بی جے پی عاملہ سے خالی ہاتھ واپسی

حفیظ نعمانی
اسے ملائم سنگھ کی اقبال مندی کہا جائے گا کہ جو اجیت سنگھ اپنی پارٹی بغل میں کو دبائے ملائم سنگھ کے در پر اس لئے دستک دے رہے تھے کہ وہ جاٹ ووٹوں کی لالچ میں اجیت سنگھ کو ایسے ہی راجیہ سبھا کا ممبر بنا دیں گے جیسے کرمی ووٹوں کے لئے بینی پرساد ورما کو بنوایا اور ٹھاکر ووٹوں کے خیال سے امر سنگھ کو۔ لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ملائم سنگھ بھی سمجھ گئے ہیں کہ اب جاٹ ووٹ جو کبھی چودھری چرن سنگھ کے اشارہ پر سو فیصدی ادھر سے ادھر ہو جایا کرتاتھا اب ان کے بیٹے اجیت سنگھ کے پاس اتنا بھی نہیں ہے جتنا بی جے پی کے پاس ہے۔ ملائم سنگھ نے ان سے کیا کہا یہ سب راز ہی میں رہ گیا لیکن ملائم سنگھ کو ان کے ووٹ مل گئے۔ بالکل ایسے ہی جیسے ملائم سنگھ نے سات ممبروں میں ایک بھی مسلمان نہیں لیا اور ہر مسلم حلقہ سے اس کا شکوہ بھی کیا گیا۔ لیکن پیس پارٹی کے ڈاکٹرمحمد ایوب انصاری نے اپنے ووٹ ملائم سنگھ کو دینے کی پیش کش کردی۔
اس سماج وادی پارٹی کا تو بس بی جے پی کی مجلس عاملہ میں متھرا تک ذکر محدود رہا لیکن کانگریس مکت بھارت جس پربھی مذاکرہ ہوا اور رائے بریلی تو ایسا موضوع تھا جس پر عاملہ کی میٹنگ میں ہر ہر پہلو سے غور کیا گیا۔ شاید اتر پردیش کے الیکشن کے بعد حکومت بنانے کی اتنی فکر نہیں ہے جتنی اس کی ہے کہ رائے بریلی کی چھ سیٹیں جن میں سے پانچ سماج وادی کے پاس ہیں اور ایک آزاد ہے وہ سب سیٹیں جیت لیں تو اس کامطلب یہ ہوگا کہ امت شاہ نے سونیا مکت رائے بریلی بنا دیا۔
عاملہ کی کارروائی کئی اخباروں میں جو رپورٹنگ ہے اس میں صحافیوں کی بے دلی ظاہر ہو رہی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ امت شاہ اور ان کی عاملہ کے کہنے کو اس لئے کچھ زیادہ نہیں تھا کہ وہ جسے لوک سبھا کے الیکشن میں ہر جگہ گجرات ماڈل کو پیش کرتے تھے۔ اب دو سال کی کارگردگی میں کہیں وہ ماڈل نہیں ہے اور ستم بالائے ستم یہ کہ ٹی وی کے ہر مذاکرہ میں جب مہنگائی پر بات آتی تھی تو بی جے پی کے تر جمان ٹیڑھی گردن کرکے کہتے تھے کہ ہماری حکومت نے اتنی مرتبہ ڈیزل کی قیمت کم کی ہے اور آج جب الہ آباد میں بی جے پی کی مجلس عاملہ کی میٹنگ ہورہی ہے تو اخباروں کی خبر ہے کہ حکومت نے ڈیزل کی قیمت 19 مرتبہ اور پیٹرول کی 16مرتبہ بڑھائی ہے ۔ایک صاحب نے گردن جھٹک کر کہا کہ جو پیاز سو روپے کلو تک بکی اسے آج ہم نے ایک روپے کا چار کلو کر دیا۔ یہ کہتے وقت یہ نہیں سوچا کہ یہ قدرت کی مہربانی ہے اور کسان کی حماقت کہ ہر کسی نے یہ سوچ کر پیاز بوئی تھی کہ بے موسم بارش سے آدھی خراب ہوگئی اور آدھی پچاس روپے کلو بکے گی اور موسم خراب کرنا حکومت کا کام نہیں ہے۔
بات صرف ڈیزل پیٹرول اور کھانے پینے کی چیزوں کی مہنگائی کی نہیں ہے۔ حکومت نے با قاعدہ اعلان کیا ہے کہ ہر سفر مہنگا ہوگا اور گھرسے باہر ہر کھانا مہنگا کردیا گیا۔ ایک بات جس کے اوپر نریندر مودی کا وزیر اعظم بننے سے پہلے سب سے زیادہ زور تھا وہ پارلیمنٹ کے داغی ممبروں کی صفائی۔ اور سیاست میں داغی افراد کا داخلہ تھا اب انکے پاس اسکا کوئی جواب نہیں ہے کہ پارلیمنٹ کے کسی داغی ممبر کے خلاف کوئی کارروائی کیوں نہیں کی ؟ اور غضب یہ کہ اتر پردیش بی جے پی کے صدر کے لئے ان صاحب کو لایا گیا ہے جن کے خلاف گیارہ مقدمے چل رہے ہیں جن میں ہر قسم کا مقدمہ ہے۔ ظاہر ہے کہ ان کا جتنا بس چلے گاوہ ٹکٹ کے لئے ایسے دوست تلاش کریں گے جن کے خلاف گیارہ سے زیادہ مقدمے چل رہے ہوں۔ اور شاید عاملہ میں اخباروالوں کو سروے کرنے کے بعد ٹکٹ دینے کا جو جواب دیا گیا ہے وہ یہی سروے ہوگا کہ کس کے خلاف کتنے مقدمے چل رہے ہیں ؟یہ بھی وہی فارمولہ ہے جو سنجے گاندھی نے بنایا تھا کہ یہ نہ بتاؤ کہ کس نے دیش کی اور پارٹی کی کتنی خدمت کی ہے ؟یہ بتاؤ کہ جیت جائیگا ؟اور مشہور ہو گیا تھا کہ سنجے تو ایک ہی بات کہتے ہین کہ جیتنے والا گھوڑا لاؤ۔ اب بی جے پی کے صوبائی صدر کہیں گے کہ ایک درجن سے زیادہ مقدمے والا لاؤ۔
بی جے پی کے قو می صدر امت شاہ نے وزیر اعظم مودی کی موجودگی میں کہا کہ یوپی کی ترقی کے لئے یہاں بی جے پی کی حکومت ضروری ہے ۔کیوں کہ یوپی کی ترقی کے بغیرملک کی ترقی نہیں ہو سکتی ۔یعنی انہوں نے وزیر اعظم کو گواہ بناکر کہہ دیا کہ ملک کی ترقی نہیں ہوئی ۔اس لئے کہ یوپی کی ترقی نہیں ہوئی۔ اور یوپی کی تر قی اس لئے نہیں ہوئی کہ یہاں بی جے پی کی حکومت نہیں بنی۔جتنی بھی کارروائی اخباروں میں آتی ہے اس میں مایاوتی کا کوئی ذکر نہیں ہے ۔اور آثار ایسے ہیں کہ ہو سکتا ہے مایاوتی کانگریس سے ملکر الیکشن میں اتریں ۔انہوں نے اتر اکھنڈ کے نازک موڑ پر بھی کھل کر کانگریس کا ساتھ دیا تھا  اور راجیہ سبھا کے الیکشن میں بھی دونوں کانوں میں باتیں کرتی رہیں۔ آنے والے الیکشن میں اتر پردیش کا نگراں کانگریس نے کشمیری مسلمان غلام نبی آزاد کو بنا دیا ہے۔ مقصد بظاہر یہ ہے کہ وہ مسلمان جو ملائم سنگھ سے ناراض یا مایوس ہو چکے ہیں وہ ہمیشہ کی طرح مایاوتی کے ساتھ جائیں گے۔ان کی وجہ سے شاید انہیں ایسے ہی نتیجہ کی تو قع ہو جیسا کانگریس نے بہار میں لالو یادو سے ہاتھ ملاکر حاصل کرلیا۔ یہ الگ بات ہے کہ لالو اور مایاوتی ندی کے دو کنارے ہیں۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔