بی جے پی حکومت کی مسلم خواتین سے ہمدردی چہ معنی دارد

عابد انور

گھاس سے گھوڑا ددوستی کرنے کا دعوی کرے یا بلی دودھ کی رکھوالی بن جائے یا بھیڑیا انسان کا رکھوالا بن جانے کا دعوی کرے تو یقینا سنگین مسئلہ بن جاتا ہے اور ہر شخص کو سوچ و فکر، تدبرو تفکر کی دعوت دیتا ہے کیوں کہ یہ فطرت کے بالکل برعکس ہے۔ اور کوئی انسان یا جانور فطرت کے خلاف نہیں جاسکتا۔ صرف کسی مجبوری، ذاتی مفاد اور مستقبل کے مفادات کے تحت ہی ایسا کرسکتا ہے۔ یہی حال آج بی جے پی کا ہے۔ وہ مسلم مطلقہ خواتین کے بارے میں سوچ سوچ کے دبلی ہوتی جارہی ہے۔ دن کا چین اور رات کا سکون اس کا برباد ہوگیا ہے۔ اس نظریہ سے وابستہ تمام لوگ مسلم خاتون کی عزت و ناموس اور وقار کی جنگ لڑنے پر آمادہ نظر آرہے ہیں۔ مسلم خواتین کی بدحالی اور لاچاری کی فکر ستائے جارہی ہے۔ مسلم خواتین کی آزادی کے بارے میںسوچ سوچ کر انہیں نیند نہیں آرہی ہے۔ اس لئے اس پارٹی کے بڑے بڑے لیڈر مسلم خواتین کے وقار کی جنگ لڑ رہے ہیں۔زیر خزانہ ارون جیٹلی نے یکساں سول کوڈ اور تین بار طلاق کے رواج کے معاملے پر کہا کہ پرسنل لاء آئین کے مطابق ہی ہونا چاہیے اور تین طلاق کو بھی برابری کے حقوق اور احترام کے ساتھ رہنے کے پیمانے پر ہی پرکھا جانا چاہئے۔مسلم پرسنل لاء بورڈ کی طرف سے یکساں سول کوڈ کے معاملے پر لا کمیشن کی سوالنامے کا جواب دینے کے فیصلے اور تین طلاق کے معاملے پر چھڑنے والی بحث پر فیس بک پر ’تین طلاق اور حکومت کا حلف نامہ‘ کے عنوان سے اپنی پوسٹ میں کہا کہ کمیونٹیز کی ترقی کے ساتھ صنفی مساوات کے بارے میں سمجھ بہت تیار ہوئی ہے اور تمام شہریوں، خاص طور پر خواتین کو عزت کے ساتھ جینے کا حق ہے۔انہوں نے سوال اٹھایا کہ ہر شہری کی زندگی پر اثر ڈالنے والے ان پرسنل قوانین کو کیا مساوات اور احترام کے ساتھ رہنے کے آئینی اقدار کے مطابق نہیں ہونا چاہئے۔ چھ دہائی پہلے اس قدامت پسند خیال کو عدالتی حمایت مل گئی تھی کہ نجی ضمانت کے بغیر پرسنل لاء متضاد ہو سکتے ہیں لیکن آج اس تجویز کو برقرار رکھنا مشکل ہو سکتا ہے۔ تین بار طلاق پر حکومت کے حلف نامے میں یہ اندازہ شامل ہے۔مسٹر جیٹلی نے کہا کہ مذہبی طریقوں، رواجوں اور شہری حقوق کے درمیان بنیادی فرق ہے۔ مذہبی عمل پیدائش، گود لینے، جانشینی، شادی اور موت سے جڑے ہوئے ہیں اور موجودہ مذہبی رسومات کے مطابق مذہبی رواج اور طرز عمل کے ذریعے ان سب پر عمل کیا جا سکتا ہے۔ انہوں نے سوال قائم کیا کہ پیدائش، گود لینے، جانشینی، شادی اور طلاق سے پیدا ہونے والے حقوق کو مذہب کے توسط سے ہونا چاہئے یا آئینی ضمانت سے اور کیا ان معاملات میں عدم مساوات یا سمجھوتہ کیا جا سکتا ہے۔ کچھ لوگوں کا اگر پرانا نہیں تو یہ قدامت پسند خیال ہو سکتا ہے کہ پرسنل لاء آئینی طور پرعمل نہیں ہونا چاہئے لیکن حکومت کا اس موضوع میں نقطہ نظر واضح ہے کہ پرسنل لاء کو آئینی طور پر قابل عمل ہونا چاہئے، اس لئے تین بار طلاق کی رسم کو بھی مساوات اور احترام کے ساتھ رہنے کے حق کے پیمانے پر پرکھا جانا چاہئے۔ چنانچہ یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ یہی پیمانہ تمام دوسرے پرسنل لاء پر لاگو ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ تین بار طلاق کی آئینی قانونی حیثیت کا مسئلہ یکساں سول کوڈ کے مسئلے سے مختلف ہے۔اسی شہری ترقیات اور اطلاعات و نشریات کے وزیر ونکیانائیڈو نے بھی مسلم خواتین کی لاچاری کا دکھڑا رویا ہیاور طلاق ثلاثہ پر ملک میں جاری بحث کے درمیان آج اس کو غیر دستوری اورمخالف تہذیب قرار دیا۔ انصاف،وقار اور مساوات کے اْصولوں کی روشنی میں جنسی امتیاز کو ملک سے ختم کرنے کا یہ موزوں وقت ہے۔انہوں نے واضح کیا کہ طلاق ثلاثہ مخالف دستور،قانون کے خلاف ،جمہوری اْصولوں کے خلاف اور تہذیب کے مغائر ہے۔ یہاں تک کہ مسلم خواتین بھی انصاف کامطالبہ کر رہی ہیں۔کسی بھی قسم کا جنسی امتیاز نہیں ہونا چاہئے۔دستور کی نظر میں تمام یکساں ہیں۔ طلاق ثلاثہ کے مخالف دستوری ہونے کی رائے ابھر رہی ہے اور اس مسئلہ پر مباحث بھی ہورہے ہیں۔پہلے ہی اس معاملہ میں کافی وقت ہوچکا ہے۔طلاق ثلاثہ کو ختم کرنے کے لیے ملک کے آگے بڑھنے کے لیے اب یہ موزوں وقت ہے تاکہ امتیاز کا خاتمہ ہوسکے۔ سپریم کورٹ فی الحال اس مسئلہ کا جائزہ لے رہا ہے جہاں ہر کوئی جاکر اپنی تشویش سے واقف کرواسکتا ہے۔مرکزی وزیر نے یکساں سیول کوڈ پر کہاکہ حکومت شفاف انداز میں ہر کام کرے گی اور پارلیمنٹ کو اعتماد میں لے گی۔بعض طبقات اس بات کا جھوٹا پروپگنڈہ پھیلا رہے ہیں کہ حکومت پچھلے دروازے سے یکساں سیول کوڈ کے نفاذ کی کوشش کر رہی ہے۔
آئیے اب ہندوستان میں مسلمانوں کی تعلیمی صورت حال پر نظر ڈالتے ہیں۔ 2001 کی مردم شماری مسلمانوں کی تعلیمی پسماندگی خود بیان کرتی ہے اور مسلمانوں کے تعلق سے برتے جانے والے سوتیلے سلوک کا انکشاف کرتی ہے کہ تعلیمی لحاظ مسلمان سب سے پچھڑی ہوئی اور پسماندہ قوم ہے۔ ملک کی45کروڑ غیر مسلم خواتین میں سے 46 فیصد خواندہ ہیں جب کہ چھ سات کروڑ مسلم خواتین میں صرف 41 فیصدخواندہ ہیں اور جس طرح تعلیمی سطح اعلی مدراج کی طرف بڑھتی ہے شرح خواندگی کم ہوتی چلی جاتی ہے۔ ابتدائی سطح پرمسلم خواتین کا تناسب غیر مسلم خواتین سے 11 فیصد کم ہے اور مڈل کی سطح پر یہ فاصلہ مزید بڑھ جاتا ہے۔ 19 اور 35 کے درمیان پہنچ جاتا ہے۔ مسلمانوں کی تعلیمی بدحالی اس اعداد و شمار سے بھی نمایاں ہوتی ہے کہ ہندوستان مسلم علی تعلیم یافتہ کی تعداد صرف 6ء3 فیصد ہے۔ ایک تجزیہ کار اور ماہرین تعلیم کے مطابق جنہوں نے مسلم خواتین کے تعلق سے ملک کے بہت اضلاع کاتعلیمی سروے کیا تھا مسلم خواتین کی ناخواندگی کا تناسب 75 فیصد تک پہنچ گئی ہے جب کہ شمالی ہندوستان میں اس کی صورت حال اور بھی بھیانک ہوسکتی ہے۔ ہندوستان میں مسلم لڑکیوں کا اسکول میں رجسٹریشن کی فیصد 6ء40 فیصد تھی جب کہ مسلم غریب لڑکیوں کی فیصد صرف ۱۶ فیصد تھی۔ ان میں 98 فیصد مسلم لڑکیاں سرکاری اسکولوںمیں تعلیم حاصل کرتی ہے۔ دو فیصد لڑکیاں مدرسوں میں تعلیم حاصل کرتی ہیں کیوں کہ وہ اسکول کا خرچ برداشت کرنے کے قابل نہیں ہوتیں۔
سچر کمیٹی نے بھی مسلمانوں کی تعلیمی اور معاشی ابتری کو نمایاں کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس کمیٹی نے جب 1965 سے 2001 کے درمیان گائوں اور شہروں میں لڑکیوں اور لڑکوں کے اسکولوں میں داخلے کا جائزہ لیا تو یہ بات ابھر کر سامنے آئی کہ مسلمان درج فہرست ذاتوں اور قبائل سے بھی بہت پیچھے ہیں۔ مثال کے طور پر شہروں میں 1965 میں درج فہرست ذات و قبائل لڑکیوں کا تناسب صرف 40 فیصد جو 2001 میں بڑھ کر83 فیصد ہوگیا۔ اسی طرح میں 1965 میںلڑکیوں کا تناسب 53 فیصد تھا جو 2001 میں بڑھ کر 80 فیصد ہوگیا یعنی پسماندہ طبقات سے3فیصدی کم۔ مسلم خواتین کی شرح خواندگی کی کمیت کا اندازہ ان ریاستوں کی شرح خواندگی سے لگایا جاسکتا ہے۔ چند ریاستوں میں مسلم خواتین کی شرح خواندگی پر نظر ڈالتے ہیں۔ ہریانہ میں مسلم خواتین 5ء21 فیصد، بہار میں 5ء13 فیصد، اترپردیس میں37 فیصد ، جموں و کشمیر میں 9ء34 فیصد، ناگالینڈ میں3ء33 فیصد، پنجاب میں 4ء43 فیصد، کیرالہ میں سب سے زیادہ مسلم خواتین خواندہ ہیں وہاں کی اس کی شرح خواندگی 5ء85 فیصد ہے جب کہ ہندو خواتین کی 7ء86 فیصد ہے، ایک فیصد سے زائد، تمل ناڈو میںمسلم خواتین ہندوستان خواتین سے زیادہ تعلیم یافتہ ہیں مسلم خواتین کی ِشرح خواندگی 9ء82فیصد ہے جب کہ ہندو خواتین کی 72 فیصد ہیں۔
یوپی اے حکومت کے بجٹ اجلاس کے موقع پر مشترکہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے حکومت کی جانب سے اس وقت کی صدر جمہوریہ پرتبھا دیوی سنگھ پاٹل نے کہا تھا کہ اقلیتوں کی فلاح و بہبود کے لئے 80 ہزار کروڑ روپے خرچ کئے گئے ہیں۔ حکومت یہ تو بتائے وہ پیسے کہاں خرچ کئے، کہاں اسکول کھولے گئے، کتنے مسلمانوں کو نوکریاں دی گئی ہیں، کتنے تعلیمی وظائف دئے گئے اور کتنے مسلمانوں کو بھلا ہوا۔ ظاہر سی بات ہے کہ یہ سب الفاظ اور اعداد شمار کی شعبدہ بازی ہے۔ حقیقت کا اس سے دور کا تعلق نہیں ہے۔ اگر اس رقم کا ایک چوتھائی حصہ بھی مسلمانوں پر خرچ کیا جاتا تو مسلمانوں کی حالت ابتر نہ ہوتی۔
حالیہ اعداد و شمار کی روشنی میں اعلا تعلیم میں مسلمان سب سے زیادہ پھسڈی ہیں۔ ہندستان میں مسلم آبادی کل آبادی کی 14.2فیصد ہے جب کہ اعلا تعلیم میں داخلہ پانے والے طلباء میں ان کا تناسب صرف4.4فیصد ہے۔ دس ہزار خواندہ افرد میں 275گریجوئیٹ صرف ہیں۔یہ شرح2.75 فیصد ہوتی ہے۔کل آبادی میں یہ شرح 1.25فیصد کے قریب ہے۔جب کہ جین فرقہ میں فی دس ہزار خواندہ افراد میں 2565 گریجوئیٹ ہیں۔ (شرح25.65فیصد) ۔ فی دس ہزار خواندہ عیسائیوں میں یہ تعداد884،(8.84%) سکھوں میں 639، (6.39%) بودھوںمیں 617 (6.17%) اور ہندئوں میں 598 (5.89%) ہے۔ تعلیم کے اس منظرنامے کو سامنے رکھ کر ہمیںیہ غورکرنا چاہئے کہ سول سروسز اور دیگر سرکاری ملازمتوں میں ہماری شرح کم ہونے کے اسباب میں ہماری تعلیم سے غفلت کا کتنا بڑا حصہ ہے؟اس قومی پس منظرمیں جب ہم مسلم اقلیت کی تعلیم کا جائزہ لیتے ہیں تشویش میں مزید اضافہ ہوتا ہے۔ سرکاری طور پر 2011کی مردم شماری کی بنیاد پر اس ضمن میں جو اعداد وشمار اسی ہفتہ منظرعام پر آئے ہیں ان سے مسلم تعلیم کی زبوں حالی ظاہر ہوتی ۔ ہمارے ملک میںمسلم آبادی تقریباسواسترہ کروڑ ہے ۔ رپورٹ سے پتہ چلتا ہے کہ ان میں سے نصف سے کچھ زیادہ 57.3فیصد یعنی فی ہزار 573افراد ہی خواندہ ہیں۔ باقی 427 ناخواندہ ہیں۔ جب کہ مجموعی طورپر ہندواقوام میں ناخواندگی کی شرح 364فی ہزار، سکھوں میں 325، بودھوں میں 282، عیسائیوںمیں 256 اور جین فرقہ میں صرف 136فی ہزار ہے۔
خواندگی ایک وسیع اصطلاح ہے جس کو ’’حرف شناسی‘‘ کہتے ہیں۔خواندہ وہ شخص ہے جوحروف کو پہچان لیتاہو، اپنا نام لکھ سکتا ہو اورجوڑگھٹا کا سادہ حساب رکھ سکتا ہو۔چنانچہ مسلم آبادی میں جن افراد نے قاعدہ یا ناظرہ سیپارہ پڑھ لیا، وہ خواندہ شمار ہوگا۔ خواندگی کے لئے کسی مدرسہ ، مکتب یا اسکول میں جانا ضروری نہیں۔ مسلم آبادی میں فی ہزار 573 خواندہ افرادمیں پچاس ایسے ہوتے ہیں، جنہوں نے مدرسہ یا اسکول کی شکل نہیں دیکھی۔
مسلمانوں کی اقتصادی صورت حال کا جائزہ لیتے ہیں جس سے مسلمانوں کی معاشی’ اقتصادی اور سماجی حالت کا اندازہ ہوجائے گا۔ ہندوستان کی سوا ارب کی آبادی میں مسلمانوں کی تعداد تقریبا صرف چودہ فیصد ہے لیکن ایک تازہ سرکاری رپورٹ کے مطابق ملک میں بھیک مانگنے والا ہر چوتھا شخص مسلمان ہے۔ یہ انکشاف ہندوستان میں 2011ء میں کی جانے والی مردم شماری کی رپورٹ کی بنیاد پر تیارکردہ اعداد و شمار میں ہوا ہے۔ رپورٹ کے مطابق ملک میں مجموعی طور پر 72.89 کروڑ افراد ایسے ہیں جو بے روزگار ہیں یا کام نہیں کرتے، ان میں سے 3.7 لاکھ بھیک مانگ کر اپنا گذر بسر کرتے ہیں۔ ان بھکاریوں میں سے مسلمانوں کی تعداد 92,760 ہے، جو بھیک مانگنے والوں کی مجموعی تعداد کا تقریبا ?پچیس فیصد بنتا ہے۔رپورٹ کے مطابق ہندو،ہندوستان کی آبادی کا 79.8 فیصد ہیں لیکن ان میں بھیک مانگنے والوں کی تعداد 2.68 لاکھ ہے۔ واضح رہے کہ ہندووں کی مردم شماری میں قبائلیوں اورانتہائی پسماندہ ذات کے دلتوں نیز دیگر کئی ایسے فرقوں کو بھی شامل کرلیا جاتا ہے جو خود کو ہندو قرار نہیں دیتے۔ عیسائی جن کا تناسب مجموعی آبادی میں 2.3 فیصد ہے ا ن میں بھیک مانگنے والوں کی شرح 0.88 فیصد، بدھ مت کے ماننے والوں میں 0.52 فیصد، سکھوں میں 0.45 فیصد، جین دھرم کے ماننے والوں میں 0.06 فیصد اور دیگر فرقے کے بھیک مانگنے والوں کی شرح 0.30 فیصد ہے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ مسلمانوں میں مردوں کے مقابلے میں بھیک مانگنے والی خواتین کی تعداد زیادہ ہے، جو بقیہ تمام فرقوں میں پائے جانے والے رجحان سے یکسر مختلف ہے۔ رپورٹ کے مطابق مجموعی طور پر بھیک مانگنے والے مردوں کا قومی اوسط 53.13 فیصد اور خواتین کا 46.87 فیصد ہے جبکہ مسلمانوں میں یہ تناسب مردوں میں 43.61 فیصد اور خواتین میں 56.38 فیصد ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق ملک میں مسلمانوں کی حالت سب سے پسماندہ سمجھے جانے والے دلت فرقے سے بھی بدتر ہے۔ یوں تو ہندوستان میں بھیک مانگنا غیر قانونی ہے اور اس جرم کے لیے تین سے دس سال تک کی سزا ہے تاہم حقوق انسانی کے کارکنان کا کہنا ہے کہ یہ قانون کافی مبہم ہے اور اس میں بھیک مانگنے والوں اور بے گھر اور بے زمین مزدوروں میں کوئی فرق نہیں کیا گیا ہے اور اپنی روزی روٹی کے لیے گھر بار چھوڑ کر دوسرے شہروں میں نقل مکانی کرنے والوں کو بھی بھیک مانگنے والوں کے زمرے میں ہی رکھ دیا گیا ہے۔ مذکورہ قانون کے مطابق کنگال دکھائی دینے اورعوامی مقامات پر آوارہ پھرنے والے کسی شخص کو پولیس بھکاری قرار دے کر گرفتار کرسکتی ہے۔ ان میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو گا بجاکر، رقص کر کے، قسمت کا حال بتا کر یا کرتب دکھاکرلوگوں سے بخشش مانگتے ہیں۔ حقوق انسانی کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ یہ قانون بھیک مانگنے والوں کی آباد کاری کے بجائے انہیں مجرم بنانے میں زیادہ مدد گار ہے۔
یہ اعداد و شمار مسلمانوں کی تعلیمی، معاشی اور سماجی زبوں حالی بیان کرنے کے لئے کافی ہے۔ ان اعداد و شمار کی روشنی میں یہ سمجھا جاسکتا ہے کہ مسلمانوں کو قومی اور ترقی کے دھارے میں لانے کے لئے ہر سطح پر ریزرویشن ضروری کیوں ہے۔ مسلمانوں کے تعلق سے اتنے سارے کمیشن اور کمیٹیاں اور ان کے سفارشات مسلمانوں کو ان کی اوقات دکھانے کے لئے ہے یا درحقیقت ان کی پسماندگی اور پچھڑے پن کے ازالے کے لئے۔حکومت ہند اس وقت مسلم خواتین کے وقار کے غم دبلی ہوتی جارہی ہے جب کہ حقیقت یہ ہے کہ مسلم خواتین پر سب سے زیادہ مظالم بی جے پی حکمرانی والی ریاستوں میں ہوتے ہیں۔ ابھی حالیہ دنوں ہریانہ میں دو نابالغ مسلم لڑکیوں کے اجتماعی آبروریزی کرکے نربھیا واقعہ کو دہرایا گیا، مدھیہ پردیش کے مندرسور اور رتلام میں مسلم خواتین کو گورکشکوں نے زدب اور چھیڑ چھاڑ کی۔ مدھیہ پردیش کے ہی ضلع سیہور کے صدیق گنج میں مسلم خاتون بے حرمتی اور درندگی کا ثبوت دیا گیا اور بیٹے کو ماں کے ساتھ جنسی عمل کرنے پر مجبور کیاگیا اور بیٹے کو پاب کے غیر فطری فعل پر لاچار کیا گیا اور ماں کو بیٹے کا اور بیٹے کا ماں کو باپ کو بیٹے کا بیٹے کے باپ کو پیشاب پینے پر مجبور کیاگیا۔ گجرات کی ظاہرہ شیخ’ بلقیس بانو دیگر خواتین کی بدسلوکی اور اجتماعی آبروریزی کے واقعات لوگوں کے ذہن سے مٹے نہیں ہوں گے۔اس کے سیکڑوں واقعات ہیں جن میں مسلم خواتین کے ساتھ درندگی کا مظاہرہ کیا گیا اور ان سب میں بی جے پی یا سنگھ پریوار سے وابستہ لوگ شامل رہے ہیں۔ لیکن بی جے پی حکومت مسلم خاتون کے وقار کی بات کر رہی ہے تو کس منہ سے کر رہی ہے۔اس کے پس منظر کو سمجھنا ضروری ہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔