جشن یوم جمہوریہ اور عرب و مسلم ممالک سے بڑھتے ہوئے ہندوستان  کے رشتے

آصف نواز

 ہم سب کو معلوم  ہونا چاہئےکہ آج  26/جنوری کو ملک کی 74ویں تقریب یوم جمہوریہ کے موقع پر مصری صدر عبدالفتاح السیسی بطور مہمان خصوصی شرکت فرما رہے ہیں۔  ہندوستان  کی طرف سےیہ اعزاز حاصل کرنے والے وہ مصرکے پہلے اور عرب دنیا کے چوتھے رہنما ہیں، جبکہ اس سے پہلے دیگر مسلم ممالک کے 15 سربراہان اور قائدین اس تقریب میں شرکت کر چکے ہیں۔ ان میں  سے تین  کا تعلق عرب  دنیا سے اورچار کا تعلق مغربی ایشیا اور شمالی افریقہ خطہ سے (WANA) سے رہا ہے۔ اس پر وقار تقریب  میں  2001میں الجزائري صدر عبد العزيز بوتفليقة، 2003 میں ایرانی صدر سید محمد خاتمی، 2006 میں سعودی فرمانروا شاہ عبداللہ بن عبدالعزیز  آل سعود اور 2017 میں ابو ظہبی کے ولی عہد  شہزادہ محمد بن زاید النہیان نے شرکت کی ہے۔ ان کے علاوہ  اس تقریب کے دیگر چار مہمانان خصوصی کا تعلق جنوبی ایشیا سے بھی رہا ہے۔ پاکستان کے گورنر جنرل ملک غلام محمد نے 1955میں، پاکستان کے وزیر خوراک و زراعت رانا عبدالحمید نے 1965میں، مملکت افغانستان کے بادشاہ محمد ظاہر شاہ نے 1967 میں  اور  مالدیپ کے صدر محمد عبدالقیوم  نے 1991 میں بطور مہمان خصوصی تقریب یوم جمہوریہ میں شرکت کی  تھی۔ انڈونیشیا کے صدر احمد سوکارنو نے 1950 میں، اور اسی خطے سے تین دوسرےمسلم سربراہان: برونائی کے سلطان حسن البلقیہ نے، جبکہ انڈونیشیا کے صدر جوکو ویدودو اور ملیشیا کے وزیر اعظم نجیب رزاق ایک ساتھ 2018 میں اس موقع پر ہندوستان تشریف لائے جب وزیر اعظم ہند جناب نریندر مودی نے سبھی 10 آسیان (ASEAN) ممالک کو ایک ساتھ یوم جمہوریہ کی تقريب میں شرکت کی دعوت دی تھی۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ  جہاں مغربی افریقی علاقہ میں واقع ایک دوسرےعرب ملک نائیجیریا کے دو صدور شهو شاگاری اور اولوسیگون اوباسانجو بھی  بالترتیب 1983 اور 2000 میں  26 جنوری کے موقع پر ہندوستان تشریف لاچکے ہیں، وہیں وسط ایشیا سے صرف ایک مسلم ملک قازقستان کے صدر نورسلطان نظربائیف  2009 میں یوم جمہوریہ کی تقريب میں شرکت کر چکے ہیں۔

اس دن منائی جانے والی تقریب یوم جمہوریہ کی تاریخی اہمیت  اور کرتویہ پتھ پر اس دن ہونے والی پریڈ میں بطور مہمان خصوصی شرکت کے لیے ہندوستان کی طرف سے کسی عرب اور مسلم ملک کے سربراہ کو مدعو کرنے کے پیچھے کے عوامل و اسباب کو سمجھنا بہت ضروری ہے۔

سرکاری طور پر ہندوستان ہر سال دو جشن مناتا ہے۔ ایک  جشن یوم آزادی جو ہر سال 15 اگست کو  ہوتاہے کہ  اسی دن 1947 میں ہندوستان انگریزوں کی غلامی سے آزاد ہوا تھا اور دوسرا  یوم جمہوریہ جو 26 جنوری کو اس خوشی میں منایا جاتا ہے کہ  اسی دن 1950 میں ہمارا ملک ایک جمہوری ریاست بنا تھا اور اسی دن دستور ہند کا نفاذ  عمل میں آیا تھا، اگرچہ 299اراکین پر مشتمل دستور ساز اسمبلی نے اس دستور کی توثیق نومبر 1949 میں ہی کر دی تھی، تاہم، ہندوستان نے 26 جنوری کو ہی اپنے یوم جمہوریہ کے طور پر اس لیے منتخب کیا کہ 1930میں اسی  دن انڈین نیشنل کانگریس نے اس تاریخی اعلامیہ سے ہندوستانی عوام کو باخبر کیا تھا جسے لاہور میں اس نے 19 دسمبر 1929 کو پاس کیا تھا۔ اس اعلامیہ کو ہم "پورنا سوراج” یا "ہندوستان کی آزادی کا اعلان” کے ناموں سے جانتے ہیں۔

 تو سوال یہ ہے کہ آزاد ہندوستان کی تاریخ میں اس دن کی اہمیت اتنی زیادہ کیوں ہے؟ اور کیسے یہ دن ہندوستان کے دو اہم ترین سرکاری تقاریب میں سے ایک بن گیا؟ اور کیوں ہندوستان اس دن کو اتنی زیادہ اہمیت دیتا ہے کہ اس موقع پر  بطور  خاص کسی نہ کسی ملک کے سربراہ کو مہمان خصوصی کی حیثیت سے اس تقریب میں شرکت کے لئے مدعو کر تا ہے، جہاں بھارت کی بحری، بری اور فضائی عسکری قوتاور اس کی مہارت اور ہزاروں سال پرانی ہندوستانی تہذیبی  اورثقافتی وراثت کے تنوع کا مظاہرہ ہوتا ہے؟

 تو اس کا جواب یہ ہے کہ اگرچہ ہندوستان 15 اگست 1947 کو ہی آزاد ہو گیا تھا، لیکن  اس وقت ہندوستان کے پاس نہ تو اس کا اپنا بنایا ہوا کوئی دستور تھا اور نہ ہی اس کے پاس ان کا اپنا منتخب کیا ہوا ریاست کا سربراہ تھا۔ 15 اگست 1947 سے لے کر 26 جنوری 1950 تک ہندوستان کےریاستی سربراہ چکرورتی راجگوپال آچاریہ ہوا کرتے تھے جنہیں برطانیہ عظمی نے بطور گورنر جنرل آف انڈیا مقرر کیا ہوا تھا۔ اسی دن یعنی 26 جنوری 1950 کو ہندوستانیوں نے اپنے خود کے بنائے ہوئے دستور کو ہندوستان پر نافذ کیا اور ڈاکٹر راجندر پرساد کو بالواسطہ منتخب کر کے  ملک  کی سربراہی اور اس کی زمام کار ان کے ہاتھ میں دی تھی۔ اس کے بعد آزاد ہندوستان صحیح معنوں میں آزاد جمہوریت قائم ہوئی تھی اور ملک میں ایک  ایسا جمہوری نظام قائم ہوا تھا جس میں نہ صرف حکومت ہندوستانی عوام کی خود کی منتخب کردہ تھی بلکہ ریاست کے سربراہ کا انتخاب بھی بالواسطہ طور سے ہندوستانیوں کے ذریعے ہی عمل میں آیا تھا۔

یہ تو ہوئی اس دن کی تاریخی اور سیاسی اہمیت۔ جہان تک اس دن کی تقریبات میں دوسرے سربراہان مملکت کو دعوت خاص دیکر اس میں شرکت کرانے کا معاملہ ہے تو اس کا اہم پہلو یہ ہے کہ ہندوستان اس موقع کو دوسرے ممالک سے تعلقات بنانے اور پہلے سے بنے ہوئے رشتوں کو مزید مستحکم کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے  نئےسفارتی، تجارتی اور ثقافتی تعلقات استوار کرنے کے لئے بھی استعمال کرتا ہے۔

اگر  گزشتہ چند سالوں پر نظر ڈالیں تو معلوم ہوتاہے کہ یوم جمہوریہ کی تقریب کے لیے مہمان خصوصی کا انتخاب انہیں ممالک کے سربراہان کا کیا گیاہے جن سے ہندوستان کے تعلقات سیاسی معاشی ثقافتی اورتجارتی طور پر کافی  مستحکم رہے ہیں اور دونوں ملکوں کی قیادت اپنے رشتوں میں مزید  گہرائی اور گیرائی لانے کے خواہشمند تھی۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ یوم جمہوریہ کی تقریب کے لیے مہمان خصوصی کا دعوت نامہ در اصل ہندوستان کی خارجہ پالیسی کا ہی ایک وسیع تر کینوس  ہے۔

یوم جمہوریہ کی تقریب میں بطور مہمان خصوصی شرکت کے لیے دعوت نامہ ارسال کرنے سے پہلے حکومت ہند اور بالخصوص دفتر وزارت خارجہ بہت سے عوامل کو مد نظر رکھتی ہے، جس میں سب سے اہم چیز یہ ہوتی ہے کہ جس مجوزہ ملک کو دعوت نامہ ارسال کرنا ہوتا ہے اس سے ہندوستان کے تعلقات کی نوعیت کیا ہے۔ دیگر دوسرے عوامل جو اس بابت ذہن میں رکھے جاتے ہیں وہ یہ ہیں کہ  اس ملک سے ہندوستان کے معاشی، سیاسی اور تجارتی رشتے کیسے اور کتنے مضبوط ہیں، اس ملک کی اپنے خطے میں کیا حیثیت اور مقام ہے اوراس ملک کے ساتھ ہندوستان کا عسکری تعاون کتنا ہے اور مزید کتنا ہو سکتا ہے۔

 اسی طرح سے ہندوستان کے جو دیرینہ رشتے ہیں، چاہے وہ جغرافیائی قربت کی وجہ سے پروان چڑھے ہوں یا کسی عالمی تحریک اور تنظیم سے وابستہ ہونے کے نتیجہ میں پروان چڑھے ہوں، اس کو بھی دعوت نامہ ارسال کرتے وقت مد نظر رکھا جاتاہے۔ اسی وجہ سے ہم دیکھتے ہیں کہ آزادی کے بعد شروع کے سالوں میں حکومت ہند نے انہیں ممالک کے سربراہان کو مدعو کیا جو یا تو غیر وابستہ ممالک کی تحریک (Non-Aligned Movement)  میں ہندوستان کے ساتھ کھڑے تھے یا جو سوویت بلاک کا حصہ تھے یا جو ہندوستان کے پڑوسی تھے۔

 پچاس، ساٹھ، ستر اور اسی کی دہائیوں میں یوم جمہوریہ کی تقریب میں زیادہ تر مدعووین خصوصی انھی ممالک سے ہواکرتے تھے جو یاتو ناوابستہ تحریک سے جڑے تھے یا جو سوویت بلاک کے ساتھ تھے یا جو ہندوستان کے پڑوسی تھے، مگرجیسے ہی ہم اکیسویں صدی کی دہلیز  پر پہنچتے ہیں تو ہمیں اندازہ ہوتا ہے کہ ملک نے اس بات کو محسوس کیا کہ اب ہندوستان کو نہ صرف معاشی اور تجارتی پیمانے پر از سر نو آگے بڑھانے کی ضرورت ہے  بلکہ گلوبلائیزیشن کے بڑھتے زور اور انفارمیشن و ٹکنالوجی کے بڑھتے اثرورسوخ کی وجہ سے ہندوستانی قیادت نے اپنی خارجہ پالیسی کو بھی نئی شکل اور وسعت دینی شروع کردی، جس کی جھلک ہمیں نوے کی دہائی سے ہی نظر آنے لگتی ہے۔ اسی لیے ہم دیکھتے ہیں کہ 1990 کی دہائی میں  یوم جمہوریہ کی تقریب  میں مہمان خصوصی کے حوالے سے ہندوستان کے طریقہ انتخاب میں تھوڑی سی جدت آئی اور کچھ ایسے ممالک کے سربراہان کو بھی مدعو کیا گیا جن کا تعلق نہ تو ناوابستہ تحریک سے تھا، نہ ہی سوویت بلاک سے اور نہ ہی وہ ہمارے پڑوسی تھے۔ لاطینی امریکہ، برازیل، سپین، برطانیہ، مالدیپ اور  ماریشس کے سربراہان نے بھی اس دہائی میں ہماری تقریب  یوم جمہوریہ کو زینت بخشی۔ اور  جنوبی افریقہ کے صدر نلسن منڈیلا نے  1995 میں بطور مہمان خصوصی  یوم جمہوریہ کی تقریب میں شرکت کی۔

جیسے ہی ہم اکیسویں صدی میں قدم رکھتے ہیں تو ہمیں ہندوستان کی خارجہ پالیسی اور اس  کی ترجیحات میں ایک واضح تبدیلی محسوس ہوتی ہے اور اس کی جھلک ہمیں یوم جمہوریہ یہ کی تقریب کے لیے مہمانان خصوصی کے انتخاب میں بھی  نظر آتی ہے۔ اب ہندوستان اپنے خارجہ پالیسی کو از سر نو ترتیب دیتا ہے اور پرانے اصولوں میں جدت کے ساتھ ساتھ اس میں مزید و سعت   پیدا ہونے لگتی  ہے۔ اور ملکی خارجہ پالیسی کو کچھ اس طرح سے ڈیزائن کیا جانے لگتا ہے کہ  اس میں ملکی مفاد (National Interest)، جغرافیائی اقتصادی مفاد (Geo-Economic Interest) اور جُغرافیائی حِکمتِ عملی (Geostrategic) کے پہلووں کو ترجیح دی جانےلگتی ہے، اس سوچ کے ساتھ سامنے آنے والی  پالیسی سے ہندوستان کی معیشت و تجارت، دفاعی نظام، عسکری قوت اور اس کے عالمی وقار میں مزید اضافہ ہوگا اور  دنیا بھر میں پھیلے ہندوستانی شہریوں کی زندگیاں مزید آسان ہوں گی  اوراس سے پوری دینا میں  ہندوستانی کمیونیٹیز  کے مفادات کا تحفظ بھی یقینی بنایا جاسکے گا۔

انہی ترجیحات کو بروئے کار لاتے ہوئے لیے ہندوستان کی وزارت خارجہ نے جہاں ایک طرف دنیا کے دیگر ترقی یافتہ  ممالک سے سے تعلقات میں بہتری کی کوشش کی ہے، وہیں مسلم اور عرب ممالک سے تعلقات میں بھی مزید بہتری کے لیے کوشاں نظر آتی ہے۔ چنانچہ  ہم دیکھتے ہیں کہ آزادی کے بعد پچھلی صدی کی پانچ دہائیوں میں جہاں ہندوستان نے صرف چھ 6 مسلم اور عرب ممالک کے رہنماؤں کو یوم جمہوریہ کی تقریب میں بطور مہمان خصوصی مدعو کیا یا وہیں  21ویں صدی کی صرف دو دہائیوں میں ہی 10 مسلم اور عرب  ممالک کے رہنماؤں کو اس تقریب میں ابھی تک مدعو کیا جا چکاہے، جن میں خاص طور سے نائیجیریا کے صدر اولوسیگون (2000)، الجزائر کے صدر عبد العزيز بوتفليقة (2001)، ایران کے صدر سید محمد خاتمی (2003)، سعودی بادشاہ عبداللہ بن عبدالعزیز آل سعود(2006)، قازقستان کے صدر نور سلطان نظربائیف(2009) اور ابو ظہبی کے ولی عہد  شہزادہ محمد بن زاید النہیان(2017) خاص طور سے قابل ذکر ہیں جنہوں نے 26 جنوری کے موقع پر ہندوستان کا دورہ کیا اور اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ ان کے دوروں کے نتیجے میں ہندوستان کے تعلقات ان ممالک سے مزید بہتر ہوئیے اور ان کے درمیان باہمی تجارت میں کافی اضافہ ہوا۔

جہاں تک رہی نائجیریا کی بات تو یہ مغربی افریقہ میں واقع ایک اسلامی ملک ہے۔ نائیجیریا اور ہندوستان کے درمیان تعلقات ہمیشہ گہرے دو طرفہ اور روایتی طور پر گرم جوش اور دوستانہ رہے ہیں۔ نائیجیریا کی آزادی سے دو سال قبل ہی ہندوستان نے 1958 میں نائیجیریا میں اپنا سفارتی مشن قائم کرلیا تھا۔ دونوں ممالک نوآبادیات اور نسل پرستی کے خلاف بین الاقوامی جدوجہد میں سب سے آگے رہے ہیں اور مختلف بین الاقوامی فورموں  میں ایک دوسرے کے ساتھ خوب تعاون کیا ہے۔ اس وقت ہمارا ملک ہندوستان نائیجیریا کا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار ہے اور بر آعظم افریقہ میں نائجیریا ہندوستان کا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار ہے۔ ہندوستانی وزارت خارجہ کے حالیہ رپورٹ کے مطابق نائیجیریا اور ہندوستان کے درمیان دو طرفہ تجارت کا حجم مالیاتی سال 2021-2022 میں 15 بلین امریکی ڈالر رہا ہے۔ جبکہ دونوں ملکوں کے درمیان 2000-2002 کے درمیاں تجارت محض دو سے تین بلین امریکی ڈالر کے بقدر تھی۔ یوم جمہوریہ کے موقع پر نائیجیریا کے صدر کی آمد کے علاوہ، نائیجیریا کے حکام کی پچھلے دو دہائیوں میں کئی ایک اعلی سطحی دورے   ہندوستان کے ہوچکے ہیں۔ اور ہندوستان کے وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی نے 2003 اور ڈاکٹر منموہن سنگھ نے 2007 میں نائیجیریا کا دورہ کیا تھا۔

دوسرا افریقی مسلم ملک جس کے صدر عبد العزيز بوتفليقة نے 2001 میں 26 جنوری کے موقع پر ہندوستان کا دورہ کیا تھا وہ الجزائر ہے اور یہ ملک عرب لیگ کا بھی ممبر ہے۔ ہندوستان اور الجزائر کے درمیان سفارتی تعلقات کی شروعات جولائی 1962 میں ہی ہو گئی تھی، جب الجزائر نے فرانسیسی نوآبادیاتی حکمرانی سے آزادی حاصل کی تھی۔ اس کے بعد سے دونوں ممالک کے تعلقات خوشگوار رہے ہیں۔ دونوں ممالک کے درمیان دو طرفہ تجارت میں مثبت رجحان دیکھا گیا ہے۔ 2001 میں یوم جمہوریہ کے موقع پر الجزائر کے صدر کے ہندوستان کے دورے کے وقت ان دونوں ملکوں کے درمیان باہمی تجارت محض 55 ملین امریکی ڈالر تھی۔ مگر اس دورہ کے بعد اس میں مستقل اضافہ درج کیا گیا، یہاں تک کہ 2011 میں ان دونوں ملکوں کے درمیاں تجارتی حجم 3.4 بلین امریکی ڈالر تک پہنچ گیاتھا۔ لیکن الجزائر میں ہندوستان کے سفارتخانہ کی رسمی ویب سائٹ  کے مطابق 2012 سے ان دونوں ملکوں کے درمیان تجارت میں استحکام نہیں ہے اور مستقل گراوٹ دیکھی گئی ہے، مگر پھر بھی 2021 میں تجارتی حجم 1.56 بلین امریکی ڈالر رہا ہے۔

اس سلسلے کاتیسرا ملک ایران ہے جس کے صدر محمد خاتمی نے 2003 میں یوم جمہوریہ کی تقریب میں بطور مہمان خصوصی شرکت کی تھی۔ ایران ایک شیعہ اکثریتی ملک ہے جو تنظیم تعاون اسلامی (OIC) کا رکن ہونے کے ساتھ ساتھ مغربی ایشیا کا ایک اہم  خطہ ہے جس کی اسٹریٹیجک اہمیت بہت زیادہ ہے۔ ہندوستان اور ایران کے رشتوں کی تاریخ ہزاروں سال پرانی ہے۔ جبکہ دونوں ملکوں کے درمیان جدید سفارتی تعلقات کی بنیادیں پچھلے پچاس سالوں میں ان کے درمیان اعلی سطحی تبادلوں، تجارتی تعاون، ثقافتی روابط، دونوں ملکوں کے لوگوں کے درمیان ذاتی رابطوں پر مبنی  ہیں۔ ابھی تک کل سات ہندوستانی وزرائے اعظم ایران کا دورہ کر چکے ہیں، جبکہ 1979 کے اسلامی انقلاب کے بعد  چار ایرانی صدر ہندوستان کا دورہ کر چکے ہیں۔ جس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ دونوں ممالک ایک دوسرے کو کس قدر اہمیت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ 2003 میں یوم جمہوریہ کی تقریب کے لیے محمد خاتمی کا انتخاب اس وقت کی بی جے پی حکومت کی ایک بہت سوچی سمجھی خارجہ پالیسی کا حصہ تھی۔ اس وقت، ہندوستان نے ایران کو نہ صرف اپنی توانائی کی حفاظت (Energy Security)  کو یقینی بنانے کے لیے اپنا اہم اسٹریٹجک پارٹنر کے طور پر نشاندہی کیا تھا بلکہ وسطی ایشیا کے وسائل سے مالا مال خطے تک پہنچنے کے لیے اپنے کنیکٹیویٹی منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے میں کامیاب ہونے کے لیے ایران کے اہمیت اور ضرورت کو بھی سامنے رکھا تھا۔ اس دورے میں دونوں ممالک نے سات اہم معاہدوں پر دستخط کیے جن میں ایک تاریخی” نئی دہلی اعلامیہ” (New Delhi Declaration) بھی شامل تھا۔ ان معاہدوں میں نمایاں نکات یہ تھے کہ 1) ایرانی سے پاکستان کے راستے بھارت تک گیس پائپ لائن لائی جائے گی، 2) فریقین نے اس بات پر اتفاق کیا کہ بین الاقوامی دہشت گردی کے خلاف جنگ دوہرے معیار پر مبنی نہیں ہونی چاہیے، 3) تیل اور گیس کے شعبوں میں دونوں فریق تعاون کو فروغ دینے کے لیے ایک مشترکہ طریقہ کار وضع کریں گے، 4) مفاہمت کی یادداشت میں اسٹریٹجک تعاون کے لیے ایک روڈ میپ کا خاکہ پیش کیا جائے گا جس میں تمام شعبوں کا احاطہ کیا جائے گا اور یہ کہ دونوں فریقوں کے مفادات کا خیال رکھا جائے گا، 5) ہندوستان اور ایران نے اس بات پر اتفاق کیا کہ عراق کا بحران اقوام متحدہ کی سرپرستی میں پرامن طریقے سے حل کیا جائے، 6) دونوں فریقوں نے بین الاقوامی برادری سے افغانستان کی تعمیر نو اور ترقی کے لیے پرعزم رہنے کا مطالبہ کیا، 7) دونوں ممالک نے عسکری تربیت اور دوروں کے تبادلے سمیت دفاع میں تعاون کے مواقع تلاش کرنے پر اتفاق کیا۔ اس کے علاوہ معاہدوں میں سائنس اور ٹیکنالوجی میں تعاون، اسٹریٹجک تعاون کا روڈ میپ، ووکیشنل ٹریننگ، شہری پانی کا انتظام اور ثقافتی تبادلہ پروگرام شامل تھے۔ حکومت ہند کی وزارت تجارت کی ایک رپورٹ کے مطابق، مالی سال 2002-2003 کے دوران ہندوستان اور ایران کے درمیان تجارت کی مالیت تقریباً 2.8 بلین ڈالر تھی۔ تاہم، یوم جمہوریہ کے موقع پر ایرانی صدر کے دورے سے دونوں ممالک کے درمیان تجارتی سرگرمیوں میں اضافہ ہوا، اور ان کی دو طرفہ تجارت میں مسلسل اضافہ دیکھنے کو ملا، جس کی وجہ سے ان کے درمیان تجارت 2018-2019 میں 17.03 بلین امریکی ڈالر تک پہنچ گئی تھی۔ لیکن ایرانی نیوکلئر معاہدے (JCPOA)  سے امریکی دستبرداری کے بعد ایران پر امریکی پابندیوں کی وجہ سے، ہندوستان اور ایران کے درمیان تجارتی سرگرمیوں میں تیزی سے کمی دیکھنے میں آئی اور دونوں ممالک کے درمیان دو طرفہ تجارت اب 2021-2022 میں محض 1.91 بلین امریکی ڈالر ر ہ گئی ہے۔

 ایرانی صدر کی یوم جمہوریہ پر آمد کے محض 3 سال بعد ہی سعودی فرمانروا شاہ عبداللہ بن عبد العزیز آل سعود 2006  کے دہلی پریڈ میں شرکت کے لیے ہندوستان تشریف لے آتے ہیں۔ 1955 کے بعد کسی سعودی بادشاہ کا ہندوستان کا  یہ پہلا دورہ تھا۔ اس سے پہلے شاہ خالد 1955 میں 17 روزہ دورے پر ہندوستان آئے تھے اور دو ہندوستانی وزرائے اعظم جواہر لال نہرو نے 1956 اور اندرا گاندھی نے 1982 میں سعودی عرب کا دورہ کیا تھا۔ جنوری 2006 میں شاہ عبداللہ کا ہندوستان کا دورہ ہندی سعودی تعلقات کے باب میں ایک اہم اور تاریخی لمحہ سمجھا جاتا ہے۔ اسی دورے کے نتیجے میں ‘دہلی اعلامیہ’ (Delhi Declaration) نامی اہم مسودہ پر دونوں ممالک کے سربراہان نے  دستخط کیے، جس سے دو طرفہ تعلقات کو ایک نئی رفتار ملی۔ اور پھر جب ہندوستانی وزیر اعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ نے فروری 2010  میں باہمی  دورے پر سعودی عرب گئے تو اس دوران دونوں ممالک نے ‘ریاض اعلامیہ’ (Riyadh Declaration) نامی مسودہ پر دستخط کیے، جس نے دونوں ملکوں کے  دوطرفہ تعلقات کو ‘اسٹریٹجک پارٹنرشپ’ میں تبدیل کر دیا۔ شاہ عبداللہ نے جس دہلی اعلامیہ پر دستخط کیے تھے اس کے کچھ اہم نکات یہ تھے، 1) دو طرفہ تعاون اور افہام و تفہیم کے دائرہ کار کو تقویت دینے اور اسے وسعت دینے کے لیے اعلیٰ سطح کے دو طرفہ دوروں اور مشاورت کے تبادلوں کو تیز کیا جانا چاہیے، 2) دونوں حکومتیں دہشت گردی کی لعنت سے لڑنے کے لیے قریبی اور فعال تعاون کریں گی۔ اورمستقل اور جامع انداز میں دیگر بین الاقوامی جرائم جیسے منی لانڈرنگ، منشیات اور اسلحے کی اسمگلنگ وغیرہ کا ایک ساتھ مقابلہ کریں گی۔ 3) دونوں ممالک اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں بین الاقوامی دہشت گردی کے بارے میں ایک جامع کنونشن، اور ایک بین الاقوامی انسداد دہشت گردی مرکز کے قیام کی تجاویز کو جلد از جلد عملی جامہ پہنانے کے لیے ٹھوس کوششیں کریں گے۔ 4) دونوں ممالک باہمی انحصار اور تضمین پر مبنی ایک اسٹریٹجک توانائی شراکت داری تیار کریں گے، 5) دونوں حکومتیں باہمی فائدے کے لیے ایک دوسرے کی طاقتوں کو بروئے کار لانے اور اقتصادی تعاون کو فعال طور پر فروغ دینے کے لیے دونوں ممالک کے کاروباری افراد کی حوصلہ افزائی اور حمایت کریں گی، 6) دونوں ممالک ٹیکنالوجی کے شعبے میں قریبی تعاون کے لیے کام کریں گے، خاص طور پر انفارمیشن اینڈ کمیونیکیشن ٹیکنالوجی، زراعت، بائیو ٹیکنالوجی اور غیر روایتی توانائی کی ٹیکنالوجی کے شعبے میں، 7) دونوں ممالک صحت کے شعبے میں تعاون کے امکانات کا جائزہ لیں گے تاکہ اس شعبے میں تعاون کو بڑھانے کے امید افزا امکانات کا ادراک کیا جا سکے۔ 8) دونوں فریقوں نے دنیا میں بقایا تنازعات کو پرامن طریقوں سے حل کرنے کے لیے مل کر کام کرنے پر بھی اتفاق کیا، 9) دونوں فریقوں نے تمام تصفیہ طلب مسائل کے حل کے لیے ہندوستان اور پاکستان کے درمیان جاری بات چیت کا خیرمقدم کیا۔

تو کیا یوم جمہوریہ کی پریڈ میں مملکت سعودی عرب کے بادشاہ کی موجودگی اور اس کے بعد بہت سے معاہدوں پر دستخط کے نتیجہ میں ان دونوں ملکوں کے درمیان  تجارتی سرگرمیوں میں اضافے ہوا؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ 2006 یعنی جس سال سعودی باد شاہ نے ہندوستان کا دورہ کیا تھا ہندوستان اور سعودی عرب کے درمیان کل 3.4 بلین ڈالر کی تجارت ہوئی تھی۔ مگر جیسے ہی ان کے درمیان تعلقات میں بہتری آئی، دونوں ممالک میں تجارتی اور کاروباری سرگرمیاں بھی بہت بڑھ گیئں، جس سے سالانہ تجارتی حجم میں ہر سال اضافہ درج ہونے لگا اور 2013-2014 کے مالی سال میں ان دونوں ملکوں کے درمیان تجارت48.622 بلین امریکی ڈالر تک پہینچ گئی تھی، جو اس کے بعد کے سالوں میں بہت سے وجوہات کی بنا پر گھٹ گئی، مگر پھر بھی 2022 میں انکے درمیان 30 بلین امریکی ڈالر کی تجارت ہوئی ہے۔ اور آج بھی سعودی عرب ہندوستان کا چوتھا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار ہے۔ اور مزید یہ کہ  اب بھی  ہندوستان 18 فیصد سے زیادہ خام تیل کی درآمد سعودی عرب سے کر تا ہے۔

وسط ایشیا سے صرف ایک ہی ایک مہمان خصوصی 26 جنوری کے موقع پر ہندوستان تشریف  لائے اور وہ ہیں قازقستان کے صدر نور سلطان نظربائیف جنہوں نے 2009 کی یوم جمہوریہ کی تقریب میں مہمان خصوصی  تھے۔ قازقستان بھی ایک مسلم ملک ہے اور  تنظیم تعاون اسلامی (OIC) کا ممبر ہے۔ ہندوستان اور قازقستان کے تعلقات کی تاریخ دو ہزار سال سے زیادہ پرانی ہے، جو اسے دنیا کے قدیم ترین تعلقات میں سے ایک بناتی ہے۔ ان دونوں ممالک کے درمیان نہ صرف اشیا کی تجارت کا ایک باقاعدہ اور مستقل سلسلہ رہا ہے بلکہ، اور شاید اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ خیالات اور ثقافتی اثرات کا تبادلہ بھی خوب رہا ہے۔ اس طرح کی دو مثالیں عام طور سے بیان کی جاتی ہیں ایک تو یہ کہ بدھ مت کی تعلیمات کی ہندوستان سے وسطی ایشیا میں منتقلی اور دوسرے صوفی تصورات کی وسطی ایشیا سے ہندوستان میں منتقلی ہیں۔ ہندوستان قازقستان کی آزادی کو تسلیم کرنے والے شروع کے ممالک میں سے ایک تھا اور ہمارے  سفارتی تعلقات فروری 1992 میں ہی قائم ہوگئے تھے۔ 1990 کی دہائی میں ابتدائی طور پر غیر فعال رہنے کے بعد 21ویں صدی میں ان دونوں ممالک کے درمیان سفارتی تعلقات کی اہمیت میں اضافہ ہوا ہے۔ دونوں ممالک وسطی ایشیا کے خطے میں وسیع تجارتی اور تزویراتی شراکت داری کو فروغ دینے کے خواہاں ہیں۔ قازقستان کے صدر نور سلطان نظربائیف 2009 میں یوم جمہوریہ کے موقع پر آنے سے پہلے بھی ہندوستان کا چار مرتبہ دورہ کر چکے تھے۔ مگر ہندوستان اور قزقستان کے درمیان تجارت کو فروغ 2009 کے دورے کے بعد ملا۔ ان دونوں ممالک کے درمیان تجارت کا حجم 2009 میں 300 ملین ڈالر تھا جو 2019 میں بڑھ کر 1.9 بلین ڈالر تک پہنچ گیا۔ اس طرح قازقستان وسطی ایشیا میں ہندوستان کا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار  بھی ہے۔

2017 میں ابو ظہبی کے ولی عہد  شہزادہ محمد بن زاید النہیان نے 26 جنوری کے موقع پر ہندوستان کا دورہ کیا تھا۔ وہ متحدہ عرب امارات کے اکلوتے حکمراں ہیں جنہوں نے ہندوستان کے یوم جمہوریہ کے جشن میں شرکت کر چکے ہیں۔ ہندوستان اور متحدہ عرب امارات کے درمیاں سفارتی تعلقات 1972 میں قائم ہو گئے تھے۔ ہندوستان اور متحدہ عرب امارات ایک طویل عرصے سے روایتی طور پر مضبوط دوطرفہ تعلقات بنائے ہوئے ہیں۔ اور موقع بموقع  ہونے والے اعلیٰ سطحی دوطرفہ دوروں کے باقاعدہ تبادلے کی بدولت اس میں مزید بہتری آئی ہے۔ 2017 میں ولی عہد کے  دورہ نے دونوں ملکوں کے درمیان تجارت کی رفتار کو اور تیز کر دیا۔ جہاں 2017 میں ہندوستان اور متحدہ عرب امارات کے درمیان دو طرفہ تجارت کاحجم  50 بلین ڈالر تھا، وہیں نومبر   2022 میں اکنامکس ٹائمس کی ایک رپورٹ کے مطابق امکان لگایا گیا ہے کہ   ہندوستان اور متحدہ عرب امارات مالی سال 2022 میں  88 بلین امریکی ڈالر کی دوطرفہ تجارت کو عبور کرلیں گے۔ ایسا ممکن بھی کیوں کہ متحدہ عرب امارات ہندوستان کا تیسرا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار ہے اور پورے مغربی ایشیا اور شمالی افریقہ کے خطے میں ہندوستان کا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار ہے۔ اور اور دونوں ملکوں نے اپنے  ہدف کا تعین کر رکھا ہے کہ اپنی تجارت کو  اگلے 10 سالوں میں تین گنا بڑھانا ہے۔

اس بار ہندوستانی حکومت نے بر اعظم افریقہ سے ایک تیسرے مسلم اور عرب ملک مصر کے سربراہ صدر عبدالفتاح السیسی کو یوم جمہوریہ پر بطور مہمان خصوصی مدعو کیا ہے۔ ہندوستان اور مصر، دنیا کی دو قدیم تہذیبوں میں سے ہیں اور دونوں زمانے قدیم سے قریبی رابطے رکھتے ہیں۔ مصر روایتی طور پر افریقی براعظم میں ہندوستان کے سب سے اہم تجارتی شراکت داروں میں سے ایک رہا ہے۔ "ہندوستان-مصر دوطرفہ تجارتی معاہدہ” مارچ 1978 سے نافذالعمل  ہے اور یہ ’’سب سے زیادہ پسندیدہ ملک‘‘ (Most Favoured Nation) کی شق پر مبنی ہے اور دو طرفہ تجارت میں پچھلے دس سالوں میں پانچ گنا سے زیادہ اضافہ ہوا ہے۔ 2018-19 میں دو طرفہ تجارت 4.55 بلین امریکی ڈالر تک پہنچ گئی۔ وبائی امراض کے باوجود، تجارت کا حجم 2019-20 میں صرف 4.5 بلین امریکی ڈالر اور 2020-21 میں 4.15 بلین امریکی ڈالر تک کم ہوا۔ دو طرفہ تجارت 2021-22 میں تیزی سے بڑھی ہے، مالی سال 2020-21 کے مقابلے میں 75 فیصد اضافہ کے ساتھ 7.26 بلین کی باہم تجارت ہوئی ہے۔

مصر نہ صرف بر اعظم افریقہ کا اہم ملک ہے بلکہ عالم عرب میں بھی اس کی خاص اہمیت ہے۔ فلسطین تنازعے میں بھی اس ملک کا اہم اور اسٹریٹجک رول رہا ہے اور آئندہ بھی رہےگا۔ اس حیثیت سے مصری صدر کی اس موقع پر آمد ہندوستان کو نہ صرف خطہ افریقا میں  سفارتی سرگرمیوں کو فائدہ دے گی بلکہ مسئلہ فلسطین کے سلسلے میں میں بھی ملک کا رول بڑھائی گی جبکہ تجارت سمیت دیگر میدانوں میں  اس خطے میں ہندوستان کے لئے نئے مواقع فراہم گرے گی۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔