بہار میں یونیورسٹی اساتذہ کی تقرری – سرکار اور کمیشن کا کھیل

صوبۂ بہار کی تمام یونی ورسٹیوں میں سارے سبجکٹ میں اساتذہ کی نصف سے زیادہ جگہیں خالی ہیں لیکن افسرشاہی اور حکومت کے رویے سے باصلاحیت امیدوار سڑکوں پر پھر رہے ہیں۔

صفدر امام قادری

                جس بات کا ڈر تھا، وہی ہوکر رہا۔ حکومتِ بہار نے صوبے کے کالجوں اور یونی ورسٹیوں میں ساڑھے تین ہزار سے زیادہ اساتذہ کی تقرری کے لیے چل رہے انٹرویو کو بیچ میں روک کر یہ اعلان کردیا کہ اب نئے سرے سے آسامیاں مشتہر کی جائیں گی اور پھر سے انٹرویو اور تقرری کا عمل آنے والے دنوں میں پورا کیا جائے گا۔ 2014ء میں بہار پبلک سروس کمیشن نے 3364؍اسسٹنٹ پروفیسر کی جگہیں مشتہر کی تھیں اور 2015ء سے انٹرویو کا عمل بھی شروع ہوا۔ میتھلی، انگریزی، فلسفہ، معاشیات، نفسیات، علم الحساب، فزکس اور کیمسٹری جیسے آٹھ مضامین کے انٹرویو مکمل ہوچکے ہیں۔ میتھلی میں 49؍کامیاب امیدواروں کی سفارش اور تقرری عمل میں آچکی ہے۔ تمام امیدوار یونی ورسٹیوں میں تنخواہ دار اساتذہ کی صف میں شامل ہوچکے ہیں۔ انگریزی کے کامیاب امیدواروں کے نتائج بھی سامنے آچکے ہیں لیکن ابھی ان کی تقرری نہیں ہوئی ہے۔ بقیہ چھے سبجکٹس کے نتائج سامنے نہیں آئے ہیں لیکن انٹرویو کا عمل پایۂ تکمیل تک پہنچ چکا ہے۔

                ہمارا ملک تنازعات کی کھیتی کے لیے مشہور ہے۔ اکثر غیر ضروری تنازعات ہوتے رہتے ہیں لیکن صوبۂ بہار کی یہ خاص بات ہے کہ یہاں برے فیصلوں میں تنازعہ نہ بھی ہو تو اچھے کاموں کے لیے تنازعات کا پیدا ہونا اور کورٹ کچہری کے دروازوں کا کھٹکھٹانا ایک عام بات ہے۔ اب سے پہلے بہار میں لکچررس کی آخری ویکنسی 1998ء میں ہوئی تھی جس کے نتائج کا اعلان 2003ء میں ہوا اورایک ہزار سے کم افراد یونی ورسٹیوں تک پہنچ سکے۔ 2014ء کا اشتہار سولہ برسوں کے بعد آیا تھا اور اس دوران کے باصلاحیت طالب علموں کے چہروں پر رونقیں واپس آگئیں تھیں۔ اشتہار اور انتخاب کے طریقۂ کار میں متعدد طرح کی خامیاں اور ناانصافیوں کے بیج پیوست تھے۔ اسی وجہ سے ہائی کورٹ تک بچوں کو پہنچنا پڑا۔

                اشتہار نکلنے کے تقریباً ایک سال بعد انٹرویو کا سلسلہ شروع ہونے کو آیا۔ انٹرویو سے پہلے بہار پبلک سروس کمیشن نے اخباروں میں جاری کئی طرح کے بیانات سے یہ واضح کیا کہ پہلے کم درخواستوں والے مضامین کے انٹرویو ہوں گے۔ سب سے پہلے میتھلی کا انٹرویو ہوا لیکن پھر داخلی کھیل تماشہ شروع ہوا ورنہ عربی، فارسی، پالی اور بعض کم درخواستوں والے سبجکٹس کے انٹرویو ہوتے۔ داخلی طور پہ اس کھیل تماشے میں کن وجوہات سے مضامین کا انتخاب اور ان کے انٹرویو لینے کے سلسلے کی تاریخیں مقرر ہوئیں، اس کے بارے میں بہار پبلک سروس کمیشن نے کبھی کچھ واضح نہیں کیا۔ کمیشن نے یہ بھی اعلان کیا کہ باری باری سے ہی وہ انٹرویو کا پراسس مکمل کرے گی۔ جہاں چالیس مضامین میں انٹرویو کا سلسلہ ہو وہاں یہ غیر دانش مندانہ بات ہوگی کہ ایک ایک مضمون کو لے کر انٹرویو کا کام پایۂ تکمیل تک پہنچایا جائے۔ اندازہ یہ ہے کہ کمیشن یا پردے سے حکومت ہی اس بات کے منتظر تھے کہ کسی باہری سبب سے یہ سلسلہ رک جائے ورنہ ایک سال کے انٹرویو میں صرف ایک سبجکٹ کے طلبا ہی یونی ورسٹی کے احاطے تک پہنچ سکے۔ ایسی حالت میں پانچ سات برس کی مہلت بھی شاید کم پڑے۔

                نتیش کمار کی حکومت جیسے ہی بہار میں برسرِ اقتدار ہوئی، اس نے پہلے سے موجود ادارہ یونی ورسٹی سروس کمیشن کو بند کردیا اور یہ اعلان کیا کہ تمام یونی ورسٹیوں کو تقرری کا اختیار دے کر بہ عجلت خالی پڑی آسامیوں کو بھرا جائے گا۔ 2006ء سے آٹھ برس بیتے، تب حکومت کو یونی ورسٹی اساتذہ کی تقرری کا خیال آیا۔ 2006ء میں حکومت نے سب سے پہلے خالی جگہوں کی تعداد کے تعین کے لیے کوششیں شروع کیں۔ حکومت نے ڈھائی ہزار سیٹیں یک مشت اس لیے حذف کرلیں کیوں کہ اس نے انٹرمیڈیٹ کی تعلیم کو کالجوں سے الگ کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ پٹنہ یونی ورسٹی کے چھے کالجوں کے ماسوا تمام کالجوں میں ہنوز انٹرمیڈیٹ کی پڑھائی جاری ہے۔ اسی وقت حکومت کی نیت پہ ہمیں شک ہوا تھا۔

                خیر، 3364؍جگہیں متعین ہوئیں۔ آٹھ برس کے بعد اعلان کرتے ہوئے حکومت کو اس بات کا خیال ہی نہیں رہا کہ ان آٹھ برسوں میں جو کئی ہزار اساتذہ سبک دوش ہوئے، ان کی جگہ پر بھی تقرری ہوجانی چاہیے اور ان کی آسامیاں بھی جوڑ لی جانی چاہیے۔ ایک اور بڑا قانونی مسئلہ اس دوران ابھر کر سامنے آیا کہ کئی دہائیوں سے بہار کے کالجوں اور یونی ورسٹیوں میں جو تقرریاں ہوئیں، ان میں بہ وجوہ ریزرویشن پالیسیوں کا خیال نہیں رکھا گیا تھا۔ اس سلسلے سے ڈھائی ہزار سے زیادہ ایسی جگہیں سامنے آئیں جن پر درج فہرست ذات اور پسماندہ آبادیوں کا حق تھا۔ حکومت نے 2014ء میں یہ اعلان کیا کہ موجودہ ویکنسی کے بعد بیک لاگ کے طور پر یہ آسامیاں بھری جائیں گی۔

                بہار کی تعلیم بالخصوص اعلا تعلیم کے سلسلے سے بہت ساری باتیں قومی سطح پر ہوتی رہتی ہیں۔ ہماری تعلیم کے معیار اور فارغین کی صلاحیت پر پوری دنیا میں تیر برسائے جاتے ہیں۔ کچھ حقیقت اور کچھ فسانے ہیں مگرکیا اس حقیقت سے انکار کیا جاسکتا ہے کہ گذشتہ ایک دہائی سے نتیش کمار کی حکومت نے اعلا تعلیم کے شعبے کو اپنی مکمل بے رخی سے اس جگہ پر پہنچا دیا ہے جہاں سے اسے واپس آنے میں نہ جانے اور کتنی دہائیاں لگ جائیں۔ تمام اعلا تعلیمی ادارے نصف سے زیادہ خالی جگہوں کی وجہ سے بے حال پڑے ہیں۔ ایسے کئی درجن کالج ہیں جہاں دو، تین یا چار اساتذہ ہیں۔ دس سے کم اساتذہ پر مشتمل تو شاید ایک سو سے زیادہ کالج ہیں۔ ہر کالج میں ہزاروں طالب علم داخلہ لیتے ہیں اور امتحان دیتے ہیں۔ کالج میں موجود اساتذہ چاہیں بھی تب بھی تدریس کا مکمل انتظام ناممکن ہے۔ حکومت نے رقم بچانے کے لیے پہلے سے ہی مقامی طور پر اساتذہ کی تقرری کا وقتی انتظام کرنے کا بھی کوئی ضابطہ نہیں بنایا۔ ایسی کھیتی سے اگر کوئی حکومت یہ چاہے کہ ابنائے روزگار پیدا ہوں تو وہ خام خیالی ہوگی۔

                حکومتِ بہار کو اعلا تعلیم کے استحکام کے لیے پتا نہیں کس جگہ سے صلاح و مشورے حاصل ہوتے ہیں۔ وائس چانسلر اب صوبے کے باہر کے افراد بڑی تعداد میں بننے لگے ہیں جنھیں بہار کے تعلیمی نظام اور مسائل سے واجبی واقفیت بھی نہیں ہوگی اور تین سال کے سنہرے دور کے بعد انھیں پھر اس صوبے کی تعلیم سے فطری طور پر کوئی مطلب بھی نہیں ہوگا۔ لکچرر شپ کے انتخاب کے طریقۂ کار میں 2014ء کے اشتہار میں یہ شق داخل کی گئی کہ جو شخص یو۔ جی۔ سی۔ کے ریگولیشن 2009ء کے تحت پی ایچ۔ ڈی۔ یافتہ ہوں گے انھیں پورے دس پوائنٹ دیے جائیں گے۔ مسئلہ یہ ہے کہ حکومتِ بہار نے اسے 2012ء کے نومبر میں نافذ کیا اور آج کی تاریخ تک بہار کی کسی یونی ورسٹی سے اس ریگولیشن کے تحت داخل طالب علم پی ایچ۔ ڈی۔ کا ایوارڈ یافتہ نہیں ہے۔ ایسے میں یہ صرف صوبۂ بہار سے باہر اور خاص طور سے سنٹرل یونی ورسٹی کے فارغین کو اضافی سہولت دینے کی کوشش تھی۔ اب اگر نئے سرے سے اشتہار آتا ہے تو اس شق کو لازمی طور پر ختم ہونا چاہیے۔

                بہار پبلک سروس کمیشن کے پچھلے اشتہار میں ریگولیشن 2009ء والوں پر بڑی مہربانیاں تھیں، انھیں نیٹ کے امتحان سے بھی فراغت تھی اور پوائنٹس بھی ملنے تھے۔ سوال یہ ہے کہ جس شخص نے ریگولیشن 2009ء سے پی ایچ۔ ڈی۔ کی اور نیٹ نہیں پاس کرنے کے باوجود وہ لکچرر شپ کے لیے اہلیت یافتہ ہے تو اسے الگ سے کیوں پوائنٹ دیے جائیں ؟ ایک کام کے لیے دو فائدے نہیں دیے جاسکتے۔ نیٹ اگر اہلیت کا پیمانہ ہے تو جس نے جے۔ آر۔ ایف۔ کیا، اسے اضافی پوائنٹس کیوں نہیں ملنے چاہئیں ؟ دوسری یونی ورسٹیوں میں اس کے لیے نمبر مقرر ہیں۔ نئے اشتہار میں اس کے لیے لازمی طور پر گنجایش پیدا کی جانی چاہیے۔ پورے ہندستان میں لکچرر شپ کی اہلیت میں تنقید و تحقیق سے براہِ راست وابستگی اور علمی کاموں میں انہماک کے نقطۂ نظر سے مطبوعات اور قومی یا بین الاقوامی سے می ناروں میں شرکت کو اہمیت دی جاتی ہے اور اس کے لیے بھی پوائنٹ مقرر ہوتے ہیں۔ بہار کی پچھلی ویکنسی میں اسے نظر انداز کیا گیا تھا۔ اب نئے سرے سے ویکنسی میں اس شق کو جوڑا جانا چاہیے۔

                اس بار امیدواروں کی تعداد ہر حال میں ایک لاکھ سے اوپر ہوگی۔ بہار پبلک سروس کمیشن کی رفتار ’نو دن چلے ڈھائی کوس‘کی ہے۔ اتنے امیدواروں کے انٹرویو لینے میں پانچ برس ضرور لگ جائیں گے۔ کیا ہی اچھا ہو کہ اترپردیش، راجستھان، مدھیہ پردیش اور مغربی بنگال کی طرح ایک ٹسٹ لے کر آسامیوں سے پانچ یا دس گنی تعداد کے امیدواروں کو منتخب کرلیا جائے جن کے انٹرویو لے کر بہت کم مدت میں ویران پڑے کالجوں اور یونی ورسٹیوں کو آباد کیا جاسکتا ہے۔ ضروری یہ ہے کہ حکومت افسرشاہی کے دائوں پیچ سے نکل کر صدق دل سے یونی ورسٹی کے لیے موزوں سب سے بہتر صلاحیت کے امیدواروں کو چنے اور انھیں بہار کے معصوم بچوں کو اعلا تعلیم کے بہترین زیور سے آراستہ کرنے کا موقع دے۔

 

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔