تو شاہیں ہے، بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں پر 

مدثر احمد

کہتے ہیں کہ ایک گائوں میں کچھ مرغی کے پلّے دانے چگ رہے تھے، ان مرغی کے پلّوں کے درمیان ایک بچہ شاہین پرندے کا بھی تھا مگر وہ بھی بالکل مرغی کے پلّوں کی طرح ہی دانے کھارہاتھا اور اسکا برتائو بھی پلّوں کے جیسے ہی تھا، اتنے میں ایک مسافرکا وہاں سے جارہاتھا، وہ مرغی کے بچوں کے درمیان شاہین کے بچے کو دیکھ کر چونک گیا اور مکان مالک سے پوچھنے لگا کہ بھائی یہ کیا بات ہوئی کہ مرغی کے بچوں کے ساتھ شاہین کا بچہ بھی دانے چگ رہا ہے اور وہ بالکل مرغیوں جیسی ہی حرکت کررہا ہے۔ اس پر مکان مالک نے کہا کہ کچھ دن پہلے مجھے ایک درخت پر شاہین کا انڈا ملا تھا میں نے اس انڈے کو مرغی کے انڈوں کے ساتھ رکھا جس سے یہ بچہ پیدا ہوا۔ تب سے یہ بچہ بھی مرغیوں کے ساتھ ہی بسیرا کررہاہے۔ مسافر نے مکان مالک سے درخواست کی کہ وہ شاہین کا بچہ اپنے ساتھ لے جائیگا، مکان مالک نے وہ بچہ مسافر کو دے دیا۔ مسافر شاہین کے بچے کو اپنے گھر لے گیا اور اسمیں شاہین کی عادتوں کو اجاگر کرنے کی کوشش کی۔ مسافر ہر دن شاہین کے بچے کو اڑانے کی کوشش کرتا مگر ہر بار وہ بچہ زمین پر گرجاتا۔ پھر مسافر نے اسے گھر کی چھت پر لے جاکر اڑانے کی کوشش کی پھر بھی شاہین کا بچہ زمین پر مرغی کے بچوں کی طرح پھڑپھڑا کر گرجاتا۔ پھر مسافر کو ایک ترکیب سوجھی، اس نے شاہین کے بچے کو ایک اونچی چٹان پر سے پھینکا، شاہین کا بچہ چٹان پر سے زمین کی گہرا ئی کو دیکھ کر سہم گیا، کچھ نیچے تک وہ مرغی جیسے ہی برتائو کرتا رہا لیکن اسے احساس ہوا کہ اب وہ نہیں اڑے گا تو مرجائیگا، اس نے پوری طاقت لگاکر اپنے پر پھیلائے اور اڑنا شروع کیااور شاہین کی طرح بلندی پر پہنچ گیا۔

بالکل اسی طرح سے ہم مسلمانوں کی بھی حالت ہوچکی ہے۔ ہماری شناخت، ہماری پہچان ایک زندہ قوم کی تھی لیکن آج ہم اپنی شناخت کھوچکے ہیں، ہمارے اندر شاہین کی صلاحیتیں ہونے کے باوجود ہم مرغی کے بچوں جیسی زندگی گزار رہے ہیں۔ ہندوستان بھر میں مسلمانوں پر جو ظلم ہورہاہے وہ ظلم ہم مرغی کے بچوں کی طرح سہہ رہے ہیں۔ ہماری تہذیب، ہمارے شہروں کے نام، ہماری تاریخ، ہمارے اسلاف کی پہچان بدلی جارہی ہے لیکن ہم مسلمان اس سب کے باوجود خاموش تماشہ بین بنے بیٹھے ہیں اور ہرگز بھی یہ کوشش نہیں کررہے ہیں کہ ہم ظلم کے خلاف آواز اٹھائیں۔ حکمت اور فرصت کی بیماری کے اتنے شکار ہوچکے ہیں کہ ہماری آنکھوں کے سامنے ہمارے اپنوں کا قتل عام ہورہاہے۔ بابری مسجد کی شہادت کے بعد مسلمانوں کا قتل عام مسلسل ہورہاہے پھر بھی ہم حکمت کے نام پر خاموش بیٹھے ہوئے ہیں۔ ہمارے نوجوانوں پر سنگھ پریوار کے حملے ہورہے ہیں اور ہمارے نوجوان مار کھاکر بھی اپنے ہی اوپر مقدمے عائد کرواکر عدالتوں کے چکر کاٹ رہے ہیں۔ مظلوم ہم ہیں اور ہم ہی انصاف کی تلاش میں ہیں۔ مار بھی ہم کھائیں، کیس بھی ہم جھیلیں یہ ہماری نوبت ہوچکی ہے۔ ہمارا جوش و جذبہ ہمارے مسلکی و مکتبی اختلافا ت تک ہی محدود ہوچکاہے۔ ہماری سوچ صرف دینی مسائل تک ہی محدود ہوچکی ہے۔ ہماری نظریں اس بات کی تلاش میں ہیں کہ کون بدعت کررہاہے، کون کہاں ہاتھ باندھ کر نماز پڑھ رہاہے، کون شخص جماعت کا آدمی ہے، کون شخص جماعت اسلامی کا آدمی ہے۔ ہمارے سامنے اصل دشمن ہونے کے باوجود ہم اصل دشمن کے خاتمے کے لئے ہاتھ نہیں اٹھارہے ہیں، ہاتھ اٹھانے کی بات تو دور قلم اٹھاکر بھی ہم ایک شکایت نہیں کرواسکتے۔ ہمارے اسلاف ہمیں حکمت سے کام کرنے کا مشورہ دے رہے ہیں۔

آزادی کے بعد سے آج تک حکمت کے سائے میں ہی مسلمان زندگیاں گزار رہے ہیں اور زندگیاں گنوارہے ہیں۔ حکمت کو ہم حرکت دینے سے گریز کررہے ہیں جس کی وجہ سے فرقہ پرست ہم پر حرکت کرتے ہوئے ہمارے وجود کا خاتمہ کررہے ہیں۔ آج حکمت ہماری ضرورت نہیں بلکہ مجبوری بن چکی ہے۔ سوشیل میڈیا پر پچھلے دس دنوں سے بابری مسجد کے سلسلے میں جو پوسٹ آرہے ہیں اس پر ہم سوشیل میڈیا پر ہی تبصرے کررہے ہیں۔ تشویش جتائی جارہی ہے کہ اگلے ایک دو مہینے میں ایودھیا سے جو چنگاری اٹھے گی وہ چنگاری پورے ملک میں آگ لگائے گی۔ اس بات پر ہمارے اہل علم حضرات اللہ پر بھروسہ کرنے کے ساتھ ساتھ ملک کے قانون کا سہارا لینے کی درخواست کرنے کے بجائے قنوت نازلہ پڑھتے ہوئے گھروں میں رہنے کی ہدایت دے رہے ہیں۔ اگر تمام لوگ گھروں میں قنوت نازلہ پڑھتے ہوئے بیٹھیں گے تو کیا انصاف مل پائیگا۔ کیا اللہ نے مسلمانوں کو صرف یہ کہہ دیا کہ تم میرا ذکر کرتے ہوئے گھروں میں بیٹھ جائو میں تمہیں رزق دونگا ؟۔ کیا آپ کو  نہیںمعلوم کہ خدا نے اس قوم کی حالت اس وقت تک نہیں بدلتا جب تک کہ وہ خود اپنی حالت خود نہ بدلے۔ یہ آیت صرف اللہ تعالیٰ نے صحابہ کے لئے نہیں اتاری تھی بلکہ اس کتاب کو ماننے والوں کے لئے اتاری تھی کیونکہ قرآن کریم تاقیامت سب کے لئے راہ ہدایت ہے۔

آج ہم شاہین کی زندگی گزارنے کے بجائے مرغیوں کی زندگی گزارنے پر اکتفاء کررہے ہیں جس کا نتائج ہمارے سامنے ہیں۔ علامہ اقبال ؒ نے کہا ہے کہ ”  نہیں تیرا نشیمن قصر سلطانی کے گنبد پر۔ ۔ توشاہیں ہے بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں ” اسی طرح سے اور ایک شعر میں یہ بھی کہا ہے کہ ” عقابی روح جب پیدا ہوتی ہے جوانوں میں۔ ۔ نظر آتی ہے اس کو اپنی منزل آسمانوں میں "۔ یہاں پہلے شعر میں علامہ اقبال نے کہا ہے کہ ایک مسلمان کی شناخت شاہین پرندے کی مانند ہے جو آسمانوں پر اڑتاہے اور اونچائی سے ہی اپنے شکار کو تلا ش کرتاہے اور وہ پست ہوکر دوسروں پر بوجھ نہیں بنتا۔ اسی طرح سے دوسرے شعر میں نوجوانوں میں عقابی روح کی بات کہی ہے۔ لیکن یہاں آج کے حالات دیکھیں جائیں تو جو نوجوان عقابی روح پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں انہیں پست کرنے کے لئے کئی اپنے ہی گد گھیرا ڈالے رہتے ہیں، انکی ہمت افزائی کرنے کے بجائے انہیں مرغی بنابیٹھتے ہیں۔ اب تو مسلمانوں کو آنکھیں کھولنے کی ضرورت ہے، حکمت کا دامن تھامے بزدلی کا شکار ہونے سے اچھا ہے کہ طاقت کا استعمال کرتے ہوئے شہید بنیں یا غازی بنیں۔ ٹیپو سلطان نے کہا تھا کہ گیدڑ کی سوسالہ زندگی سے شیر کی ایک دن کی زندگی بہتر ہے مگر ہم نے ٹیپو سلطان کو بس پوسٹرس ااور بینروں میں اپنا ہیرو بنا کر انہیں خراج عقیدت پیش کرنے کی کوشش کی ہے نہ کہ انکی طرح اپنی طاقت و شجاعت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے آپ کو قوم کے تحفظ کے لئے پیش کرنے سے گریز کیاہے اور ہم گیدڑوں کی زندگیاں گزر رہے ہیں۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔