ترکی – منظر اور پس منظر

     ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی   

پہلی جنگ عظیم میں ترکوں کی شکست کے نتیجے میں جب خلافت عثمانیہ کی بساط لپیٹ دی گئی اور استنبول پر اتحادیوں کا قبضہ ہوگیا تو مصطفی کمال نے، جو اس وقت عثمانی فوج کا ایک سپہ سالار تھا، تحریک آزادی کی قیادت کی۔ اس کی کوششوں سے جنگ آزادی کام یابی سے ہم کنار ہوئی اور آزاد ترکی جمہوریہ وجود میں آئی۔ اس کارنامے پر قوم نے اسے ‘اتاترک’ (Father of Turks) کا خطاب دیا۔

          لیکن مصطفی کمال نے ریاست کی بنیاد اسلام کے بجائے مغربی نظریات پر رکھی۔ اس نے ترکی کو سیکولر جمہوریہ قرار دیا، قوانینِ شریعت منسوخ کردیے، حجاب کو خلافِ قانون قرار دیا،تعددِ ازواج پر پابندی لگادی، ترکی زبان کے عربی رسم الخط کو بدل کر  لاطینی رسم الخط اختیار کیا، مذہبی تعلیم کو ممنوع قرار دیا اور مدرسے بند کردیے، عربی میں اذان دینے پر پابندی عائد کردی،حج پر جانا ممنوع قرار دیا، ترکی ٹوپی کی جگہ ہیٹ کو لازم قرار دیا، شراب سازی اور شراب نوشی کو سرکاری سرپرستی عطا کی ، جامع مسجد ایاصوفیہ کو میوزیم میں بدل دیا،الغرض اس نے ترکی کا رشتہ اسلام سے بالکل کاٹ دیا۔

        اتاترک کا انتقال 1938 میں ہوگیا تھا، لیکن اس نے ملک میں جو ‘اصلاحات’ نافذ کی تھیں اور بے دینی بلکہ اسلام دشمنی کی جو کاشت کی تھی، فوج اس کی محافظ بن بیٹھی اور اس نے ان اصلاحات کو سختی سے جاری رکھنے کی کوشش کی۔

            1950 میں ڈیموکریٹک پارٹی کی کام یابی کے بعد اسلام دشمنی کی اس فضا کو بدلنے کی وزیر اعظم عدنان مندریس نے کوشش کی۔ انھوں نے بند مسجدیں واگزار کروائیں اور نئی مساجد تعمیر کرنے کی اجازت دی، عربی میں اذان پر سے پابندی اٹھادی، لوگوں کو حج پر جانے کی اجازت دی،دینی تعلیم کے لئے مدارس قائم کرنے کی اجازت دی، لیکن اس کا خمیازہ انھیں اس صورت میں بھگتنا پڑا کہ فوج نے 1960 میں حکومت کا تختہ پلٹ دیا اور ترکی آئین کی خلاف ورزی کا الزام لگا کر انھیں اور ان کے وزیر خارجہ کو پھانسی دے دی۔

          ترکی میں اسلام کو زندہ رکھنے اور وہاں کے باشندوں کے دلوں میں اس کی محبت تازہ رکھنے میں اہم کردار شیخ بدیع الزماں سعید نورسی (1873۔ 1960)کا ہے، لیکن جدید ترکی میں اسلامی بیداری لانے کا سہرا انجینیر نجم الدین اربکان کے سر جاتا ہے۔ انھوں نے 1970 میں ‘ملی نظام پارٹی’ قائم کی، اس پر پابندی عائد کر دی گئی تو 1972 میں’ملی سلامت پارٹی’ بنائی، 1980 میں فوجی انقلاب کے بعد اس پر پابندی لگی تو 1983 میں ‘رفاہ پارٹی’ بنائی۔  اربکان دن بہ دن طاقت ور ہوتے گئے، ان کو ملنے والے ووٹوں کے فی صد اور ان کی پارٹی کے منتخب ہونے والے نمائندوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا گیا، متعدد مرتبہ وہ مخلوط حکومتوں میں شامل ہوئے، 1995 کے الیکشن میں انھیں کام یابی ملی اور انھوں نے حکومت تشکیل دی، لیکن فوج سے ان کی معرکہ آرائی جاری رہی، بالآخر 1997 میں فوج نے زبردستی ان سے استعفا لے لیا اور ان کی پارٹی پر پابندی عائد کر دی۔

            ترکی کے موجودہ صدر رجب طیب اردگان پروفیسر نجم الدین اربکان کے شاگرد ہیں۔ انھوں نے اپنی نئی پارٹی ‘جسٹس اینڈ ڈیولپمنٹ پارٹی ‘(AKP) کے نام سے تشکیل دی۔ الحمد للہ ہر الیکشن میں وہ کام یابی کی منزل طے کر رہے ہیں۔ وہ بہت حکمت کے ساتھ ترکی میں اسلامی اقدار و شعایر کی بحالی کی کوشش کر رہے ہیں اور اس کو اس کی اسلامی عظمت رفتہ سے جوڑنا چاہتے ہیں۔

         ترک فوج خود کو جمہوریت، سیکولرزم اور ملکی آئین کا محافظ (Guardian) سمجھتی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ اسلام دشمنی اس کی گھٹی میں پڑی ہوئی ہے۔ اردگان نے بہ تدریج فوج کو ایسے عناصر سے پاک کرنے کی کوشش کی ہے، لیکن اب بھی بہت سی ‘کالی بھیڑیں ‘اس میں پائی جاتی ہیں۔ انہی لوگوں نے عالمی اسلام دشمن طاقتوں کی شہ پر حال میں منتخب جمہوری حکومت کا تختہ پلٹنے کی کوشش کی تھی۔ اللہ کا شکر ہے کہ ان کی سازش اور کوشش کام یابی سے ہم کنار نہ ہوسکی، انھیں منھ کی کھانی پڑی اور بغاوت ناکام ہوئی۔

        امید ہے کہ یہ صورت حال ان شاء اللہ اردگان صاحب کی مزید تقویت کا باعث بنے گی، فوج سے لادینی اور اسلام دشمن عناصر کا صفایا ہوگا اور ترکی میں اسلام کا بول بالا ہوا۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے :

"یہ لوگ چاہتے ہیں کہ اللہ کی روشنی کو اپنی پھونکوں سے بجھادیں، مگر اللہ اپنی روشنی کو مکمل کیے بغیر ماننے والا نہیں ہے، خواہ کافروں کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو۔ "(التوبۃ :32)

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔