بی جے پی کے چار سال: حقیقت کے آئینہ میں

محمدصابرحسین ندوی

2014ء میں بی جے پی مکمل جمہوری تائید کے ساتھ منصب اقتدار پر آئی، یہ ایسی تائید تھی جسے تاریخی اور ناقابل فراموش قرار دیا گیا تھا، اس نے انتخابی مہم میں حزب مخالف کی مخالفت کرتے ہوئے کوئی کور کسر نہ رکھی تھی، ہر محاذ پر متلون زاوئے پیش کئے اور عوام الناس کو سبز باغات کے خوش رنگ مناظر میں ایسا گم کیا کہ آج بھی اس سے نکلنا دشوار معلوم ہوتا ہے، بالخصوص گانگریس پارٹی اور گاندھی خاندان کی رسوائی نیز تاریخ میں الٹ پھیر کرتے ہوئے ؛عظیم شخصیات کا بے دریغ استعمال کیا گیا، اور ان سب سے بڑھ کر ملک میں حکومتی شعبوں میں کرپشن کے عنوان جلی انداز میں پیش کیا گیا۔ ان کے ملکی احساسات وجذبات بے انتہا مشتعل کرتے ہوئے ؛پوری آبادی کو اعتمادووثوق میں لینے اور بی، جے، پی لہر دوڑا دینے میں باکمال کا میابی پائی، بلکہ صاف لفظوں میں کہنا چاہئے؛ کہ ہندتو کے ایجنڈے کو نافذ کرنے اور ملک میں ’’رام للا‘‘کی حکومت قائم کرنے، نیز بابری مسجد کی جگہ ہر مندر بنانے کا بغل بجاکر، مذہبی وفکری جذبات کو برافروختہ کیا گیا، اور زعفرانیت کے رنگ میں ملک کو رنگنے کے نام پر خوب داد پائی، جگہ جگہ ہورڈنگ اور بے تحاشا اشتہارات پرموسلادھار بارش کی طرح روپئے خرچ کئے گئے، جہاں دام سے کام نہ چلا وہاں ڈنڈا بھی استعمال کیا گیا، گٹ بازی، تفرقہ بازی اور ہیجان کن خطابات کی بھرمار کی گئی، گوڈسے اور گولوالکرکے پرچم لہرائے گئے، اور حقیقی مذہب کی طرف لوٹنے نیزعالمی پیمانے پر ہندوتو کاڈنکا بجانے کی بات کہی گئی۔

شب وروز کی ایڑی چونٹی کا زور لگانے کے بعد، کاہ سے کوہ کا کام لینے کے بعد منہ مانگی مراد بر آئی، حتی کہ اب حکومت اپنے چار سال مکمل کر چکی ہے، اور بھنورے میں پلے، اور اقتدار کے نشہ نے ان سے وہ سب کچھ کروایا جو جمہوریت کیلئے لعنت اور سیکولرزم کیلئے شوم نصیب ہو، ہوسکے تو اپنے دل کے نہا خانوں سےسابقہ کتاب کی ورق گردانی کیجئے!ماضی کے صفحات معصوموں کے خون سے لت پت نظر آتے ہیں ، جس میں کسی ’’بل سولت‘‘ کا اندیشہ نہیں ، تو کبھی صنف نازک کی عزتیں تار تار ہوتی دکھا ئی دیتی ہیں ، کوئی صفحہ ہندوستان کے شیر وشکر تہذیب اور گنگا جمنی تمدن پر کڑوے کسیلے بلکہ نیم چڑھے پود نہیں ثمرآور درخت لگائے؛اپنی موجودگی درج کروا رہا ہے، اور اس حقیقت کو ملیامیٹ کئے جارہا ہے:

ہمارا خون کا رشتہ ہے سرحدوں کا نہیں

ہمارے خون میں گنگا بھی چناب بھی ہے

تو وہیں کرپشن کی ایسی بساط بچھی ہوئی دکھتی ہے، جو شیطان کی آنت سے بھی طویل ہے، وعدوں اور بھروسے کا قتل و قاتل قدم قدم پر راہ روکتے اور سر بلند کرنے پر سر قلم کرنے کی دھمکیاں کانوں میں صاعقہ بن کرگرجتی ہیں ۔

قلم کا سر قلم تو پہلے ہی ہو چکا ہے، عالمی میڈیا میں اس نے ۱۳۸ واں رتبہ پاکر پہلے ہی نام روشن کردیا ہے، تو وہیں کوبرا پوسٹ کے خفیہ آپریشن نے ذرائع ابلاغ کی زعفرانی سوچ کی ترویج اور ا سکیلئے کسی بھی حد تک جانے کی للک نے حیرانگی میں ڈال رکھا ہے، فرقہ واریت اور ہندو مسلم کی تفریق دیکھ کر ایسا محسوس ہونے لگاہے؛کہ ملک عزیز میں مسلم کوئی اجنبی قوم ہے، اسے اس ملک پر کوئی حق نہیں ، اس کا اس ملک سے کوئی سروکار نہیں ، پاکستانی ہونے یا غیر ملکی باشندہ ہونے پر ضد ہے، بات بات پر کسی جمع غفیر کا کسی بے قصور پر ٹوٹ پڑنا، چیل اور کٹخنے کوے کی طرح مردار کو چیر پھاڑ کردینے پر مصر ہو، گئو کشی کرنے والے کو ملکی پھریرے میں لپیٹ کر سر پر بٹھایا جاتا یے، گویا مسلم کشی پر ملکی اعزاز سے نوازا جانے لگا ہے، اسلام قبول کرنے والے کی جان ومال کو مباح کردیا گیا ہے، نام نہادصوفیاء اور درویشوں کو ملک کی باگ ڈور دے دی گئی ہے، علاج ومعالجہ کی بدحالی عالمی شہرت یافتی ہے، کسی بیماری سےشفا پالینا، تو بس خدا پر ہی موقوف ہے، ورنہ نوبت یہ آچکی ہے؛ کہ آکسیجن کے بغیر سینکڑوں نونہالوں کی جانیں جا رہی ہیں ، بہتوں کو تو دنیا کی ہوا بھی لگنے نہیں پاتی، اور وہ موت کی گہری نیند سوجاتے ہیں ، ستم بالائے ستم یہ کہ اگر جان جان آفریں کے سپرد ہوبھی گئی ؛تب بھی آخری آرام گاہ تک پہونچانے کیلئے سواریاں تک مہیا نہیں ہیں ، اقرباءواعزاء اپنے محنت کش شانوں یا سائیکل پر کھینچ کر لے جانے پر مجبور ہیں۔

سرکاری عہدےداروں کا جانبدار ہوجانا بھی عام ہوگیا ہے، خود اپنی موجودگی میں فسادات کروانا اور ایک خاص طبقہ کو نشانہ بناکر موت کے گھاٹ اتاردینے کا نظار آنکھوں میں چبھن پیدا کردیتا ہے، زور زبر دستی کرنا اور اپنے زیر دستوں و ماتحتوں کی زندگی اجیرن کردینا ؛نیز بعض حالات میں انہیں زندگی سے محروم کردینا بھی پایا جاتا ہے، اچھے دن اور وکاس کے نام پر غیر ملکی کمپنیوں کو دعوت دینا اور پھر سے ملک کو’’ایسٹ انڈیا کمپنی‘‘ کی طرح غلامی کے دہانے پر کھڑا کر کے گوری چمڑی کے تلوے چاٹنے کا خواب دیکھا جارہا ہے، باتوں ، نیرن جملوں اور متلون فقروں کے داو پیچ میں الجھا کر ؛بیرونی چندوں کو سیاسی جماعتوں کیلئےجائز قرار دے دیا گیا ہے، اس سلسلہ میں کوئی کسی کو حساب کتاب دینے یا باز پرس کا مکلف نہیں رہا، لو جہاد کوایک خاص نقطہ اورایک خاص ایجینڈے کو طور استعمال کرتے ہوئے آزادی کے معنوں پر مہر لگادی گئی ہے، کھانے اور پینے پر پابندیوں کا دور دوراں ہے، پہننا اوڑھنااور ذاتی طرز  زندگی پر بھی پہریداری کی جارہی ہے، سیکولرزم کو خطرہ لاحق ہے، جمہوریت کی سانس بیٹھی جارہی ہے، اتحاد کا جنازہ نکلا جارہاہے، محبتون پر نفرتوں کے سودا گر مسلط ہو گئے ہیں ، دیوالی کے پٹاخوں اور عید کی سیویوں میں دراڑ پڑچکی ہے، مندروں اور شوالوں کے گھنٹوں اور آذان کی آوازوں میں دوہرا رویہ اپنایا جارہا ہے، بلکہ اذانیں دلوں کو چیرنے لگی ہیں، اس پر پابندی کا مطالبہ ہونے لگا ہے، اور وہ عبادات جس کے دیکھنے اور بلکہ پوری عزت وتوقیر کے ساتھ آنکھ بھر کے دیکھنےکے عادی تھے ؛وہی عبادت (نماز)پڑھنے پر حملہ آوروں اورشرپسندوں کا مطمح نظر بن چکی ہیں ، بات تو یہاں تک آچکی ہے کہ نمازیں پڑھنے کے طور طریقے اور جگہوں کی تعیین کی جارہی ہے، اور ملک کی حرماں نصیبی یہ ہے کہ ایسوں کو اعلی عہدیداروں کی شہ نصیب ہے، اور اس سے زائد عقل اس بات پر ششدر ہے کہ امن پسند، وآئین کے محافظین بھی زبانوں پر لگام لگائے بیٹھے ہوئے ہیں ، اور ہندوستان کی اس تصویر کو گدلا کررہے ہیں :

مجھ میں تھوڑی سی جگہ بھی نہیں نفرت کے لیے

میں تو ہر وقت محبت سے بھرا رہتا ہوں

اکبر الہ آبادی مرحوم نے کہاتھا:’’دل بدل جائیں گے تعلیم بدل جانے سے‘‘، چنانچہ آئندہ نسلوں کو اپناشیدہ بنانے اور ملک کو’’ ہندو راشٹریہ‘‘میں بدل دینے کی خاطرغیر سیکولر نصاب تیار ہوچکا ہے، اورتاریخ کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی جاچکی ہے، مسلمانوں کے سنہرے باب کو قتل وغارت گری کا رنگ دیا جارہا ہے، اور ہر ممکن یہ کوشش کی جارہی ہے کہ انہیں غیر ملکی غاصب قرار دیاجائے، ان سے نفرت کو حب وطنی کا لازمہ ٹھہرایا جائے، نیزنچلے طبقوں کی کھلے عام پٹائی ہورہی ہے، ان کی عورتوں کے ساتھ زیادتیاں اور معمولی معمولی باتوں پر کوڑے برسادینے کا مشاہدہ ہوتا ہی رہتا ہے، یہ سب کچھ ہے ؛لیکن منصب اعظم پر براجمان کو ملک ملک دورا کرنے اور اپنی دیرینہ خواہش کی تکمیل کرتے ہوئے ؛پوری دنیا کی خاک چھان ڈالنے سے فرصت نہیں ہے، اور اگر بسااوقات سرزمین ہند کو پائے مبارک کی ضیافت شرف حاصل ہوجائے تو وہ بھی انتخابی مہموں میں شرکت کرنے اور عوامی ونچلی سطح پر آکر دوکوڑی کی باتیں بنانےہی سے رخصت نہیں ہے، اب جھوٹ کو فیشن بنا دیا گیا ہے، جانوروں سے رشتہ داری وقرابت کا اعلان ہوچکا ہے، دیش کے کونے کونے میں شکوک وشبہات پیدا کرنے اور تشکیکی ذہن بنا کر ہر کسی کو مشتبہات میں مبتلا کر کے مشتبہ کردینے کا عام رواج ہو چلا ہے، ہر طرف نظریں ٹکراتی ہیں ، ہر جانب کسی دشمن کا احساس ہوتا ہے، آپ سفر کیجئے یا آپ ایسے علاقوں میں وقت گزارئے؛ جہاں ہندو سماج کی کثرت ہو، اوربی جے پی نے اقتدار سمنبھال رکھا ہو؛آپ یقینا محسوس کریں گے ؛کہ اب ہندوستان بدل چکا ہے، اور مفاد پرست و ہندومت طاقتیں عروج پا چکی ہیں ، ابلیسیت کی دھوم دھام ہے اور معصومیت کی رخصتی وسنگدلی کا خیر مقدم ہے۔

چار سال ہونے پر آپ کا دل کیا کہہ رہا ہے؟اگر آپ حقیقت پسند ہیں توملکی معیشت کی کسمپرسی اور گرتی ہوئی جی، ڈی، پی کو چھوڑھئے؛ ذرا خود کی معیشت پر غور کیجئے!نوجوانوں کی شرح ملازمت پر دھیان دیجئے!یا پھر نوٹ بندی کی مشقتوں اور ان دنوں میں ہونے والے پچاس یا اس سے زائد قانونی تبدیلون کو یاد کیجئے!اور قطار میں کھڑے کھڑے سو یااس سے زائد کی موت، اور بوڑھے، بزرگوں اور عورتوں کی بے بسی وبے کسی کے بارے میں سوچئے!اگر ان یادوں پر گرد پڑ گئی ہوتو جی، ایس، ٹی کے نافذ ہونے پر ریسٹورنٹ اور ہوٹل کے بل کیا، روز مرہ کے سامانوں پر اٹھائیس فیصد ٹیکس کو یاد کیجئے اور انگریزوں کے لگان کو اس سے موازنہ کیجئے!اور اگر پھر بھی تصویر دھندلی نظر آئےتو اپنے کچن’’مطبخ‘‘کا ایک چکر لگائے اور گیس سلنڈر کو دیکھئے ! فرج کھولئے اور مہنگی مہنگی سبزیوں پر پر ہاتھ رکھ کر سوچئے! اب بھی دل مطمئن نہ ہو تو اپنی سواری لیجئے اور پٹرول پمپ کا ایک چکر لگا آئے!اور فیصلہ کیجئے کہ کیا پایا اور کیا کھویا ہے؟راقم کا دن کے سورج اور رات کے اندھیرے کی طرح عقیدہ ہے؛ کہ حقیقت پسندی پر ممکن ہے کہ بے ساختہ آنسو نکل آئیں اور فرط افسوس میں دل پھٹنے لگے، یا اس سے زائد بھی ہوسکتا ہے!۔ یاد رہے!بی جے پی کے چار سالہ جائزہ کا استقصا نہیں ، بعض دکھتی رگ پر انگلی رکھنے کوشش کی گئی یے، ورنہ اس کی تفصیل تو القط۔

حقیقت یہ ہے کہ’’ الناس علی دین ملوکھم‘‘ کا قاعدہ مسلم ہے، اور’’ظھر الفساد فی البر والبحر بما کسبت ایدی الناس‘‘سے بھی کسی کو انکار نہیں ، دراصل ناعاقبت اندیشی اور دور اندیشی کے فقدان اور سیاسی بصیرت وبصارت کے گم ہوجانے، نیز اپنی انا پرستی و خود پرستی نے؛ آج ہمیں اس دوراہائے پر کھڑا کردیا ہے، اور بار بار ایک ہی غلطی کو مکرر اور سہ کررکرنے؛ نیز حقیقت سے آنکھیں بند کرتے ہوئے منصوبہ بندی کرنےاور وقتی جوش اور وقتی ولولہ ا نگیزی نے ہمیں غارت کردیا ہے؛تاہم مستقبل کو سنوارنا اور نئی روح، نئی زندگی اور نئے منشور ومقصود کے ساتھ اٹھ کھڑا ہونا؛ آپ کے ہاتھ میں ہے، حقیقت و صورت کو میں فرق کرتے ہوئے نئی منزلین اور نئی راہ کا توشہ لیتے ہوئے ہوئے نئی امید، نئے شوق اور جذبہ کے ساتھ اتحاد و یکجہتی نیزتاریخی احوال کے زریعہ فاشسٹ طاقتوں کا پردہ فاش کرتے ہوئے ملک کومتحد کرنے کی کوشش کرنے ہی میں آئندہ کی کامیابی مضمر ہے۔

ایک ہو جائیں تو بن سکتے ہیں خورشید مبیں

ورنہ ان بکھرے ہوئے تاروں سے کیا کام بن

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔