تنزیل احمد کا قتل۔۔۔ کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے

پٹھان کوٹ حملے کی تحقیق کرنے والی ٹیم میں شامل این آئی اے کے قابل افسر تنزیل احمد کو 3 اپریل کی شب دو نامعلوم حملہ آوروں نے اپنی گولیوں کا نشانہ بنا کر قتل کر دیا ۔ تنزیل احمد اپنی فیملی کے ساتھ ایک شادی کی تقریب سے شرکت کر کے واپس گھر لوٹ رہے تھے، اسی بیچ حملہ آوروں نے ان کی کار کو گھیر لیا اور فائرنگ شروع کر دی اوران کے دم توڑنے تک فائرنگ کرتے رہے۔ پوسٹ مارٹم کرتے وقت ڈاکٹروں نے ان کے جسم پر 24 سے زائد گولیوں کے نشانات پائے ہیں، انکی اہلیہ جو کہ آگے کی سیٹ پر ان کے ساتھ بیٹھی ہوئی تھیں انہیں بھی گولیاں لگی ہیں اور وہ شدیدطور پر زخمی ہیں ، انکی حالت بہت ہی نازک ہے جبکہ بچے والد کی ہدایت پر گاڑی کی سیٹ کے نیچے چھپ جانے کی وجہ سے محفوظ ہیں۔ تنزیل احمد کے قتل پر اظہار افسوس کرتے ہوئے این آئی اے کے چیف سنجیو کمار نے اسے ایک منصوبہ بند حملہ قرار دیا ہے اورجلد سے جلد حملہ آوروں کی تشخیص کی یقین دہانی کرائی ہے۔ وزیر داخلہ نے بھی موقع واردات پر ایک تفتیشی ٹیم کو روانہ کر دیا ہے اور ان سے فوراً رپورٹ مانگی ہے۔
اس سے پہلے کہ ہم تنزیل احمدکے بہیمانہ قتل کے پیچھے مخفی سازش کو سمجھنے کی کوشش کریں ضرورت اس بات کی ہیکہ پٹھان کوٹ حملے کی نوعیت کو سمجھنے کی کوشش کی جائے ،کیونکہ یہ دونوں واقعہ بہت حد تک ایک دوسرے سے جڑا ہوا ہے۔ 31 دسمبر اور یکم جنوری کی شب جبکہ پوری دنیا نئے سال کے استقبال کیلئے منتظر تھی، ہندوستان کے پٹھان کوٹ میں دہشت گردی کا ایک افسوسناک واقعہ پیش آیا اور اس واقعہ نے نئے سال کی آمد پر ملک کی امن و سلامتی کیلئے دعا کرنے والوں کو نا امید کردیا، اسی کے ساتھ ساتھ آنے والے وقت میںملک میں سکون و ترقی کے ضمن میں بہت سے سوالات بھی کھڑے کر دیئے۔ پٹھان کوٹ حملے سے ٹھیک ایک ہفتہ قبل یعنی 25 دسمبر کو وزیر اعظم نریندر مودی نے لاہور کا دورہ کیا تھا ، اس دورہ سے یہ امید کی جا رہی تھی کہ دونوں ممالک کے درمیان حالات خوشگوار ہوں گے لیکن پٹھان کوٹ کے حملے نے دونوں ممالک کے درمیان مزید کشیدگی پیدا کر دی ہے۔ پٹھان کوٹ حملے کا تجزیہ کرتے ہوئے تجزیہ نگاروں نے یہ کہا کہ ہندوستانی حکومت کو اس حملے کے سلسلے میں جلدبازی میں کسی نتیجہ پر نہیں پہنچنا چاہئے اور پاکستان کو اس حملے کیلئے مورد الزام ٹھہرانے سے قبل اندرونی حفاظتی لاپرواہیوں کا باریک بینی سے جائزہ لینا چاہیئے۔ اندرونی لاپرواہیوں کے ضمن میں گورداس پور کے ایس پی سلوندر سنگھ کا ذکر ضروری ہے ، سلوندر سنگھ نے جس طرح بار بار اپنے بیانا ت بدلے ہیں اس سے لگتا ہیکہ دال میں کچھ کالا نہیں بلکہ پوری دال ہی کالی ہے اور پھر یہ سوال انہیں مزید شک کے دائرے میں لاتا ہیکہ آخر وہ آدھی رات کو اپنے دو ساتھیوں کے ساتھ پٹھان کوٹ کے جنگل میں کیا کر رہے تھے؟اس کا جواب کسی کے پاس نہیں ہے۔ ایس پی کا کہنا ہیکہ وہ ‘بانہال’ کے قریب ایک درگاہ سے واپس لوٹ رہے تھے کہ دہشت گردوں نے ان سے ان کی گاڑی چھین لی۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہیکہ وہ آدھی رات کو بغیر کسی ہتھیار اور باڈی گارڈ کے باہر کیوں نکلے؟ذرائع کے مطابق پٹھان کوٹ ہوائی اڈے سے ایک کلو میٹر کے فاصلے پر واقع گاﺅں تاج پورہ تک دہشت گرد سلوندر سنگھ کی سرکاری گاڑی میں گئے ، وہاں انہوں نے گاڑی چھوڑ دی اور پیدل ایک کلومیٹر کا فاصلہ طے کر کے’اکال گڑھ گرودورا’ تک پہنچے پھر ہوائی اڈے کی عمارت میںداخل ہوگئے۔ یہاں یہ بات بھی قابل غور ہیکہ کسی بھی ایئر بیس یا فوجی چھاﺅنی میں سخت حفاظتی انتظامات ہوتے ہیں اوران میں داخل ہونا کسی بھی صورت میں ممکن نہیں ہے جب تک کہ اندر کا کوئی شخص مدد نہ کررہا ہو۔ ایسے میں یہ واضح طور پر کہا جا سکتا ہیکہ اس حملے میں فوج کے کسی اندرونی عملے کی مداخلت کا ہونا یقینی ہے۔
یہاں یہ بھی قابل ذکر ہیکہ 25 دسمبر کو جب وزیر اعظم نرندر مودی نے اچانک لاہور کا دورہ کیا تو اس دورہ کی ہندوستان میں جم کر مخالفت کی گئی۔ شیو سینا نے کہا کہ وہ ہند و پاک میں شروع ہونے والی اس بات چیت کو کسی بھی طور پر کامیا ب نہیں ہونے دیں گے۔ شیو سینا کے اخبار ” سامنا” نے اپنے اداریہ میں لکھا کہ ان مذاکرات کو ناکام بنانے کیلئے ہر ممکن قدم اٹھایا جائےگا۔ وشو ہندو پریشد، بجرنگ دل اور ہندو مہا سبھا نے اس ضمن میں بڑے سخت بیانات دیئے۔ ہندو انتہا پسندوں کی بیان بازیوں کی روشنی میں پٹھان کوٹ حملے کا سچ کچھ اور ہی نظر آتا ہے۔ اس کے علاوہ آئے دن سلوندر سنگھ کے بدلتے بیانات نے اس پورے معاملے کو مزید الجھا دیا ہے۔
پٹھان کوٹ حملے کے فوراً بعد جب ہندوستانی میڈیا نے اس حملے کیلئے پاکستان کو مورد الزام ٹھہرانا شروع کر دیا تو پاکستانی وزیر اعظم نواز شریف جو کہ اس وقت سری لنکا کے دورہ پر تھے انہوں نے نریندر مودی کو ٹیلی فون پر ہوئی بات چیت کے ذریعہ یہ یقین دلایا کہ اگر اس ضمن میں پاکستان کا کوئی بھی فرد ملوث پایا گیا تو اس کے خلاف سخت کاروائی ہوگی۔ پٹھان کوٹ حملے کا سچ ابھی آنا باقی ہے لیکن اس حملے سے قبل بھی کئی مواقع پر حکومت ہند نے بغیر کسی تفتیش کے پاکستان پر الزامات عائد کئے ہیں ۔ چاہے وہ 2001 کا پارلیمنٹ حملہ ہویا 2007 کا سمجھوتہ اکسپریس دھماکہ جس میں ہندوستانی فوج کے کرنل پروہت ، میجر اپادھائے کے ساتھ ساتھ سادھوی پرگیہ سنگھ ٹھاکر اور سوامی اسیمانند نے خود عدالت کے سامنے مکمل ہو ش و حواس میں اقبال جرم کیا تھا۔ 2001 کے پارلیمنٹ حملہ کے سلسلے میں حکومت نے آج تک اس بات کی وضاحت نہیں کی کہ حملہ آور پارلیمنٹ کے اندر داخل کیسے ہوئے ؟ اس ضمن میں بغیر کسی ٹھوس ثبوت کے عوام کو مطمئن کرنے کے بہانے افضل گرو کو پھانسی پر لٹکا دیا گیا۔
چند روز قبل پٹھان کوٹ حملے کی تفتیش کے سسلسلے میں پاکستان نے اپنا ایک وفد ہندوستان روانہ کیا تھا۔ این آئی اے کے تعاون سے یہ تفتیش مکمل کی جانی تھی۔ این آئی اے کی ٹیم کے ساتھ پاکستانی وفد نے پٹھان کوٹ ایئر بیس کا دورہ کیا اور چند دنوں کے اندر اپنی رپورٹ حکومت کو سونپنے کا وعدہ کیا۔ مقتول تنزیل احمد بھی اسی این آئی اے ٹیم کا حصہ تھے ۔ہندوستان میں پٹھان کوٹ جیسے کئی دیگر اہم معاملے کی تفتیش کرنے والے افسر کا یہ کوئی پہلا قتل نہیں ہے ۔ اس سے پہلے بھی اے ٹی ایس کے سربراہ ہیمنت کرکرے کو ہندو انتہا پسندوں کی ناپاک سازش کو بے نقاب کرنے کے جرم میں موت کے گھاٹ اتاردیا گیا تھا۔ این آئی اے کے افسر تنزیل احمد بھی پٹھان کوٹ حملے کی تحقیق کر رہے تھے اور ٹھیک اس وقت کہ جب اس حملے کا سچ سامنے آنے ہی والا تھا کہ انہیں قتل کرا دیا گیا۔ تنزیل احمد کو تو قتل کرا دیا گیا لیکن ان کے قتل نے بہت سے سوالات پیدا کر دیئے ہیں ۔اسی طرح کے سوالات جو ہیمنت کرکرے کے قتل کے بعد پیدا ہوئے تھے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔