مظفر پورپولیس نے مرحوم انصاری کے اہلِ خانہ پر دباؤڈالاکہ ان کی لاش گاؤں لے جانے کی بجاے مظفر پور میں ہی دفنادی جائے، پولیس کے اس غیر ذمے دارانہ، سفاکانہ عمل کی وجہ سے لوگوں میں شدید بے چینی پیدا ہوئی، اسی کے بعد سیتامڑھی پولیس نے دعویٰ کیاکہ اس نے اس معاملے سے متعلق کچھ مشتبہ افراد کو گرفتار کیاہے۔ (اس سلسلے میں دی کوئنٹ، انگریزی سے رجوع کیاجاسکتاہے، جس نے زین الحق انصاری کے قتل پر2؍نومبر کوایک رپورٹ شائع کی تھی، اس میں انصاری کے قتل کی کچھ دلخراش تصاویر بھی دکھائی گئی تھیں )

بہار میں فرقہ وارانہ فسادمیں اضافہ:

حالیہ چند سالوں کے دوران، بہ طور خاص جب نتیش کمارنے جولائی2013ء میں بی جے پی سے علیحدگی اختیار کی تھی، تب سے بہار میں متعدد فرقہ وارانہ فسادات رونما ہوچکے ہیں، نومبر 2015ء میں انھوں نے آرجے ڈی اور کانگریس سے ایکا کرکے پھر سے حکومت بنالی، جبکہ جولائی2017ء میں انھوں نے کانگریس اور آر جے ڈی کو الوداع کہااور دوبارہ این ڈی اے کے خیمے میں پناہ گزیں ہوکر اپنی وزارتِ اعلیٰ کی کرسی بچالی۔ اس سال جنوری سے لے کر اپریل تک ریاست کے مختلف خطوں میں سلسلہ وار فرقہ وارانہ فسادات رونما ہوئے ہیں، بھاگلپور میں اس کی شروعات17؍مارچ 2018ء کو ارجیت شاشوت کی سربراہی میں ایک فتنہ انگیزجلوس نکالنے کی وجہ سے ہوئی، یہ صاحب وفاقی وزیر اشونی چوبے کے بیٹے ہیں، پھر فروری میں آر ایس ایس چیف موہن بھاگوت نے بہار کا دورہ کیا اور کئی دن تک مظفر پور میں ڈیرہ ڈالے رہے، وہاں انھوں نے بھی اپنے بیان میں کہاکہ آرایس ایس کے مسلح ارکان(ملیشیا) ہندوستانی فوج کے بالمقابل زیادہ فعال و طاقت ور ہیں۔

’’دی وائر‘‘انگریزی میں شائع شدہ اپنے 2؍اپریل اور8؍فروری کے کالموں میں میں نے لکھاتھاکہ بہار کے وہ علاقے، جہاں سے اسمبلی و لوک سبھا کے لیے مسلم امیدوار منتخب ہوتے رہے ہیں، ان کے فرقہ وارانہ فسادات کے نشانے پر آنے کے زیادہ امکانات ہیں، سیتامڑھی اور شیوہر بہار کے ایسے ہی علاقوں میں شامل ہیں، یہاں سے بہ یک وقت ایک سے زائد مسلم ایم پی، ایم ایل اے منتخب ہونے کی ایک طویل تاریخ ہے۔ نتیش کمارکی سربراہی میں چلنے والی بی جے پی کی حلیف حکومت ایسا لگتاہے کہ جان بوجھ کرانتظامی مشنری کو ڈھیل دے چکی ہے، موجودہ سلسلۂ فسادات کے متاثرین کے زخموں پر نمک چھڑکتے ہوئے ہوئے بھاگلپورکے تاریخی فسادات(1989ء)کے مشتبہ کردار، اس وقت کے بھاگلپور کے ایس پی کے ایس دِویدی کومارچ2018ء میں بہار کے ڈی جی پی کے طورپر ترقی دے دی گئی ہے، اس کی وجہ سے بھی حکومت پر کافی تنقیدیں ہورہی ہیں۔

قومی میڈیاکی خاموشی، چند سیاسی و سماجی کارکنان کی صداے احتجاج:

سیتامڑھی کے کچھ سیاسی کارکنان نے سوشل میڈیااور مقامی میڈیامیں اپنی آواز بلند کرنا شروع کی ہے، انہی میں سے ایک تنویر عالم ہیں، جنھوں نے سیتامڑھی کے حالیہ فسادات کے سلسلے میں مقامی انتظامیہ پر متعدد سوالات اٹھائے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ سیتامڑھی کے موجودہ ایس پی وکاس برمن پر کیسے اعتمادکرلیاگیاکہ وہ سیتامڑھی کی فرقہ وارانہ کشیدگی کو قابو کرسکتے ہیں ؛حالاں کہ ان کے مطابق وہ نوادہ کے ایس پی رہتے ہوئے 2016-17ء میں دومرتبہ رونما ہونے والے فسادات پر قابو پانے میں ناکام رہے ہیں، نوادہ بی جے پی کے فائر برانڈ لیڈراور مودی کابینہ میں وزیر گری راج سنگھ کا لوک سبھا حلقہ ہے، ان کے علاوہ نوادہ میں دویادولیڈر، جن میں سے ایک آرجے ڈی اور دوسرے جے ڈی یوسے ہیں، وہ مسلمانوں کاووٹ بٹورنے کے لیے آپس میں مقابلہ آرائی کرتے رہتے ہیں، جس کی وجہ سے یہ پورا خطہ مستقل طورپر فرقہ وارانہ کشیدگی سے دوچار ہوگیاہے۔ (اس سلسلے میں بی بی سی ہندی پر2؍اپریل 2018ء کورجنیش کمارکی تفصیلی رپورٹ شائع ہوئی تھی)ایساکہاجاتاہے کہ فساد کے دوران نوادہ پولیس نے جے ڈی یو ایم ایل سی سلمان راغب کے اہلِ خانہ کے ساتھ بھی زیادتی کی، جبکہ مقامی مسلمانوں کا الزام ہے کہ سلمان راغب نے اپنی سیاسی پوزیشن کے تحفظ کی خاطر خاموشی اختیار کیے رکھی، وہ اپنے لیڈرنتیش کمار کوکسی مصیبت میں نہیں ڈالنا چاہتے تھے۔ ایک دوسرے سیاسی کارکن شمس شاہنواز، جو آیندہ اسمبلی الیکشن میں سیتامڑھی کی کسی سیٹ سے الیکشن لڑنے کے تئیں پرجوش ہیں، انھوں نے قومی اقلیتی کمیشن میں شکایت درج کی ہے اوراس معاملے کی تفتیش کا مطالبہ کیاہے، ان کا کہناہے کہ مرحوم زین الحق انصاری کے اہلِ خانہ کو محض معاوضہ دینا کافی نہیں ہے، ان کے قاتلوں کو ہر حال میں گرفتار کیاجاناچاہیے، قابلِ ذکر ہے کہ حکومت کی جانب سے مقتول انصاری کے اہلِ خانہ کو پانچ لاکھ روپے معاوضے کی پیش کش کی گئی ہے۔

کانگریس اور آرجے ڈی کی خاموشی:کیامسلمان سیاسی اچھوت ہیں؟

اس پورے معاملے میں حیرت ناک امر یہ ہے کہ اپوزیشن لیڈرتیجسوی یادونے اب تک اس پر کوئی بیان تک نہیں دیاہے، نہ ان کی طرف سے کوئی ٹوئٹ آیاہے، کیااس سے یہ ثابت نہیں ہوتاکہ ہندوتواحملوں اور مظالم کے معاملے میں مسلمان سیاسی طورپراچھوت ہیں ؟یہ بھی ذہن میں رہے کہ آر جے ڈی ہمیشہ سے مسلمانوں کے تئیں زیادہ دوستانہ رویہ رکھنے والی پارٹی سمجھی جاتی رہی ہے، اکتوبر1992ء میں جب لالووزیر اعلیٰ تھے، تو انھوں نے فسادات کو روکنے کے لیے خود سیتامڑھی میں کیمپ کیاتھا، اسی زمانے میں ان کاایک بیان مشہور ہواتھاکہ اگر یادواپنی برادری کے فرد کو بہار کے وزیر اعلی کے طورپربرقراررکھناچاہتے ہیں، تواگرایک مسلمان کو بچانے کے لیے دس یادوکو اپنی قربانی دینی پڑے، پھربھی انھیں اس سے دریغ نہیں کرنا چاہیے، تب سے لگ بھگ بیس سال تک بہار میں کوئی بڑا فرقہ وارانہ فساد رونما نہیں ہوا، ہاں یہ سچ ہے کہ سیتامڑھی و بھاگلپور فسادات کے ملزموں کی گرفتاری کے سلسلے میں لالو نے بدعہدی کا مظاہرہ کیا، انھوں نے آئی آرایس، ایس آر اڈیگ( S. R. Adige)کے ذریعے سیتامڑھی فسادات کی قانونی جانچ کا اعلان کیا، مگر افسوس کہ وہ بس اعلان ہی رہ گیا، بالکل اسی طرح کا اعلان 1946-47ء میں اس وقت کے بہار کے وزیر اعظم شری کرشنا نے کیاتھاکہ پٹنہ ہائی کورٹ کے جج ڈیوڈازرارابن( David Ezra Reuben)کے ذریعے فسادات کی قانونی انکوائری کروائی جائے گی اور وہ محض اعلان ثابت ہواتھا، حتی کہ ہندوستان میں اب تک کبھی، کسی بھی فرقہ وارانہ فساد میں ملزمین کی گرفتاری عمل میں نہیں آئی ہے۔

بھاگلپور(1989ء)اور سیتامڑھی۔ ریگا(1992ء)فسادات کے کئی ملزمان کے بارے میں کہاجاتاہے کہ وہ یادو تھے، جو آرجے ڈی کے بنیادی سیاسی سپورٹر ہیں ؛بلکہ ان میں سے بعض کلیدی ملزم مثلاً کامیشور یادو، جو بھاگلپورفساد کامشہور ملزم تھا، اسے باقاعدہ آرجے ڈی کی پشتیبانی حاصل تھی، لالو۔ رابری حکومت ریاست کی بدنظمی (خاص کر گاڑیاں چھیننااورپیسہ اینٹھنے کے لیے لوگوں کواغواکرناجیسے معاملات)کو سنبھالنے اور دلتوں کے قتل عام کو روکنے میں ناکام رہی، البتہ اس حکومت نے فرقہ وارانہ فسادات کو قابو کیے رکھا۔ اس کا ایک انتخابی پہلو بھی تھا، جوایم وائی(مسلم۔ یادو)کے طورپر پولرائزکیاگیا، یہ آرجے ڈی کا نہایت مضبوط و غیر متزلزلsupport-base رہاہے، ریاست میں مسلمان(کل آبادی17فیصد)اور یادو(کل آبادی12فیصد)مل کر آرجے ڈی کوایک مضبوط وبنیادی انتخابی و سیاسی سپورٹفراہم کرتے ہیں، اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ مقامی اخباروں اور سیاسی کارکنان کے اندازے کے مطابق ریاست بھر میں مسلم یادوفیکٹر کا تناسب40.70فیصدہے، مگراس کے باوجود تیجسوی یادوکا سیتامڑھی فساد پر کوئی توجہ نہ دینا یقیناً حیران کن ہے۔

البتہ کانگریس کی حیثیت بہار میں حاشیائی ہے، جواب بھی ریاست کے بھومیہاراور برہمنوں کی حمایت حاصل کرنے کے لیے جے ڈی یو اور بی جے پی سے مقابلہ آراہے اور اس معاملے میں قطعی غیر متعلق رہی ہے، دوسری طرف اسی سال مارچ کے مہینے میں ایک کانگریسی لیڈر کے ذریعے اورنگ آباد (مگدھ کے علاقے )میں ایک پرتشددہجوم کی قیادت کیے جانے کے معاملے پر اس پر سوالات کھڑے کیے گئے ہیں کہ اس نے اپنے لیڈر کے تئیں نرمی کا مظاہرہ کیااوراس کی حمایت میں کھڑی رہی۔ (بی بی سی ہندی، یکم اپریل2018ء، رپورٹ ازراکیش کمار)بہار کانگریس انچارج شکتی سنگھ گوہل نے آنند شنکر کے خلاف لگائے گئے الزامات کی جانچ کے لیے اندرونِ پارٹی ایک انکوائری کروائی، جوابھی تک سامنے نہیں آئی ہے اور شنکر اب بھی پارٹی کے رکن ہیں، جس پر کئی سماجی و سیاسی کارکنان نے اعتراضات بھی کیے ہیں۔

ملی تنظیموں اور قائدین کا معاملہ:

امارت شرعیہ نے ہمیشہ فساد متاثرین کے درمیان ریلیف و راحت رسانی کاکام کیاہے، یہ ادارہ مسلمانوں کے ہی تعاون پرچلتاہے، حالیہ سالوں میں اس ادارے کاکردار ناقص رہاہے، لوگوں کا الزام ہے کہ اس کے ذمے داروں نے حالیہ سالوں کے دوران رونما ہونے والے زیادہ تر فرقہ وارانہ فسادات میں خاموشی کو ترجیح دی ہے۔ 30؍اکتوبر کو امارت کے ایک وفد نے سیتامڑھی کا دورہ کیا، مگر اس وفد کے ساتھ کوئی ماہر قانون یاسماجی کارکن نہیں تھا، جوایک معقول و قابلِ اعتبار فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ تیار کرتا، یہ امر بھی قابلِ ذکرہے کہ امیر شریعت مولانا محمد ولی رحمانی آل انڈیامسلم پرسنل لابورڈ کے سکریٹری بھی ہیں، جوسپریم کورٹ میں ایک مجلس کی تین طلاق کے سلسلے میں ایک فریق تھااوراس میں اسے شکست ہوئی، اس کے بعد بورڈ کی جانب سے ملک کے اکثرشہروں میں سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف سلسلہ وارجلسے کیے گئے، جس کی انتہا15؍اپریل کو پٹنہ میں ’’دین بچاؤ، دیش بچاؤ‘‘ریلی پر ہوئی، اسی شام مولاناکے قریبی معاون خالد انورجے ڈی یو کی جانب سے ایم ایل سی نامزد کیے گئے، وہ اس ریلی کے کنوینر بھی تھے۔ اس کے بعد عام طورپر یہ کہاگیاکہ مولانارحمانی اور نتیش کمار کے باہمی تعلقات کھل کر سامنے آگئے ہیں، یہیں سے یہ تصویر بھی سامنے آتی ہے کہ امارت نے تشدد کے واقعات میں خاموشی اختیار کرکے مبینہ طورپر این ڈی اے کی حمایت کی ہے؛کیوں کہ وہ نتیش کماراور ان کی بدانتظام حکومت کے لیے کوئی مشکل کھڑی نہیں کرنا چاہتی، یہی وجہ ہے کہ اس کی جانب سے سیتامڑھی فساد کے معاملے میں کسی قسم کی عدالتی کارروائی کی امید نہیں کی جاسکتی۔ ادارۂ شرعیہ بھی ایسی ہی ایک تنظیم ہے، جو مسلمانوں کے سیاسی و ثقافتی معاملات میں نمایندگی کے دعوے کرتی ہے، یہ تنظیم بھی اب تک جائے حادثہ پر نہیں دیکھی گئی ہے، بہار کے ایسے اضلاع کے پڑھے لکھے پروفیشنلز افراد بھی ملک بھر میں موجود سماجی تنظیموں کے ساتھ مل کر اس قسم کے شعبے میں کام کرنے کے لیے تیار نظر نہیں آتے۔

ایسا لگتا ہے کہ بہار اور دہلی کی موجودہ حکومتوں کی خواہش یہ ہے کہ فرقہ وارانہ فسادات کی ہانڈی اُبلتی ہی رہے، حالیہ حکومت میں بری طرح ناکام رہنے والی این ڈی اے کو ایسا لگنے لگاہے کہ ووٹرز کوفرقہ وارانہ طورپر پولرائزکرنے، مسلمانوں کے خلاف نفرت کوبڑھاوادینے اور اس کے لیے ہندووں کو اکٹھاکیے بغیر دوبارہ حکومت ملنے کی کوئی امید نہیں ہے؛کیوں کہ رافیل ڈیل کی بدعنوانی، سی بی آئی میں اکھاڑ پچھاڑ، بھگوڑے سرمایہ داروصنعت کار اور بہت سے معاملات نے موجودہ حکومت کو مایوس کردیاہے، اسی وجہ سے پوری ڈھٹائی کے ساتھ سماج کو بانٹنے اور فرقہ وارانہ خطوط پر تقسیم کرنے والے منصوبوں پر کام شروع کردیاگیاہے۔ اس ساری صورتِ حال کے بیچ ایک اہم سوال یا موضوعِ بحث یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیااس ملک کے ووٹرزموجودہ حکومت کے ان گھناؤنے کھیلوں کو بہ چشمِ ہوش دیکھ رہے ہیں ؟کیوں کہ آیندہ الیکشن کے دوران اسی کی روشنی میں ہندوستانیوں کی قسمت کا فیصلہ ہوگا۔

(مضمون نگار علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے سینٹرآف ایڈوانسڈسٹڈی اِن ہسٹری میں پروفیسر ہیں، مختلف سیاسی و سماجی موضوعات پر ان کے مضامین شائع ہوتے رہتے ہیں، بہار کی سیاست، بہ طورِخاص مسلم سیاست پر گہری نظر رکھتے ہیں، اس تعلق سے ان کی کتابیں بھی شائع ہوچکی ہیں۔ زیرِ نظرمضمونsabrangindia.inپر شائع ہواہے)

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔