تصوف، مذہب اور دین اسلام (آخری قسط)

ندرت کار

پچھلی پوسٹ کے اختتام میں بتایا گیا کہ،

اس کے بعد جب اس جذبہ کو جب تقدس کا رنگ دیا گیا تو اسکا نام باطنیت Mysticism یا تصوف، قرار دیا گیا،اسکے بعد یہی تصوف، مختف لباسوں میں ،یونانی اشراقئین سے لیکر، آج تک، انسانی فکروعمل کی دنیا کو، قبرستان بنانے کا مؤجب بنے چلا آرہا ہے۔

ہمارے مسلمان صوفیاۓ کرام نے اسکی سند قران کی اس آیت، ” قَدْ أَفْلَحَ مَن تَزَكَّىٰ” سے، اخذ کی ہے۔ کیا یہ واقعی درست ہے؟ اگلی پوسٹ میں ہم، اسے قران ہی کی آیات سے ڈسکس کریں گے۔

اب ہم اس شے کی جانب قران کی روشنی میں آتے ہیں ، کہ، تزکیہء نفس، کسے کہتے ہیں؟

آج، اس باب کو ختم کرنے سے پہلے ایک ضمنی نکتہ کی وضاحت کرنا ضروری  سمجھتے ہیں۔ انسانی زندگی کا مقصود، انسان کی ذات، (میں ) کی ڈویلپمنٹ ہے، تصوف کا بھی یہ دعویٰ ہے کہ، اس کا مقصد”تزکیہء نفس” یا انسان کی” روحانی ترقی” ہے، لیکن اسکیلیئے وہ یہ طریقہ کار بتا تا ہے کہ، انسان،،، دنیاوی علائق سے کنارہ کشی کرتا جاۓ، اور اپنی آرزوؤں اور خواہشوں کو فنا کردے۔

"تزکیہء نفس” سے مراد ہے، روح کو مادی آلائشوں اور کثافتوں سے پاک کرنا، اور اسکا طریق یہ ہے کہ، انسان مادی دنیا سے دور بھاگے۔

تصوف کی اصل کیا ہے؟

یہ شے ہمارے موضوع سے خارج ہے، اسوقت ہم صرف اتنا کہہ دینا کافی سمجھتے ہیں  کہ اسکا سرچشمہ، افلاطونی  نظریہء حیات ہے، اور نہ صرف یہ کہ اسکا قران سے کوئی تعلق نہیں ، بلکہ یہ قرانی فلسفہ ء حیات اور تصورِ زندگی  کی بالکل ضد ہے،۔ ۔۔۔۔۔
انہیں مدعیانِ، تزکیہء نفس،کہتے ہیں ۔ جن کے متعلق قران کہتا ہے کہ؛-

"اَلَمْ تَـرَ اِلَى الَّـذِيْنَ يُزَكُّوْنَ اَنْفُسَهُـمْ ۚ بَلِ اللّـٰهُ يُزَكِّىْ مَنْ يَّشَآءُ وَلَا يُظْلَمُوْنَ فَتِيْلًا (49)النساء”

(اے رسول) کیا تو نے ان لوگوں کی حالت پر بھی غور کیا، جو تزکیہء نفس کے مدعی ہیں (ان سے کہہ دو کہ تزکیہء نفس) ایسے نہیں ہوتا، یہ صرف اسے حاصل ہوسکتا ہے جو قرانی احکامات اور ضابطہء حیات کے مطابق،حاصل کرنا جاہے، جو اسے (صرف) اسی طریق سے حاصل ہوگا، اسکی سعی و عمل کے نتائج میں ، ذرا بھی کمی نہیں کی جاۓ گی۔

"فَلَا تُزَكُّـوٓا اَنْفُسَكُمْ ۖ هُوَ اَعْلَمُ بِمَنِ اتَّقٰى (32) النجم

تم خود ہی یہ خیال نہ کر بیٹھو کہ تمہارے نفس کا تزکیہ ہورہا ہے، وہ بہتر جانتا ہے، متقی کون ہے۔

انسان نفس کا تزکیہ(پرورش) "دینے ” سے ہوتا ہے، دیکھئے قران اس بارے میں کیا کہہ رہاہے؟

اَلَّـذِىْ يُؤْتِىْ مَالَـهٝ يَتَزَكّـٰى (18)

جوشخص اپنا مال (انسانوں کی بھلائی کیلئے) دیتا ہے، اسی کا تزکیہ (نفس) ہوتا ہے۔

اس آیت سے ظاہر ہے کہ، قران کی رو سے تزکیہء نفس اسکا ہوتا ہے جو پوری محنت سے کماۓ اور پھر، فاضل مال، دوسروں کی نشو ونماء کیلئے دیتا جاۓ۔

‘تزکیہء نفس ” اسکا نہیں ہوتا ، جو دوسروں کی کمائی پر زندہ رہے، روحانی ترقی کیلئے، تصوف پرست مدعیان، کتنا ہی دنیا سے دور بھاگیں ،، جب تک وہ زندہ ہیں ، انہیں کھانے پینے کی ضرورت ہوتی ہے، جسم کی پرورش کیلئے، جسے ظاہر ہے دوسرے لوگ ان کیلئے پورا کرتے ہیں ، جو شخص اپنی ذات کیلئے اپنی ضروریات کیلئے دوسروں کا محتاج ہو اسکا،تزکیہء نفس” کس طرح ہوسکتا ہے؟

پھر،قران کی رو سے "تزکیہء نفس انسانی معاشرہ کے اندر رہتے ہوۓ ہوتا ہے،انفرادی زندگی بسر کرنے سے نہیں ہوتا،اسکیلئے جو شخص، خانقاہوں کے خلوت کدوں میں ، تزکیہء نفس، تلاش کررہا ہے وہ قران کےراستے سے مخلاف سمت پلٹ جاتا ہے
یہی وہ رھبانیت ہے جس کے متعلق قران کہا ہے کہ

"وَّرَهْبَانِيَّةً ِۨ ابْتَدَعُوْهَا مَا كَتَبْنَاهَا عَلَيْـهِـمْ ” الحدید آیت 27

اسے (رھبانیۃ)انہوں نے اپنے ذہن سے وضع کرلیا ہے، ہم نے ان پر لازم نہیں ٹھہرایا ہے۔

نفس کی قرانی حقیقت

وَنَفْسٍ وَّمَا سَوَّاهَا (7) سورہ الشمس

اور وہ تمام اسباب و عناصر، جو اسے سنوارتے ہیں

فَاَلْهَـمَهَا فُجُوْرَهَا وَتَقْوَاهَا (8)

پس(اس سچائی پر گواہ ہیں ) کہ خدا نے انکے اندر اچھائی(نیکی ) اور برائی(بدی)  کی سمجھ (الہام) کی صلاحیت کے دونوں امکانات رکھ دیئے ہیں

قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَكَّاهَا (9)

جس نے اسکی نشو ونماء (ڈویلپمنٹ) کی،وہ کامیاب رہا، فلاح پاگیا

وَقَدْ خَابَ مَنْ دَسَّاهَا (10)

اور جس نے اسے دباۓ رکھا، (اور پھلنے پھولنے نہ دیا)وہ( خاسر ) و ناکام رہا۔

آپ نے دیکھا کہ قرآن کس طرح نفسِ انسانی کو ایک منفرد، مخصوص اور مستقل تشخص Entity  قرار دیتا ہے، اسی کو انسانی ذات (میں) Human Personalityسے تعبیر کیاجاتا ہے، یعنی اس کے اندر بننے اور بگڑنے کی امکانی قوتیں اور استعداد،ودیعت کرکے رکھ دی گئی ہیں ۔

تبصرے بند ہیں۔