ترقی کی راہ میں پڑا ملک کا معمار 

ریاستی حکومتوں کے مہاجر مزدوروں کو کھانا، راشن اور رہائش فراہم کرنے کے بلند بانگ دعوے ہوا ہوائی ثابت ہوئے۔

ڈاکٹر مظفر حسین غزالی

 زراعت، انڈسڑی اور سروس سیکٹر کی پیداوار پر منحصر ہے معیشت۔ جسے انفراسٹرکچر، ٹرانسپورٹ، اسٹیبلشمنٹ اور مضبوط بناتا ہے۔ مگر اس کی بنیاد مزدوروں کی محنت پر ٹکی ہوئی ہے۔ کورونا بحران کے دوران اس کا احساس سب کو ہو چکا ہے۔ جی ہاں انہیں مزدوروں پر جو گزشتہ ڈھائی مہینے سے بے عزتی، بھوک، مایوسی، اکیلے پن اور حادثوں کا سامنا کر رہے ہیں۔ جس شہر کو انہوں نے اپنے خون جگر سے سینچا اسی نے لاک ڈاؤن کا اعلان ہوتے ہی ایک جھٹکے میں انہیں سڑک پر کھڑا کر دیا۔ مانو دوڑتی ہوئی زندگی پر بریک لگ گیا ہو۔ کام چھوٹ گیا، رہنے کا آسرا چھن گیا، مستقبل کی فکر اور بیماری سے پہلے بھوک سے موت کے ڈر نے ہزاروں کلومیٹر پیدل چل کر انہیں گاؤں جانے پر مجبور کر دیا۔ اس دوران مزدوروں کی بدحالی اور دل دہلا دینے والی تصویروں نے ملک کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ بھوک، بیماری، تھکن اور حادثات میں سو سے زیادہ مزدوروں کی جان چلی گئی۔ اورنگ آباد کے واقع کو ابھی لوگ بھولے بھی نہ تھے کہ اوریہ اور مدھیہ پردیش کے نرسمہا پور کے سڑک حادثوں نے پورے نظام کے دروازے پر پڑے پردے کو اٹھا دیا۔ اوریہ میں 24 اور نرسمہا پور میں 5 مزدوروں کی موت ہوئی جبکہ گیارہ زخمی ہوگئے، وہ ٹرک میں سوار ہو کر اپنے گاؤں واپس جا رہے تھے۔ ملک، ترقی کا جھنڈا اٹھانے والوں کی کبھی ریل کی پٹری پر تو کبھی سڑک پر موت کا گواہ بن رہا ہے۔

 دوسری طرف چونکانے والے فیصلے کر یہ یاد دلانے والی حکومت ہے کہ وہ جو چاہے کر سکتی ہے۔ اس سے کوئی سوال نہیں کر سکتا وہ کسی کے لئے جواب دہ نہیں ہے۔ سرکار کے اس رویہ نے حالات کو اور خراب کیا۔ اچانک لاک ڈاؤن اور جو جہاں ہے وہیں رکنے کے اعلان سے آمدورفت پر لگی پابندی نے زبردست افراتفری پیدا کر دی۔ دہلی کے آنند وہار بس ٹرمنل اور اتر پردیش غازی آباد کے لال کنواں پر قریب دو لاکھ مزدور گھر واپسی کے لئے جمع ہو گئے۔ دہلی اور اترپردیش حکومتوں کے درمیان کئی دن چلی زبانی تکرار اور سیاست کے بعد آخر یوپی حکومت نے مزدوروں کو ان کے گھر پہنچانے کے لئے دو ہزار بسوں کا انتظام کیا۔ اس بیچ ڈیڑھ، دو سو کلومیٹر کے فاصلہ پر رہنے والے مزدور پیدل ہی اپنے گھر پہنچ گئے۔ مزدوروں کی لاچاری، مایوسی اور مستقبل کی تاریکی کا درد کشا منظر آج بھی بھلانا مشکل ہے۔ اس دوران مزدوروں سے کئی گنا کرایہ وصولنے کی خبریں بھی سامنے آئیں۔

ریاستی حکومتوں کے مہاجر مزدوروں کو کھانا، راشن اور رہائش فراہم کرنے کے بلند بانگ دعوے ہوا ہوائی ثابت ہوئے۔ کھانا نہ ملنے کی وجہ سے مزدوروں کے سڑک پر احتجاج کرنے اور نقل مکانی کی خبریں برابر آتی رہیں۔ گجرات کے سورت میں تو تین مرتبہ مزدوروں کو گھر جانے کے لئے احتجاجاً سڑکوں پر آنا پڑا۔ وہ گھر کی محبت اور کھیتوں میں کام ملنے کی امید پر کسی صورت رکنے کو تیار نہیں تھے۔ وہ سڑک پر پولس بربریت کا شکار ہوئے تو ریلوے ٹریک کے کنارے چلنے لگے۔ جس کے نتیجہ میں اورنگا باد جیسا دل سوز واقعہ پیش آیا۔  ریلوے ٹریک پر بکھری روٹیوں اور مزدوروں کی لاشوں نے ملک کو ہلا کر رکھ دیا۔ مگر کئی آوازیں مزدوروں کو ہی ذمہ دار ٹھہرانے والی بھی سامنے آئیں۔

مرکزی حکومت نے دو مرتبہ سپریم کورٹ میں کہا کہ کوئی مہاجر مزدور سڑک پر نہیں ہے۔ جبکہ مزدوروں کی نقل مکانی ہنوز جاری ہے۔ آخر سپریم کورٹ کو پندرہ دن میں مزدوروں کو ان کے گھر پہنچانے کا حکم دینا پڑا۔ جذباتی طور پر خود کو اکیلا بے سہارا محسوس کر رہے مزدوروں میں بڑھ رہے غصہ کو دیکھتے ہوئے پچاس دنوں کے بعد حکومت کو انہیں گھر جانے کی اجازت دینی پڑی۔ یہاں بھی اس کا دوہرا رویہ سامنے آیا۔ این آر آئی کو لانے کے لئے وندے ماترم اڑانیں اور ان غریبوں کے لئے کامگار اسپیشل۔

گناہ تو پاسپورٹ کا تھا 

در بدر راشن کارڈ ہو گئے 

کیوں کہ سیاسی جماعتیں مزدوروں کو ایسی اکائی مانتے ہیں ہے جس کا استعمال سڑک بنانے، ریل کی پٹریاں بچھانے، فیکٹریاں چلانے اور ووٹ پانے میں کیا جاتا ہے۔ مزدوروں کے اس بڑے ووٹ بنک کو سادھنے کے لئے ہی حکومت کو پچاس ہزار سے زیادہ کورونا کے معاملے ہونے کے باوجود انہیں گھر پہنچانے کا فیصلہ لینا پڑا۔ وزارت ریل نے 19 طرح کے احکامات کے ساتھ خصوصی ریل گاڑیاں  چلانے کا اعلان کیا۔ جس میں ریاستی حکومتوں کے ذریعہ مزدوروں سے کرایہ وصولنے کی بات بھی شامل تھی۔ کانگریس کی صدر سونیا گاندھی نے اپنی ریاستی یونٹوں کے ذریعہ مزدوروں کا کرایہ ادا کرنے کی ہدایت جاری کی تو بی جے پی کی نیند کھلی۔ ٹرمپ کے استقبال میں سو کروڑ خرچ کرنے والی گجرات سرکار اور 151 کروڑ پی ایم کیئر میں دینے والی وزارت ریل کو مزدوروں سے کرایہ درکار تھا وہ بھی راجدھانی کا۔ اس پر چاروں طرف سے ہوئی تنقید کے بعد وہ اپنی بات سے مکرتی ہوئی نظر آئی۔ غریب لاچار مزدوروں کے حق کی بات کرنے کے بجائے بی جے پی نے کرایہ پر سیاست شروع کردی۔ بے سہارا، بدحال، غریب، مزدور اس بار بھی حکومت کی ترجیح میں شامل نہیں ہو پائے۔ جبکہ وزیراعظم نریندر مودی نے گجرات کے وزیر اعلیٰ کے طور پر 2007 میں ہماچل پردیش کی ایک میٹنگ میں کہا تھا کہ "جو سہولیات امیروں کو ہیں وہ غریبوں کو بھی ملیں میرا خواب ہے جو ہوائی چپل پہن کر عام آدمی گھومتا ہے وہ ہوائی جہاز میں دیکھنا چاہئے ” لیکن مودی جی اپنے اس خواب کو پورا کرنے سے چوک گئے۔ ورنہ اورنگا باد میں مرے مزدوروں کے چپل ریلوے ٹریک پر دکھائی نہیں دیتے۔

بی جے پی کی کرناٹک حکومت نے تو بلڈر لابی کے دباؤ میں کامگار اسپیشل کو چلنے سے روک دیا تھا۔ اس کے خلاف مزدور تنظیموں کی آل انڈیا سینٹرل کونسل نے کرناٹک ہائی کورٹ میں درخواست داخل کی۔ اس میں ریاستی حکومت کے فیصلہ کو غیر انسانی بتایا گیا ہے۔ کئی دنوں کی جدوجہد کے بعد مزدوروں کو لے کر ٹرین چل سکی۔ اس دوران معیشت میں نہ نظر آنے والا مزدوروں کا کردار بھی ملک کے سامنے آگیا۔ تلنگانہ جہاں سے پہلی کامگار اسپیشل چلی تھی وہاں کی حکومت نے مزدوروں کو روکنے کی کوشش کی۔ وہیں ہریانہ سرکار بھی مزدوروں سے گھر واپس جانے کا خیال چھوڑنے کی اپیل کر رہی ہے۔ اترپردیش نے گجرات سے مزدوروں کو لانے کے لئے سب سے پہلے بسوں کا انتظام کیا تھا لیکن انہیں راستہ میں ہی رکوا دیا۔ نتیش کمار تو شروع سے ہی مزدوروں کو واپس بلانے کے حق میں نہیں تھے۔ اب شاید وہاں کے مزدور ووٹ کی لائن میں کھڑے ہوتے وقت سوچیں گے کہ ریاستی حکومت کا ان تئیں کیا رویہ تھا۔

گھر کی محبت جن مہاجر کامگاروں کو کھینچ کر لے آئی ہے۔ وہ اپنی ریاست کو بے کاری، بے روزگاری اور مایوسی میں چھوڑ کر دوسری ریاست یا شہر گئے تھے۔ یہ حالت صرف یوپی، بہار کی نہیں بلکہ سبھی کامگار اکثریت والی ریاستوں کی ہے۔ نئی صورت حال میں بے روزگاری گھٹنے کے بجائے اور بڑھنے والی ہے جس سے نبٹنے کے لئے کوئی بھی ریاست مناسب نظام قائم نہیں کر پائی ہے۔ ایسے میں بڑھتی ہوئی بے روزگاری سے خاص طور پر دیہی علاقوں کو باہر نکالنے کے لئے راستہ تلاش کرنا ہوگا۔ لاک ڈاؤن کی وجہ سے 12 کروڑ لوگوں کو روزی روٹی سے ہاتھ دھونا پڑا ہے۔ ان میں سے چار کروڑ مزدور ہیں۔ ایک مطالعہ کے مطابق 78 فیصد مزدوروں کو لاک ڈاؤن کی مدت کی مزدوری نہیں ملی، 82 فیصد کو سرکار کی جانب سے کوئی راشن نہیں ملا اور 64 فیصد کے پاس گزارے کے لئے برائے نام پیسے رہ گئے ہیں۔ ان سخت حالات میں ان کے پاس گھر لوٹنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے۔ ایسے میں بی جے پی اقتدار والی ریاستوں نے مزدوروں کے حقوق کی حفاظت کے لئے بنے قوانین کو ختم کر، کام کے اوقات 8 سے بڑھا کر 12 گھنٹہ کر دیئے۔ سائٹ پر پینے کے پانی، بیت الخلا، فرسٹ ایڈ اور آرام کی سہولت کو ختم کر مزدوروں کو بندھوا بنانے کی کوشش کر رہی ہیں۔ اس کے خلاف کئی اپوزیشن پارٹیوں کے لیڈران نے مل کر صدر جمہوریہ کو خط دیا ہے مگر ٹریڈ یونین کے مزدور نیتا کہاں ہیں کوئی نہیں جانتا۔ 8 جنوری 20 کو دس ٹریڈ یونینوں نے سرکار کی پالیسیوں کے خلاف بھارت بند بلایا تھا۔ 2012 میں 16154 ٹریڈ یونین تھے، جن کے کل ممبران کی تعداد 9 کروڑ 18 لاکھ بتائی گئی تھی۔ گزشتہ تین  ماہ میں مزدوروں کی درگتی، موت اور لاکھوں کی تعداد میں ٹھیکے پر کام کر رہے کامگاروں کو نکالے جانے کے باوجود کسی ٹریڈ یونین کی آواز سنائی نہیں دی۔

کورونا بحران کے دوران مہاجر مزدوروں کے مسائل کو لے کر کئی بار کامگاروں کی میپنگ کی بات سامنے آئی۔ کہا یہ بھی گیا کہ ان کے اعداد وشمار کی عدم دستیابی کی وجہ سے شاید حکومت صحیح پلاننگ نہیں کر سکی۔ مگر یہ بات حقیقت پر مبنی نہیں لگتی۔ کیوں کہ26 اگست 2014 کو یوجنا آیوگ نے اپنی رپورٹ میں بتایا تھا کہ ملک میں ورکنگ پاپولیشن کا 94 فیصد غیر منظم زمرے سے ہے۔ ڈی ڈی یو۔ جے کے وائی نے 31 جولائی 2015 کو اپنی رپورٹ میں بتایا تھا کہ امریکہ، یورپ اور چین میں آنے والے کچھ سالوں میں 5 کروڑ 70 لاکھ کامگاروں کی کمی آ جائے گی۔ بھارت اس کا فائیدہ اٹھا سکتا ہے۔ رپورٹ کے مطابق بھارت میں 42 کروڑ 30 لاکھ لیبر غیر منظم زمرے میں ہیں۔ اترپردیش، بہار، آسام، اڑیسہ، مغربی بنگال، راجستھان، مدھیہ پردیش مزدور سپلائر صوبہ ہیں۔ 140 صفحات پر مشتمل اس رپورٹ میں کس ریاست کے مزدور کام کی تلاش میں کن ریاستوں کا رخ کرتے ہیں اس کا نقشہ اور مہاجر مزدوروں کی پریشانیوں کا ذکر بھی کیا گیا ہے۔ حکومت یہ نہیں کہہ سکتی کہ وہ اس رپورٹ سے ناواقف ہے۔ حکومت سے چوک ہوئی ہے اسے مزدوروں کی نقل مکانی اور ترقی کا پہیہ گھومانے والے ملک کے معمار کی موت پٹری یا سڑک پر نہ ہو اس کی ذمہ داری لینی ہوگی۔ ساتھ ہی ان کی آنکھوں میں سجے اپنے آشیانے اور ترقی میں حصہ کے خواب کو پورا کرنا ہوگا۔ صنعتوں میں مزدوروں کی واپسی حکومت کی پالیسی اور رویہ پر منحصر کرے گی۔ فی الحال معیشت میں دیہی علاقوں کی حصہ داری کو بڑھا کر وہاں روزگار پیدا کیا جا سکتا ہے۔ اس سے نہ صرف گاؤں کی کایا پلٹ ہوگی بلکہ دیہی علاقوں کو ترقی سے جوڑنے کا گاندھی جی کا خواب بھی پورا ہوگا۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔