تقلید اصل میں کیا ہے؟ کیا ضروری ہے اور کیا ضروری نہیں؟

علماء تقلید اور عدم تقلید کے مسئلہ سے واقف ہوتے ہیں مگر عام مسلمان تقلید اور عدم تقلید سے واقف نہیں ہوتا ہے۔ تقلید کے معنی ہیں پیروی کرنا، نقل کرنا، کسی کے قدم بہ قدم چلنا۔ کسی کی تقلید کس قدر کرنا چاہئے اس میں علماء میں اختلاف ہے جو لوگ اختلاف کو علم سمجھتے ہیں اور رحمت سمجھتے ہیں۔ وہ تو علم کے طالب اور تحقیق و تنقید کو ضروری سمجھتے ہیں اور جو اختلاف کو برداشت نہیں کرتے صرف حق کو اپنے سوا کسی کے پاس نہیں سمجھتے وہ حقیقت میں جہالت کا پرچار کرتے ہیں اس سے علمی ترقی میں رکاوٹ پیدا ہوتی ہے اور تحقیق وتنقید کی راہ ان کیلئے مسدود ہوجاتی ہے۔ ایک صاحب علم نے تقلید کے مسئلے میں نہایت اچھی بات کہی ہے:
’’ایک صاحب علم آدمی کو براہ راست کتاب و سنت سے حکم صحیح معلوم کرنے کی کوشش کرنی چاہئے اور اس تحقیق و تجسس میں علماء سلف کی ماہرانہ آراء سے بھی مدد لینی چاہئے، نیز اختلافی مسائل میں اسے ہر تعصب سے پاک ہوکر کھلے دل سے تحقیق کرنا چاہئے کہ ائمہ مجتہدین میں سے کس کا اجتہاد کتاب و سنت سے زیادہ مطابقت رکھتا ہے۔ پھر جو چیز حق معلوم ہو اسی کی پیروی کرنی چاہئے‘‘۔
’’ائمہ کی پیروی کی حقیقت صرف یہ ہے کہ ان ائمہ نے اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام کی چھان بین کی۔ آیاتِ قرآنی اور سنت رسولؐ سے معلوم کیا کہ مسلمان کو عبادات اور معاملات میں کس طریقہ پر چلنا چاہئے اور اصول شریعت سے جزئی احکام کا استنباط کیا۔ لہٰذا وہ بجائے خود آمر و ناہی نہیں ہے، نہ بذات خود مطاع اور مبتوع ہیں بلکہ علم نہ رکھنے والے کیلئے علم کا ایک معتبر ذریعہ ہیں۔ جو شخص خود احکام الٰہی اور سنن نبوی میں نظر بالغ نہ رکھتا ہو اور خود اصول سے فروع کا استنباط کرنے کا اہل نہ ہو۔ اس کیلئے اس کے سوا چارہ نہیں ہے کہ علماء اور ائمہ میں سے جس پر بھی اسے اعتماد ہو، اس کے بتائے ہوئے طریقہ کی پیروی کرے۔ اگر کوئی شخص اس حیثیت سے ان کی پیروی کرتا ہے تو اس پر کسی اعتراض کی گنجائش نہیں ہے۔ کوئی شخص ان کو بطور خود اٰمرونا ہی سمجھے یا ان کی اطاعت اس انداز سے کرے جو اصل اٰمرونا ہی کی اطاعت میں اختیار کیا جاسکتا ہے، یعنی ائمہ میں سے کسی کے مقرر کردہ طریقے سے ہٹنے کو اصل دین سے ہٹ جانے کا ہم معنی سمجھے اور اگر کسی ثابت شدہ حدیث یا صریح آیت قرآنی کے خلاف ان کا کوئی مسئلہ پایا جائے تب بھی وہ اپنے امام ہی کی پیروی پر اصرار کرے تو یہ بلا شبہ شرک ہوگا‘‘۔ (ترجمان القرآن: جولائی /اکتوبر 1944ء)
علامہ یوسف القرضاوی دورِ جدید کے ایک دیدہ ور اور صاحب بصیرت عالم دین، محقق اور مصنف ہیں۔ قرآن و حدیث پر ان کی گہری نظر ہے۔ امت کے ائمہ، فقہاء اور ماہرین علوم اسلامیہ کے افکار و خیالات کا موصوف نے دقت نظر اور باریک بینی سے مطالعہ کیا ہے۔ دور حاضر کے مسائل اورپیچیدگیوں سے بخوبی واقف ہیں اور اسلام سے متعلق جو سوالات ابھر رہے ہیں ان کا جواب دینے کی بھر پور صلاحیت رکھتے ہیں۔
علامہ یوسف القرضاوی سے ایک صاحب نے سوال کیا کہ ’’کسی ایک مسلک کی مکمل تقلید کے سلسلے میں آپ کا کیا موقف ہے؟ کیا چاروں ائمہ (ابو حنیفہ، مالک، شافعی اور احمد بن حنبل) کو چھوڑ کر کسی اور امام کی تقلید جائز ہے؟ اور کیا یہ جائز ہے کہ کسی ایک مسئلہ میں کسی ایک امام کی تقلید کی جائے اور دوسرے مسئلے میں کسی دوسرے امام کی؟ کیا یہ بہتر نہ ہوگا کہ اماموں کی تقلید کی بجائے قرآن و سنت کا براہ راست اتباع کیا جائے؟
ان سوالوں کے جواب میں موصوف نے فرمایا: ’’سب سے پہلی بات یہ ہے کہ اسلامی فقہ صرف چار مسلکوں تک محدود نہیں ہے جیسا کہ عام طور پر خیال کیا جاتا ہے۔ امام صرف چار (ابو حنیفہ، مالک، شافعی اور احمد بن حنبل)ہی نہیں ہیں بلکہ ان کے علاوہ دوسرے علماء فقہ بھی ہیں جو علمی مرتبہ میں ان چاروں کے ہم پلّہ ہیں۔ مثال کے طور پر امام لیث بن سعد جو کہ امام مالک کے ہم عصر تھے۔ امام شافعی کی نظر میں امام لیث امام مالک سے بہتر فقیہ تھے۔ اسی طرح عراق میں امام سفیان ثوریؒ تھے جو کہ علم فقہ میں امام ابو حنیفہ کی برابری کرسکتے ہیں۔ امام غزالیؒ نے انھیں پانچواں امام تسلیم کیا ہے۔ علم حدیث میں انھیں ’’امیر المومنین‘‘ کا خطاب عطا کیا گیا ہے۔ اسی طرح امام طبری کا شمار بھی جید فقہاء میں ہوتا ہے۔ فقہ کے علاوہ انھیں تفسیر، تاریخ اور حدیث پر بھی زبردست کمال حاصل تھا۔ ابو حنیفہ، مالک، شافعی اور ابن حنبل سے قبل بھی علم و فقہ کے عمائدین پائے جاتے تھے اور جو ان چاروں اماموں کے استاد بھی تھے۔ کون ہے جو امام زہری اور سعید بن المسیب کے ناموں سے ناواقف ہے۔ اسی طرح ان عمائدین سے قبل صحابہ کرامؓ کے درمیان بھی جید علماء و فقہاء پائے جاتے تھے، مثلاً حضرت عائشہؓ، حضرت عمرؓ، حضرت زید بن ثابتؓ اور ان کے علاوہ بے شمار نام ہیں جو فقہ کے میدان میں بہت اونچے مرتبہ پر فائز تھے۔
* ان چاروں ائمہ نے کبھی اس بات کا دعویٰ نہیں کیا کہ وہ معصوم ہیں کیا کہ وہ معصوم عن الخطا ہیں اور ان سے غلطی نہیں ہوسکتی۔ اور نہ دوسرے علماء کرام ہی ان چاروں ائمہ کے بارے میں اس طرح کا دعویٰ رکھتے ہیں۔ صحیح اور سچی بات یہ ہے کہ یہ امام حضرات قرآن و حدیث کی روشنی میں صحیح رائے قائم کرنے کیلئے اجتہاد کرتے تھے۔ ان کے اجتہاد کی بنیاد قرآن و سنت پر تھی نہ کہ اپنی مرضی اور خواہش پر۔ اسی اجتہاد کے نتیجے میں ان کے درمیان اختلافات ہوئے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے قول کے مطابق اجتہاد کی راہ میں حق اور صحیح بات تک پہنچنے والے کو دو اجر ملیں گے جبکہ غلطی کرنے والا بھی ایک اجر کا مستحق قرار پائے گا۔ امام مالکؒ کہا کرتے تھے کہ ’’میں بشر ہوں اور غلطی بھی کرسکتا ہوں۔ پس میرے قول کو قرآن و حدیث کے پیمانے پر پرکھا کرو‘‘۔ امام ابو حنیفہؒ فرمایا کرتے تھے کہ ’’یہ میری رائے ہے اور یہ رائے میرے نظر میں سب سے بہتر ہے، لیکن اگر میری رائے سے بہتر کوئی رائے مجھے معلوم ہو تو میں فوراً اسے قبول کرلوں گا‘‘۔ امام شافعیؒ کہا کرتے تھے کہ ’’میری رائے میری نظر صحیح اور غلط بھی ہوسکتی ہے، اور دوسروں کی رائے میری نظر میں غلط ہے لیکن صحیح بھی ہوسکتی ہے‘‘۔ اس اجتہاد کا نتیجہ تھا کہ کبھی کبھی ایک ہی مسئلہ میں کسی ایک امام کی ایک سے زائد رائے ہوتی تھی۔ امام شافعیؒ جب عراق میں تھے تو عراق کے ماحول اور وہاں کی ضرورتوں کے مطابق ان کے فتوے ہوتے تھے اور جب مصر میں جا بسے تو مصر کے حالات اور حاجات کے مطابق ان کے فتوے عراق سے قدرے مختلف ہوتے تھے۔ اسی طرح کسی ایک ہی مسئلے میں حضرت عمرؓ کی جو رائے آج ہوتی تھی، اگلے سال مختلف حالات کی وجہ سے ان کی رائے بھی مختلف ہوتی تھی، اور جب ان سے پوچھا جاتا کہ ایساکیوں ہے؟ تو آپؓ جواب دیتے کہ ’’کل کا فتویٰ کل کے علم کے مطابق تھا اور آج کی رائے آج کے علم کے مطابق ہے‘‘۔
* کسی ایک مسلک کا اتباع اور تقلید کرنا فرض ہے اور نہ سنت بلکہ حق بات تو یہ ہے کہ ایسی تقلید قرآن و سنت کی رو سے جائز نہیں ہے۔
(الف) قرآن و سنت سے ثابت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر شریعت کے معاملے میں صرف اپنی اور اپنے رسولؐ کی اطاعت فرض کی ہے۔ اپنے بندوں میں سے کسی ایک متعین شخص کی اطاعت کا حکم نہیں دیا ہے، اس لئے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ ایسی کوئی شخصیت نہیں ہے جس کی تمام رائیں صحیح ہوں اور جس سے غلطی کا امکان نہ ہو۔ انسان خواہ کتنا ہی بڑا عالم و فقیہ ہو اگر اس سے غلطی کا امکان ہے تو اس کی مکمل تقلید اور اتباع کرنا کیسے جائز ہوسکتا ہے؟یہ تو سراسر گمراہی کی بات ہے۔ اس طرح کی تقلید کا مطلب تو یہ ہے کہ ہم نے اس عالم و فقیہ کو حضورؐ کا درجہ عطا کر دیا۔ اپنے علماء و فقہاء کو رسول یا خدا کا درجہ عطا کر دینا ایسی صریح گمراہی ہے جس پر اللہ تعالیٰ نے اہل کتاب کی سخت سرزنش کی ہے:
’’انھوں نے اپنے علماء اور درویشوں کو اللہ کے سوا اپنا رب بنا لیا ہے‘‘۔ (توبہ: 31)
(ب) خود ان علماء و فقہاء کرام نے لوگوں کو اپنی مکمل تقلید سے منع کیا ہے اور اس بات سے روکا ہے کہ اندھے بہرے ہوکر ان کی باتوں کو تسلیم کرلیا جائے۔ امام احمد بن حنبلؒ فرماتے تھے کہ ’’نہ میری تقلید کرو نہ مالکؒ کی، نہ ثوریؒ کی اور نہ اوزاعیؒ کی؛ بلکہ اس کی بات مانو جس کی بات ان سب نے مانی ہے‘‘ یعنی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی۔امام ابو یوسف جو کہ مشہور حنفی عالم تھے، فرماتے ہیں کہ ’’کسی کیلئے جائز نہیں ہے کہ ہماری باتوں کو بیان کرے اور تسلیم کرے یہ جانے بغیر کہ ہم نے کہاں سے یہ باتیں اخذ کی ہیں‘‘۔
(ج) اس طرح کی مکمل تقلید کرنا اور اس کیلئے متعصب ہونا ایک ایسی بدعت ہے جس کا وجود قرونِ اولیٰ (صحابہ کرام اور سلف صالحین کے دور) میں نہیں تھا۔ یہ تو بعد کے دور کی پیداوار ہے جب امت مسلمہ میں علم اور اخلاص کی کمی ہوگئی۔ علامہ ابو زید اپنی کتاب ’’تقدیم الاولہ‘‘ میں فرماتے ہیں کہ ’’صحابہ کرامؓ اور تابعینؒ کے دور میں لوگ اللہ اور رسولؐ کے علاوہ دوسروں کی بات تقلید کی بنیاد پر نہیں بلکہ دلیل کی بنیاد پر مانتے تھے۔ کسی ایک شخص کی مکمل تقلید نہیں کرتے تھے۔ ایک مسئلہ میں حضرت عمرؓ کی بات مانتے تو دوسرے مسئلہ میں حضرت علیؓ کی رائے کو ترجیح دیتے۔ نہ کوئی مکمل طور پر حضرت عمرؓ کی تقلید کرتا اور نہ حضرت علیؓ کی۔ یہ وہ دور تھا جس کی تعریف خود حضورؐ نے کی ہے۔ لیکن بعد کے دور میں جب لوگوں میں تقوے کی کمی آگئی اور اجتہاد کی مشقتوں سے کترانے لگے تو وہ قرآن و سنت کی دلیلوں کے بجائے اپنے علمائے کرام پر تکیہ کرنے لگے۔ پس کوئی امام ابو حنیفہؒ پر تکیہ کرنے لگا اور حنفی بن گیا اور کوئی امام مالک پر تکیہ کرنے لگا مالکی بن گیا‘‘ وغیرہ وغیرہ۔
* کسی مسئلہ میں کسی امام کی رائے سے اتفاق نہ کرنا ان کی شان میں گستاخی نہیں ہے اور اس سے ان کی علمی منزلت میں بھی کمی واقع نہیں ہوتی ہے۔ علمائے کرام کی عزت و احترام کرنا ایک اسلامی فریضہ ہے کیونکہ علماء کرام انبیاء علیہم السلام کے حقیقی جانشین ہیں جیسا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے۔ عزت و احترام کرنا ایک بات ہے اور کسی کی رائے سے اتفاق نہ کرنا دوسری بات ہے۔ کسی کی رائے سے مخالفت کے باوجود اس کی بھر پور عزت کی جاسکتی ہے۔ امام مالکؒ وغیرہ صحابہ کرامؓ سے حد درجہ محبت کے باوجود فرماتے تھے کہ صحابہ کرامؓ میں صائب الرائے بھی ہیں اور ایسے بھی ہیں جن سے غلطیاں ہوئی ہیں۔ اس لئے یہ سمجھنا سراسر جہالت ہے کہ کسی مسئلہ میں کسی امام کی رائے سے اختلاف کرنا اس کی شان میں گستاخی یا اس کی بے عزتی ہے۔
* ہم نے تقلید کے سلسلے میں نہایت نرم الفاظ استعمال کئے ہیں اور بتایا ہے کہ تقلید نہ تو واجب ہے اور نہ سنت، لیکن ہمارے سلف صالحین نے تقلید کیلئے بڑے سخت الفاظ استعمال کئے ہیں۔ چنانچہ علامہ ابن حزم کہتے ہیں کہ تقلید حرام ہے۔ اور کسی مسلمان کیلئے جائز نہیں ہے کہ اللہ اور رسولؐ کے علاوہ کسی اور کی بات بغیر کسی دلیل کے قبول کرلے۔ اللہ کا حکم ہے: ’’لوگو! جو کچھ تمہارے رب کی طرف سے تم پر نازل کیا گیا ہے اس کی پیروی کرو اور اپنے رب کو چھوڑ کر دوسرے سرپرستوں کی پیروی نہ کرو‘‘۔ (الاعراف: 3)
دوسری جگہ اللہ کا فرمان ہے: ’’ان سے جب کہا جاتا ہے کہ اللہ نے جو احکام نازل کئے ہیں ان کی پیروی کرو تو جواب دیتے ہیں کہ ہم تو اسی طریقے کی پیروی کریں گے جس پر ہم نے اپنے باپ دادا کو پایاہے‘‘۔ (البقرۃ:170)
تمام صحابہ کرامؓ، تابعینؒ اور سلف صالحینؒ اس بات پر متفق رہے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ اور کوئی ایسا شخص نہیں ہے جس کی تمام باتیں قبول کرلی جائیں کیونکہ اس کی باتیں صحیح بھی ہوسکتی ہیں اور غلط بھی۔ جو لوگ مکمل طور پر ابو حنیفہؒ ، شافعیؒ ، مالکؒ یا احمد بن حنبلؒ کی تقلید کرتے ہیں انھیں یہ جان لینا چاہئے کہ وہ ایسا کرکے صحابہ کرامؓ اور سلف صالحینؒ کی متفق علیہ روش سے ہٹ کر کام کرتے ہیں۔ آخر کس بنیاد پر انھوں نے اماموں کو صحابہ کرامؓ پر فوقیت دے رکھی کہ وہ امام ابو حنیفہ یا امام شافعی کی مکمل تقلید تو کرلیتے ہیں لیکن حضرت علیؓ یا حضرت ابن عباسؓ کی تقلید نہیں کرسکتے؟
شیخ الاسلام علامہ ابن تیمیہؒ کہتے ہیں کہ جس شخص نے کسی امام کی اس طرح تقلید کی کہ اس کی ساری باتوں کو برحق مانتا ہو اور دوسرے اماموں کی باتوں کو رد کر دیتا ہو اسے قتل کر دینا چاہئے، اِلا یہ کہ وہ اس عمل سے توبہ کرلے کیونکہ ایسا کرکے اس نے اپنے امام کو شارع اور نبی کے درجہ پر لا بٹھایا اور اس کے اس عمل نے اسے اسلام سے خارج کر دیا۔
* کوئی ضروری نہیں ہے کہ جو رائے سب سے زیادہ مشہور اور جس کے ماننے والے کثرت میں ہوں وہی رائے سب سے زیادہ صحیح رائے ہو یا جس رائے کے ماننے والے اقلیت میں ہوں وہ رائے سرے سے غلط ہو کیونکہ کسی رائے کے صحیح یا غلط ہونے کا دار و مدار اس کی شہرت اور اس کے متبعین کی کثرت پر نہیں ہے بلکہ دلیل کے مضبوط اور معتبر ہونے پر ہے۔ ورنہ اسلام کبھی دین حق نہ ہوتا کیونکہ اس کے ماننے والے دنیا میں ہمیشہ اقلیت میں رہے ہیں۔ اللہ فرماتا ہے: ’’لیکن اکثر لوگ ایمان نہیں لائیں گے‘‘۔ (رعد: 1)
’’تم کیسی ہی خواہش کرلو لیکن لوگوں کی اکثریت ایمان نہیں لاسکتی‘‘۔ (یوسف: 103)
* اجتہادی مسائل میں اختلاف کا ہر گز یہ مطلب نہیں ہے کہ اسے اپنی عزت اور وقار کا مسئلہ بنا کر تفرقہ اور دشمنی کی صورت پیدا کرلی جائے۔ صحابہ کرامؓ اور سلف صالحینؒ فقہی مسائل میں ایک دوسرے سے اختلاف کرتے تھے لیکن کبھی ایسا نہیں ہو ا کہ اس اختلاف کی وجہ سے ان کے درمیان دشمنی ہوئی ہو۔ اس اختلاف کے باوجود وہ ایک دوسرے کی امامت میں نماز پڑھتے اور ان کے درمیان مکمل اتحاد و اتفاق تھا۔
امام ابو حنیفہؒ ، امام مالکؒ اور امام شافعیؒ وغیرہ بھی فقہی مسائل میں اختلاف رکھتے تھے لیکن ایسا کبھی نہیں ہوا کہ ان میں سے کسی کو اپنی بات کے صحیح ہونے پر اس قدر اصرار ہو کہ دوسرے کی بات کو سرے سے قبول ہی نہ کرے۔ چنانچہ امام شافعیؒ نماز فجر میں دعائے قنوت کو ضروری سمجھنے کے باوجود جب انھوں نے امام ابو حنیفہؒ کی قبر کے نزدیک نماز فجر ادا کی تو ان کے رتبہ کا احترام کرتے ہوئے فجر کی نماز میں دعائے قنوت نہیں پڑھی۔ امام احمد کے نزدیک خون نکلنے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے ، لیکن جب ان سے پوچھا گیا کہ امام مالکؒ کے نزدیک خون نکلنے سے وضو نہیں ٹوٹتا ہے، کیا آپ ان کی امامت میں نماز پڑھ سکتے ہیں؟ احمد بن حنبلؒ نے جواب دیا کہ امام مالک اور سعید بن المسیب جیسے حضرات کی امامت میں نماز پڑھنے سے کسے تامل ہوسکتا ہے۔
اکثر یہ دیکھا اور سنا گیا ہے کہ عام لوگ ان فقہی مسائل میں اختلافات کی کثرت دیکھ کر پریشان ہوجاتے ہیں اور سوال کرتے ہیں کہ آخر ان اختلافات کے اسباب کیا ہیں؟ ان کے اطمینان قلب کیلئے ان اسباب کا بیان ضروری سمجھتا ہوں۔ وہ یہ ہیں:

 (1)  شرعی احکام کا منبع و ماخذ قرآنی آیات اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت طیبہ ہے اور یہ عین فطری بات ہے کہ ان قرآنی آیات یا حضورؐ کے اقوال کو سمجھنے میں اور ان کے مفہوم کی تعین میں لوگ مختلف ہوجائیں۔بعض لوگ ظاہری مفہوم کو ترجیح دیتے ہیں اور بعض لوگ بات کے اصل مدعا و مقصد کو نگاہ میں رکھتے ہوئے اس کے اصل مفہوم کو ترجیح دیتے ہیں۔ مفہوم کے تعین میں اس اختلاف کی وجہ سے فقہی مسائل میں اختلاف ہوجاتا ہے۔ مثال کے طور پر غزوۂ احزاب سے واپسی کے موقع پر حضورؐ نے صحابہ کرامؓ سے فرمایا:
’’جو شخص اللہ اور آخرت پر ایمان رکھتا ہے تو وہ عصر کی نماز بنی قریظہ پہنچ کر ہی ادا کرے‘‘۔ (بخاری و مسلم)
جب سورج غروب ہونے کا وقت آیا اور صحابہ کرام بنی قریظہ نہیں پہنچ سکے تو صحابہ کرام حضورؐ کے اس حکم کے بارے میں غور کرنے لگے، چنانچہ بعض صحابہ کہنے لگے کہ چونکہ حضور نے ہمیں بنی قریظہ پہنچ کر ہی عصر کی نماز ادا کرنے کا حکم دیا ہے، اس لئے ہم وہیں جاکر ادا کریں گے خواہ نماز قضا ہوجائے اور بعض صحابہ کرام نے کہاکہ حضورؐ کا مقصد یہ نہیں ہے کہ ہم نماز قضا کر دیں بلکہ آپ کا مقصد یہ تھا کہ ہم جلد از جلد بنی قریظہ پہنچنے کی کوشش کریں۔ چنانچہ انھوں نے سورج غروب ہونے سے قبل اور بنی قریظہ پہنچنے سے قبل عصر کی نماز ادا کری، یعنی صحابہ کرام کے ایک فریق نے حضورؐ کے حکم کے ظاہری مفہوم پر عمل کیا اور دوسرے فریق نے حضورؐ کے حکم کے اصل مدعا و مقصد کو مد نظر رکھا۔ بعد میں جب یہ معاملہ حضورؐ کے سامنے پیش ہوا تو حضورؐ نے دونوں فریقوں کو درست قرار دیا۔
اب آپ دیکھ لیں کہ حضورؐ کا حکم ایک ہی تھا لیکن دونوں فریقوں نے اپنی اپنی سمجھ اور اجتہاد کے مطابق عمل کیا اور ان کے درمیان اختلاف ہوا اور اس اختلاف کے باوجود حضورؐ نے ان دونوں کو درست قرار دیا۔

 (2) طبعاً بعض لوگ سختی اور تشدد کی طرف مائل ہوتے ہیں جبکہ بعض لوگ فطری طور پر سہل پسند ہوتے ہیں، چنانچہ حضرت عبداللہ بن عمرؓ نسبتاً سخت مزاج واقع ہوئے تھے اور حضرت ابن عباسؓ کا میلان سہل پسندی اور آسانی کی طرف تھا۔ طبیعت میں اس فرق کی وجہ سے بھی فقہی مسائل میں اختلافات ہوتے ہیں، چنانچہ حضرت عبداللہ بن عمرؓ اپنی سختی طبیعت کی وجہ سے اپنے بچوں کو بوسہ دینے سے گریز کرتے تھے جبکہ ابن عباسؓ ایسا کرنے کو نیک عمل سمجھتے تھے۔
(3) عربی زبان میں بعض الفاظ ایسے ہوتے ہیں جن میں حقیقی اور مجازی دونوں قسم کے معنوں کا احتمال ہوتا ہے۔ بعض لوگ حقیقی معنی و مفہوم کو لیتے ہیں اور بعض لفظ کے مجازی مفہوم کو ترجیح دیتے ہیں۔ مثال کے طور پر قرآن کے الفاظ ’’اَوْلَا مَسْتُمُ النِّسَآءَ‘‘ میں لفظ ’’لَامَسْتُمْ‘‘ میں حقیقی اور مجازی دونوں مفہوم کی گنجائش ہے۔ اس کا حقیقی معنی ہے ہاتھ سے چھونا۔ اور اس کا مجازی مفہوم ہے بیوی سے مباشرت کرنا۔ جن فقہاء کرام نے اس کے حقیقی مفہوم کو ترجیح دی ان کے نزدیک بیوی کو صرف ہاتھ سے چھو دینے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے لیکن جن کے نزدیک یہاں لفظ کا مجازی مفہوم مراد ہے ان کے نزدیک بیوی کو صرف چھو دینے سے وضو نہیں ٹوٹتا ہے۔
(4) بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ ایک روایت اور حدیث کے امام کے نزدیک صحیح اور معتبر ہوتی ہے اور وہ اس کے مطابق اپنی رائے قائم کرتا ہے جبکہ کسی دوسرے امام کے نزدیک یہ حدیث غیر معتبر اور ضعیف ہوتی ہے اور وہ اس غیر معتبر روایت کو اپنی دلیل نہیں بناتا۔ روایت کے معتبر ہونے یا نہ ہونے سے بھی فقہی مسائل میں اختلافات ہوئے ہیں۔
(5) بعض فقہائے کرام فقہی مسائل کے سلسلے میں قرآن و حدیث کے علاوہ دوسرے عوامل پر بھی نظر رکھتے ہیں۔ مثلاً دنیا کے بدلتے حالات، مختلف علاقے والوں کی مختلف ضرورتیں اور عوامی مصلحتیں وغیرہ۔ ان فقہائے کرام کے نزدیک ان عوامل کا فقہی مسائل اور ان کے احکام میں بڑا عمل دخل ہوتا ہے جبکہ بعض فقہاء کے نزدیک یہ عوامل کچھ زیادہ معتبر نہیں ہیں۔

  (6)بعض فقہاء کے نزدیک حضورؐ سے قبل کی شریعتیں، حضورؐ سے پہلے بھیجے گئے انبیاء و رسل کی شریعتیں ہمارے لئے بھی شریعت کی حیثیت رکھتی ہیں اور انھیں بطور دلیل پیش کیا جاسکتا ہے، جبکہ بعض کے نزدیک اگلی شریعتیں ہمارے لئے شریعت کی حیثیت نہیں رکھتی ہیں۔
ان کے علاوہ اور بھی اسباب ہیں جن کی وجہ سے فقہاء کرام کے درمیان فقہی مسائل میں اختلافات ہوئے ہیں۔ ان اسباب کے متعلق بہت سی کتابیں بھی تصنیف کی گئی ہیں۔ مثلاً علامہ شاہ ولی اللہ دہلویؒ کی ’’الانصاف فی اسباب الاختلاف‘‘ اور شیخ علی الخفیف کی ’’اسباب اختلاف الفقہاء‘‘۔
ایک بات ذہن نشین رہنی چاہئے کہ فقہی مسائل میں اختلافات کوئی مصیبت یا تفرقہ کی علامت نہیں ہے بلکہ یہ تو ایک شرعی ضرورت ہے اور اس سے بھی بڑھ کر یہ اختلافات ہمارے دین کی وسعت اور کشادگی کی واضح علامت ہے اور ہم بندوں کے حق میں رحمت ہیں۔ یہ اللہ کی رحمت ہی تو ہے کہ اس نے اپنے بندوں کو شرعی مسائل میں تنگی نہیں بلکہ کشادگی عطا کی ہے۔ انھیں کسی ایک رائے کا پابند نہیں بنایا ہے بلکہ انھیں یہ گنجائش اور عطا کی ہے کہ وہ اپنی ضرورتوں اور اپنے علاقے اور اپنے زمانے کے حالات کے لحاظ سے کسی موزوں نہ اور بہتر رائے پر عمل کریں۔ بالکل فطری بات ہے کہ کوئی فتویٰ کسی پرانے زمانے کے لحاظ سے موزوں اور مناسب ہو، لیکن وہی فتویٰ آج کے بدلے ہوئے حالات اور گوناگوں ضرورتوں کے پیش نظر بالکل موزوں اور مناسب نہ ہو۔ اسی طرح عین ممکن ہے کہ کوئی فتویٰ کسی ملک کیلئے موزوں ہو لیکن دوسرے ملک کیلئے ناموزوں ہو کیونکہ دونوں ملکوں کے حالات مختلف ہوسکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ امام شافعیؒ جب مصر میں مقیم تھے تو ان کے فتوے ان فتووں سے مختلف تھے جو انھوں نے عراق میں قیام کے دوران دیئے۔ کیونکہ دونوں ملکوں کے حالات جدا جدا تھے۔ حضرت عمرؓ اس سال ایک فتویٰ دیتے اور اگلے سال اسی مسئلہ میں مختلف فتویٰ دیتے اور جب پوچھا جاتا تو جواب دیتے کہ کل کا فتویٰ کل کے حالات کے لحاظ سے تھا اور آج کا فتویٰ آج کے لحاظ سے۔ خلیفہ منصور نے امام مالک سے خواہش ظاہر کی کہ تمام مسلمانوں کو ان کی تصنیف ’’الموطا‘‘ کا پابند بنا دیں تو امام مالکؒ نے انکار کر دیا اور فرمایا کہ امیر المومنین ایسا نہ کیجئے کیونکہ مسلمان مختلف ملکوں میں بٹے ہوئے ہیں۔ ان کے حالات جدا جدا ہیں اور ان کی ضرورتیں الگ الگ ہیں۔
تمام لوگوں کو کسی ایک ہی مسلک کا پابند بنا دینا یا اجتہاد کا دروازہ بند کر دینا شریعت کی رو سے ایک غلط عمل ہے کیونکہ یہ عمل قرآن و سنت اور صحابہ کرام کے عمل کے خلاف ہے۔ اس طرح کی فکر اس زمانے کی پیدا وار ہے جب مسلمانوں میں علمی جہالت اور ہر طرح کی پسماندگی آگئی۔ حنبلی علمائے کرام کہتے ہیں کہ ہر زمانے میں کسی نہ کسی ایسے عالم اور فقیہ کا ہونا لازمی ہے جو اجتہاد کے مرتبہ پر فائز ہو۔ اور یہ بات اللہ کی رحمت سے کچھ بھی بعید نہیں ہے۔ البتہ وہ شخص جو قرآن و سنت اور دوسرے شرعی علوم پر عبور نہ رکھتا ہو اسے چاہئے کہ جن مسائل میں اسے علم نہ ہو ان کے سلسلہ میں علمائے کرام کی طرف رجوع کرے اور ان سے سوال کرے کیونکہ خدا کا حکم ہے: ’’پس علم والوں سے پوچھو اگر تم نہیں جانتے ہو‘‘۔ (الانبیاء:7)
کسی مسئلہ میں علم نہ ہونے کے باوجود کئی رائے قائم کرنا بہت بڑی غلطی ہے۔
رہا آپ کا یہ سوال کہ کیا یہ بات جائز ہے کہ کوئی شخص کسی ایک مسئلہ میں حنفی مسلک کا اتباع کرے اور دوسرے مسلک میں شافعی یا مالکی مسلک کا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ بعض علمائے کرام نے اس سے منع فرمایا ہے اور بعض نے اس کی اجازت دی ہے۔ میری اپنی رائے یہ ہے کہ اگر کوئی شخص محض آرام پسندی اور آسان فتوے کے چکر میں ایسا کرتا ہے تو یہ جائز نہیں ہے اور اسے اس بات سے کوئی مطلب نہ ہو کہ اس آسان فتوے کی دلیل مضبوط ہے بھی یا نہیں۔ ایسا شخص گویا اپنے نفس کا اتباع کرتا ہے، شریعت کی نہیں۔ البتہ اگر کوئی شخص قرآن و سنت کی دلیل کی بنیاد پر کسی رائے کو لائق ترجیح سمجھتا ہے اور اسے اجتہاد کرتا ہے خواہ یہ رائے کسی بھی مسلک کے مطابق ہو تو اس کا یہ عمل نہ صرف جائز ہے بلکہ لائق ستائش ہے۔

ترتیب و اضافہ: عبدالعزیز

تبصرے بند ہیں۔