جلتے گھر کو دیکھنے والوں!

مولانا سیّد آصف ملّی ندوی

 خدا غریق رحمت کرے شمس العلماء  علامہ الطاف حسین حالی مرحوم کو کہ موجودہ حالات پر جب میں یہ مضمون حوالہء قرطاس کرنے بیٹھا  تو بے ساختہ ان کا لکھا ملت اسلامیہ کاوہ مرثیہ زبان قلم پر جاری ہوگیا جس میں انہوں نے امت کی زبوں حالی، ناکامی اور حالات کی ستم ظریفی پر پیدا ہونے والے اپنے درد دل کو عالم تصورمیں نبی اکرم  ﷺ کے دربار اقدس میں انتہائی خوبصورت الفاظ کے قالب میں پیش کیا ہے ، یوں محسوس ہوتا ہے کہ گویا حالی مرحوم نے اپنے ان اشعار میں امت کی موجودہ صورت حال ہی کی تصویرکشی کی ہے۔  وہ فرماتے ہیں:

ائے خاصہ خاصان رسل وقت دعا ہے              امت  پہ تیری  آکے  عجب وقت پڑا ہے

جو دین بڑی شان سے نکلا تھا وطن سے           پردیس میں وہ  آج  غریب الغرباء ہے

جو تفرقے اقوام کے  ،  آیا تھا مٹانے         اس دین میں خود تفرقہ ،  اب آکے پڑا ہے

جو دین  ، کہ ہمدردِ  بنی نوع بشر  تھا              اب جنگ و جدل چار طرف اس میں بپا ہے

وطن عزیزبھارت جوپوری دنیا میں سب سے بڑی جمہوریت کے طور پر جانا و پہچانا جاتا رہاہے ، جہاں صدیوں سے مختلف مذاہب اور ادیان کو ماننے والی متعدد قومیں برادرانہ اخوت اور پیار و محبت کے ساتھ رہتی آئیں ہیں ،جس ملک کو کبھی کثرت میں وحدت اور امن و امان کے بہترین نمونے کے طور پربطور آئیڈئیل پیش کیا جاتا رہا ہے ، آج اسی ملک میں جمہوریت حالت نزع میں ہے،  تمام ہی اقلیتیں اور بالخصوص مسلمانان ہند اس وقت انتہائی تشویشناک صورتحال سے دوچار ہیں ۔

جب سے مرکز میں مخصوص نظریات اور آئیڈیالوجی کے حامل افراد مسند نشین ہوئے ہیں اسی وقت سے شرپسند عناصر کوگویا کھل کھیلنے کا لائسنس مل گیا ہے ،  اسلامی شعارات اور مذہبی رسومات کو ایک کے بعد ایک (کیا ایوان حکومت اور کیا میڈیا) ہرجگہ تختہ مشق بنایا جارہا ہے،گویا کوئی تسبیح تھی جو ٹوٹ گئی ہے اور اس کے دانے یکے بعد دیگرے برابر گرتے چلے جارہے ہیں ، کبھی مسلم پرسنل لاء کو کالعدم قرار دینے کا شوشہ چھوڑا جاتا ہے تو کبھی یکساں سول کوڈ کو نافذ کرنے کے مکروہ عزم کا اظہار ، کبھی طلاق کے اسلامی تصور کو غیر انسانی اور غیر معتدل ثابت کرنے کی جاہلانہ کوشش تو کبھی اذان کے روح پرور زمزموں کو لاؤڈ اسپیکر سے بلند کرنے پر پابندی کا مطالبہ ، کبھی گھر واپسی کا نعرہ  تو کبھی لوجہاد کا واویلہ ۔  اور پھر جب سے ملک کی سب سے بڑی ریاست اترپردیش کی زمام اقتدار بھی ان ہی افراد کے ہاتھوں میں پہنچ گئی تو اس وقت سے تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ اب اس ملک سے جمہوریت کی بساط ہی الٹ چکی ہے اور اس کا جنازہ نکل چکا ہے ،  ہر کس و ناکس کچھ اس انداز میں اپنے مذموم عزائم کا اظہار کرتا ہے اور ہفوات بکتا ہے جس سے جمہوریت ، سیکولرازم، مساوات، رواداری اور دستور و آئین کی دھجیاں اڑتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔جانوروں کی حفاظت کے نام پرانسان نما درندے وحشی جانور بنتے جارہے ہیں ،  بے بنیاد او رمن گھڑت باتوں کو بہانہ بناکر مسلم نوجوانوں ، بوڑھوں اور معصوم بچوں تک کے خون سے ہولی کھیلنا اب یہاں صبح و شام کا تماشا بن چکا ہے،  اورطرفہ تماشا تو یہ ہے کہ جب بات خونِ مسلم کی ہوتی ہے تو عوام تو عوام،  خود محافظ بھی تماشائیوں سے بڑھ کر تماشائی بن جاتے ہیں ۔

تاہم خدا کا شکر ہے کہ ان سیاسی بازیگروں اور نفرت کے ان سوداگروں اوران کے مہروں اور پیادوں کی بہتات کے باوجود  وطن عزیز کے زیادہ تر افراد کے دلوں میں انسانیت اور انسانی اقدار کی رمق اب بھی موجود ہے ،  اور مسرت انگیز حیرت کی بات تو یہ ہے کہ خون مسلم کی اس ارزانی پر خود علماء و مفکرین اسلام ،اور مسلم سیاسی و سماجی اور دینی و مذہبی پارٹیوں ،تنظیموں اور جماعتوں کے سربراہان و ذمہ داران سے بھی پہلے ہندوستان بھر کے الگ الگ حصوں میں بڑے پیمانوں پر زبردست احتجاجی مظاہروں کا انعقاد ہمارے ان ہی برادران وطن نے کیا  ہے جو سیکولرازم اور انسانی رواداری پر یقین رکھتے ہیں ، ان لوگوں نے ملک کے مختلف حصوں میں اپنے ہاتھوں میں (Not in my name) لکھے ہوئے بینروں کو اٹھاکر دادری کے محمد اخلاق، ہریانہ کے پہلو خان او ر حافظ  محمد جنید کے وحشیانہ قتل کے خلاف آواز بلند کی اور اس نوعیت کے واقعات اور مجرمانہ سازشوں پر فوراً قدغن لگانے کا حکومت سے مطالبہ کیا ۔

آخر ہماری قوم کے سیاسی و سماجی رہنماؤوں ، علماء و مفکرین کرام، روشن خیال دانشوروں اور خودساختہ بہی خواہان ملت اسلامیہ کو کیا ہوگیا ہے کہ وہ اپنے پرُسکون وعالیشان بنگلوں اور مکانات، حجروں اور خانقاہوں اور اسکولس و کالجز اور نرسری کی شکل میں موجود ٹکسالوں سے باہر جھانکنے کی زحمت کیوں نہیں کر رہے ہیں ، کیا  انہیں اپنے نبی پاک سرورکائنات  ﷺ کا یہ فرمان مبارک نہیں معلوم کہ آپ  ﷺنے فرمایا ہے کہ ’’تمام مسلمان ایک جسم کے مانند ہے،  اگر جسم کے ایک حصے میں تکلیف ہو تو سارا جسم تکلیف محسوس کرتا ہے  اور اس کے سارے اعضاء بے چین ہو اٹھتے ہیں ‘‘ ۔  وطن عزیز میں برادران  ملت اسلامیہ پر برسنے والی بربریت و حیوانیت کی ان خونچکاں طوفانی لہروں سے بھی ان کے اندر خلش اور بے چینی کیوں نہیں پیدا ہورہی ہے ،  شاید یہ لوگ مفاد پرستی ، ابن الوقتی ، خودغرضی اور مادہ پرستی کے  رنگ  میں اس قدر رنگ چکے ہیں کہ ان کے اندر اپنے ملت اسلامیہ کا ایک فرد ہونے کا احساس تک ختم ہوگیا ہے ، گویا بزبان شاعر ان کا حال کچھ اس طرح ہوگیا ہے:

میرکے دین و مذہب کو اب پوچھتے کیا ہو ، ان نے تو

قشقہ کھینچا  ،  دیر میں بیٹھا ،  کب کا ترک اسلام کیا

لیکن  یاد رہے کہ تماشائی اکثر تماشہ بن جایا کرتے ہیں ، آگ جب جلتی ہے تو وہ قصر شاہی و کاخ فقیر سبھی کو خاکستر کر ڈالتی ہے ،ظلم وستم اور نفرت و عداوت کی جب مسموم ہوائیں چلتی ہیں تو پھر وہ آگ کسی مخصوص گھر ہی کو نہیں بلکہ اڑوس پڑوس کے تمام مکانات کو راکھ کے ڈھیر میں تبدیل کردیتی ہے۔  اس وقت ملک دشمن عناصر، آر ایس ایس، فاشسٹ تنظیموں نے حکومت کی پشت پناہی میں پورے ملک کے اندر ظلم وستم اور نفرت وعداوت کی جو مہیب آگ بھڑکا رکھی ہے اگر اس کو بجھانے کے لئے ہمارے یہ سیاسی وسماجی رہنما،  علماء اسلام اور دانشوران ملت اسلامیہ نے اپنا رول ادا نہیں کیا تو یقیناً یہ آگ ان کے اپنے عالیشان بنگلوں ، حجروں و خانقاہوں اور ٹکسالوں کو بھی پھونک کر رکھ دے گی۔

جلتے گھر کو دیکھنے والوں پھوس کا چھپّر آپ کا ہے

آگ کے پیچھے تیز ہوا ہے ، آگے مقدر آپ کا ہے

اس کے قتل پہ میں بھی چپ تھا میرا نمبر اب آیا

میرے قتل پہ آپ بھی چپ ہیں اگلا نمبر آپ کا ہے

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔