تخمی بہادر یا قلمی بہادر

حفیظ نعمانی

بہادروں کی دو قسمیں ہو تی ہیں ایک تخمی بہادر اور دوسرے قلمی بہادر۔ تخمی بہادر وہ ہوتے ہیں جنکے باپ ،دادا،پر دادا اور اوپر کی نسلیں بھی بہادر ہو تی تھیں۔ اور قلمی بہادر وہ ہوتے ہیں جنکو آر ایس ایس یا انکی ذیلی تنظیموں بجرنگ دل ،وشو ہندو پریشد،شیو سینا اور رام سینا ،سیتا سینا اور ہنومان سینا جیسی تنظیمیں بنا کر آر ایس ایس کی قلم لگا دی جاتی ہے۔ 1947سے پہلے صرف تخمی بہادر ہوا کرتے تھے۔ انھوں نے مغلوں کی آٹھ سو سالہ حکومت میں انکا ساتھ دیا۔ ہم تاریخ کے طالب علم ہوتے تو دعوا کرتے کہ اس پورے عرصہ میں مغل مسلمانوں نے یا کسی مسلمان نے ہندئوں کے ساتھ کبھی کوئی ایسی ذلیل حرکت کی ہے یا نہیں جیسی ایک ہفتہ پہلے گجرات میں ہوئی کہ ایک گائے کو شیر نے ما ردیا۔ اور اسکے مالک نے ان لڑکوں کو بلایا جن کے با پ دادا بھی مرے ہوئے بیل اور مری ہوئی گائے کی کھال اتارتے تھے۔ اور جب انھوں نے کھال اتارنے کا کام شروع کیا تو قلمی بہادروں نے ان پر الزام لگایا کہ صر ف کھال اتارنے کے لئے تم نے گائے کو مارا ہے۔ اور ان کی کوئی بات سنے بغیر انہیں لائے اور ایسی بے دردی سے مارا کہ سارا ملک اور ہر تخمی بہادر تھو تھو کررہا ہے۔

پرسوں دوپہر 3بجے کی خبروں میں دیکھا کہ دو عورتوں کو ریلوے پلیٹ فارم پر بری طرح مارا جا رہا ہے۔ اور ان میں سے پیلے کپڑے پہننے والی گر بھی گئی ہے تب بھی مارا جا رہا ہے۔ اور پولیس موجود ہے مگروہ مارنے والوں کو طاقت سے روکنے کے بجائے کھڑی تماشہ دیکھ رہی ہے۔ یا زبان سے روک رہی ہے۔ آدھے گھنٹے کے بعد تفصیل معلوم ہوئی کہ دو عورتیں سلمیٰ اور شمیم اختر گوشت لیکر جا رہی تھیں۔ بجرنگ دل کے قلمی بہادروں نے انہیںروک کر معلوم کیا کہ یہ کیا ہے۔؟ انھوں نے کہا بھینس کا گوشت ہے۔ اس پر انھوں نے کہا کہ۔ یہ گائے کا گوشت ہے اور اپنے ساتھ کی عورتوں سے ان پر حملہ کرا دیا اور خود انکی مدد کے لئے انکے پاس کھڑے رہے۔

26مئی 2014کے بعد سے یہ قلمی بہادر سامنے آئے ہیں۔ اور وہ اسی جگہ طاقت کا مظاہر ہ کرتے ہیں جہاں کی پولیس کو بھی معلوم ہے کہ حکومت بھی قلمی بہادروں کی ہے۔ اور بہادری دکھانے والے بھی قلمی بہادر ہیں۔

ہم ان قلمی بہادروں سے کہنا چاہتے ہیں کہ جن کے باپ یا دادا جنکی عمر 80سے زیادہ ہے (اور ایسے

 لاکھوں ہوں گے)وہ ان سے معلوم کریں کہ 1952سے پہلے پورے ملک کے ہر شہر اور ہر قصبہ میں جہاں بھی مسلمان رہتے تھے کیا وہاں بازار میں صرف گائے کا گوشت بکتا تھا؟ اور بڑے شہروں میں دو چار اور چھوٹے شہر میں ایک دو دکانیں بکرے کے گوشت کی ہوتی تھیں۔؟ اور بھینس کا گوشت کہیں نہیں بکتا تھا۔اور ان سے معلوم کریں کہ کیا یہ سچ ہے کہ بقرہ عید کے دن ہر مسلم محلے میں دس بیس گائیں کٹتی تھیں۔ اور پولیس رائفل اور ڈنڈے لئے اس لئے بیٹھی رہتی تھی کہ اگر کوئی گئو رکھشک مخالفت کرے تو وہ ڈنڈا ماردیں اور گجرات یا مدھیہ پردیش کے مدھ سو رریلوے اسٹیشن کی طرح گوشت لیجانے والی مسلمان عورتوں کو ماریں تو انہیں گو لی مار دیں؟ اور یہ بھی معلوم کریں کہ جیسے بقرہ عید سے چند دن پہلے اب شہروںمیں بیچنے والے بکروں کو لئے پھرتے ہیں۔ اور کاٹنے والے مسلمان خرید کر لے جاتے نظر آتے ہیں کیا۔ پہلے گائیں بیچنے والے محلے محلے لیکر گھومتے تھے کہ لو مسلمانوں گائے خریدو اور کا ٹ کر کھالو؟ اور سارے ہندو دیکھا کرتے تھے اور کوئی نہ انہیں مارتا تھا جو بیجنے آتے تھے۔ اور نہ خرید کر کاٹنے والے مسلمانوں کی مخالفت کرتا تھا۔؟ اگر وہ تسلیم کریں کہ ایسا ہی ہوتا تھا تو قلمی بہادر فیصلہ کریں کہ کیا وہ باپ داداماننے کے قابل ہیں؟ کیا وہ ہندو نہیں ہیں۔ اور ہیں تو اتنے بزدل اور ڈرپوک کیوں تھے۔ اور کیا وہ ایسے کائروں کو فخر سے باپ دادا کہیں گے۔؟

آج ہماری عمر 84سال ہے۔ ہمارا بچپن سنبھل اور بریلی میں گذرا۔ سنبھل میں ہمارا محلہ دیپا سرائے ایسا محلہ ہے جسکی آبادی جتنی بھی ہو صرف ترک مسلمانوں کا ایک قبیلہ پورے محلہ میں رہتا ہے۔ وہاں ہندو سکھ یا عیسائی کا تو کیا ذکر کوئی نہ سید ہے نہ پٹھان ، نہ صدیقی ہے نہ فاروقی۔ وہاں سیکڑوں گائیں کٹتی تھیں۔ اور تین مسلمان سپاہی صبح کو نماز سے پہلے آتے تھے۔ اور محلہ میں گھوم کر یہ کہہ کر چلے جاتے تھے کہ سڑک پر نہ کاٹنا بلکہ آڑ میں کاٹنا۔ اور پھر دو پہر کو آتے تھے اور اپنے اپنے گھر اور دوسروں کے لئے جو نہیں آئے تھے گوشت لے جاتے تھے۔ سبنھل میں عام طورپر مسلمانوں کے گائوں اور ہندوئون کے گائوں الگ الگ ہوتے تھے۔ مسلمانوں کے گائوں میں دو چار گھر دلتوں کے ہوتے تھے۔ وہاں بھی جو اس قابل ہوتے تھے وہ گائے کی قربانی کرتے تھے۔ ہمارا نانہال ایک بڑا گائوں حاجی پور سنبھل سے 20کلومیٹر دور ہے۔ اسکے چاروں طرف جاٹ اباد ہیں۔ دور دور تک ایک بھی گائوں مسلمانوں کا نہیں ہے۔ وہاں بھی گائے کی قربانی ہوتی تھی اور گائے کی کھالیں سنبھل کے مدرسے والے جاٹوں کے سامنے سے لیکر آتے تھے۔ کسی نے کبھی یہ معلوم نہیں کیا کہ یہ کیسی کھالیں ہیں؟

سو برس سے انگریز وں کی حکومت تھی جو ہندئوں سے محبت کرتے تھے اور مسلمانوں سے نفرت۔ ہندئوں

نے انکے سامنے اس لئے سر جھکا لیا کہ پہلے وہ مسلمانوں کی حکومت میں تھے۔ اب انگریزوں کی حکومت میں آگئے۔ مسلمانوں نے ان سب سے اس لئے نفرت کی کہ انھوں نے مسلمانوں سے حکومت چھینی تھی۔ ہندئوں نے پہلے دن سے انکی زبان پڑھنا شروع کردی تاکہ وہ انکی نوکری کرسکیں۔ مسلمانوں کے مولویوں نے فتویٰ دیا کہ انگریزی حرام ہے۔ انھوں نے عربی مدرسے قائم کئے۔ ہندئوں کو کوئی فکر نہیں تھی کہ غریب ہندو عیسائی ہو جائیں۔ مسلمانوں نے سینہ تان لیا کہ کسی کو عیسائی نہ ہونے دیں گے۔ اور نتیجہ یہ ہوا کہ مسلمانوں کی ایک یونیورسٹی سر سید نے اپنی پوری زندگی قربان کرکے چندہ مانگ مانگ کر بنائی۔ لیکن مدرسے اتنے بن گئے کہ ملک میں آج لاکھوں مدرسے ہیں۔ اور ہندوئوں نے شہر شہر کالج کھول لئے۔

انگریزوں سے مسلمانوں کی اس نفرت اور ہندئوں سے انگریزوں کی اس محبت کے باوجود انکی حکومت میں ہندئو گائے ماں کی قربانی نہ رکوا سکے۔ وہ اگر یہ شرط رکھ دیتے کہ ہم نہ انگریزوں کی نوکری کریں گے اور اس وقت تک نہ انگریزی پڑھیں گے جب تک گائے کی قربانی پر پابندی نہیں لگے گی۔ تو انگریز پوری نہیں تو جزوی پابندی تو لگاہی دیتے؟ لیکن انگریزوں کی طرف سے ایک بھی حکم یا اپیل کوئی گئو رکھشک نہیں ایسی نہیں دکھا سکتا جس میں گائے کاٹنے پر پابندی کے بارے میں کہا گیا ہو۔

اور بنگال نے ہندئوں کی حکومت میں بھی گائے پر پابندی نہیں لگائی۔ جہاں پہلے کانگریس کی حکومت تھی۔ اسکے بعد جیوتی بسو آگئے۔ پھر بھٹاچاریہ اور اب ممتا بنرجی۔ گئو رکھشک کہیں کہ ان میں سے کوئی ہندو نہیں ہے۔ اور نہ ان کے 80سال سے اوپر کے باپ دادا ہندو تھے۔ یا یہ کہیں کہ ہم ہندو نہیں ہیں ہم نے نیا دھرم بنا لیا ہے اسکا نام ’’ گئو رکھشک ‘‘ہے۔ اس لئے کہ وہ بھی اگر اپنے کو ہندو کہیں گے تو انہیں ماننا پڑے گا انکے باپ دادا سب کائر تھے۔ اگر بہادر ہوتے تو جیسے مسلمانوں نے کانپور میں مسجد کے دروازے کے پاس پیشاب گھر کو توڑ کر سڑک چوڑی کرنے کی مخالفت میں گولیاں کھائیں اور سڑکوں پر لاشیں گرانا برداشت کیا لیکن زمین نہیں دی ایسے ہی وہ بھی ہر گائے کے گلے پر چھری چلنے کے بجائے اپنا گلا کٹوانے کے لئے پیش کر دیتے کہ اپنی گردن کٹو ادیں گے مگر اپنی گئوماتا کو نہ کٹنے دیں گے تو کیا مسلمانوں کی ہمت تھی کہ وہ قربانی  میں گائے اور صرف گائے کا ٹتے۔؟  وزیر اعظم کے بولنے کا کوٹہ تو شاید ختم ہو گیا۔ اس لئے اب وزیر داخلہ ٹھاکر راج ناتھ سنگھ صاحب سے ہم گذارش کریں گے کہ وہ فیصلہ کریں کہ کون ہندو ہے اور کون نہیں ہے۔؟

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔