تو پھر اے مفلسی ان آٹھ دس آنوں میں کیا ہوگا

 حفیظ نعمانی

            لیجئے اولمپک رنگارنگ تقریب کے ساتھ ختم ہوگیا، اس میں جتنے ملکوں نے بھی حصہ لیا ان میں ایسے بھی ہیں جو خالی ہاتھ واپس آگئے اور ایسے بھی ہیں جو تمغوں کی جھولیاں بھر کر لے گئے، امریکہ نے سونے چاندی اور تانبے کے 121 میڈل جیتے اور جیتنے والوں میں 68 واں نام ہندوستان کا ہے جس نے ایک چاندی اور ایک تانبہ کا تمغہ جیتا ہے، اور حیرت کی بات ہے کہ جس ملک میں عورت اپنے شوہر کی چتامیں بیٹھ کر ستی بھی ہوتی تھی، جس کے پیدا ہونے پر خاندان میں سوگ کا ماحول ہوجاتا ہے، جس کی شادی کے وقت باپ یا بھائی کنیا کو دان کرتا ہے اور ملک کے شہروں اور دیہاتوں میں ذلیل مرد جس کی آئے دن آبرو لوٹ لیتے ہیں، وہی لڑکیاں لڑکوں کے منہ پر تھوک کر دونوں تمغے لے آئی ہیں۔

            پورے ملک میں جشن کا ماحول ہے، حیدرآباد میں سندھو اور ہریانہ میں ساکشی کے اوپر نوٹوں کی نہیں دولت کی بارش ہورہی ہے اور ملک کے دو چھوٹے صوبوں تلنگانہ اور ہریانہ نے خزانے کا منہ کھول دیا ہے، رہی یہ بات کہ صرف دو تمغوں اور وہ بھی چاندی تانبے کے تمغوں پر اتنی خوشی؟ تو اپنے اپنے جذبات کا معاملہ ہے، اگر ملک میں دو دن کی چھٹی بھی کردی جاتی تو کسے حق تھا کہ وہ اعتراض کرے؟ اور یہ تو شاید ملک میں پہلی بار ہوا ہے کہ سندھو اور ساکشی کو ابھی آئے ہوئے دو دن بھی نہیں ہوئے کہ انہیں کھیل کا سب سے بڑا اعزاز کھیل رتن دے دیا گیا اور ان کی ترقی کے بعد انہیں گزیٹیڈ افسر بنادیا گیا، گویا اب وہ زندگی بھر کچھ کریں نہ کریں عیش ہی عیش ان کی قسمت میں لکھ دیا گیا۔

            ہمارے ملک کے لوگوں نے ایک بہت اچھی روایت قائم کی کہ وہ ایک بچی جو جمناسٹک میں اپنی محنت اور مہارت کی وجہ سے سب کی نظروں میں تھی اور ہر کس و ناکس کو یقین تھا کہ کوئی لائے نہ لائے یہ گولڈ میڈل ضرور لائے گی، اس کے ذرا پیچھے رہ جانے کی وجہ سے اور محروم رہ جانے کی وجہ سے افسردہ نہیں ہونے دیااور اس کا اتنا ہی شاندار استقبال کیا جتنا سندھو اور ساکشی کا کیا، یقین ہے کہ یہی استقبال اس کی رگوں میں ہمت بن کر دوڑے گا اور وہ آئندہ ہونے والے اولمپک میں کامیاب ہو کر آئے گی۔

            اب اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ جو ملک برسوں سے کرکٹ میں دنیا کے ہر ملک کو روند رہا ہے، اور ہر سال نئے نئے رتن نکال کر لا رہا ہے، وہ دوسرے کھیلوں میں اتنا پیچھے کیوں ہے؟ ہمارے لڑکوں نے ثابت کردیا کہ ان کا جیتنا اتفاق نہیں ہے بلکہ ہارنا اتفاق سے ہوجاتا ہے، ورنہ کپتان دھونی ہوں یا کوہلی میچ ٹسٹ ہو یا ایک روزہ فتح کا پرچم ہندوستان ہی لہراتا ہے، کرکٹ کے بارے میں عام طور پر جواب دیا جاتا ہے کہ اس میں پیسے زیادہ ہیں اور یہ حقیقت بھی ہے کہ اگر لڑکے نے دو چار سال چوکے چھکوں کی بارش کردی تو آئی پی ایل کے نیلام میں اس کی بولی دس کروڑ کے آس پاس ہوگی، اور جو سابق بھی ہوگیا تو تب بھی دو چار کروڑ تو ہر سال اسے ملنا ہی ملنا ہیں، لیکن اولمپک کا یہ ہے کہ چار سال میں ایک مرتبہ نمبر آئے گا اور اگر تمغہ لے بھی آئے اور نوٹوں کی برسات بھی ہوگئی تو اس کے بعد وہ خود ہی گولڈ مڈلسٹ لکھتا رہے گا، دوسرا کوئی کہتا نہیں جب کہ گواسکر ہوں، کپل دیو ہوں، روی شاستری ہوں یا کرمانی آج تک ان کے چہرے سامنے آتے رہتے ہیں۔

            اب یہ تو ممکن نہیں کہ اولمپک ہر سال کرادیا جائے لیکن یہ تو ممکن ہے کہ آئی پی ایل نام کا جوعیاشی، سٹہ بازی اورجوئے کا میلہ لگتا ہے اس پر روک لگائی جائے جیسے کوئی کھلاڑی جسے 16کروڑ دئے جاتے ہیں، اگر اسے سولہ لاکھ دئے جائیں تو کیا وہ کھیلنے سے انکار کردے گا؟ یہ جو ۱۲-۱۰ اور ۵ یا ۲ کروڑ دئے جاتے ہیں یہ سب کالا دھن ہے اور اس کے نام پر جو سٹہ ہوتا ہے وہ بھی سب کالے دھن کا ہی ہوتا ہے، ہم یہ مانتے ہیں کہ اسے کوئی نہیں روک سکتا لیکن ہم یہ تو کرسکتے ہیں کہ اس کے لیے میدان نہ بنائیں، اولمپک کھیلوں کے ماہروں کی ایک کمیٹی بنانے پر غور کیا جائے جس کی سرپرستی کھیل کی وزارت کرے، لیکن اس میں زیادہ دخل نہ دے، وہی غور کرے کہ اپنے ملک کے لڑکوں کو کن کھیلوں کے لیے تیار کیا جائے؟ اولمپک میں نہ جانے کتنے ایسے کھیل ہیں جس کے لیے لمبے چوڑے خرچ کی ضرورت نہیں، مثلاً تیراکی، ریس، تیر اندازی، نشانے بازی، کشتی اور ان میں بھی ہر ایک میں کئی کئی تمغے ہیں، وہ کمیٹی ایک ایک شعبہ کو لے کر چار سال میں 50لڑکوں کو تیار کرے اور اس ریکارڈ کو سامنے رکھے جو اس سال کے اولمپک میں بنے ہیں۔

            ہمارا پورا خاندان سنبھل کا مشہور شکاری تھا، شکار پر کوئی پابندی نہیں تھی، میرے ایک چھوٹے بھائی اورایک بھانجے کے نشانے لاجواب تھے، مراد آباد میں ایک ڈی ایم شوقین مزاج کے آگئے، انھوں نے نشانے بازی کا مقابلہ کرایا، سنبھل سے یہ دونوں بھی گئے، جن میں سے کسی کے پاس بندوق نہیں تھی، لیکن گھر میں پانچ بندوقیں تھیں ان سے شوق پورا کرتے رہتے تھے۔ مقابلہ میں انھوں نے وہ کردکھایا جو کسی نے نہیں کیا، ڈی ایم نے سرٹیفکیٹ دئے اور ایک کو ۱۲ بور بندوق اور ایک کو رائفل کا لائسنس دے دیا، اور دونوں میں سے کسی کی یہ حیثیت بھی نہیں تھی کہ وہ ایئر گن بھی خرید سکیں، بہرحال دونوں پابندی تک شکار میں ڈنکے بجاتے رہے۔

            ہمارے نوجوانوں کو ایک تو اس گندی سیاست نے مارا ہے کہ گائوں کے پنچ سے لے کر پارلیمنٹ کے ممبر تک کچھ بھی بن جائو اور جتنا حرام کھاسکتے ہو کھائو اور دوسرے بھی انھیں دیکھ کر وہی بننا چاہیں، یا کرکٹ کے کھلاڑی بن کر سچن تندلکر بن جائو جنھیں بھارت رتن بنانے کے لیے پوراملک شور مچائے اور حکومت ڈر کر انھیں بھارت رتن بنادے، جو کسی کو بھی ملا ہے وہ بعد از مرگ ملا ہے، یا اس وقت جب وہ مرنے کے قریب ہوگیا اورسچن نے بلا کیا رکھا کہ قوم نے اب وراٹ کو ہلی کو بھگوان بنانے پر غور کرنا شروع کردیا، اس لیے سچن، بچن کی طرح اور بابا رام دیو کی طرح آواز لگا کر سامان بیچ رہے ہیں اور پیسے کمارہے ہیں، جو شاید ملک کے اکیلے بھارت رتن ہیں جو سیلس مین کی نوکری بھی کررہے ہیں۔

            حکومت جب ہو، جس پارٹی کی ہو، اسپورٹ کمیٹی کا سیاست سے کوئی تعلق نہ ہو اوروہ کرکٹ بورڈ کے ممبروں سے بالکل الگ انداز میں ۵۰لڑکوں کو تیار کرے اور ایک ایک لڑکے کو تین تین کھیلوں کی مشق کرائے اور حکومت جتنی مدد کرے اس پر نظر رکھے، اور ایک سال کے بعد ان کے ہر تین مہینے کے بعد ٹسٹ کرائے، تاکہ وہ 25 سے زیادہ تمغے لائیں، اور خوش ہونے کے لیے تو ایک بھی کافی تھا لیکن چین 70 لائے اور ہم صرف 2، کیا یہ شرم کی بات نہیں ہے؟ اگر ہم 4 سال میں سیکڑوں لڑکوں پر پیسے برباد کرکے ایک چاندی اور ایک تانبہ لائیں تو اچھا ہے کہ یہ فیصلہ کرلیں کہ اب اولمپک کہیں بھی ہو ہم نہیں شریک ہوں گے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔