تبریز کو تڑپا تڑپا کر قتل پر وزیر اعظم کو صرف افسوس

حفیظ نعمانی

ملک میں جب حکومت تبدیل ہوتی ہے اور اس کے سربراہ قوم سے خطاب کرتے ہیں تو ہر سننے والا غور سے اس لئے سنتا ہے کہ دیکھیں اب ملک کو کس رُخ پر چلایا جائے گا؟ اس بار وزیراعظم تو وہی ہیں جو پانچ سال پہلے بنے تھے لیکن انہوں نے سب کا ساتھ سب کا وکاس کے آگے سب کا وشواس جوڑکر یہ بتایا کہ یہ ہندوستان کے عوام نے پانچ سال کی کامیاب حکومت کے انعام میں دیا ہے۔ یہ کوئی پہلا موقع نہیں ہے کہ وزیراعظم تبدیل نہیں ہوا ہو۔ ہندوستان میں نہ جانے کتنی بار ایک ہی وزیراعظم نے پانچ سال کے بعد حلف لیا ہے اور اپنی تقریر میں اشارہ دیا ہے کہ کچھ نئے کام اور کریں گے۔

وزیراعظم نریندر مودی نے بھی بہت وضاحت کے ساتھ کہا کہ اب تک جو اقلیتیں ہمارے ساتھ نہیں ہیں انہیں اب جوڑنے کا کام بھی کرنا ہے اور اس کی ابتدا نئی نسل سے کرتے ہوئے کہا کہ سب سے پہلے عید کی عیدی کے طور پر پانچ کروڑ مسلم لڑکوں اور لڑکیوں کو وظیفہ دیا جائے گا۔ ظاہر ہے کہ جس نے بھی سنا ہوگا اس نے سمجھ لیا ہوگا کہ ہندوستان میں مسلم بچوں اور بچیوں کی تعداد اس سے زیادہ ہوگی بھی نہیں۔ پھر جب لوک سبھا میں کام کی ابتدائی ہوئی تو سب سے پہلے طلاق ثلاثہ بل وزیر قانون نے پیش کرکے مسلمانوں کے منھ کا ذائقہ خراب کردیا۔ بات بل سے اتفاق اور اختلاف کی نہیں تھی اس ضد کی تھی کہ حکومت لوک تنتر کے ذریعہ بنی ہے یعنی وزیراعظم کے کہنے کے مطابق ملک کے عوام کی اکثریت نے بی جے پی کی حمایت کی ہے اس لئے بی جے پی نے حکومت بنائی ہے۔ تو پھر حکومت مرکزی نہیں ہر صوبہ کی حکومت نے بھی مسلم خواتین کے وہ جلوس دیکھے ہوں گے جو اس بل کی مخالفت میں نکلے ہیں اور ہر جلوس میں ہزاروں مسلم خواتین بھی تھیں اور لاکھوں بھی پھر لوک تنتر کی بنیاد پر فیصلہ کیوں نہیں کیا جاتا کہ جب 90  فیصدی عورتیں نہیں چاہتیں تو بل واپس لیا جاتا ہے؟ یہاں لوک تنتر کا فیصلہ کیوں نہیں مانا جاتا؟

25 تاریخ کو لوک سبھا میں وزیراعظم صدر کے خطبہ پر شکریہ کی بحث کا جواب دے رہے تھے تو انہیں یاد آیا کہ 1975 ء کو آج کے دن ہی کانگریس نے ایمرجنسی لگائی تھی۔ اور پھر انہیں نہ خطبہ یاد رہا نہ شکریہ کی بحث انہوں نے وہ دردبھری داستان شروع کردی کہ شہروں کو جیل خانہ بنا دیا گیا تھا ہر مخالف کی زبان کو تالا لگادیا تھا کنوارے لڑکوں اور لڑکیوں کی نس بندی جبراً کرادی گئی تھی۔ غرض کہ جتنی گالیاں دے سکتے تھے دے ڈالیں۔ شاید 45  سال پرانی اس کہانی کو دہرانے کا مقصد صرف یہ تھا کہ سونیا گاندھی اور راہل گاندھی اپنی دادی پر پڑنے والی گالیاں سنتے رہیں۔

دوسرے دن 26  تاریخ کو وزیراعظم نے راجیہ سبھا میں صدر کے خطبہ پر شکریہ کی تحریک کی بحث کا جواب دیا تو انہیں غلام نبی آزاد کی وہ بات یاد آگئی جو انہوں نے صدر کے شکریہ کی تحریک میں کہی تھی کہ ہم وزیراعظم سے درخواست کریں گے کہ وہ نیا ہندوستان اپنے پاس رکھیں ہمیں اور پرانا ہندوستان واپس کردیں جس میں مسلمانوں اور دلتوں کو زخمی دیکھ کر ہندو بھائیوں کی بھی آنکھیں بھر آتی تھیں۔ اس میں انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ جھارکھنڈ مآب لنچنگ کی نرسری بن گئی ہے۔ وزیراعظم کو یہ تبصرے اتنے ناگوار گذرے کہ انہوں نے ناگواری کے ساتھ کہا کہ اس سے جھارکھنڈ بدنام ہوتا ہے۔ بس جو برے ہیں انہیں برا کہہ دینا چاہئے۔ بڑے لیڈروں کے ایسے ہی الفاظ غنڈوں اور دہشت گردوں کے حوصلے بڑھاتے ہیں۔ اگر تبریز انصاری کے دردناک واقعہ سے پہلے ہونے والے کئی واقعات کے نتیجہ میں دس بیس کے ہاتھ توڑ دیئے جاتے اور دس بیس کو مارمارکر محتاج بنا دیا ہوتا تو دور دور تک نہ کوئی گائے کا گوشت بناتا اور نہ جے شری رام اور جے ہنومان کا جاپ کراتا۔ اور وزیراعظم کو بھی وزیراعلیٰ کو وارننگ دینا چاہئے تھی کہ اگر اب کوئی شرمناک واقعہ ہوا تو میرے بغیر کہے استعفیٰ دے کر گھر چلے جانا۔ نریندر مودی کو اندرا گاندھی سے شکایت ہوا کرے لیکن وہ ایسی وزیراعظم تھیں کہ ہر صوبہ کے وزیراعلیٰ کانپا کرتے تھے اور کسی کو ایک صوبہ میں وہ پانچ سال نہیں رہنے دیتی تھیں۔ وزیراعظم مودی کانگریس کو گالی دینے میں جتنا غصہ نکالیں لیکن اپنے وزیراعلیٰ کو کچھ نہیں کہہ سکتے اس لئے کہ جہاں سے مودی جی ڈیزل لیتے ہیں وہیں سے ہر وزیراعلیٰ پیٹرول بھرواتا ہے پھر کوئی کسی سے کیوں ڈرے؟

ملک نے یہ بات اچھی طرح دیکھی تھی کہ 2007 ء سے 2012 ء تک اترپردیش میں مایاوتی نے حکومت کی اور آج تک سب حیران ہیں کہ آخر وہ کیا کرتی تھیں کہ نہ ان پانچ برسوں میں غنڈوں نے سر اُٹھایا اور نہ کسی پولیس والے کی ہمت ہوئی کہ وہ سرکشی کرے۔ معلوم نہیں ان کے دماغ کی کون سی رگ ٹیڑھی ہے کہ انہوں نے پورے صوبہ میں سیکڑوں پتھر کے ہاتھی بنواکر کھڑے کردیئے اور بے وجہ عمارتیں تڑواکر انہیں میدان بنا دیا اور معلوم نہیں وہ کون ان کے دشمن تھے جنہوں نے گریٹر نوئیڈا میں پتھروں کا فرش بنواکر اس کے درمیان میں کھجور کے پیڑ لگوا دیئے اور ان کی ان بے تکی حرکتوں سے اربوں روپئے کی بربادی دیکھ کر عوام نے فیصلہ کرلیا کہ ان کا بوریہ بستر باندھ دیا جائے اور عوام نے انہیں گھر میں بٹھا دیا۔ ایک وجہ یہ بھی عام چرچے میں تھی کہ نہ جانے کتنی شوگر فیکٹریاں کوڑیوں کے مول اپنے بھائی کے ہاتھ فروخت کردیں اور جہاں سے جتنا بھی روپیہ مل سکا اسے دونوں ہاتھوں سے سمیٹ لیا۔ اگر یہ غلطیاں نہ کرتیں تو آج بھی وہی وزیراعلیٰ ہوتیں۔ اب ٹھوکریں کھا رہی ہیں اور کھاتی رہیں گی۔

ان کے ذکر کا مقصد یہ ہے کہ آج اگر وہ کہیں وزیراعلیٰ ہوتیں تو کم از کم اس صوبہ میں تو پیٹ پیٹ کر مار ڈالنے کی کوئی واردات نہ ہوتی بی جے پی کی جس ریاست میں حکومت ہے وہاں یہ لعنت بھی ہے۔ اگر وزیراعظم اپنا فرض ادا کرتے اور تبریز کی چند دن پہلے آئی ہوئی دولھن کو 25  لاکھ روپئے دے کر اسے صبر کی تلقین کرتے اور یقین دلاتے کہ زیادہ سے زیادہ مجرموں کو پھانسی دلائیں گے اور وزیراعلیٰ سے کہتے کہ وہ خود جائیں اور ایک باپ کا فرض ادا کریں۔ لیکن مودی جی کے خزانہ میں کانگریسیوں کے لئے گالیاں ہیں اور کچھ نہیں۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


1 تبصرہ
  1. مىم عىن سىن وجے کہتے ہیں

    وشواس. کا. ستىاناس

تبصرے بند ہیں۔