بیع باطل کیا ہے؟

شادمحمدشاد

 بیع باطل کا مفہوم:

بیع باطل وہ بیع ہے جو اپنی ذات  اور وصف دونوں کے اعتبار سے درست نہ ہو۔ یعنی بیع کے رکن(ایجاب و قبول) میں یا محل (بیچی جانے والی چیز یا قیمت ) میں کوئی خلل واقع ہو یا  ایسی شرعی خرابی پائی جائے۔

حکمِ شرعی:

بیع باطل کا حکم یہ ہے کہ یہ بیع شریعت کی نظر میں بالکل غیر معتبر اور ناجائز ہے۔ اس طرح کا وجود میں آنے والا معاملہ  کالعدم ہوتا ہے، لہذا اس کی وجہ سے خریدار خریدی ہوئی چیز کا مالک نہیں بنتا، نہ اُسے اپنے استعمال میں لاسکتا ہے اور نہ ہی آگے فروخت کرسکتا ہے، بلکہ اس کی وجہ سے وہ گناہ کا مرتکب ہوگا۔ اسی طرح فروخت کنندہ بھی بیچی ہوئی چیز کے بدلے ملنے والی رقم کا مالک نہیں بنتا ہے۔ ایسے معاملے کو فورا ختم کرنا ضروری ہے۔

بیع باطل کی قسمیں:

 بیع باطل کی دو قسمیں ہیں اور ہر قسم کے تحت چند صورتیں ہیں:

پہلی قسم:

  معاملہ کرنے والوں کے ایجاب و قبول (Offer and Acceptance)میں کوئی خرابی پائی جائے، جس کی وجہ سے عقد باطل قرار دیا جائے۔ اس کی درج ذیل صورتیں ہیں:

 1۔ معاملہ کرنے والے دونوں یا دونوں میں سے کوئی ایک مجنون ہو یا ناسمجھ بچہ ہو۔

 2۔ بیع کو کسی شرط پر معلق کیا جائے۔ مثلا یوں کہے کہ اگر فلاں آدمی آیا تو میں نے یہ چیز آپ کو بیچ دی یا آپ سے خرید لی۔ یا یوں کہے کہ اگر مجھے آج یا کل تنخواہ مل گئی تو یہ چیز میں نے آپ سے خرید لی۔ بیع کو کسی شرط پر معلق کرنا درست نہیں ہے۔

   3۔ بیع کو مستقبل کی کسی تاریخ کی طرف منسوب کیا جائے۔ مثلا یوں کہے کہ یہ چیز میں نے آپ کو آنے والے جمعہ کو بیچ دی۔ یا یوں کہہ دے کہ یہ چیز میں نے آپ سے آنے والی دس تاریخ کو خرید لی۔

 4۔ ایک ہی شخص خریدار بھی ہو اور فروخت کنندہ بھی  تو یہ بیع باطل ہے۔ مثلا زید نے عمر کو اپنی کوئی چیز بیچنے کے لیے وکیل بنادیا۔ عمر نے وہ چیز اپنے آپ کو ہی بیچ دی تو یہ بیع باطل ہے۔

  5۔ ایجاب (پیشکش)کے بعد دوسرے فریق کا قبول، ایجاب کے موافق نہ ہو۔ مثلا ایک فریق نے کہا کہ میں نے یہ چیز آپ کو سو روپے کے بدلے فروخت کی، دوسرا فریق کہے کہ میں نے یہ چیز آپ سے دس دینار میں خریدلی، یہ بیع منعقد نہ ہوگی۔

اسی طرح اگر ایک فریق ایجاب کرلے اور دوسرا فریق وہاں سے چلے جانے کے بعد قبول کرے یا پہلا فریق اپنے ایجاب سے رجوع کرلے اور دوسرا فریق اس کے بعد قبول کرلے تو یہ بیع بھی منعقد نہ ہوگی۔

دوسری قسم:

  وہ بیع جس میں کسی ایسی چیز کی خرید وفروخت کی جائے جو شریعت کی نظر میں قیمت والی چیز نہیں ہے۔ یا ثمن(قیمت)میں اس طرح کی چیز اداء کی جائے جو شریعت کی نظر میں قیمت والی نہیں ہے۔ اس کی درج ذیل صورتیں ہیں:

 1۔ شراب، خنزیر، مردار، بہنے والا خون اور آزاد آدمی کو بیچنا شرعا بیع باطل اور غیر معتبر ہے۔

2۔ کسی معدوم چیز کو بیچنا۔ مثلا کسی باغ میں ابھی پھل بالکل ظاہر ہی نہیں ہوئے اور ان کو کسی پر فروخت کیا جائے۔ یا کسی جانور کے پیٹ میں موجود بچے کو پیدائش سے پہلے فروخت کرنا، وغیرہ۔

3۔ ایسی چیز کو فروخت کرنا جس کا بیچنے والا ابھی تک مالک ہی نہیں بنا۔ جیسے ہوا میں اُڑنے والے پرندے کو پکڑنے واے پہلے بیچنا۔ یا پانی میں موجود مچھلی کو پکڑنے سے پہلے بیچنا، وغیرہ۔

 4۔ کسی ایسی چیز کو بیچنا جو متقوم نہ ہو۔ ’’متقوم ‘‘  کے دو مفہوم ہیں:ایک ہے متقومِ شرعی اور دوسرا ہے متقومِ عرفی۔ متقومِ شرعی کا مطلب یہ ہے کہ شريعت نے اس چيز سے فائدہ  اُٹھانےکو جائز قرار ديا ہو۔ اور متقومِ عرفی کا مطلب ہے ’’مالِ محرز‘‘ یعنی وہ مال جو  محفوظ ہو اوراس تک  آسانی سےرسائی ممکن ہو۔

 5۔ جانور کی تھن میں موجود دودھ اور پشت پر موجود اون کونکالنے سے پہلے بیچنا۔

   6۔ عقد اور ایجاب وقبول میں ایک چیز کا نام لیکر اسے بیچا جائے، لیکن حقیقت میں جو چیزخریدار کے سامنے ہو وہ مختلف ہو اور اس کی جنس بالکل الگ ہو۔ مثلا فروخت کنندہ کہے کہ میں نے آپ کو یہ یاقوت ایک ہزار روپے کے بدلے بیچ دیا، جبکہ حقیقت میں وہ یاقوت نہ ہو، بلکہ کانچ کاٹکڑا ہو۔ یا یوں کہے کہ میں نے یہ ریشم کا کپڑا آپ کو بیچا، جبکہ وہ کاٹن وغیرہ کا کپڑا تھا تو یہ بیع باطل ہے۔ البتہ اگر کپڑے کی جنس تو وہی ہو، لیکن صرف بناوٹ اور ڈیزائن میں فرق ہو تو یہ بیع درست ہے، لیکن خریدار کو بیع ختم کرنے کا اختیار حاصل ہوگا۔

مزید ایک اہم صورت:

ایک ہی عقدمیں دو ایسی چیزوں کو ملاکر فروخت کیا جائےجن میں سے ایک کی بیع شریعت کی نظر میں درست ہو اور دوسری چیز کی بیع درست نہ ہو۔ اس کے معاملے کی دو صورتیں ہیں:

1۔ دونوں چیزوں میں سے جس چیز کی بیع شریعت کی نظر میں درست نہیں ہےوہ غیر معلوم ہونے کی وجہ سے ہو، جیسے گھوڑی کا حمل۔ یا معدوم ہونے کی وجہ سے درست نہ ہوتو ایسی صورتوں بیچی جانے والی  میں دونوں چیزوں کی بیع باطل ہوجائیگی۔

2۔ جن دو چیزوں کو ملاکر فروخت کیا جارہا ہے وہ دونوں موجود بھی ہوں اور معلوم ومتعین بھی ہوں، لیکن اس کے باوجود ان میں سے ایک چیز کی بیع درست ہو اور دوسری چیز کی بیع شریعت کی نظر میں درست نہ ہو تو اس کی بھی مزید دو صورتیں بن سکتی ہیں:

الف۔ اُس ایک چیز کی بیع کے درست نہ ہونے پر تمام علماء کا تفاق ہو، جیسے آزاد انسان کو فروخت کرنا یا مردار یا خنزیر کو بیچنا وغیرہ۔ اس طرح کی چیز کو اگر دوسری جائز وحلال چیز (مثلامذبوحہ بکری وغیرہ)کے ساتھ ملاکر بیچا جائےاور  دونوں  کے لیے ایک ہی قیمت طے کی جائے تو دونوں کی بیع باطل ہوجائیگی، البتہ اگر دونوں چیزوں کی قیمت الگ الگ مقرر کی جائے تو حلال چیز کی بیع درست ہوجائیگی اور دوسری چیز(جس کی بیع شرعا درست نہیں ہےاس)کی بیع باطل ہوجائیگی۔

ب۔ دو ایسی چیزوں کو ملاکر بیچا جائے جن میں سے ایک کی بیع تو درست ہو، لیکن دوسری چیز کی بیع کے درست ہونے میں علماء کا اختلاف ہو۔ جیسے وقف شدہ چیز کی بیع یا جس جانور پرذبح کے وقت  عمدا بسم اللہ نہ پڑھی گئی ہو اس کی بیع وغیرہ۔ اس طرح کے معاملے کا حکم یہ ہے کہ جس چیز کی بیع سب کے ہاں جائز ہے اس کی بیع تو درست ہوجائیگی، البتہ دوسری چیز کی بیع جس عالم کی رائے میں درست نہیں ہے اس کے ہاں اس کی بیع باطل ہوجائیگی۔ (فقہ البیوع)

تبصرے بند ہیں۔