بہار میں ایک صحافی کا قتل – ایک کا قاتل سب کا قاتل

بہار میں عظیم سیاسی اتحاد سے اپوزیشن کے علاوہ دوسروں کا بھی یہ خدشہ تھا کہ بہار میں لالو پرساد کی شمولیت کی وجہ سے نتیش کمار اچھی حکمرانی کرنے سے قاصر رہیں گے ۔ نتیش کمار الیکشن کے دوران جو دلیل دے رہے تھے اس سے سب کا منہ بند ہوجاتا تھا۔ وہ کہتے تھے کہ چند مہینے نہیں بلکہ ایک سال ہوگیا۔ لالو پرساد کی حمایت سے حکومت قائم ہے۔ جنگل راج جیسی چیز نظر آرہی ہے؟ حکومت واقعی ٹھیک چل رہی تھی۔ الیکشن کے بعد بھی بہار میں حکومت کا کام کاج ٹھیک طور سے ہی چل رہا تھا لیکن چند مہینوں سے کچھ ایسی چیزیں ہورہی ہیں جن کی وجہ سے نتیش کمار کی حکومت اپوزیشن کے نرغے میں آگئی ہے اور سب کو کہنے کا موقع مل گیا ہے کہ بہار جنگل راج کی طرف قدم بڑھا رہا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ بہار کے اندر ایسے لوگ دوسری ریاستوں کی طرح ہیں جن میں قانون اور حکومت کا ڈر بالکل نہیں ہوتا۔ جب چاہتے ہیں قانون اپنے ہاتھ میں لے لیتے ہیں۔ گیا میں راکی یادو نے صرف کار اوور ٹیک کی وجہ سے 19 سالہ ایک طالب علم آدتیہ کو گولیوں سے بھون دیا اور اسے ذرا بھی خوف نہیں تھا کہ وہ اس کی سزا بھگتے گا، شاید اس لئے کہ اس کی ماں جے ڈی یو کی ایم ایل سی ہے۔ باپ بھی شرپسندوں کے گروہ سے تعلق رکھتا ہے، جس کی وجہ سے اسے حکومت سے ذرا بھی خوف نہیں تھا۔ پولس کو اسے گرفتار کرنے میں تین دن لگ گئے۔ پولس حراست میں کئی روز تک رکھنا تھا مگر پولس نے عدالتی حراست میں دے کر صحیح کام نہیں کیا۔ قاتل کی ماں منورما دیوی کی بھی گرفتاری کئی دنوں کے بعد عمل میں آئی۔ اس سے پولس انتظامیہ کی کمزوری نظر آتی ہے۔ نوادہ سے آر جے ڈی کے ایم ایل اے راج بلب یادو جن پر عصمت دری کا الزام تھا تقریباً ایک ماہ کے بعد عدالت میں خود سپردگی کی۔
ان سب کے علاوہ سیوان میں ایک سینئر صحافی راج دیو رنجن کے بہیمانہ قتل نے پورے بہار کو ہلادیا۔ مقتول کے باپ رادھا چودھری نے اظہار خیال کیا ہے کہ انھیں مقامی پولس پر اعتماد نہیں ہے۔ چودھری صاحب کی بیوی اور مقتول کی ماں کا دعویٰ ہے کہ اس کے بیٹے نے جیل میں شہاب الدین اور آر جے ڈی کے ایک وزیر عبدالغفور کی ملاقات کی ایک تصویر کا اجراء کیا تھا جو اس کے قتل کا سبب بنا۔ نتیش کمار نے اپنی حکومت کو بدنامی سے بچانے کیلئے یہ کام اچھا کیا کہ صحافی کے قتل کا کیس سی بی آئی کے حوالے کرنے میں ذرا بھی پس و پیش سے کام نہیں لیا۔ آر جے ڈی کے سابق ایم پی شہاب الدین کی طرف بھی انگلی اٹھ رہی ہے کہ اس قتل میں ان کا ہاتھ ہوسکتا ہے۔ اب جبکہ سی بی آئی کے ہاتھ میں کیس دینے کا فیصلہ کر دیا گیا ہے تو یہی امید کی جاسکتی ہے کہ اصلی قاتل کا پتہ ضرور چل جائے گا اور سی بی آئی کے ذریعہ اسے سخت سے سخت سزا دلانے کی کوشش ضرور کی جائے گی۔ نتیش کمار نے راکی یادو کے سلسلے میں بھی مقتول کے متعلقین کو یقین دلایا ہے کہ بغیر کسی جانبداری کے تفتیش ہوگی اور تفتیش میں تاخیر سے کام نہیں لیا جائے گا۔ امید کی جاسکتی ہے کہ نتیش کمار کے حالیہ اقدام سے ان کے مخالفین کے منہ بند ہوجائیں گے اور نتیش کمار کی ناموری اور مقبولیت میں کمی نہیں ہوگی۔
عوام کے اندر بھی بیداری آنی چاہئے کہ ایک شخص جو کسی شخس کا ناحق قتل کرتا ہے وہ ساری انسانیت کے قتل کے مترادف ہوتا ہے۔ ایک کا قاتل سب کا قاتل ہوتا ہے۔ دنیا میں نوع انسانی کی زندگی کی بقا منحصر ہے اس پر کہ ہر انسان کے دل میں انسانوں کی جان کا احترام موجود ہو۔ ہر ایک دوسرے کی زندگی کی بقا و تحفظ میں مددگار بننے کا جذبہ رکھتا ہو۔ جو شخص ناحق کسی کی جان لیتا ہے وہ صرف ایک ہی فرد پر ظلم نہیں کرتا بلکہ یہ ثابت کرتا ہے کہ اس کا دل حیات انسانی کے احترام سے اور ہمدردی نوع کے جذبہ سے خالی ہے، لہٰذا وہ پوری انسانیت کا دشمن ہے کیونکہ اس کے اندر وہ صفت پائی جاتی ہے جو اگر تمام افراد انسانی میں پائی جائے تو پوری نوع کا خاتمہ ہوجائے۔ اس کے برعکس جو شخص انسان کی زندگی کے قیام میں مدد کرتا ہے وہ در حقیقت انسانیت کا حامی ہے کیونکہ اس میں وہ صفت پائی جاتی ہے جس پر انسانیت کی بقا کا انحصار ہے۔
عام طور پر جب کسی کا قتل ہوتا ہے یا کسی پر حملہ ہوتا ہے تو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ان پر نہیں ہوا بلکہ کسی اور پر ہوا اور یہ دوسرے کا معاملہ ہے یا پرایا معاملہ ہے۔ ایسا نہیں ہونا چاہئے۔ اگر ہر شخص اسے اپنا معاملہ سمجھنے لگے تو حملہ آوروں کی ہمت میں کمی آجائے گی۔ ہر حادثۂ قتل سارے انسانوں میں ایک ہلچل پیدا کر دے جب تک کہ اس کی سزا مکمل طور پر نہ دلائی جائے۔ ہر شخص محسوس کرے کہ وہ اس تحفظ سے محروم ہوگیا ہے جو اس کو اب تک حاصل تھا۔ قانون ہی سب کا محافظ ہے۔ اگر قانون منہدم ہوگیا تو مقتول قتل نہیں ہوا بلکہ ہر شخص قتل کی زد میں ہے۔ مسلمانوں کو خاص طور سے یہ بات یاد رکھنا چاہئے کہ کسی مقتول کے قصاص کے معاملے میں مقتول کے وارثوں یا حکام کی مدد کرنا بھی در حقیقت مقتول کو زندگی بخشتا ہے۔ اس لئے قرآن میں ارشاد ہے کہ قصاص میں زندگی ہے۔ جو سوسائٹی انسانی جان کا احترام نہ کرنے والوں کی جان کو محترم ٹھہراتی ہے وہ در اصل اپنے آستین میں سانپ پالتی ہے۔ ایک قاتل کی جان بچانا بہت سے بے گناہ انسانوں کی جانوں کو خطرے میں ڈالنے کے برابر ہوتا ہے۔ اسی لئے قاتل کو زندہ رہنے کا حق سلب ہوجاتا ہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔