بیت المقدس: مرجع علم و علماء

محمد شعبان ایوب

 ترجمہ: تنویر آفاقی

القدس شہر (بیت المقدس) کی تاریخ یہی نہیں ہے کہ وہ مذہبی اعتبار سے مرکز توجہ رہا ہے۔ یقیناً یہ وہ شہر ہے جہاں مسلمانوں کا قبلہ اول ہے اورمکہ و مدینہ کے بعد تیسرا حرم شریف ہونے کا اسے شرف حاصل ہے۔لیکن مشرق و مغرب سے آنے والے مسلمانوں کی آمد نے اس شہر کی مذہبی اہمیت کو اس لیے دوچند کر دیا تھا کہ یہ شہر اپنی پوری تاریخ میں اسلامی تہذیب کا ایک بڑا مرکز رہا ہے۔ یہ ایک ایسا اہم علمی و ثقافتی مرکز تھا جہاں لوگ دور دراز کا سفر کر کے آتے تھے۔

صلیبی نوّے برس تک اس شہر کی چھاتی پر سوار رہے۔۱۱۸۷ء/۵۸۳ہجری میں جب سلطان صلاح الدین ایوبی نے صلیبیوں سے بیت المقدس کو آزاد کرایا تو مسلمانوں کی نگاہ میں اس مقدس شہر کی کشش ایک بار پھر وہی ہو گئی، جو ان کی نگاہ میں مکہ و مدینہ کی ہے۔قابل ذکر بات یہ ہے کہ اس شہر کی تاریخ کا یہ وہ دور ہے جب مسلم خانوادوں سے تعلق رکھنے والے وفود یہاں آنے شروع ہوئے جنھیں علمی برتری حاصل تھی۔ یہ وفود عالم اسلام کے ہر گوشے سے یہاں آ رہے تھے۔

مثال کے طور پر عہد ایوبی اور عہد مملوکیہ میں بیت المقدس کے شہر میں شمالی افریقہ (بلادِ مغرب) سے علمی وفود اس کثرت سے وارد ہوئے کہ یہاں انھوں نے اپنا ایک محلہ آباد کر لیا جس کا وجود اتنا قدیم ہونے کے باوجود آج تک ہے اور اس کی جڑیں بڑی مضبوط ہیں۔ اس محلے کو حارۃ المغاربہ (مغربی محلہ) کہا جاتا ہے۔ تاریخ و ادب کی کتابوں میں ایسے سینکڑوں اہل علم و ادب کے نام محفوظ ہیں جو بلاد مغرب سے ہجرت کر کے حصولِ علم کی غرض سے یہاں آئے تھے۔ چنانچہ ”نفح الطیب من غصن الاندلس الرطیب“ میں بلاد مغرب سے تعلق رکھنے والے سینکڑوں علماء کے نام مذکور ہیں جو بیت المقدس کے مہمان ہوئے، اچھا مقام پایا اور علوم تفسیر و حدیث اور علوم فقہ میں نام کمایا۔ مسجد اقصی میں ان کے اپنے اپنے مخصوص علمی حلقے بنے ہوئے تھے جن سے استفادے کے لیے بیت المقدس کے شہری ذوق و شوق سے شریک ہوتے تھے۔اس حلقے کے علاوہ بڑی تعداد میں علمی مدارس و مکاتب بھی تھے۔

غالباً ان علمی شخصیات میں ایک مشہور ترین شخصیت علامہ ابوبکر محمد بن احمد البکری الشریشی المغربی کی تھی جنھیں بیت المقدس کا شیخ حرم مقرر کیا گیا تھا۔ علامہ جمال الدین الوائلی المغربی تھے، جنھیں عہد ایوبی میں بیت المقدس کے مدارس میں منصف تدریس پر فائز کیا گیا تھا۔ ایک شخصیت معروف و مشہور صوفی ابوعبداللہ القرشی الاندلسی کی تھی۔ یہ اندلس سے تشریف لائے تھے اورانھوں نے بیت المقدس کو ہی اپنا مستقر بنا لیا تھا۔ ان کے علوم و معارف اور وعظ و تصوف سے لوگ مستفیض ہوئے۔ لیکن محض ۵۵ برس کی عمر میں ان کا انتقال ہو گیا۔

بیت المقدس کی طرف ہجرت کرنے والے علماء کا تعلق صرف بلاد مغرب سے ہی نہیں تھا، بلکہ بلاد مشرق کے مختلف گوشوں سے بھی علماء کی آمد کا سلسلہ رہا۔اس دعوے کی دلیل اس واقعے سے زیادہ معتبر نہیں ہو سکتی جسے ابن اِیاس نے مملوک سلطان قایتبائی کے عہد میں وفات پانے والے علماء کے ضمن میں ذکر کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ”بیت المقدس سے مسجد اقصی کے امام شیخ سعداللہ الہندی الحنفی کے انتقال کی خبر آئی ہے۔“ لفظ ”الہندی“، جیسا کہ مورخ علی السید علی نے بھی اس جانب ذکر کیا ہے، سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ ان کا تعلق ہندستان سے تھا۔ گویا یہ بات ثابت شدہ ہے کہ اُس زمانے میں بیت المقدس نے مختلف نسلوں اور ملگوں سے تعلق رکھنے والے علماء کو اپنی جانب متوجہ کیا اور ان میں سے بیش تر وہ لوگ تھے جنھوں نے علمی و دینی اعتبار سے نمایاں مقام حاصل کیا، جیسا کہ علامہ ہندی کو مسجد اقصی کے امامت کا منصب حاصل تھا، بلکہ بعض دیگر تاریخی مصادر تو اس جانب اشارہ کرتے ہیں کہ عراقی علماء کی کثیر تعداد بیت المقدس میں وارد ہوئی اور اسے ہی اپنا مستقر بنایا۔ غالباً ان معزز عراقی علماء کی بیت المقدس کی طرف ہجرت کا سبب منگولوں کا عراق اورعالم اسلام کے مشرقی ممالک پر زبردست طریقے سے حملہ آور ہونا تھا۔مثال کے طور پر مشرقی آدربائجان کے شہر تبریز (Tabriz) سے بعض علماء بیت المقدس آئے اور اس شہر کو اپنی جائے سکونت بنا لیا، یہیں انھوں نے تدریس و قضاء کے عہدوں پررہ کر خدمات انجام دیں۔

شہر القدس کی جانب بڑی تعداد میں علماء اور ان کے خانوادوں کی کشش کا اہم سبب یہ تھا کہ یہاں کثیر تعداد میں علمی اوقاف، حدیث و فقہ اور تفسیر وغیرہ کے مدارس قائم تھے، جنھیں ایوبی دور اور مملوکی دور کے سلاطین نے قائم کیا تھا۔یہ اوقاف ہی دنیا کے ہر کونے سے آنے والے علماء کی مستقل تنخواہوں کے ضامن تھے۔ اس شہر میں آنے والے علماء میں سے مشہور ترین عالم جنھوں نے بیت المقدس کے علماء سے علم کا بڑا حاصہ حاصل کیا، مورخ و محدث علامہ شمس الدین الذہبی  (متوفیٰ: ۸۴۷ہجری/۱۳۴۷ء)،فقیہِ شام شہاب الدین ابن حجی (متوفی: ۸۱۶ ہجری/۱۴۱۳ء) اور مصر کے معروف و مشہور مفسر و مورخ علامہ بدرالدین العینی ہیں۔ بلکہ قرون وسطی کے مشہور محدث، یعنی علامہ ابن حجر العسقلانی نے بھی بیت المقدس کا سفر کیا اور اس وقت کے بیشتر علماء، مثلاً شمس الدین قلقشندی اور بدرالدین بن مکی سے علمی فیض حاصل کیا۔

بیت المقدس میں آباد علمی خانوادوں میں مشہور ترین خانوادے جن کے بعد ان کی اولاد نے علوم و معارف میں بڑا نام حاصل کیا، اور اہل قدس بلکہ اسلامی تہذیب کے نام ایک بے مثال علمی ورثہ چھوڑا، ان میں سب سے پہلا نام بنو کیلکیدی کا خانوادہ آتا ہے۔ اس خانوادے کے علماء میں بھی سرفہرست نام صلاح الدین خلیل بن کیلکیدی العلائی کا ہے۔ ان کی اہم ترین کتابوں کے نام ‘شرح حدیث ذی الیدین’، ‘تنقیح المفہوم فی صبغ العلوم’ اور ‘المجموع المذہب فی قواعد المذہب’ ہیں۔

چھے صدی قبل بیت المقدس میں علمی اعتبار سے معرف خاندان بنو قلقشندی کا تھا۔ اس خاندان کے علماء میں سرفہرست نام شیخ تقی الدین القلقشندی (متوفی ۷۷۸ ہجری/۱۳۶۷ء) کا ہے۔ اس خاندان نے بڑے بڑے علماء کو جنم دیا، جو افتاء و تدریس کے مناصب پر فائز ہوئے اور جن کاعلوم حدیث میں اختصاص تھا۔ اسی لیے بیت المقدس کے عظیم محدثین کے طور پر انھیں شہرت حاصل تھی۔اسی طرح بنو جماعہ اور بنوالدیری کا خاندان بھی معروف تھا۔ بنو الدیری کی نسبت اس گاؤں کی طرف ہے جسے ‘الدیر’کہا جاتا ہے۔ یہ گاؤں نابلس کے تحت تھا۔غالباً اس خاندان کے مشہور ترین عالم شیخ سعدالدین الدیری الحنفی تھے، جو پندرہویں صدی عیسوی میں قاہرہ کے اعلی ترین منصبِ قضا پر فائز ہوئے۔ انھیں فقہ حنفی کا قاضی مقرر کیا گیا تھا۔ ان کی بہت سی مشہور کتابیں ہیں۔

ایک خاندان بنو قدامہ کا بھی تھا۔ یہ خاندان شہر القدس کا مشہور خاندان تھا جس نے فقہ اور افتاء کے میدان میں شہرت پائی تھی۔ اسی طرح علوم عربیہ اور علوم فرائض و میراث سے بھی اس خاندان کے علماء کو خاص دلچسپی تھی۔ اس خاندان کے مشہور ترین عالم شیخ تقی الدین بن قدامہ تھے۔اسی طرح بنو غانم کے خاندان کا شمار ان علمی خاندانوں میں کیا جاتا تھا جنھوں نے تاریخ بیت المقدس کی قدیم تاریخ  میں علمی و ثقافتی میدان میں اپنی دلچسپی کا مظاہرہ کیا۔ چنانچہ سلطان صلاح الدین ایوبی نے شیخ غانم المقدسی کو سلطان سے منسوب سے ‘خانقاہ صلاحیہ’ کا شیخ الشیوخ مقرر کیا تھا۔

ِشہر القدس کے اندر اس علمی بیداری اور اہل قدس اور اس وقت کے معروف علمی خانوادوں کے درمیان پائی جانی والی علمی مقابلہ آرائی کے نتیجے میں بڑی تعداد میں مختلف اسلامی علوم یعنی علوم قرآن، علوم حدیث، علوم فقہ، علوم تفسیر کے علاوہ سائنسی علوم مثلاً علوم طب وغیرہ سے متعلق کتابیں وجود میں آئیں۔ ایک ایسا شہر جو پندرہویں صدی ہجری میں عالم اسلام کے بڑے بڑے شہروں ، قاہرہ، دمشق اور بغداد کے مقابلے میں ایک چھوٹی سی بستی تھا، آبادی کے اعتبار سے بھی مختصر تھا اور رقبے کے اعتبار سے بھی چھوٹا سا تھا، اس شہر میں علماء اور علمی خانوادوں کی اتنی بڑی تعدادیہ بتاتی ہے کہ علمی و ثقافتی بیداری میں اس چھوٹے سے شہر کا کتنا بڑا کردار تھا اور تاریخ اسلام کے عہد وسطی میں یہ شہر علمی روشنی اور علمی تخلیقات کے اہم ترین مراکز میں سے ایک تھا۔    (الجزیرہ)

تبصرے بند ہیں۔