بی جے پی اور مسلم رائے دہندگان

ڈاکٹر مظفر حسین غزالی

عام طور پریہ مانا جاتاہے کہ مسلمان بھاجپا کو ووٹ نہیں دیتے(یہ تاثرسچائی کے خلاف ہے)۔ اس سوچ کی وجہ بی جے پی کا رویہ، اس کا عمل، پولرائزیشن کی سیاست اور مسلمانوں کا رد عمل ہے۔ جس کے نتیجہ میں مسلمانوں کے بھاجپا کو ووٹ نہ دینے کا بھرم پیدا ہوتا ہے۔ سچائی یہ ہے کہ آزاد بھارت کے مسلمانوں نے نہ تو آل انڈیا کوئی سیاسی پارٹی بنائی نہ ہی کسی کو اپنا لیڈرمانا۔ کچھ لوگوں نے پارٹیاں بنائیں بھی لیکن مسلمانوں نے انہیں قبول نہیں کیا۔ اس کے برخلاف انہوں نے’ ہندوؤں ‘ پر بھروسہ کیا اوران کو اپنا لیڈر بی مانا۔ اس سلسلہ میں نہرو،لوہیا، اندرا، جے پرکاش نارائن، وی پی سنگھ، اٹل بہاری واجپئی، چندر شیکھر، ایم جی آر، این ٹی آر، دیو گوڑا، شردپوار، لالو، نتیش اور ملائم سنگھ وغیرہ کا نام لیا جاسکتا ہے۔ مسلمان ’ہندوؤں ‘ کے ذریعہ بنائی گئی صوبائی وقومی پارٹیوں میں ساتھ رہے اوراب بھی ہیں ۔ یہاں تک کہ جن سنگھ میں بھی مسلمان شامل رہے۔ مشہور ادیب مولانا امداد صابری دہلی میٹروپولیٹن کونسل میں جن سنگھ کے نمائندے اور میئر تھے۔ دہلی کی ایک اور مشہور شخصیت انور دہلوی جن سنگھ سے ہی دو مرتبہ میٹروپولیٹن کونسلر رہے۔ محمد اسماعیل بھی مسلم اکثریتی علاقہ قصاب پورہ سے میٹروپولیٹن کونسل میں جن سنگھ کی نمائندگی کرچکے ہیں ۔ اس سیٹ سے ان کے صاحبزادے عمران اسماعیل بی جے پی کے کونسلر رہے۔ عورتیں بھی اس معاملے میں پیچھے نہیں رہیں ۔ بیگم خورشید قدوائی جامع مسجد جیسے مسلم اکثریتی علاقے سے جن سنگھ کے ٹکٹ پر کونسلر اور ڈپٹی میئر بنیں ۔ مترجم قرآن اور مصنف مولانا اخلاق حسین قاسمی بھی جن سنگھ کی دہلی یونٹ کے اور شیخ عبدالرحمن جموں وکشمیر کے نائب صدر رہے۔

ایمرجنسی کے بعد جن سنگھ جنتا پارٹی کا حصہ بن گیا۔ عارف بیگ نے جنتا پارٹی کے ٹکٹ پر ہی شنکر دیال شرما کو ہرا کر ریکارڈ بنایا تھا۔ بھارتیہ جنتا پارٹی بننے پر وہ اس کے نائب صدر بنے۔ جنتا پارٹی کے ٹکٹ پر ہی سکندر بخت چاندنی چوک لوک سبھاسیٹ جیت کر پارلیمنٹ پہنچے اور کابینہ درجہ کے وزیر بن گئے۔ 1980 میں بی جے پی کے قیام کے بعد پہلے انہیں جنرل سکریٹری اور بعد میں نائب صدر بنایاگیا۔ چناؤ ہارنے کے بعد بھاجپا نے انہیں 1990 پھر 1996 میں راجیہ سبھا بھیجا۔ وہاں پارٹی کی نمائندگی کرتے ہوئے سکندر بخت نے دومرتبہ اپوزیشن لیڈر کی ذمہ داری بھی نبھائی۔ اٹل بہاری واجپئی کی سرکار میں انہیں وزیربرائے شہری امور اور وزیرخارجہ کی اضافی ذمہ داری دی گئی۔ دوسری مرتبہ وہ انڈسٹری وزیر بنے اور 2002 میں کیرالہ کے گورنر۔ سید شاہنواز حسین بی جے پی کی ٹکٹ پر تین مرتبہ لوک سبھا پہنچے۔ وہیں مختار عباس نقوی نے چودھویں لوک سبھا میں رامپور سے بھاجپا کی نمائندگی کی۔ اعجاز رضوی، سیما رضوی اور کتنے ہی مسلمان ہیں جو ریاستی اسمبلیوں میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی نمائندگی کرچکے ہیں یا کررہے ہیں ۔ بی جے پی کے ممبران میں بھی مسلمانوں کی خاصی تعداد موجود ہے۔ کتنے ہی مسلمان مسلم راشٹریہ منچ کے ساتھ جڑے ہیں ۔ حال ہی میں ہوئے دہلی کے کارپوریشن چناؤ میں چھ مسلمانوں کوبی جے پی نے ٹکٹ دیاجبکہ ایک امیدوارکو بی جے پی کی حمایت حاصل تھی۔

مرکزی وزیرروی شنکر پرساد کے بیان سے ایک بار پھر اس مسئلہ پر گفتگو شروع ہوئی ہے۔ انہوں نے ہیروگروپ کے ذریعہ منعقدہ سمٹ میں کہا تھا کہ ’’ میں واضح طورپر مانتا ہوں کہ مسلمان ہمیں (بی جے پی)ووٹ نہیں دیتے۔‘‘ جبکہ لوک سبھا الیکشن 2014 میں کامیابی کے بعد بی جے پی کی جانب سے پندرہ فیصد مسلم ووٹ ملنے کی بات کہی گئی تھی۔ خود پارٹی کے صدر امت شاہ نے دس فیصد مسلم ووٹ ملنے کا خیال ظاہر کیا تھا۔ یوپی چناؤ میں بی جے پی کی تاریخی کامیابی مسلم ووٹوں کے بغیر ناممکن تھی۔ یہ بات بھاجپا کی جانب سے سامنے آچکی ہے۔ مسلم راشٹریہ منچ کے سرپرست گریش جو یال نے بی جے پی کو مسلم ووٹ ملنے کے سوال پر کہا کہ مسلمانوں میں سے شیعہ برادری، تین طلاق سے متاثرہ خواتین، بے روزگار مسلم نوجوان اور ایسے علماء نے بھاجپا کو ووٹ دیے ہیں جو فتوے کا کاروبار نہیں کرتے۔ انہوں نے کہاکہ شیعہ حضرات جانتے ہیں کہ یزید کون ہے اور حضرت حسین کا حامی کون۔ وہ یزیدیوں کو کبھی ووٹ نہیں دیتے۔ اسی طرح کی باتیں ٹیلی ویژن چینل پر آنے والے بی جے پی کے ترجمانوں کی جانب سے بھی سننے کو ملیں ۔ سوال یہ ہے کہ وہ کون سا آلہ ہے جس سے یہ معلوم ہوا کہ بی جے پی کو کس نے ووٹ دیااور کس نے نہیں ۔

سبرامنیم سوامی نے کبھی کہاتھا کہ ہم مسلمانوں کو بانٹیں گے۔ گریش جی کے بیان کو اس روشنی میں دیکھاجائے تو اندازہ ہوتاہے کہ شیعہ، سنی ، صوفی، عورتوں اور نوجوانوں کی بات کیوں کی جارہی ہے۔ یوپی میں بی جے پی نے کسی بھی مسلمان کو ٹکٹ نہیں دیالیکن سرکارمیں ایک شیعہ مسلمان کو وزیرمملکت بنایاگیا۔ اس سے قبل کلیان سنگھ کی سرکار میں اعجاز رضوی کو وزیربنایاگیاتھا یہ قدم شایدبی جے پی کی بھارت کے مسلمانوں کو تقسیم کرنے کی پالیسی کاحصہ معلوم ہوتاہے۔ لوگوں کوبانٹ کرآپس میں لڑااور الجھاکرحکومت توکی جاسکتی ہے لیکن دیش کو ترقی کی راہ پر نہیں لے جایاجاسکتا۔ بھاجپا کی انتخابی حکمت عملی کا انحصاربھی پولرائزیشن اور طبقات کی تقسیم پرہے۔ اس کو مضبوطی دینے کیلئے مذہب اور راشٹروادکی چاشنی کااستعمال کیا جاتا ہے یاکیاجارہاہے۔ اب تین طلاق کے بہانے لوگوں کوگمراہ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ تین طلاق اور چارشادیوں کی بات کرکے ہندوعورتوں کو بتانے کی کوشش کی جارہی ہے کہ مسلم عورتیں بھی ظلم کا شکارہیں ۔

باوجود اس کے کہ مسلمان بی جے پی کے ممبرہیں ۔ مسلم راشٹریہ منچ کے ذریعہ سنگھ اور بی جے پی مسلمانو ں کے ووٹ بھی چاہتی ہے۔ مسلمان اس سے جڑیں ،یہ بھی ہمیشہ اس کی خواہش رہتی ہے لیکن ان کے ساتھ وہ اپنائیت کا اظہارنہیں کرتی۔ مسلم اکثریت والی سیٹوں پرکسی مسلمان کو ٹکٹ نہ دے کرمسلم ووٹوں کو تقسیم کرکے سیٹ حاصل کرنے کا منصوبہ بناتی ہے۔ اگرکسی سیٹ پرکسی مسلم امیدوارکو ٹکٹ دیتی بھی ہے تو وہاں کے مسلمان تو اس امیدوارکو ووٹ دے دیتے ہیں لیکن وہاں کے غیر مسلم اسے ووٹ نہیں دیتے۔خاص طور پر بھاجپا کا کیڈر۔ اس کی وجہ سے بی جے پی کا مسلم امیدوارچناؤ ہارجاتاہے۔ بھاجپاکے لوگ یہ کہتے سنائی پڑتے ہیں کہ ایک ٹکٹ بے کارہوگیااور عام لوگوں میں یہ پیغام جاتاہے کہ مسلمانوں نے بی جے پی کوووٹ نہیں دیا۔ سید شاہنوازحسین اور مختارعباس نقوی اس کا ثبوت ہیں ۔ دہلی کارپوریشن کے امیدواراس کی تازہ مثال ہیں ۔ اس مسئلہ پربھاجپاکوسنجیدگی سے غورکرنا ہوگا۔

پانچ، دس سال دیشوں اور قوموں کی زندگی میں کوئی خاص حیثیت نہیں رکھتے لیکن ملک وقوم کو کس طرف جاناہے ،اس کی بنیاد ضروررکھی جاسکتی ہے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی جیسی قومی جماعت اور اکثریت والی سرکارسے اس بات کی امیدضرورکی جاسکتی ہے کہ وہ سماجی نابرابری، ناانصافی کو دورکرکے قانون کی حکمرانی کو یقینی بنائے گی۔ سب کو ساتھ لے کرچلنے کی کوشش کرے گی۔وزیراعظم نریندرمودی آخری آدمی کی بات کرتے ہیں لیکن اس آخری آدمی تک سرکارکے تمام فائدے پہنچیں اس کی فکر کرنی ہوگی۔
ملک کے مسلمان عمومی طورپر کانگریس پارٹی کو جس نے انہیں اس حال کو پہنچایا، فسادات کروائے، بے عزت کیا، تعلیم سے دوررکھااور اقتصادی طورپر محرومی کوان کانصیب بنایا،اُسی کانگریس کومعاف کرکے باربار اسے ووٹ دیتے رہے ہیں تو بی جے پی کوووٹ کیوں نہیں دیں گے؟ ملک کو ترقی کی طرف لے جانا ہے تو مسلمانوں کو نظرانداز نہیں کیاجاسکتا۔

کچھ لوگ اس کے ساتھ ہیں ، باقی کو ساتھ لانے کیلئے اسے منصوبہ سازی کرنی ہوگی۔پونے پانچ کروڑعورتوں نے اگرتین طلاق کے حق میں دستخط کردےئے ہیں تو اس کامطلب ہے کہ مسلمان پرسنل لاء میں تبدیلی نہیں چاہتے۔ سپریم کورٹ نے بابری مسجد کے مسئلہ کو حل کرنے کیلئے ثالثی کی بات کہی تھی۔ سرکار بھی ایسا ہی کچھ چاہتی تھی اور آر ایس ایس مسلم راشٹریہ منچ کے ذریعہ اس پر عام رائے بنانے کی کوشش کررہا ہے ۔ بہر حال ا س مسئلہ کو نفرت وتشدد کے بجائے امن و شانتی ، رواداری اور آپسی اتفاق رائے سے پر امن ماحول میں حل ہونے چاہئیں ۔ بھاجپا دھیرے دھیرے کانگریس بنتی جارہی ہے تو ایسا کیوں نہیں ہوسکتاکہ وہ مسلمانوں کو کانگریس کی طرح ساتھ لے کرچلے۔ کیونکہ ان کا بھی دیش پر اتنا ہی حق ہے جتنا کسی دوسرے کا۔ ؂
ذرانم ہوتو مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔