تازہ ہرعہد میں ہے قصۂ فرعون و کلیم

ڈاکٹر سلیم خان

 پانی کی ضرورت تشنگی میں نہاں ہے۔ روشنی کے فیوض و برکات کاراز ظلمت و تاریکی کےپردے میں چھپا ہے۔ امن و انسانیت کی اہمیت سے ظلم و فسطائیت کا شکار سماج خوب واقف ہے۔ لیکن فسطائیت کے مظاہر سے اس کے حقیقت کی معرفت مشکل ہے۔ عام طور پر اس موضوع پر گفتگو مودی سے شروع ہو کر ہٹلر پر ختم ہوجاتی ہے۔ درمیان میں کبھی کبھاراسرائیل کا ذکر بھی آجاتا ہے لیکن سطحی مرثیہ خوانی کے عمل میں طاغوت کی نفسیات، اس کا مقصدو طریقہ کار زیر بحث نہیں آتا اور اس لئے روک تھام کی تدبیر بھی نہیں ہوپاتی۔ فرعون کے حوالے سے اللہ کی کتاب، فسطائی کاتعارف؟ اس کے عزائم و ارادے؟ اس کی حکمت عملی؟ اور اس کو لاحق خوف واندیشہ؟ نہایت فصیح و بلیغ انداز میں پیش کردیتی ہے۔ سورۂ القصص کی ابتداء میں فرعون کا مختصر مگر نہایت جامع تعارف بیان ہوا ہے تا کہ معرکۂ فرعون و کلیم کا سمجھنا آسان ہوجائے۔ ارشاد ربانی ہے ’’ واقعہ یہ ہے کہ فرعون نے زمین میں سرکشی کی ‘‘۔ دنیا بھر کے فسطائی حکمراں بظاہر مختلف مذاہب ونظریات کے حامل نظر آتے ہیں۔ کوئی عیسائی ہے تو کوئی یہودی، کوئی مسلمان ہے توکوئی ہندو لیکن ان سب کے درمیان یہ قدر مشترک ہے کہ وہ سب سرکش و باغی ہیں۔ وہ خود کو اپنے خالق و مالک کا امانت دارنائب سمجھنے کے بجائے ’’انا ربکم الاعلیٰ (میں تمہارا سب سے بڑا رب ہوں )‘‘ کے دعویدار ہوتےہیں۔ یہی زہریلا بیج فسطائیت کے شجر خبیثہ کا جنم داتا ہے اور اس کی بیخ کنی کے بغیر فسطائیت کا خاتمہ ناممکن ہے۔ فسطائیت کا طریقۂ کار یوں بیان کیا گیاکہ ’’(فرعون نے) اس کے باشندوں کو گروہوں میں تقسیم کر دیا ‘‘ آیت کے اس حصےمیں تمام فسطائی قوتوں کی مشترکہ حکمت عملی بیان کردی گئی۔ یہ حکمراں اپنے باشندوں کے درمیان تفریق وامتیاز روارکھتے ہیں۔ ایک طبقہ کو demonize کرتے ہیں۔ ذرائع ابلاغ کی مددسے اس مخصوص گروہ کو ہرطرح کے فتنہ و فساد کیلئے ذمہ دار ٹھہرا دیتے ہیں۔ اس سے نہ صرف حکمرانوں کی ناکامیوں اور جبروظلم پر پردہ پڑ جاتا ہے بلکہ معتوب قوم پر ہر طرح کے جوروستم کا جواز فراہم ہوجاتا ہے۔ آگے فسطائیت کی فرعونیت اس طرح بیان ہوئی کہ ’’وہ ان میں سے ایک گروہ کو وہ ذلیل کرتا تھا، اس کے لڑکوں کو قتل کرتا اور اس کی لڑکیوں کو جیتا رہنے دیتا تھا ‘‘۔ یہاں پر دوطرح کی تعذیب کا ذکر ہے اول تو نفسیاتی کہ ذلیل و رسوا کرکےمزاحمت کاجذبہ ماند کردیا جائے اور دوسرے قتل و غارتگری کہ جس سے معتوب گروہ کوخوف و دہشت کاشکارکرکےمایوس کیا جاسکے۔ فرعون اور اس کی قبیل کے لوگوں کی انفرادی سرکشی ایک اجتماعی فساد پر منتج ہوتی ہے اس لئے فرمایا ’’فی الواقع وہ مفسد لوگوں میں سے تھا‘‘۔ فرعون کے عزائم کا ذکر کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ اپنا ارادہ بیان فرماتے ہیں ’’ اور ہم یہ ارادہ رکھتے تھے کہ مہربانی کریں ان لوگوں پر جو زمین میں ذلیل کر کے رکھے گئے تھے اور انہیں پیشوا بنا دیں اور انہی کو وارث بنائیں اور زمین میں ان کو اقتدار بخشیں ‘‘ اس آیت میں دنیا بھر کے مستضعفین کو بشارت دینے کے بعد فرعونیوں کی پریشانی کا ذکراس طرح کیا گیا کہ ’’ اور ان سے فرعون و ہامان اور ان کے لشکروں کو وہی کچھ دکھلا دیں جس کا انہیں ڈر تھا‘‘ آیت کا آخری حصہ واضح کرتاہے کہ ساری دنیا کو خوف ودہشت کا شکار کرنے والے یہ موت کے سوداگر اندر ہی اندر خود خوفزدہ رہتےہیں۔ ظالموں کو اس بات کا اندیشہ لاحق رہتا ہے کہ کہیں اقتدار ان کے ہاتھوں چھن کرایسے لوگوں کے پاس نہ چلا جائےکہ جن کو انہوں نےظلم وستم میں مبتلاء کررکھا تھا۔ ویسے یہ حقیقت ہے کہ دنیا و آخرت میں ہر فرعون کیلئے نہایت عبرتناک انجام مقدر کردیا گیا ہے۔ مشیت ایزدی یہی ہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔