تار تار ہوتی عصمتیں!

نازش ہما قاسمی

اگر نربھیا عصمت دری معاملے کے مجرمین کو فوراً کیفر کردار تک پہنچادیاگیاہوتا تو آج ملک میں صنف نازک کے ساتھ اس طرح کے مظالم نہیں ہوتے، ان مجرمین کو اگر گیٹ آف انڈیا کے پاس پھانسی دے دی گئی ہوتی تو میرٹھ میں کار روک کر بندوق کی گولی پر عصمت نہیں لوٹی جاتی، کٹھوعہ میں معصوم بچی کو موت کے گھاٹ نہ اتارا جاتا، گجرات کے پالن پور میں ۳۵ سالہ خاتون کی عصمت نیلام نہیں کی جاتی، سورت میں نوسالہ بچی کی بے گوروکفن ۸۶ زخموں کے نشانات والی نعش دریافت نہ ہوتی۔ دربھنگہ میں یارڈ میں کھڑی ٹرین کے اندر نابالغ دوشیزہ کی عصمت تار تار نہ کی جاتی۔ مغربی بنگال میں باراسات علاقے میں ۴۵ سالہ خاتون کے ساتھ درندے شیطانیت کا کھیل نہ کھیلتے۔ گروگرام میں ایک خاتون کو بچے کو اسکول میں داخلہ دینے کا جھانسہ دے کر تعلیمی عمارت کو شرمسار نہ کیاجاتا۔

اونجھا میں ۳۷ سالہ بیوہ خاتون کے تقدس کو پامال نہ کیاجاتا۔ یہاں تک کہ راجستھان کے الور ضلع میں ایک دلت خاتون کے ساتھ اجتماعی عصمت دری کا افسوسناک واقعہ رونما نہ ہوتا۔ ان سب کے پیچھے مجرمین کی حوصلہ افزائی ہے۔ اقتدار پر براجمان قوت  ان ملزمین ومجرمین کی حوصلہ افزائی کررہی ہیں، بیٹی پڑھاؤ بیٹی بچاؤ کا نعرہ فلاپ ثابت ہوچکا ہے۔ حکومت عورتوں  کے سمان کی بات کرتی ہے، مسلم خاتون کے ساتھ ہمدردی کا رونا روتی ہے، طلاق ثلاثہ پر پابندی لگا کر مسلم خاتون کو انصاف دلانے کی بات کرتی ہے،  شرعی معاملات میں مداخلت کے بجائے اگر عصمت دری کے ملزمین کو انجام تک پہنچائے، زانیوں کو کوڑے مارے جائے، سنگسار کیاجائے، پھانسی دے دی جائے توواقعی یہ عورتوں کے ساتھ انصاف ہوگا۔ ہر دن ہندوستان میں سینکڑوں خواتین ظالم زانیوں کے ہاتھوں اپنی عصمت کھورہی ہیں، اس پر کوئی کارروائی نہیں ہورہی ہے اور نہ کارروائی کرنے کی کوشش کی جارہی ہے، بے لگام مجرمین دندناتے پھر رہے ہیں، بلکہ بعض تو ممبر اسمبلی بھی ہیں، ضلع پریشد بھی ہیں، اورکچھ پولس افسران بھی۔ جب چوکیدار ہی اس طرح کے ہوں گے تو نشیڑی، گنجیڑی ، شرابی کا کیا حال ہوگا وہ تو دندناتے ہی پھریں گے اور اپنی حوس کی تسکین کےلیے بنت ہوا کو بھنبھوڑیں گے۔ الور میں ہوئے اجتماعی عصمت دری نے خوں کے آنسو رلا دیا ہے۔ اس سے قبل نربھیا ، اور کٹھوعہ کے واقعات نے ملک کی توجہ اپنی جانب مبذول کروائی تھی اب الور میں دلت خاتون کی اس کے شوہر کے سامنے اجتماعی عصمت دری نے جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔ پورے ملک میں اس کے خلاف آوازیں اُٹھائی جارہی ہیں، مجرمین کو سخت سے سخت سزا دینے کا مطالبہ کیاجارہا ہے، الیکشن کے مدنظر اس واقعے پر پردہ پوشی کی کوشش کی جارہی ہے، لیکن یہ معاملہ مجرمین کے ہاتھوں بنائے ہوئے ویڈیو کے وائرل ہونے سے زیادہ ہی گرم ہوگیا ہے۔ ہرخاص وعام تک اس شرمناک واقعے کی ویڈیو پہنچ کر غیرت کا امتحان لے رہی ہے۔

واقعہ یہ ہے کہ ’پریما‘ (بدلا ہوا نام) ۲۶؍اپریل کو اپنے شوہر ’موہن‘ (بدلا ہوا نام) کے ساتھ لال واڑی گاؤں سے تالورکچھ بذریعہ بائیک جارہی تھی،  تھانا غازی الور بائی پاس روڈ پر ان کی بائیک فراٹے بھر رہی تھی، یہاں تک کہ دہار چوگان کا راستہ قریب آگیا؛ لیکن اچانک ہی دوپہر تین بجے پریما اور موہن کی بائیک کے پاس دو دیگر بائیک آکر رک گئی، ان دونوں بائیکوں پر پانچ لوگ سوار تھے، سبھی کی عمر ۲۰ سے ۲۵ سال کے درمیان تھی، پانچوں شیطانوں نے بے بس بنت حوا و آدم کو دیکھ کر انہیں گھیر لیا اور دونوں کو سڑک سے دور ریت کے ٹیلے کے پاس لے گئے وہاں لے جاکر موہن کو خوب زدوکوب کیا، اور پریما کے ساتھ یکے بعد دیگرے مسلسل تین گھنٹوں تک شیطانوں نے وہ کام کیا کہ اگر ان مجرمین کےلیے زمین پھٹ جائے، وہ ٹرین کی زد میں آکر ہلاک ہوجائے، انہیں پہاڑ کی بلندی سے اوندھے منہ نیچے گرادیاجائے تب بھی ان کا گناہ معاف نہ ہو ۔ وہ درندے بے بس شوہر کے سامنے ہی اس کی بیوی کی عصمت لوٹتے رہے، صرف یہی نہیں؛ بلکہ ثبوت کے طور پر کہ ہم نے ان کے ساتھ زیادتی کی ہے، ان کے اتنے حوصلے بلند تھے کہ انہوں نے اس سارے واقعے کی ویڈیو گرافی کی اور ان پانچوں میں سے مکیش نامی شخص نے اس ویڈیو کو پورے ہندوستان کی غیرت کا اندازہ لگانے کے لیے سوشل میڈیا پر وائرل کردیا تاکہ دیکھ سکے کہ ہندوستان میں لٹتی عصمتوں کے خلاف بولنے والے کون کون ہیں؟ تار تار ہوتی عزتوں پر کون کون آواز اُٹھا سکتا ہے؟ ملزمین دلت خاتون اور اس کے شوہر کو بلیک میل کررہے تھے، نوبھارت ٹائمز کے مطابق دونوں کو ملزمین کی کال آرہی تھیں، وہ لوگ پیسے کا مطالبہ کررہے تھے، انہوں نے کہاتھا کہ اگر ہمیں پیسے نہیں دیے گئے تو ہم اس ویڈیو کو وائرل کردیں گے اور انہوں نے بالآخر وائرل کرکے اپنی شیطانیت کا ثبوت پیش کردیا۔ اس معاملے میں پولس کا رویہ بھی انتہائی شرمناک رہا کہ متاثرین کی شکایت کے باوجود بھی جلد پیش رفت نہ کی گئی، مجرمین کے خلاف ایف آئی آر تاخیر سے درج کی گئی، اعلیٰ پولس افسران تک اس معاملے کو نہیں پہنچایاگیا، ایسا لگ رہا تھا کہ ملزمین پولس والے کے رشتے دار ہوں جنہیں بچانے کی کوشش کی جارہی ہے۔

خیر میڈیا میں ہنگامہ ہونے کے بعد مجرمین کو گرفتار کرلیاگیا ہے اگر ان مجرمین کو جس کا ثبوت وائرل ویڈیو میں ہے اگر عدالت بروقت فیصلہ سناتے ہوئے پھانسی کے پھندے پر لٹکا دے تو ممکن ہے کہ دیگر بنت حوا کے ساتھ اس طرح کے معاملات رونما نہ ہوں گے، کسی شوہر کے سامنے اس کی بیوی کی عصمت نہیں لوٹی جائے گی، کسی بھائی کے سامنے اس کی بہن کی چادر نہیں چھینی جائے گے، کسی بے بس باپ کے سامنے اس کی معصوم بیٹی کی عزت نیلام نہیں کی جائے گی، کسی معصوم بچے کی آنکھ کے سامنے اس کی ماں کے ساتھ شیطانی کھیل نہ کھیلا جائے گا۔ ان سب کے لیے اس سے پہلے کے مجرمین کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے۔ اس میں ہندو مسلم، سکھ عیسائی نہ دیکھیں، عوام کوشش کریں اور عدلیہ کا سہارا لے کر مجرمین کو انجام تک پہنچائیں، سیاسی لیڈران پر بھروسہ نہ کریں، وہ ان عصمت دریوں پر اپنی روٹیاں سینکیں گے تمہیں انصاف نہیں دلائیں گے؛ بلکہ تمہارے سامنے ہمدردی کے بول بولیں گے اور مجرمین کی پشت پناہی کرکے انہیں اور حوصلہ و قوت بخشیں گے؛ اس لیے اس طرح کے واقعات کو روکنے کی کوشش کریں، خاموش نہ رہیں، خاموشی کی صورت میں یہ آگ آپ کے گھر بھی لگ سکتی ہے اور دوسرے تماشہ دیکھیں گے اس لیے اُٹھیں اور مجرمین کو انجام تک پہنچانے کا کام کریں۔

تبصرے بند ہیں۔