بیت المقدس: داستان درد و الم

ریاض فردوسی

’’پاکی ہے اس ذات کو جو لے گیا رات میں اپنے بندے کو مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک، جس کے گردا گرد ہم نے برکتیں رکھی ہیں، لے گیا (اپنے بندے کو)تاکہ ہم اپنی قدرت کی نشانیاں دکھائیں، بے شک اللہ سننے والا اور دیکھنے والا ہے۔ (بنی اسرائیل آیت، ۱۔ پارہ۔ 15)‘‘

ٹل نہ سکتے ٹھے اگرجنگ میں اڑ جاتے تھے

پائوں شیروں کے بھی میدان سے اکھڑ جاتے تھے

تجھ سے سرکش ہوا کوئی تو بگڑ جاتے تھے

تیغ کیا چیز ہے  ہم توپ سے لڑجاتے تھے

نقش توحید کا ہر دل پہ بٹھایا ہم نے

زیر خنجر بھی یہ پیغام سنایا ہم نے

کس کی ہیبت سے صنم سہمے ہوئے رہتے تھے

منہ کے بل گر کے ـ’’ھو اللہ احد ‘‘کہتے تھے

فلق نے دیکھ کر رنگ وفا نور آفریدوں کا

جبین پر مل لیا خون اسلامی شہیدوں کا

6دسمبر کی تاریخ ہم میں سے ہر ایک کو یاد ہوگی۔ آج سے پچیس برس قبل اسی تاریخ میں ایودھیا میں شر پسندوں اور شدت پسندوں کے ہاتھوں سے بابری مسجد شہید کے گئی تھی۔ دن کے اجالے میں کھلی جارحیت کا مظاہرہ کیا گیاتھا اوراللہ واحد کی عبا دت کے لیے بنائے گئے گھر کو مسمار کرکے زمیں بوس کر دیا گیا تھا۔ امسال6 دسمبر کو ایک اور حرکت کی گئی، جس سے دنیا بھر کے مسلمانوں نے اذیت محسوس کی اور ان کے دلوں میں اضطراب پیدا ہوا۔ اس تاریخ کوصدر امریکہ ٹرمپ نے اعلان کیا کہ وہ یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرتے ہوئے اپناسفارت خانہ تل ابیب سے یروشلم منتقل کر دیں گے۔ یہ کھلی ہوئی جارحیت اورانتہائی غیر منصفانہ اعلان تھا۔ چنانچہ پوری دنیا میں اس کی شدیدمذمت کی جارہی ہے۔ تمام ممالک نے صدر امریکہ کے اس فیصلہ کو رد کیا ہے اوراس سے اپنی عدم موافقت دکھاتے ہوئے یہ تشویش ظاہر کی ہے کہ اس فیصلے کے نہ صرف یہ کہ عالمی طور پر سنگین مضمرات ہوں گے، بلکہ مشرق وسطیٰ میں امن وسلا متی پر بھی منفی اثرات پڑیں گے۔ دو ہفتے ہونے کوہیں، اعلان کے دن سے آج تک پوری دنیا میں اس کے خلاف بڑے بڑے جلوس نکالے جا رہے ہیں اورزبردست مظاہرے ہو رہے ہیں۔ دنیا کے بیش تر ممالک نے، جن میں امریکہ کے حلیف ممالک بھی شامل ہیں، اس کی مخالفت کی ہے۔ حتیٰ کہ برطانیہ نے بھی اس سے عدم اتفاق کا اظہار کیا ہے، جس نے فلسطینی قدم کو دھوکہ دیتے ہوئے اعلان بالفور کے ذریعے عرب علاقوں کے قلب میں اسرائیل کے نام سے یہودیوں کے لیے علیحدہ ملک کی راہ ہموار کی تھی۔ یروشلم، جسے بیت المقدس بھی کہا جاتاٍہے، فلسطین کابڑا شہر ہے۔ اس کو یہو دیوں، عیسائیوں اور مسلمانوں، تینوں کے نزدیک مقدس مقام کی حیثیت حاصل ہے۔ وہاں ایسے آثار ہیں جن سے تینوں مذاہب کے لوگ عقیدت رکھتے ہیں۔

وہیں مسجد اقصیٰ اورمسجد قبتہ الصخرۃہیں، جو مسلمانوں کی عقیدت کامرکز ہیں۔ مسجد اقصیٰ مسلمانوں کا قبلئہ اول ہے، جس کی طرف رخ کرکے وہ مدینہ ہجرت کرنے کے بعد سترہ یا آٹھارہ مہینے تک نماز ادا کرتے رہے۔ مسجد حرام (مکہ مکرمہ)اور مسجد نبوی (مدینہ منورہ)کے بعد وہ تیسری مسجد ہے جس کی غیر معمولی فضیلت احادیث میں بیان کی گئی ہے۔ جہاں عبادت کرنے کی غرض سے سفر کرنا  نہ صرف جائز قرار دیاگیا ہے، بلکہ اس کابہت زیادہ اجر بیان کیا گیا ہے۔ اور سب سے بڑی بات یہ کہ ہجرت مدینہ سے قبل سفرمعراج کے موقع پر اللہ کے رسول ﷺکو پہلے مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ لے جایا گیا تھا، جہاں آپﷺ نے تمام انبیا ء علیہ الصلاۃالسلام کی امامت کی تھی، اس کے بعد وہیں سے آپﷺکو آسمانوں کی سیر کرائی گئی تھی اور سدرۃالمتنھیٰ تک لے جایا گیاتھا۔ بیت المقدس کو قرآن مجید میں بابرکت علاقہ کہا گیا ہے۔ یہ انبیاء کی سر زمین ہے۔ اس علاقے میں بہت سے انبیا ء مبعوث کیے گئے تھے۔ یہیں حضرت سلیمان ؑ کاتعمیر کردہ عبادت خانہ تھا، جسے بنی اسرائیل کے نزدیک قبلہ کی حیثیت حاصل تھی۔ یہی شہر حضرت عیسیٰؑ کی پیدائش کامقام اوران کی تبلیغ کامرکز تھا۔ الغرض بیت المقدس کو متعددپہلوئوں سے محترم ومتبرک مقام کی حیثیت حاصل ہے۔ فلسطین میں بیسویں صدی کے اوائل تک یہودیوں کی آبادی انتہائی قلیل تھی۔ ان کی تعداد کل آبادی کاپانچ فی صدبھی نہ تھی۔ خلافت عثمانیہ کے آخری زمانے میں یہود نے سلطان عبدالحمید کے سامنے پیش کش کی تھی کہ انہیں فلسطین میں بسنے کی اجازت دی جائے، اس کے بدلے وہ خلافت عثمانیہ کا تمام قرض ادا کریں گے، لیکن سلطان نے ان کی پیش کش کو حکارت کے ساتھ ٹھکرا دیا تھا اورکہاتھا کہ وہ فلسطین کی ایک انچ زمین بھی یہودیوں کو دینے کے روادار نہیں ہیں۔

لیکن جنگ عظیم اول کے دوران انگریزوں نے بیت المقدس اور فلسطین پرقبضہ ٍکرکے وہاں یہودیوں کو آباد ہونے کی اجازت دے دی۔ 1917ء میں جہاں یہودی آبادی صرف پچیس (۲۵)ہزار تھی، پانچ برس میں اڑتیس (۳۸)ہزار ہوگئی، یہاں تک کہ1939ء میں ان کی تعداد بڑھتے بڑھتے ساڑھے چار لاکھ تک پہنچ گئی۔ جنگ عظیم دوم کے زمانے میں جرمنی میں ہلٹر کے مظالم سے بھاگنے والے یہودی بہت بڑی تعداد میں فلسطین میں آباد ہونے لگے۔ 1948ء میں اسرائیلی ریاست کے قیام کاباقاعدہ اعلانکر دیا گیا۔ اس وقت سے اسرائیل نے فلسطین کے اصل باشندوں پر ظلم وستم کابازار گرم کررکھا ہے۔ ان پر ہر طرح کے مظالم ڈھائے جا رہے ہیں۔ انہیں ان کے گھر بار سے بے دخل کیاجا رہاہے اور انھیں دوسرے ممالک میں مہاجرت کی زندگی بسر کرنے پرمجبور کیا جا رہا ہے۔ 1948  ء میں پہلی عرب اسرائیل جنگ کے نتیجے میں اسرائیل فلسطین کے اٹھتر(۷۸)فیصد حصے پر قابض ہو گیاتھا، تا ہم مشرقی یروشلم (بیت المقدس اورغرب اردن کے علاقوں پر اردن کاقبضہ برقرار تھا۔ لیکن  ۱۹۶۸ء میں ہونے والی عرب اسرائیل جنگ میں اسرائیل نے بقیہ فلسطین اور بیت المقدس پر بھی اپنا تسلط جمالیا۔

بین الاقوامی قوانین کے مطابق مقبوضہ علاقوں میں کوئی تعمیرات نہیں کی جا سکتیں، لیکن اسرائیلان قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے فلسطین کے تمام علاقوں میں مسلسل یہودی کالونیاں بسا رہا ہے۔ قرآن مجید میں یہود کا تذکرہ بہت تفصیل سے آیا ہے۔ ان پر اللہ تعالیٰ نے بے شمارانعامات و احسانات کیے، انہیں دشمنوں کے مظالم سے نجات دی، ان کے لیے آسائش وآرام کی سہولتیں فراہم کیں، لیکن انہوں نے ہر موقع پر ناشکری کامظاہرہ کیا، انبیاء کی تعلیمات کاانکار کیا، انہیں جھٹلایااور ان کے قتل کے درپے ہوئے، چناچہ اللہ تعالیٰ نے دنیا میں ان پرذلت و خواری مسلط کر دی۔ قرآن کریم میں اللہ تعالی ٰارشاد فرماتا ہے۔   ’’ یہ جہاں بھی پائے گئے ان پر ذلت کی مار ہی پڑی۔ کہیں اللہ کے ذمہ یا انسانوں کے ذمہ میں پناہ مل گئی تو اور بات ہے۔ یہ اللہ کے غضب میں گھر چکے ہیں۔ ان پر محتاجی اور مغلوبی مسلط کر دی گئی ہے۔ ( سورہ : آل عمران :۱۱۲)

یہود کی تاریخ قرآن مجید کے اس بیان پر مہر تصدیق ثبت کرتی ہے۔ وہ جہاں بھی رہے وہاں انھوں نے فتنہ وفساد پھیلایا، مال و دولت کی حرص میں مبتلارہے، مکر و فریب سے کام لیا اور ظلم وستم کابازار گرم کیا۔ چناچہ مختلف حکم رانوں نے ان کی سرکوبی کی اور بڑے پیمانے پر ان کا قتل عام کیا۔ سورئہ بنی اسرائیل کی ابتدا میں واقعہ ء اسراء کے ذکر کے بعد ہی یہود کی تاریخ کے دو واقعات کا بیان ہے، جب ان کے فتنہ وفساد اور سرکشی کے نتیجے میں ان کا زبردست قتل عام ہوا تھا۔ ایک واقعہ چھٹی صدی قبل مسیح کاہے جب شاہ بابل بخت نصر نے ہیکل سلیمانی کو پیوند خاک کر دیا تھا اور یہودیوں کا زبردست قتل عام کیا تھااور ہزاروں کو جلاوطن کر دیا تھا۔ دوسرا واقعہ ۷۰ ء کا ہے، جب رومی جنرل ٹائٹس نے لاکھوں یہودیوں کو قتل کیا تھا اور اتنی ہی تعداد کو غلام بنا لیا تھا۔ فلسطین کی تا ریخ بتاتی ہے کہ جب بھی وہ مسلمانوں کے زیر حکومت رہا وہاں انھوں نے عدل و انصاف قائم کیا اور دیگر مذاہب کے ماننے والوں کو ان کے مقدس مقامات میں جانے اور اور وہاں عبادت کرنے میں کوئی روک ٹوک نہیں رکھی، لیکن جب یہود نے اس پر قبضہ کیا تو انھوں نے مسلمانوں پر ظلم ڈھانے میں کوئی کسرنہیں اٹھا رکھی۔ یہودیوں نے ظلم و بربریت کی نئی تا ریخ رقم کی ہے۔ ارض مقدس فلسطین پر یہود کے حالیہ قبضے کو ستر(۷۰) برس ہو گئے ہیں۔

اس عرصہ میں ہر دن مسلمانوں کے لیے قیامت بن کر آیا ہے، ہر صبح ظلم وستم کی نئی داستان لے کر طلوع ہوتی ہے۔ کون سا ظلم ہے جو ارض مقدس کے باسیوں پر روا نہیں رکھا گیا ہے۔ دوسری طرف اسرائیل کو عالمی طاقتوں، بالخصوص امریکہ کی پشت پناہی حاصل ہے۔ انھوں نے اس کی بہت زیادہ مالی اور فوجی مدد کی ہے اور اسے ہر قسم کاتعاون اور تحفظ فراہم کیا ہے۔ اسرائیل کے لیے امریکہ کی حمایت کوئی ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ سلامتی کونسل میں اسرائیل کے خلاف منظور ہونے والی قرار دادوں پر وہ ہمیشہ ویٹو کرتا رہا ہے اور اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی اور یو نیسکو میں فلسطین کی رکنیت کی مخالفت میں وہ پیش پیش رہاہے۔ امریکہ میں 1995 ء ہی میں ’’یروشلم ایمبسی ایکٹ‘‘کے نام سے قانون بن گیا تھا، جس میں کہا گیا تھا کہ یروشلم کو اسرائیل کا دار الحکومت تسلیم کرنا چاہیے اور امریکی سفارت خانے کو وہاں منتقل کر دینا چاہیے، لیکن صدارتی استثناء کے تحت یہ گنجائش رکھی گئی تھی کہ امریکہ کے سیکورٹی مفاد میں ہو تو صدر اس فیصلے کے نفاذ کو چھ(۶)ماہ کے لیے مئو خر کر سکتا ہے۔ اس کے تحت اس وقت کے صدر بل کلنٹن اور بعد کے صدور اس فیصلے کو برابر مئو خر کرتے چلے آرہے تھے، لیکن حالیہ صدر ٹرمپ نے الیکشن میں کیے گئے اپنے وعدہ کے مطابق اس کے نفاذ کا اعلان کیا ہے، اس طرح امریکہ دنیا کا پہلاملک بن گیا جس نے یروشلم میں اپنا سفارت خانہ کھولنے کو منظوری دی ہے۔ مقام شکر ہے کہ فلسطین کے غیور مسلمانوں نے تہیہ کر لیا ہے کہ وہ اس ظلم، غصب اور حق تلفی کو بر داشت نہیں کریں گے اور ارض فلسطین کی آزادی کے لیے مسلسل اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرتے رہیں گے۔ گزشتہ برسوں میں تحریک حماس نے فلسطینیوں کی ترجمانی کرتے ہوئے مزاحمت و مقابلہ اور شجاعت کی بے مثال داستانیں رقم کی ہیں۔ اس راہ میں جام شہادت نوش کرنے والے افراد بھی ہیں اور تحریک کے قائدین بھی۔ انھوں نے عزم کر رکھا ہے کہ وہ ارض مقدس کو صہونیوں کے ناپاک قبضے سے آزاد کراکے ہی دم لیں گے، چاہے اس راہ میں انہیں کتنی ہی جانوں کی قربانی پیش کرنی پڑے۔

اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے:ـــ’’مسلمانوں کی مثال ایک جسم کی سی ہے کہ اگر اس کے کسی عضو میں کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو پورا جسم اس متاثر ہوتا ہے اور بخار اور بے خوابی کا شکا ر ہو جاتا ہے۔ ‘‘(بخاری، مسلم) اس لیے ہم سب مسلمانوں کی ذمے داری ہے کہ فلسطین کے اپنے مظلوم بھائیوں سے یک جہتی کا اظہار کریں، اسرائیل کی صہیونی حکومت کے مظالم کو نمایاں کریں اور صدر ٹرمپ کے حالیہ فیصلے کے خلاف علم احتجاج بلند کریں۔ اگر ہم نے ایسا نہیں کیا تو وہ دن دور نہیں کہ ہم بھی انہیں سب حالات کے شکار ہونگے۔

’’ اے چشم اشک بار ذرا دیکھ تو لے

یہ گھر جو بہہ رہا ہے، کہیں تیرا گھر نہ ہو

ہر سمت مچلتی کرنوں نے اب شعلے شب غم توڑدیا

اب جاگ اٹھے ہیں دیوانے دنیا کو جگا کر دم لیں گے

یہ بات عیاں ہے دنیا پر ہم پھول بھی ہیں تلوار بھی ہیں

یا بزم جہاں مہکائیں گے یا خوں میں نہا کر دم لیں گے

سوچا ہے ریاض اب کچھ بھی ہوہر حال میں اپنا حق لیں گے

عزت سے جئے تو جی لیں گے یا جام شہادت پی لیں گے

تبصرے بند ہیں۔