بی جے پی اور کانگریس میں برتری کی جنگ

ہندوستانی فوج کو زعفرانی لباس پہنانے کی کوشش

عبدالعزیز

سنگھ پریوار کی روز پیدائش سے کوشش رہی ہے کہ اس کے خیال اور نظریہ کے مطابق پورے ہندستان کو رنگ دیا جائے۔ جب تک اقتدار سنگھیوں کے ہاتھ میں نہیں تھا فساد و فتنہ پھیلاتے تھے۔ سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کو سچ بناکر پیش کرتے تھے مگر ان کے وسائل و ذرائع محدود تھے۔ اقتدار ہاتھ میں آنے کے بعد ان کے وسائل و ذرائع بہت بڑھ گئے ہیں۔ ایک حد تک میڈیا پر ان کا قبضہ ہوگیا ہے۔ میڈیا ایک طرح سے ان کا ترجمان بن گیا ہے۔ سرحد پار سرجیکل اسٹرائیک سے نریندر مودی اور ان کے پریوار کے لوگ فائدہ اٹھانے کیلئے جو جھوٹ بولتے تھے اس کی قلعی آہستہ آہستہ کھل رہی ہے اور سنگھ پریوار کے غبارہ سے ہوا نکلتی دکھائی دے رہی ہے۔ گزشتہ روز (19اکتوبر) خارجہ سکریٹری جے شنکر نے پارلیمانی اسٹینڈنگ کمیٹی کی میٹنگ میں اعتراف کیا کہ سرجیکل اسٹرائیک پہلے بھی ہوا ہے مگر حکومت نے اس کی تشہیر نہیں کی جیسے اب ہورہی ہے۔ کانگریس حکومت میں سرجیکل اسٹرائیک کی تصدیق سے وزیر اعظم اور وزیر دفاع کا سفید جھوٹ دنیا کے سامنے آگیا اور دنیا کو معلوم ہوگیا کہ آر ایس ایس میں جو لوگ شامل تھے یا شامل ہیں ان کو بہت سی تربیتیں دی گئی ہیں مگر سفید جھوٹ بولنے کی زبردست تربیت دی گئی ہے۔
پہلے تو بی جے والے مودی کی تعریف و توصیف میں رب اللسان تھے۔ ان کا 56 انچ کا سینہ بڑھ کر 100 انچ کا ہوگیا تھا۔ مودی بھی غبارہ کی طرح پھول گئے اور فوج کے کارنامہ کو اپنا کارنامہ گنانے لگے اور کہتے کہتے یہ بھی کہہ گئے کہ ان کا وزیر دفاع فوج کی طرح ہے۔ بولتا نہیں کرتا ہے مگر وزیر دفاع کا جھوٹ اور بیوقوفی دونوں دنیا کے سامنے آگئی۔ وزیر دفاع بھی مودی کے امیت شاہ ثابت ہوئے جو ہر گھڑی سر سر کہتے تھکتے نہیں جیسے شاہ اپنے بادشاہ کو صاحب کہتے کہتے زبان کو تھکا دیتے ہیں اور مودی کو غبارہ کی طرح پھلانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔ اب بادشاہ کو دو شاہ مل گئے، امیت اور منوہر۔ منوہر پاریکرنے فوج کے کارنامے کو آر ایس ایس سے جوڑ دیا اور یہ کہہ کر اپنی بیوقوفی کا ثبوت پیش کیا کہ مودی گجرات کے ہیں اور موصوف گوا کے پھر بھی دونوں نے بہادری اور شجاعت میں سرجیکل اسٹرائیک کرکے مثال پیش کر دی ہے اور یہ اس لئے ممکن ہوا کہ دونوں آر ایس ایس کے تربیت یافتہ ہیں، اس طرح سرجیکل کا سہرا حقیقت میں راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کے سر جاتا ہے۔ گویا ہندستانی فوج کا بھی کارنامہ فوج کا نہیں سنگھیوں کا ہے کیونکہ آر ایس ایس نے فوج کو بھی سنگھی تعلیم و تربیت سے نوازا ہوگا۔
کانگریس جنگ آزادی حاصل کرنے والی پارٹی ہے۔ جہاں تک پاکستان سے لڑائی جھگڑے کی بات ہے تو اندرا گاندھی نے پاکستان کو فوجیوں کی مدد اور اپنی حکمت عملی سے دو حصہ کر دیا اور ہندستانی فوج کی برتری بھی ثابت کی۔ ہندستانی فوج بھی کانگریس راج سے ہے۔ اس کی دیکھ ریکھ اور سرپرستی کانگریس نے چالیس پچاس سال کی بی جے پی پہلے پانچ سال حکومت کر چکی ہے اور حکومت کرنے کی دوسری اننگ پوری بھی نہیں ہوئی ہے کہ فوج کو بھی زعفرانی رنگ میں رنگنے کی کوشش شرع کر دی ہے۔ اب خود حکومت کی سطح سے یہ آواز بلند ہوئی ہے کہ مودی اور پاریکر جو جن سنگھیوں کی سرجیکل اسٹرائیک کہہ کر کریڈٹ لے رہے ہیں وہ غلط ہے۔ فوج کے ریکارڈ میں ہے کہ اس سے پہلے کئی سرجیکل اسٹرائیک ہوچکے ہیں۔
در اصل بی جے پی کو پنجاب اور اتر پردیش میں مدعا (ایشو) کی تلاش ہے مگر ان کی سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ کس مدعے کو لیا جائے۔ کبھی سرجیکل اسٹرائیک سے عوام کا دل خوش کرنا چاہتے ہیں تو کبھی رام مندر کا ایشو اٹھاکر فرقہ پرستوں کے دل کو جیتنے کی سعی کرتے ہیں اور کبھی فرقہ وارانہ فساد برپا کرکے Polirization کے ذریعہ الیکشن جیتنے کی آرزو اور تمنا کا اظہار کرتے ہیں ۔ کبھی گائے کو آگے کرکے ووٹ بٹورنا چاہتے ہیں۔ اب جبکہ سنگھیوں کا جھوٹ ثابت ہوگیا اور ان کے غبارہ سے ہوا نکلتی دکھائی دے رہی ہے تو شاید جھوٹے وزیر دفاع اور ان کے صاحب بہت زیادہ جھوٹ بولنے کی ہمت نہ کریں۔
آر ایس ایس یا بی جے پی کی پیدائش فرقہ پرستی کی بنیاد پر ہوئی ہے۔ فرقہ پرستی ان کی رگ رگ میں سمائی ہے۔ یہ سب کچھ چھوڑ سکتے ہیں مگر فرقہ پرستی سے نہ توبہ کرسکتے ہیں اور نہ چھوڑ سکتے ہیں۔ ان کیلئے فرقہ پرستی کا زہر پورے ملک میں گھولنا یا پھیلانا سب سے محبوب مشغلہ ہے۔
کانگریس بی جے پی کی فرقہ پرستی سے کبھی کبھی مرعوب اور متاثر ہوجاتی ہے اور وہ اپنی پیشانی پر ٹیکا لگانے کا مظاہرہ کرتی ہے۔ کانگریس فرقہ پرستی کیلئے جب نرم گوشہ کا مظاہرہ کرتی ہے تو فرقہ پرستی آگ کی طرح پھیلتی ہے اور پھیلتی چلی جاتی ہے۔ کانگریس اگر فرقہ پرستی کے خلاف مضبوط قدم اٹھاتی، فرقہ پرستوں کو قانونی طور پر پابند سلاسل کرتی تو آج نہ کانگریس کو یہ دن دیکھنا پڑتا اور نہ ہی ہندستان کو۔ مودی یا پاریکر جیسے لوگوں کی حکومت ملک کیلئے ذلت اور رسوائی کا سبب ہے۔ اچھے دن کا خواب دکھاکر 31فیصد ووٹ حاصل کرکے آج گدی پر بیٹھ کر ملک بھر میں تناؤ اور فساد کا ماحول پیدا کر رہے ہیں۔ آپس کی جنگ باہر کی جنگ سے زیادہ خطرناک ہوتی ہے مگر یہ بات جن سنگھیوں کو سمجھ میں نہ آئی ہے اور نہ آئے گی ۔ ان کو تو ہر قیمت پر کرسی عزیز ہے، چاہے ہندستان کا پارہ پارہ ہوجائے۔
کانگریس کو فرقہ پرستی کے خلاف زور دار لڑائی لڑنی ہوگی۔ سب کے حقوق اور اختیارات کیلئے جنگ کرنی ہوگی۔ ہندستان کے لوگ جو بھی سنگھ پریوار کی شرارتوں کے خلاف لڑے گا اس کا ساتھ دینے کیلئے تیار ہیں۔
جے این یو کے کنہیا کمار نے رانچی میں تقریر کرتے ہوئے بہت ہی عقل اور دانش کی بات کہی ہے کہ کانگریس نے غلطی کی ہوگی مگر کیا ایسی غلطی کہ آپ آر ایس ایس اور بی جے پی کو ووٹ دے دیں۔ یہ تو ملک کو گرانے کی بات ہے۔ ایسا ہر گز نہیں کرنا تھا۔ اتر پردیش میں کانگریس اور دیگر سیکولر پارٹیوں کو متحد اور منظم ہوکر فرقہ پرستی کے خلاف جنگ کرنی ہوگی، جب ہی اتر پردیش کے انتخابی دنگل میں فرقہ پرستی کو شکست فاش بہار کی طرح ہوسکتی ہے۔ سیکولر ووٹ اگر تقسیم ہوئے تو فرقہ پرستی کو فائدہ پہنچے گا۔ سیکولر ووٹ کو تقسیم ہونے سے بچانے کی ہر ممکن کوشش ضروری ہے۔ ملائم کا بی جے پی سے گٹھ جوڑ خطرے سے خالی نہیں۔ اچھا ہے کہ باپ بیٹے کی جنگ میں سماج وادی کا گراف گرتا چلا جائے۔ دیگر سیکولر پارٹیاں کم سے کم اکٹھا ہوکر فرقہ پرستی کا مقابلہ کریں، جب ہی اتر پردیش کے عوام کا بھلا ہوگا۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔