بیوقوف لالو کے سامنے نتیش کی چالاکی

ڈاکٹر قمر تبریز

سیاست کے ماہر کھلاڑی لالو پرساد یادو کو ’بیوقوف‘ کہتے ہوئے تکلیف ہو رہی ہے۔ لیکن، بہار میں حالات جتنی تیزی سے بدلے ہیں اس نے نتیش کمار کی ’چالاکی‘ کو ہی ثابت کیا ہے۔ یہ کہنا مبالغہ نہیں ہوگا کہ ہندوستان پر پوری طرح اترپردیش اور بہار کی سیاست ہی حاوی رہی ہے۔ یہی وہ دو ریاستیں ہیں ، جہاں سے مرکزی اقتدار کا مستقبل طے ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وزیر اعظم بننے کے لیے نریندر مودی نے اترپردیش کے وارانسی کو اپنا حلقہ انتخاب بنایا۔ بی جے پی کی ’مادرِ درسگاہ‘ راشٹر سویم سیوک سنگھ کو بھی یہ بات اچھی طرح معلوم ہے کہ اگر اسے طویل عرصے تک ہندوستان پر حکمرانی کرنی ہے، تو اسے اترپردیش اور بہار میں اپنی پکڑ کو مضبوط بنائے رکھنا ہوگا۔ اترپردیش سے پہلے بہار میں اسمبلی انتخابات ہوئے تھے۔ لیکن، بدقسمتی سے تب بہار میں مہا گٹھ بندھن بن جانے کی وجہ سے بی جے پی کا خواب وہاں شرمندۂ تعبیر نہیں ہو سکا تھا۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہی تھی کہ بہار کے لوگوں نے ’نفرت کی سیاست‘ پر ’باہمی رواداری کی سیاست‘ کو ترجیح دی تھی۔ جس وقت پورے ملک میں مودی کا ڈنکا بول رہا تھا، اس وقت بہار کے لوگوں نے اپنی بالغ نظری کا ثبوت دیتے ہوئے لالو- نتیش کو اقتدار کی باگ ڈور سونپی تھی۔

حالانکہ، اُس وقت پروپیگنڈہ پھیلانے والے چند نام نہاد صحافیوں نے یہ تشہیر کی تھی کہ مودی کے وزیر اعظم بننے کے بعد نتیش کمار بی جے پی سے بہت زیادہ ڈرے ہوئے ہیں ۔ ٹھیک اسی طرح، جیسے دو دن پہلے تک وہی صحافی یہ پروپیگنڈہ پھیلا رہے تھے کہ نتیش کمار ملک کے نائب وزیر اعظم بننے والے ہیں ۔ اپنے آپ کو کچھ زیادہ ہی ہوشیار سمجھنے والے یہ صحافی، جو نتیش کمار کے قریبی دوست ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں ، وہ پتہ نہیں کیوں عوام کو اتنا بیوقوف سمجھتے ہیں ۔ وہ نتیش کمار سے دوستی کا دعویٰ علی الاعلان تو کرتے ہیں ، لیکن یہ نہیں بتاتے کہ نتیش سے زیادہ ان کی دوستی آر ایس ایس سے ہے۔ حالانکہ، یہ سب کو معلوم ہے کہ کوئل اور کوے کی شناخت زبان کھولتے ہی ہوجاتی ہے۔

بہرحال، لالو پرساد یادو بہار کے عوام کی نبض کو پہچاننے کا چاہے جتنا بھی دعویٰ کر لیں ، حالات بتا رہے ہیں کہ لالو سے بڑے نباض نتیش کمار ہیں ۔ نتیش نے 2013 میں بی جے پی کا ساتھ چھوڑنے کا جو فیصلہ کیا تھا اور اب دوبارہ انھوں نے بی جے پی سے جو ہاتھ ملایا ہے، اس کے پیچھے ان کی سیاسی چالاکی ہی ہے۔ حالات یہ بتا رہے ہیں کہ نتیش نے اگر 2013 میں لالو پرساد یادو سے ہاتھ نہیں ملایا ہوتا، تو وہ اقتدار سے باہر ہو جاتے۔ اور اب، انھیں یہ بات اچھی طرح معلوم ہے کہ اگر سیاست میں زیادہ دنوں تک رہنا ہے تو بی جے پی سے بہتر کوئی اور ساتھی نہیں ہو سکتا۔ بی جے پی کو بھی یہ معلوم ہے کہ اترپردیش اور بہار میں اپنی پکڑ مضبوط بنائے بغیر وہ مرکزی اقتدار پر زیادہ دنوں تک قائم نہیں رہ سکتی۔ یوپی میں تو اس نے پوری اکثریت کے ساتھ اپنی حکومت بنا لی ہے، لیکن بہار کی حکومت سے باہر ہونے کی وجہ سے اسے کافی تشویش تھی۔ اب جاکر اسے تھوڑا اطمینان حاصل ہوا ہے کہ بہار کی حکومت میں بھی اسے حصہ داری آخرکار مل ہی گئی۔ بی جے پی کی اسی پریشانی اور بے چینی نے بہار کے عوام کی نیندیں حرام کر رکھی تھیں ۔ اب ہو سکتا ہے کہ لالو یادو اور ان کے اہل خانہ کے تئیں مرکزی ایجنسیوں کا رویہ بھی تھوڑا نرم ہو جائے، کیوں کہ دیکھا جائے تو آج کے دور میں ہندوستان کا کوئی بھی لیڈر بدعنوانی سے پاک نہیں ہے۔

دوسری طرف، اگر لالو یادو کی سیاست پر نظر ڈالی جائے تو انھیں کچھ زیادہ ہی غرور ہو گیا تھا۔ یہ بات سچ ہے کہ لالو نے اپنی سیاست کا آغاز غریبوں ، کسانوں اور پچھڑوں کے مسائل سے خود کو جوڑ کر کیا تھا۔ وہ چارپائی پر سوتے تھے، زمین پر بیٹھ کر کھانا کھاتے تھے، کھیتوں میں ہل چلاتے تھے، بھینس چراتے تھے۔ اسی لیے بہار کے غریب، کسان، مزدور اور پچھڑے لوگ لالو کو اپنا مسیحا سمجھتے تھے۔ لیکن، اقتدار میں زیادہ دنوں تک بنے رہنے کے بعد وہ اتنے مغرور ہو گئے تھے کہ سیدھے منھ کسی غریب سے بات تک نہیں کرتے تھے۔ جب پان کھاتے، تو ایک بڑا افسر ان کے ساتھ پیک دان لے کر چلتا تھا، تاکہ وہ اس میں تھوک سکیں ۔ موزے پہنانے کے لیے الگ سے ایک نوکر ہوا کرتا تھا۔ انھوں نے بہار میں ’چرواہا وِدیالیہ‘ تو بنا دیا تھا، لیکن چرواہوں کی بھلائی کے لیے کوئی تعمیری کام نہیں کیا۔ ٹھاکروں اور بھومیہاروں کی بالادستی کو توڑ کر انھوں نے بہار کے اقتدار میں یادوؤں ، مسلمانوں اور دلتوں کو بھلے ہی آگے بڑھنے کا موقع دیا، لیکن ان کی تعلیم و ترقی کا دیر پا انتظام نہیں کر پائے۔ بلکہ جس طرح یوپی میں ملائم سنگھ اور اکھلیش یادو پر صرف یادوؤں کو آگے بڑھانے کا الزام لگا، اسی طرح بہار میں بھی لالو نے اپنے دورِ اقتدار میں اپنی ذات کے لوگوں کو ہر شعبہ میں ترقی کرنے کا موقع فراہم کیا۔ یادوؤں کی غنڈہ گردی سے جس طرح یوپی کے لوگ پریشان تھے، اسی طرح لالو کے دورِ حکومت میں بہار کے لوگ بھی اس غنڈہ گردی سے اوب چکے تھے۔ اترپردیش اور بہار میں یادو حکومت کے خاتمہ کی یہی سب سے بڑی وجہ ہے۔

مسلمانوں کے تعلق سے نہ تو اترپردیش میں ملائم اور اکھلیش کی حکومت نے کوئی سنجیدہ اور تعمیری کام کیا اور نہ ہی بہار میں لالو اور رابڑی کی حکومت نے۔ ان دونوں ہی ریاستوں میں مسلمانوں کی حالت آج بھی خستہ بنی ہوئی ہے۔ یوپی میں ملائم سنگھ یادو نے بھلے ہی کار سیوکوں پر گولیاں چلوائی ہوں ، لیکن بابری مسجد کی شہادت کو نہیں روک سکے۔ اسی طرح بہار میں لالو نے بھلے ہی اڈوانی کی رتھ یاترا کو روک دیا تھا، لیکن عبدالباری صدیقی کو انھوں نے کبھی نائب وزیر اعلیٰ نہیں بننے دیا۔ بلکہ جب موقع آیا تو اپنے بیٹے تیجسوی کو آگے کر دیا۔ اب جاکر پتہ چل رہا ہے کہ لالو نے اقتدار میں رہتے ہوئے بے انتہا دولت بنائی، جب کہ بہار کے عوام غریب کے غریب ہی رہے۔ لالو کے دور میں بہار میں غنڈہ گردی اس قدر عروج پر پہنچ چکی تھی کہ وہاں جاتے ہوئے بھی ڈر لگتا تھا۔ نتیش نے وزیر اعلیٰ بنتے ہی اس غنڈہ گردی پر بہت حد تک قابو پا لیا تھا، لیکن 2015 میں لالو کے ساتھ حکومت بنانے کے بعد بہار میں یہ غنڈہ گردی دوبارہ اپنے ہاتھ پیر پسارنے لگی تھی۔

ان تمام حالات میں ، نتیش کا موجودہ فیصلہ بہار کے حق میں بہتر ہی ہوگا، اس پر کسی کو شک نہیں ہونا چاہیے۔ میں بہار کے جس گاؤں سے تعلق رکھتا ہوں ، وہاں حال ہی میں بجلی پہنچی ہے۔ لالو کے دور میں مجھ جیسے ہزاروں لوگوں کو یہ یقین نہیں تھا کہ ان کے گاؤں تک بجلی یا سڑک پہنچے گی، لیکن نتیش نے ان تمام گاؤوں میں بجلی اور سڑک پہنچانے کا کام کیا۔ یوپی اور بہار کے لوگ محنت کش ہیں ، تعلیم حاصل کرنا چاہتے ہیں ، وقت کی رفتار کے ساتھ کندھے سے کندھے ملاکر ترقی کرنا چاہتے ہیں ۔ وہاں کی حکومتوں کو ان کی ان خواہشات کی تکمیل میں مدد کرنی چاہی۔ ان کے لیے اعلیٰ تعلیمی ادارے قائم کرنے چاہئیں ، روزگار کے مواقع مہیا کرنے چاہئیں اور سب سے بڑی بات یہ کہ دونوں ہی ریاستوں میں امن و امان کی فضا برقرار رکھنی چاہیے۔ دونوں ہی ریاستوں کے قائدین کو اس بات پر غور کرنا چاہیے کہ وہاں کے لوگ اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے بعد اپنی اپنی ریاست میں واپس کیوں نہیں لوٹتے ہیں ۔ میرے خیال سے اس کی سب سے بڑی وجہ دونوں ہی ریاستوں میں امن و امان کی فضا کا برقرار نہیں رہنا ہے۔

ہنسی تو آتی ہے لالو یادو کی بیوقوفی پر، جنہوں نے بہار میں بی جے پی کو دوبارہ ’واک اوور‘ دے دیا ہے۔ ان کے پاس ایک بہترین موقع تھا اپنے بیٹے بیٹیوں کے سیاسی مستقبل کو چمکانے کا۔ وہ چاہتے تو تیجسوی یادو سے استعفیٰ دلوا کر بہار کی مہا گٹھ بندھن حکومت کو بچا سکتے تھے۔ لیکن، نتیش کمار کے خلاف ایک مقدمہ کی کاپی لے کر وہ اس غلط فہمی میں مبتلا ہوگئے تھے کہ وہ اس کمزور کا فائدہ اٹھا کر نتیش سے جو چاہیں گے کروا لیں گے۔ لالو سے بیزار ہو چکے بہار کے عوام نے اگر ان کی پارٹی کو 80 سیٹیں دے کر ریاست میں سب سے بڑی پارٹی بنایا تھا، تو لالو کو بھی ان کے جذبات کا احترام کرنا چاہیے تھا۔ موجودہ قدم سے بہار میں نتیش کا نہیں ، لالو کا قد نیچا ہوا ہے۔ لالو نے بہار کے عوام کا اعتماد دوبارہ کھو دیا ہے اور اب اگر دوبارہ انتخاب ہو تو شاید بہار کے عوام لالو کی پارٹی کو اتنی بھی سیٹیں نہ دیں ، جتنی کہ انھوں نے پچھلی بار دی تھیں ۔ دوسری طرف، اب راہل بابا کہہ رہے ہیں کہ انھیں یہ سب تین مہینے پہلے سے پتہ تھا، پھر انھوں نے نتیش کو سمجھانے یا بیچ کا راستہ نکالنے کی کوشش کیوں نہیں کی، یہ آج کا سب سے بڑا سوال ہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔