بہارمیں فرقہ پرستی کا مقابلہ جمہوریت سے ہے!

عبدالعزیز

  بہار میں اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ نتیش کمار اور لالو پرساد کے درمیان مقابلہ ہے تو انتہائی غلط سمجھتا ہے۔ حقیقت میں مقابلہ فرقہ پرستی و فسطائیت کا سیکولرزم اور جمہوریت سے ہے۔ نتیش کمار لالو پرساد کو شکست دینے کیلئے پہلے بی جے پی جیسی فرقہ پرست اور فسطائی طاقت سے ہاتھ ملایا۔ ایک دو سال نہیں کئی سالوں تک نتیش کمار بی جے پی کے دم چھلا بنے رہے۔ جب مرکز میں بی جے پی کی حکومت تھی اور گجرات میں نریندر مودی کی سرکار تھی تو 2002ء میں گجرات میں مسلمانوں کا قتل و خون ہوا اور اتنے بڑے پیمانے پر ہوا کہ اٹل بہاری باجپئی جیسے جن سنگھی نے اعلانیہ کہا کہ مودی کو گجرات سے ہٹانا چاہئے کیونکہ وہ راج دھرم کا پالن (پابندی) نہ کرسکے۔ یہ دوسری بات ہے کہ اڈوانی اور جیٹلی نریندر مودی کیلئے دیوار بن گئے اور وہ دیوار گرنے سے بچ گئی۔ اسی زمانہ میں نتیش کی پارٹی جے ڈی یو کے جارج فرنانڈیز نے جو این ڈی اے سرکار میں وزیر دفاع تھے ایک سوال کے جواب میں پارلیمنٹ میں کہا کہ گجرات میں کسی مسلم عورت کے پیٹ سے بچہ نکال کر اگر دو ٹکڑے کر دیا گیا تو کون سی آفت آگئی، ایسا تو پہلے بھی ہوتا رہا ہے۔ یہ جارج فرنانڈیز نتیش کمار کی پارٹی کے بڑے یا سب سے بڑے نیتا تھے۔

نتیش کمار نے اس پر نہ کسی رد عمل کا اظہار کیا اور نہ ہی گجرات کے خونی فسادات پر منہ کھولا لیکن جب نریندر مودی کے خلاف پورے ملک میں مسلمانوں کے غصے اور ناراضگی کو دیکھا تو مودی سرکار نے جو بہار کے سیلاب کے موقع پر ریلیف بھجوایا تھا اسے واپس کردیا تاکہ مسلمان خوش ہوجائیں پھر جب مودی کو وزیر اعظم کا امیدوار بنایا گیا تو بی جے پی سے اس قدر ناراض ہوئے کہ این ڈی اے یا بی جے پی سے ناطہ توڑ لیا اور لالو پرساد کی حمایت سے بہار کے دوبارہ وزیر اعلیٰ منتخب ہوئے۔ کانگریس نے بھی حمایت کی۔ الیکشن کا زمانہ آیا تو جے ڈی یو، آر جے ڈی اور کانگریس کا اتحاد وجود میں آیا اور یہ اتحاد فسطائیت اور فرقہ پرستی کے مقابلہ کیلئے بنا۔ اس وقت نتیش کمار نے اعلان کیا کہ وہ بی جے پی جیسی فرقہ پرست اور فسطائی پارٹی سے کبھی کوئی رشتہ نہیں رکھیں گے۔ یہ بھی کہاکہ بی جے پی کے معنی ’بڑا جھُٹّا پارٹی‘ (Bسے بڑا، J سے جھوٹا، P سے پارٹی)۔ اب اسی بڑا جھٹا پارٹی اور فسطائی اور فرقہ پرست پارٹی کے ساتھ مل کر ’مہا گٹھ بندھن‘ (عظیم اتحاد) کی حکومت کو راتوں رات ختم کر دیا اور بہانہ یہ ڈھونڈا کہ لالو پرساد کے بیٹے تیجسوی یادو کے خلاف جو کرپشن کا الزام لگا ہے اور سی بی آئی (موجودہ مرکزی حکومت کا ہتھیار) نے جو ایف آئی آر درج کیا ہے اسے تیجسوی یادو عوام کے سامنے تشریح (Explaim) نہ کرسکے جس کی وجہ سے انھوں نے بی جے پی یا نریندر مودی سے ہاتھ ملالیا۔ یہ عذر لنگ (Lame Euxcuse) کے سوا کچھ نہیں ہے۔

  8نومبر 2016ء کو نوٹ بندی کا اعلان ہوا تمام اپوزیشن پارٹیوں نے اس کی مخالفت کی مگر نتیش کمار نے حمایت کی۔ اسی طرح غیر ترمیم شدہ جی ایس ٹی (GST) کی بھی حمایت کا اظہار کیا۔ ایک طرف یہ کرتے رہے اور دوسری طرف کہتے رہے کہ وہ اپوزیشن کے ساتھ ہیں ۔ مہا گٹھ بندھن کی حکومت کو کوئی خطرہ نہیں ۔ جب تمام اپوزیشن پارٹیاں ایک ساتھ ہوگئیں تو نریندر مودی سے نتیش کی ملاقاتیں پہلے سے زیادہ ہونے لگیں اور سونیا گاندھی یا راہل گاندھی سے ملنا یا ملاقات کرنا بھی گوارا نہیں ہوتا۔ اسی سال مودی کی دعوت دہلی میں ہوئی تو نتیش کمار بڑے شوق و ذوق سے دعوت میں شامل ہوئے۔ ایک روز پہلے تمام اپوزیشن پارٹیوں کو سونیا گاندھی نے دعوت دی تو نتیش کمار کو وقت نہیں ملا۔ مودی او ر نتیش کی آنکھ مچولی ایک دو مہینہ سے نہیں بلکہ آٹھ نو مہینے سے ہوتی رہی۔ مودی جب پٹنہ آئے تو نتیش کے کاموں کی سراہنا کی اور نتیش کمار بھی مودی کی تعریف میں کوئی کمی نہیں کی۔

  اپوزیشن کے صدارتی امیدوار کیلئے نتیش کمار جوش و جذبہ دلاتے رہے مگر جس میٹنگ میں فیصلہ ہونا تھا اس میں شرکت کرنے میں معذرت کرلی اور جب بی جے پی نے اپنے صدارتی امیدوار رام ناتھ کووند کا اعلان کیا تو نتیش کمار نے کووند کو پہلے دن مبارکباد دی اور دوسرے دن حمایت کا اعلان کر دیا۔ نتیش کمار اس طرح کا کھیل کھیلتے اور جھوٹ بولتے رہے۔ جب پوری طرح جھوٹا ہوگئے تو بڑا جھٹا پارٹی یا این ڈی اے کا حصہ بن گئے اور اب اعلان کرنے میں ذرا بھی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کررہے ہیں کہ نریندر مودی جیسے لیڈر کا ہندستان میں کوئی مقابلہ نہیں کرسکتا۔ نتیش کمار نے جس وجہ سے بی جے پی سے ناطہ توڑا تھا آج وہ وجہ پہلے سے زیادہ پورے ملک میں نظر آرہی ہے۔ آج سارے ملک میں گجرات ماڈل کا نظارہ ہے۔

ایسے وقت میں اگر کوئی کہتا ہے کہ نتیش کمار نے بدعنوانی کی وجہ سے لالو پرساد سے دوری اختیار کی ہے تو اسے یاد رکھنا چاہئے کہ لالو پرساد سے ہی نہیں دوری اختیار کی ہے بلکہ ساری اپوزیشن پارٹیوں کے اتحاد سے دوری اختیار کی ہے۔ اپوزیشن کے اتحاد پر کرپشن کا چارج نہیں ہے بلکہ بی جے پی کی کئی حکومتوں مثلاً راجستھان کی وزیر اعلیٰ اور مدھیہ پردیش کے وزیر اعلیٰ کے علاوہ وزیر خارجہ سشما سوراج پر الزامات ہیں جن کے خلاف جے ڈی یو نے پارلیمنٹ میں اور بہار الیکشن میں بڑے بڑے سوالات اٹھائے تھے۔ بابری مسجد کے مقدمے میں سنگھ پریوار کے اچھے خاصے لیڈروں اور کچھ وزیروں کا نام شامل ہے۔ بی جے پی کے اندر ایم اپی اور ایم ایل اے ملا کر 855 افراد پر ڈکیتی، لوٹ کھسوٹ اور قتل کے الزامات ہیں ، ان پر مقدمے چل رہے ہیں ۔ نتیش کمار کے لڑکے پر بھی کرپشن کا الزام ہے۔ نتیش کمار کو یہ چیزیں سجھائی نہیں دے رہی ہیں ۔

جو لوگ بی جے پی کے حامی ہیں ان کی آنکھوں میں تو رتونی پہلے سے ہی ہے اور جو لوگ بی جے پی کے حامیوں کے حامی ہوتے جارہے ہیں وہ بھی رتونی کے شکار ہیں ۔ بلیا ضلع کے کوئی مولانا ہیں وہ بھی نتیش کے حامی ہوگئے ہیں اور اتنے بڑے حامی ہوگئے ہیں کہ نتیش بی جے پی کے ساتھ رہیں یا نہ رہیں وہ نہ فرقہ پرست ہیں ، نہ فسطائی ہیں نہ ظالم ہیں ، حالانکہ مولانا نے قرآن و حدیث میں پڑھا ہوگا کہ ظلم کا ساتھ دینے والا ظالم ہوتا ہے۔ ان سے کوئی پوچھے کہ بی جے پی یا سنگھ پریوار کا ظلم کم ہورہا ہے یا بڑھ رہا ہے، جس کے خلاف ملک کا غالب طبقہ ہے اور ساری اپوزیشن پارٹیاں ہیں ۔ اس وقت مسلمان اور دلت سنگھ پریوار کے ظلم کے سب سے زیادہ شکار ہیں ۔ مولانا شاید جے ڈی یو میں کوئی عہدیدار ہوں گے یا کچھ انھیں ملنے کی امید ہوگی۔ مسلمانوں کو چاہئے کہ ایسے علماء سو کا بائیکاٹ کریں ۔ ایسے لوگ ملت کے ناسور ہیں ۔

 بہار میں لالو پرساد نے حوصلہ مندی دکھائی ہے۔ مسلمانوں اور سارے انصاف پسند برادران وطن کو لالو کا ساتھ دینا چاہئے۔ جس طرح عظیم اتحاد کے موقع پر سب نے مل کر فسطائی طاقتوں کو ہرایا تھا پھر موقع آگیا ہے کہ بہار میں فسطائی طاقتوں نے پھر جو سر ابھارا ہے اسے شکست فاش دیں ۔  ایک بہروپیا جسے لالو پرساد ’’پلٹو مہاراج‘‘ کہتے ہیں وہ ان طاقتوں کے ساتھ ہوگیا ہے۔ اسے بھی سبق سکھانے کی ضرورت ہے۔ حقیقت میں بہروپیوں پر بھروسہ کرنا ہی نادانی ہوتی ہے کیونکہ ان کا کوئی کردار یا ضمیر نہیں ہوتا ۔ یہ بے شرم اور بے حیا ہوتے ہیں ۔ اسی لئے کہا گیا ہے کہ ’بے حیا باش ہر چہ خواہی کن‘ (بے حیا بن جاؤ جو چاہو کرو)۔ نتیش کمار جیسے لوگ بے حیا بھی ہوتے ہیں اور جھوٹے بھی ہوتے ہیں ۔ ایسے لوگ کبھی بھی قابل اعتماد نہیں ہوتے۔ یہ جھوٹوں اوربے حیاؤں کے گروہ یا ٹولی کے لوگ ہوتے ہیں چاہے جہاں بھی رہیں ۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔