تشدد کی ذہنیت: اسباب و علاج  

ڈاکٹر سلیم خان

2016 کے اندر جب لوجہاد اور گھر واپسی کے زمانے میں  مرکزی وزیرنتن گڈکری نے  اترپردیش  کے متھرا شہر میں کہا تھا ‘‘ہم نے کبھی کسی مذہب کو کچلنے کی کوشش نہیں کی۔ تحمل و بردباری اور الگ الگ طبقات  کے ساتھ تعاون و اشتراک ہندووں کے خون میں ہے’’۔ یہ بات اگر درست ہے تو کیا وجہ ہے کہ اس ملک کے ہر مصلح کو سب سے زیادہ زور عدم تشدد پر دینا پڑا۔ گوتم بدھ نے بودھ مت کی بنیاد  عدم تشدد  پر رکھی  لیکن سمراٹ اشوک  کے بعد امن کے اس  پیغامبر کو بھکشووں سمیت  ملک سے  نکال باہرکردیا گیا۔  اس مذہب کو ہندوستان کے حدود اربعہ سے باہر برما سے لے کر جاپان،  کوریا،  تھائی لینڈاور چین میں پناہ لینے پر مجبور  ہونا پڑا ؟ افسوس کہ اب تو بودھ مت  نے بھی چین، برما اور سری لنکا میں تشدد کی بھگوا چادر اوڑھ رکھی ہے۔جین مذہب نے بھی تشدد کے خلاف  بڑی لڑائی لڑی لیکن عوام کی نفسیات پر اثر انداز ہونے میں ناکام رہا۔ گاندھی جی عوام  کے مزاج سے واقف تھے۔وہ  جانتے تھے تشدد کا رحجان ہی اس ملک کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ اسی لیے انہوں نے اپنی تحریک کی بنیاد   عدم تشدد پر رکھی   لیکن  بدقسمتی سےوہ خود  تشدد کاشکار ہوگئے۔ آج لوگوں  نےان کے قاتل  کی پذیرائی  کرنے والوں کو کامیاب کرکے اپنی تشدد پسندی کا ثبوت دے دیا ہے۔

تشدد کے واقعات کا شکار سبھی طبقات کے لوگ ہوتے ہیں فرق صرف کمی یا زیادتی کا ہے۔ ہریانہ کے سونی پت میں دلت نوجوان کی بے رحمانہ پٹائی کا ایک  ویڈیو فی الحال  سماجی رابطے کے ذرائع ابلاغ میں گردش کررہا ہے۔ اس میں  مبینہ طور پر اعلیٰ ذات سے تعلق رکھنے والے دبنگ جتیندر اور موہت ملوث  ہیں۔ اس دلت شخص پر نہ تو گائے کی اسمگلنگ کا الزام ہے اور چوری کی تہمت لگائی گئی۔اس کھیت مزدور نے مویشیوں  کو پانی پلانے سے انکار کر دیا  تھا۔ یہ عجیب مسئلہ ہے کہ جو لوگ گائے  کو اپنی ماتا کرتے ہیں وہ اس کی خدمت کرنا نہیں چاہتے۔ ان کے لیے گائے فساد کرنے اور ووٹ و نوٹ کمانے  کا ایک آلۂ کار  ہے۔ مزدور جب پانی پلانے سے انکار کرتا ہے تو وہ اپنی ماتا کے سامنے اسے نیم عریاں  کرکے پٹائی کرتے ہیں اور ساتھ میں گندی گندی گالیوں  سے بھی نوازتے ہیں۔ اس اہانت آمیز سلوک کے بعد اس کو ہریانوی نغمہ  پر ناچنے کے لیے بھی مجبور کیا گیا۔ خیر سے وہ مسلمان نہیں تھا ورنہ اسے جئے شری رام کا نعرہ لگانے  بلکہ وندے ماترم پڑھنے پر بھی مجبور کیا جاسکتا تھا حالانکہ یہ حقیقت ہے کہ وندے ماترم پراصرا ر کرنے والوں میں سے اکثرو بیشتر کو وہ ترانہ یاد نہیں ہوتا  اور شاذو نادر ہی کوئی اس  کا معنی و مطلب جانتا ہے۔اس معاملے پولس  ویڈیو کے  وائرل ہونے تک خوابِ خرگوش میں مبتلا رہی۔ اس کے بعد معاملہ درج کر کے  ملزمین کو گرفتارکرنے کی  کارروائی شروع کی گئی۔

تشدد کے واقعات میں مختلف مذاہب کے ماننے والے لوگ ملوث ہوجاتے ہیں مثلاًبہار کے ویشالی ضلع میں مبینہ طور پر آبروریزی  کی کوشش کی مخالفت کرنے پر ماں اور بیٹی کا سر منڈواکر ان کو گاؤں میں گھمانے والےمقامی کاؤنسلر کانام محمد خورشید تھا۔ مذہب اسلام میں اس طرح کے ظلم و جبر کی کوئی گنجائش نہیں مگرلوگ  اپنے دینی تقاضوں کو بالائے طاق رکھ کر  شیطان کا بندےبھی  بن جاتےہیں  ایس ایچ او سنجے کمار کے مطابق  کچھ لوگ متاثرہ کے گھر میں گھسے اور بیٹی سے دست درازی  کرنے کی کوشش کی۔ اس دوران ماں نے اپنی بیٹی کو بچانے کی سعی  کی تو ملزمین میں سے ایک نے خواتین کی ڈنڈے سے پٹائی کی، ان کو گھر سے باہر کھینچا اور پنچایت بٹھائی۔ کاؤنسلر خورشید نے حجام کو بلاکرخواتین کا سر منڈوایااور گاؤں میں گھمایا۔ خورشید نے اس بدمعاشی کے بعد  دونوں ماں،بیٹی پرجسم فروشی  کا الزام لگادیا۔ اس معاملے میں 7 لوگوں کے خلاف آئی پی سی کی دفعہ 376 اور 511 کے تحت معاملہ درج کیا گیا ہے۔

اس طرح کے معاملات میں پوری ملت ظالم کی مخالفت کرتی ہے مگر سنگھ کے اندر ایسا نہیں ہوتا۔ وہاں تو مہیلامنچ کی رہنما آبرو ریری کی ترغیب دینے سے بھی پس و پیش نہیں کرتی۔ اترپردیش کے رام کولا میں بی جے پی مہیلا مورچہ کی صدر اور کانونٹ اسکول کی ڈائرکٹر سنیتا سنگھ گوڑکو ایک  مسلم مخالف ایک فیس بک پوسٹ کو لے کر عہدے سے ہٹانا پڑا۔گوڑ نے لکھا تھا،‘10 ہندو بھائی ایک ساتھ مل کر ان کی بہن اور ان کی ماں کے ساتھ سر عام سڑک پر ریپ کریں،پھر اس کو کاٹ کر کھمبے میں باندھ کر بیچ بازار میں ٹانگ دیں۔ پتھر کا جواب پتھر سے ہی دینا پڑے گا۔ کیونکہ ہندوستان کے تحفظ کا کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے’۔اس طرح کے زیادہ تر واقعات بی جے پی کی سرکار میں ہوتے ہیں لیکن دیگر حکومتیں بھی اس محفوظ نہیں ہیں مثلاً تلنگانہ میں ٹی آرایس  رکن اسمبلی  کونیرو کونپاّ کا بھائی کو نیرو کرشنا راو دن دہاڑے لاٹھی سے فارسٹ رینج افسر کو پیٹ دیتا ہے۔ اس بزدل کو نہ تو ایک خاتون پر ہاتھ اٹھاتے شرم آتی ہے اور نہ ہی اس کی وردی کاخوف محسوس ہوتا ہے۔

اس طرح کے تشدد  کا شکار عوام ہی نہیں  خواص بھی ہوتے ہیں۔ پچھلے دنوں دہلی کے نزدیک  فرید آباد میں کانگریس ترجمان وکاس چودھری کا بہیمانہ قتل ہوگیا اس کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے راہل گاندھی نے کہا  کہ ‘‘یہ ایک قابل مذمت، شرمناک اور افسوسناک واقعہ ہے۔ یہ ہریانہ میں بگڑتے نظامِ قانون کا آئینہ دار ہے’’۔وکاس چودھری صبح ۹ بجے گاڑی پارک کر کے ہڈا مارکیٹ کی ورزش گاہ میں  جا رہے تھے کہ  حملہ آوروں نےان  پرآٹھ سے دس گولیاں برسائیں اوردورانِ  علاج وکاس  کی موت ہو گئی۔ پولس نے جائے واردات  سے 12 خالی کارتوس برآمد کیے۔ سی سی ٹی وی کیمرے میں  قید فوٹیج میں دو حملہ آور گولیاں چلاتے ہوئے نظر آ ئے  مگر ان کا  سراغ نہیں ملا۔ اس پر کانگریسی رہنما رندیپ سرجے والا نے کہا کہ ’’بی جے پی راج میں ہریانہ غنڈہ راج اور منظم جرائم کا قلع بن گیا ہے۔ نظامِ قانون بدتر ہو چکا ہے۔ غنڈےبدمعاشوں اور غیر سماجی عناصر کا بول بالا ہے۔ اس ماحول کے لیے قصوروار صرف کھٹر حکومت ہے۔ وکاس چودھری پر حملے کی غیر جانبدارانہ جانچ ہو اور بی جے پی حکومت کو چاہیے کہ  ملزمین کو قانونی سزا دلوائے‘‘۔ اس طرح کے تشدد کی بابت ریاستی حکومت کس قدر حساس  ہے اس کا اندازہ وزیر اعلیٰ منوہر لال کھٹر کےاس  حیران کن بیان سے لگایا جاسکتا ہے جس میں انہوں نے کہا  کہ ’’مجھے اس بات کی جانکاری نہیں ہے‘‘۔

ہندوستانی  معاشرے میں عام طور پر تشدد کو برداشت کرلیا جاتا ہے اور اس کے روک تھام کی سعی  نہیں کی جاتی یہی وجہ ہے کہ  ان میں اضافہ ہوتا رہتا ہے لیکن فیصل عثمان جیسے لوگ جب اس کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرتے ہیں تو اس کے مثبت نتائج برآمد ہوتے ہیں۔ ممبئی کے قریب ممبرا کے رہنے والے  فیصل اولا  ٹیکسی چلاتے ہیں۔ راستے میں ان کی گاڑی   اچانک  بند ہو گئی۔ اس دوران بائیک پر سوار کچھ لوگ اس کے پاس پہنچے اور پوچھا کہ کار کیوں بند کر دی۔ بات بڑھی تووہ  لوگ گالیاں  دینے لگے۔ فیصل  نے احتجاج کیا تو ان پر حملہ کردیا گیااورجے شری رام کا نعرہ لگانے کے لیے بھی دباؤ بنایا گیا۔اگلے دن فیصل نے  ممبرا پولس اسٹیشن میں اس واقعہ کی  شکایت درج کرائی۔ اس کے بعد پولس نے تینوں ملزمین کو گرفتار کر کے ان سے جرم قبول کر والیا۔ ان لوگوں نے اپنے جرم کے ساتھ  نشے میں ہونے کا بھی اعتراف کرلیا۔ ملزمین کو گرفتار کرنے کے بعد پولس نے عدالت میں پیش کیا تو انہیں ایک ہفتہ  تک پولس حراست میں بھیج دیا گیا۔اس طرح جب تک ملزمین کو سزا نہ دلوائی جائے اس وقت تک تشدد کے واقعات پر لگام نہیں لگے گی  لیکن اس کے لیے عزم و حوصلہ درکار ہے۔

تشدد کی واردات کے دوران اور بعد بہت کم لوگ فیصل عثمان جیسا رویہ اختیار  کرتے ہیں۔ عام لوگوں میں سے اکثر اس سے دوری بنالیتے ہیں اس لیے کہ ہرکوئی مصروف ہے۔ کوئی اپنا کام کھوٹی نہیں کرنا چاہتا  اور پھر تشدد کے خلاف اپنی ذمہ داری ادا کرنے کا سہل ترین طریقہ سوشیل میڈیا نے فراہم کرہی دیا ہے۔ ہر روز دوچار ویڈیو موصول ہوجاتی ہیں۔ ان کو پھیلا کر لوگ اپنے آپ کو مطمئن کرلیتے ہیں کہ کام ہوگیاحالانکہ وہ بھول جاتے ہیں  کہ نادانستہ وہ اپنے ان دشمنوں کا آلۂ کار بن گئے جو ان ویڈیوز کے ذریعہ خوف و ہراس پھیلانے کی منصوبہ بندی کیے بیٹھے ہیں۔ وہ لوگ جن لوگوں کو خوفزدہ نہیں کرسکے ان کو آپ نے کرکے تعاون پیش فرما دیا۔ جن کے پاس وقت کی فراوانی ہے  وہ خاموش تماشائی بنے رہتے ہیں اور جو کچھ کرنا چاہتے ہیں وہ  اس کا ویڈیو بناکر پھیلانے کا کارنامہ انجام دیتے  ہیں ۔ ان کے علاوہ بہت سارے لوگ موقع غنیمت جان کرتشدد میں ملوث ہوجاتے ہیں اور اس طرح ایک انفرادی جرم ہجومی ہوجاتا ہے۔

یہ ویڈیو بنانے اور اس سے ایسے  لوگوں  کو مطلع کرنے والے یقینا  قابلِ مبارکباد جو اس کی روک تھام کے لیے جدوجہد کررہے ہیں  لیکن  بغیر سوچے سمجھے اسے غیر متعلق لوگوں تک  پھیلانے والے یہ نہیں سوچتے کہ اگر کل کو وہ خود کسی ہجومی یا انفرادی  تشدد کا شکار ہوجائیں تو ان کا کیا بنے گا؟ وہ وہاں موجود لوگوں سے کیا توقع کریں گے؟ کیا وہ چاہیں گے کہ ان کی ویڈیو بناکر دنیا بھر میں نشر کی جائے؟ ان کی مدد دے صفِ ماتم بچھائی جائے؟ اس کی بنیاد پر امت کا دوسری گئی  گزری  قوموں  سے موازنہ کرکے لعنت ملامت کی جائے؟ نفسِ مسئلہ سے توجہ ہٹا کر اتحاد کی دہائی دی جائےاور ظالم کا ہاتھ پکڑنے یا اس کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرنے کے بجائے اپنے آپ کو موردِ الزام ٹھہرا کر اپنی ذمہ داری سے فرار اختیار کیا جائے؟  نہیں،  اپنے لیے یہ  کوئی نہیں چاہتا لیکن دوسروں کے لیے یہی کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تشدد کی وارداتوں میں اضافہ ہوتا ہے۔ جس دن  ایک ہاتھ کو روکنے کے لیے دس اور پانچ کو پکڑنے کے لیے پچاس ہاتھ آگے آئیں گے یہ سلسلہ ازخود بند ہوجائے گا ورنہ بقول شاعر؎

اس کے قتل پہ میں بھی چپ تھا میرا نمبر اب آیا

میرے قتل پہ تم بھی چپ ہو اگلا نمبر آپکا ہے

نتن گڈکری کی جس تقریر کا ابتداء میں ذکر کیا گیا اس میں انہوں نے  یہ بھی کہا تھا کہ کچھ لوگ ہندو دھرم کے بارے میں غلط فہمی پیدا کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ سخت گیر اور دہشت گرد ہماری بنیادی تہذیب کو ختم کرنے کی سعی کررہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ  ان چند لوگوں کے ساتھ  خود ان  کی جماعت کیا سلوک کررہی ہے؟ وہ ان سخت گیر دہشت گرد وں کو پابند سلاسل کرکے بنیادی (ہندو) تہذیب کا تحفظ کررہی ہے یا ان سے سیاسی  فائدہ اٹھا  رہی ہے؟ کسی کو وزیراعلیٰ بناکر ملک بھر میں اشتعال انگیز تقاریر کرائی جاتی ہیں۔ کسی کو رکن پارلیمان بناکر اس کی عزت افزائی کی جاتی ہے تو کسی کو وزارت سے نواز کر اس کے مجرمانہ ماضی پر پردہ دالا جاتا ہے۔ بی جے پی کے اس رویہ سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اسے اپنی تہذیب سے زیادہ محبت ہے یا اقتدار عزیز ہے۔ سوال یہ ہے کہ  ایسا کرنے سے ملک میں تشدد کا رحجان بڑھے گا یا ختم ہوگا؟ آج کل سیاسی جماعتوں نے اقتدار میں رہنے کے لیے ساری اخلاقی حدود کو بالائے طاق رکھ دیا ہے اور اسی وجہ سے تشدد کے رحجان  میں دن دونااضافہ ہورہا ہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔