بینکوں کی کمر ٹوٹی ہے، اب آپ کی گلک بھی ٹوٹے گی

رويش کمار

لاکھوں کروڑ کا لون لے کر بینکوں کو دھوكا دینے والوں کا نام نہ بتانے میں ہی حکومت نے چار سال لگا دیے، اب خبریں آرہی ہیں کہ بینکوں نے 17،000 قرض داروں کا مقدمہ کر دیا ہے. ان پر 2 لاکھ 65 ہزار کروڑ کا قرض ہے. اس فیصلے تک پہنچنے سے پہلے قرض داروں کو دیوالیہ ہونے کا راستہ دیا گیا، اس کے لئے ٹربیونل بنائے گئے کہ وہاں ان معاملات کا نپٹارا ہوگا.

 ان سب کا کیا ہوگا پتہ نہیں کیونکہ اب خبر تو یہی شائع ہوئی ہے  کہ بینکوں نے الگ الگ عدالتوں میں ان بقایاداروں کے خلاف کیس کرنا شروع کر دیا ہے. اب بھی یہ بینک ان کے نام نہ بتانے کی مجبوری سے نکلتے ہوئے خود ہی بتا سکتے ہیں تاکہ الگ الگ کورٹ جاکر 17000 لٹیروں کے نام پتا کرنے میں سال نہ لگ جائے. انڈین ایکسپریس کے جارج میتھیو نے لکھا ہے کہ اس کے بعد بھی یہ کل قرضے کا یعنی NPA کا صرف 31.73 فیصد ہے. ایک جھٹکے میں جارج نے اس نام و نہاد بڑی خبر کو ادھے سے پوے میں بدل دیا ہے.

بینکوں کے 8 لاکھ 38 ہزار کروڑ کے لون ڈیفالٹ ہو گئے ہیں. کیس درج کرنا ہی بڑی خبر ہو جاتی ہے ہمارے ملک میں، کوئی بتاتا نہیں کہ ایسے کیس کا رذلٹ کیا ہوتا ہے. بینکوں نے ستمبر 2017 تک کے 12 ماہ میں یعنی اکتوبر 2016 سے ستمبر 2017 تک 2000 بقائے داروں پر کیس کیا ہے جن پر 47،000 کروڑ کی دین داری تھی. ایک تاریخ ریکوری ٹربیونل میں 15،220 کیس درج ہو گئے ہیں. 2 لاکھ 18 ہزار سے زیادہ کا نپٹارا ہونا ہے.

آپ نے حال ہی میں خبر پڑھی تھی کہ بینکوں کا این پی اے 6 فیصد سے زیادہ بڑھ گیا ہے. 21 سرکاری بینکوں میں 11 پی سی اے یعنی ریزرو بینک کی نگرانی میں آگئے ہیں. ایک شریف آدمی نے بتایا کہ جب ایسا ہوتا ہے تو وہ بینک اپنے یہاں بھرتی بھی نہیں کر سکتا. اگر ایسا ہے تو ان سب کرتوتوں کی سزا وہ بے روزگار بھی بھگت رہا ہے جو بینکوں میں روزگار حاصل کرنے کی آس میں گل رہا ہے.

بینک بند ہونے کی کگار پر پہنچ گئے ہیں. اس کی مار بینک کے ملازمین پر پڑ رہی ہے. اب انہیں نشانہ بنایا جا رہا ہے. نیتاؤں سے مل کر ڈاکہ ڈالوايا افسروں نے اور جیل جا رہے ہیں مینیجر. یہی ہوتا ہے جب آپ گناہ ہوتے دیکھتے ہیں اور خاموش رہتے ہیں تو ایک دن خود بھی اس کی سزا بھگتنے لگتے ہیں.

مترجم: محمد اسعد فلاحی

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔