تصوف، مذہب اور دین اسلام (پانچویں قسط)

ندرت کار

پچھلی پوسٹ میں ہم نے عرض کیا:

"تہذیب کا مشہورامریکی مؤرخ، DORSEY اپنی کتاب CIVILIZATION میں رقمطراز ہے کہ
آج لاکھوں انسانوں کے نزدیک عیسایئت، شکست خوردوں کا مذہب ہے، وہ اس مذہب کی قبولیت سے، اعترافِ شکیست کرتے ہیں کہ
یہاں کوئی شے قابلِ اطمینان نہیں۔ اطمینانِ کی آرزو باطل،۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ اور آرزوؤں کی تکممیل گناہ ہے۔

یہ اندازِ نگاہ۔ ۔۔۔۔ صحیح اور تندرست زندگی کو، ناممکن بنا ددیتا ہے،اس سے انسانیت تباہ ہوجاتی ہے۔

عیسائیت میں عدل کا تصور بھی اسی طرح نا مانوس ہے جس طرح ذہنی دیانت کا،یہ اسکے تصورِ اخلاق سے باہر کی شے ہے، عیسائیت نے ان لوگوں سے تو شفقت و ہمدردی کا اظہار کیا ہے جن پر ظلم و ستم ہوں، لیکن خود، ان سے اعراض برتا ہے،اس نے ان لوگوں کو جو ظلم و استبداد کے بوچھ کے نیچے دبے ہوۓ لوگوں کو  جنہیں مصائب و شدائد کے ہجوم نے گھیر رکھا ہو، انہیں آئین و محبت کی دعوت و تعلیم دی ہے، عفو و محبت کا سبق سکھایا ہےانہیں خدا کی ربوبیت کی یاد دلائی ہے لیکن مذہب و اخلاق کے اس طوفان میں، جس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ،اخلاقی ضوابط کی معراجِ کبریٰ ہے،عام انصاف اور دیانت کیلیئے کئی جگہ نہیں۔

مسیحِ مقدس، ظلم و ستم کے ستاۓ ہوۓ مظلوم انسانوں کے درمیان،۔ ۔۔۔۔۔ آسمان سے اترتا ہوا، فرشتہ دکھائی دیتا ہے۔ ۔۔ جو انکی طرف،”فارقلیط” کا ہیغامِ شفقت پہنچاتا ہے۔

لیکن اس جور و استبداد کی علت Cause معلوم کرنا،انکے دائرہء شعور سے باہر ہے
خواہ، ظالموں کے پنجہء ظلم و استبداد میں جکڑی ہوئی انسانیت کی چیخیں نکلتی رہیں،انسانوں کی زندگیاں اور قلوب و اذہان کی غلامی کی زنجیروں میں بندھے رہیں، انکی ہڈیاں چٹختی رہیں، وہ مٹ جائیں،فنا ہوجائیں،۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عیسائیت کی روح انہیں پھر بھی صبرو برداشت کا سنق پڑھاتی رہیں گی۔

انکے ظلم و استبداد اور ان سے انسانوں کا چھٹکارا، کیسے ہونا چاہیئے، اس ذمہ داری سے یہ، کبوتر کی مانند، آنکھیں بند کیئے رکھے گی۔
عیسائیت ہمیشہ عفو و در گذر، برداشت، اور رحمدلی کا سبق پڑھاتی رہی لیکن۔ ۔۔۔ عدل و انصاف کی اسے کبھی یاد نہ آئی۔ زندگی اور اسکی تمام خود داریوں کا ترک۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ قدسیہء آرزو۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عدم مدافعت، خاموش اطاعت۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک گال پر طمانچہ کھا کر،دوسرا سامنے کردینا۔ ۔۔۔۔۔۔۔ عیسایت کا اولین،شیوہء زندگی ہے۔

انجیل میں جس قسم کاضابطہء حیات دیا گیا ہے، اگر اسے آجکے معاشرہ زندگی میں نافذ کردیا جاۓ تو،اس کا نتیجہ، فوری موت کے سوا، کچھ نہ ہوگا۔

کیونکہ عیسائیت کے، پیش کردہ مذہب کے اصولی عناصر،انفرادی نجات، خدا اور بندے کے درمیان،پرائیویٹ تعلق،تزکیہء نفس،باطنیت (تصوف) ہے۔ ۔۔۔۔۔۔ اسی وجہ سے، مادہ سے نفرت و اجتناب، دنیا سے دوری اور آخرت پر نگاہیں رکھنا ہے۔

اور دنیا کے ہر مذہب میں،یہی تصورات ہیں،حتٰی کہ، ہم مسلمانوں کے رائج الوقت مذہب کا بھی یہی حال ہے،۔۔۔۔۔ چنانچہ اس ضمن میں،
اقبال علیٰ رحمہ، لکھتے ہیں کہ تصوف، مسلمانوں کے مشرقی ممالک میں، اس سے بھی زیادہ تباہی کا مؤجب ہوا ہے، جس قدر، یہ مغرب میں بربادی کا سبب بنا ہے۔ بجاۓ اس کے کہ، یہ عام انسان کی داخلی زندگی میں،اُستلاف و توازن پیدا کرکے، اسے کاروانِ تاریخ کے ساتھ چلنے کے قابل بنا دیتا، اس نے ترکِ علائق کا باطل سبق پڑھادیا، جس کی وجہ سے اس نے اپنی جہالت اور روحانی جمود کا نام طمانیتِ قلب (تصوف) رکھ لیا۔( خطباتِ اقبال۔ ۔۔۔ ٖصفۃ،177)

ظاہر ہے بلند ترین مذپب وہی ہوسکتا ہے جو، انسانی علمی بصیرت کہ رہنمائی کرے،نہ وہ، جو علم و بصیرت کے سامنے آنے سے شرماۓ؟

"جب تک کوئی مذہب،عقل و بصیرت کے عناصر، اپنے اندر رکھتا ہے وہ، توہم پرستانہ  باطنیت( تصوف) کی پست سطح پر گرنے سے محفوظ رہتا ہے، یہی وہ اصل مذہب ہے جو انسانیت کا ترقی یافتہ کہلانے کا،اہل ہوتا ہے۔ "

ناترقی یافتہ مذہب، انسانی ترقی کی راہ میں، سنگِ گراں بن کر حائل ہوجاتا ہے، لیکن۔ ۔۔۔۔۔۔ ترقی یافتہ مذھب، انسانی ترقی میں وحدت پیدا کرکے،ہر منفی قوت کیلیئے "اختیار و ارادہ” اور اسے استعمال کا میدان مہیا کردیتا ہے۔ (جاری ہے)

تبصرے بند ہیں۔