بے روزگار بنانے والی سرکاریں

حفیظ نعمانی

این ڈی ٹی وی انڈیا کے پروگرام پرائم ٹائم کے ایڈیٹر رویش کمار کا سب سے پسندیدہ موضوع روزگار، بے روزگاری اور ملک کی تعلیمی حالت ہے۔ لیکن ان کا دائرہ عام طور پر یا تو وہ بے روزگار ہوتے ہیں جو ایک کروڑ دس لاکھ نوٹ بندی کے نتیجہ میں ہوئے یا وہ ہوتے ہیں جو کالجوں میں برسوں سے پڑھا رہے ہیں اور جیسے پہلے دن عارضی تھے ایسے ہی پندرہ برس کے بعد بھی ہیں یا وہ ہیں جن کو شاطر اساتذہ نے ٹھیکہ پر رکھ دیا ہے اور ان کی آدھی تنخواہ وہ لے لیتے ہیں۔

ہم نے پہلے بھی اس طرف توجہ دلائی ہے اور آج پھر لکھ رہے ہیں کہ رویش کمار بے روزگاروں میں ان کو بھی شامل کرلیں جو کم از کم 50  لاکھ ہوں گے اور جن کا روزگار جانوروں کی خرید و فروخت، ان کی کھالیں، ان کا گوشت، ان کے سینگ اور ہڈیوں کا کاروبار تھا۔ ہمیں یاد نہیں کہ 72  برس میں کسی حکومت کے سربراہ نے کسی کاروبار کو حلف لینے کے فوراً بعد اس طرح غنڈہ گردی سے مٹایا ہو جیسے امت شاہ کی سرپرستی میں یوگی آدتیہ ناتھ نے یہ کہتے ہوئے برباد اور نیست و نابود کیا ہے کہ ہم نے الیکشن میں وعدہ کیا تھا کہ غیرقانونی سلاٹر ہائوس ہم بند کردیں گے۔ اور قانونی ہر سلاٹر ہائوس کو تاراج کردیا۔

جمعیۃ القریش نے ہر طریقہ سے بات کرنا چاہی اور یہ بھی پیشکش کی کہ کام تو حکومت کے کرنے کا ہے لیکن حکومت نقشہ دے تو ہم اپنے پیسے سے اپنی زمین پر اسی معیار کے سلاٹر ہائوس بنادیں گے لیکن حکومت نے کوئی جواب نہیں دیا اور جب ہائی کورٹ سے فریاد کی تو عدالت عالیہ نے حکم دیا کہ اپنے معیار کے مطابق سلاٹر ہائوس بناکر دیئے جائیں۔ لیکن پانچ سال کا تجربہ ہے کہ بی جے پی کی مرکزی حکومت نے سپریم کورٹ کے کسی حکم کو نہیں مانا اور یہی رویہ اترپردیش کا ہے کہ ہائی کورٹ کے حکم کو وہ اس قابل نہیں سمجھتے کہ اس پر عمل کریں۔

جمعیۃ القریش کے اجلاس میں صورت حال پر غور کیا گیا اور تجویز پاس کی کہ اگر دو مہینہ کے اندر حکومت نے کوئی مثبت قدم نہیں اُٹھایا تو ہم سڑک پر آکر تحریک چلائیں گے۔ مسئلہ قریشی برادری کا ہے اور مسلمانوں کا ہے۔ موجودہ مرکزی اور صوبائی دونوں حکومتیں یہ جانتی ہیں کہ ان کا ایک ووٹ بھی انہیں نہیں ملے گا اور وہ ہندوئوں کو یہ دکھانا بھی چاہتے ہیں کہ ہمیں ان کا ووٹ نہیں چاہئے ایسی صورت میں سڑک پر آکر تحریک چلانا اپنی طاقت کو خطرہ میں ڈالنا ہے۔ اس وقت اگر کوئی چھری کام کرسکتی ہے تو وہ صرف یہ ہے کہ پورے ہندوستان میں قریشی یہ فیصلہ کریں کہ وہ اپنے مخلص لیڈروں کو اختیار دیں گے کہ وہ یہ دیکھیں کہ کس صوبہ میں کس پارٹی کی حمایت کرکے بی جے پی کو ہراسکتے ہیں۔ اور پھر جو فیصلہ ہوجائے اس پر اتنی سختی سے عمل کریں کہ جو بڑا یا چھوٹا اس کی مخالفت کرے گا اس کا حقہ پانی بند کردیا جائے گا اور کوئی اس سے رشتہ نہیں کرے گا۔

ہر قریشی کو صرف ایک عہد کرنا ہے کہ وہ بی جے پی کی حکومت نہیں بننے دے گا۔ یہ صرف بی جے پی ہے جو خود دنیا بھر کے مسلمانوں کو گوشت سپلائی کررہی ہے اور دنیا کے ہر ملک سے زیادہ گوشت مسلم ملکوں کو بھیج رہی ہے لیکن اپنے ملک کے قریشی مسلمانوں کو اس لئے بھوکا مارنا چاہ رہی ہے کہ وہ مذہبی کاموں میں بھی پیش پیش ہیں اور جسمانی طاقت میں بھی ممتاز ہیں اور ان میں اتحاد بھی سب سے زیادہ ہے۔ یہ بات سب کو معلوم ہے کہ صرف جانوروں کی کھال کے کاروبار سے قریشی برادری میں ہزاروں کروڑ پتی بن گئے تھے یہ بات حکومت کیسے برداشت کرسکتی تھی اس نے ساری ٹینریاں بند کرادیں اور جو کھال 300  روپئے کی بک رہی تھی وہ صرف 30  روپئے کی ہوگئی۔ اور گذشتہ بقرعید میں بکروں کی ہزاروں کھالیں لوگوں نے سڑک پر پھینک دیں کیونکہ مدرسہ والوں نے لینے سے انکار کردیا۔

ہم چاہیں گے کہ رویش کمار جب کہیں کہ نوٹ بندی سے ایک کروڑ دس لاکھ کی نوکری چھوٹ گئی تو اس میں اضافہ کرلیں کہ امت شاہ اور یوگی نے پچاس لاکھ قریشیوں کو بے روزگار بنا دیا اور اب تعداد ایک کروڑ ساٹھ لاکھ ہوگئی ہے۔ ہم قریشی نہیں ہیں اس لئے ہر بات میں ہمیں دخل نہیں ہے لیکن کیا جمعیۃ القریش نے سپریم کورٹ میں جانا مناسب نہیں سمجھا؟ ہم جانتے ہیں کہ ہوگا وہی جو دو سال سے ہورہا ہے لیکن بات میں وزن پیدا کرنے کیلئے اچھا تھا کہ سب سے بڑی عدالت بھی ان حکومتوں کو ذلیل کرے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔