بیہودگیاں

مدثراحمد

کیرل کے ایپا سوامی مندر میں خواتین کی شرکت کو لے کر پچھلے کچھ عرصے سے جو بوال مچاہے وہ یقینی طور پر ہندوستان کی مذہبی رواداری کے لیے ایک طرح سے ٹھیس ہے، ہندوستانی عدلیہ نے پچھلے کچھ دنوں سے آزادی نسواں کے نام پر عورتوں کے بے جا مطالبات کو ترجیح دیتے ہوئے فیصلے سنائے ہیں وہ بعض معاملات کے لیے تو ٹھیک ہیں لیکن ہندوستان میں پچھلے کچھ عرصے سے جو مذہبی حساسیت وقوع ہوئی ہے اسکے مطابق یہ فیصلے پورے ملک میں فرقہ واریت کی ہوا کو چنگاری دینے کے لئے کافی ہے۔

 پچھلے دو سالوں سے عدالتوں اور حکومتوں نے ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان جو حالات پیدا کئے ہیں وہ ملک کی سالمیت کے لیے خطرناک ہیں۔ طلاق ثلاثہ کے معاملے میں مسلمانوں کے مذہب و شریعت میں مداخلت ہوئی تو وہیں سبری مالا میں خواتین کو مساوی حقوق دینے کے نام پر مندر میں مداخلت کے مواقع فراہم کئے گئے ہیں جس سے ہندوؤں کے جذبات کو ٹھیس پہنچی ہے اس دوران ہندوؤں اور مسلمانوں میں اگ بھڑکانے کے لئے فرقہ پرست اور سماج دشمن عناصر نے کچھ ایسے ایجنٹس پیدا کردئے ہیں جنکی وجہ سے ہندوستان کے امن وامان میں خلل پیدا ہوگی۔ مسلمانوں میں بابری مسجد، طلاق ثلاثہ کے معاملات میں جلے ہر نمک چھڑکنے کا کام شیعہ وقف بورڈ کے صدر اور بی جے پی کے سرگرم رکن وسیم رضوی کو ذمہ داریاں سونپی گئی ہیں تو سبری مالا کے بھگتوں میں آگ لگانے کے لئے ریحانہ فاطمہ، سمیرہ جیسی خواتین کو ذمہ داری سونپی گئی ہیں، ان خواتین کے تعلق سے یہ بات بھی سامنے ائی ہے کہ ان خواتین کے تعلقات بی جے پی لیڈران کے ساتھ ہیں اور بی جے پی ان خواتین کا استعمال کرتے ہوئے سماج میں تفرقہ ڈالنے کی کوشش میں ہے۔

ان حالات میں مسلمانوں کے لئے تشویش کی بات ہے کہ ریحانہ فاطمہ، وسیم رضوی جیسے لوگ مسلمانوں کے لئے گلے کی ہڈیاں ہیں کیونکہ انکے کردار مسلمانوں کے نہ ہوتے ہوئے بھی نام کے مسلمان ہونے کے سبب لوگ انہیں مسلمان ہی کہتے ہیں جسکی وجہ سے مسلمان انہیں اپنا نہ کہنے کے باوجود انہیں مسلمان ہی کہاجاتاہے۔ غور طلب بات یہ بھی ہے کہ ہمارے علم حضرات انہیں مرتدد میں شمار کرتے ہیں لیکن کیا یہ کافی ہے کہ ایسے لوگوں پر ایک دو لفظ کہہ کر انہیں نظر انداز کردیا جائے؟؟؟ … ہونا تو یہ چاہیے کہ ایسے مرتدد و منافقوں کے خلاف مسلمان قوم باقاعدہ طور پر تحریک چلائیں جس سے انکے حوصلے پست ہو سکیں اور اس ملک میں امن و امان باقی رہے۔ ویسے دیکھا جائے تو ملک میں جیسے جیسے انتخابات قریب آرہے ہیں اسی رفتار سے ملک کے شہریوں کے اصل مدعوں پر سے توجہ ہٹائی جارہی ہے، یہاں شہریوں کے حقوق اور انسانیت کو بچانے کے لئے کام کم ہورہا ہے اور ملک کو بانٹنے کاکام کیاجارہاہے اس لئے ہماری ذمہ داری ہے کہ ان بھٹکانے والے مدعوں کو نظر انداز کریں اور ملک کو بچانے اور انسانیت کے لئے جو کام کرنے ہیں ان پر توجہ دیں۔

ریحانہ فاطمہ، سائرہ بانو جیسی خواتین کی کم ظرفی سے یوں تو اسلام کی بدنامی اور شریعت کو نقصان ضرور پہنچے گا لیکن ہم نظر انداز کرنے کے عمل کو اختیار کرنے لگیں گے تو اس کے مثبت نتائج سامنے آئینگے۔ اب مذہب کے نام پر جو بیہودگیاں ہورہی ہیں وہ ملک کی سالمیت کے لئے خطرے کے سواء کچھ نہیں۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔