جمعہ نامہ: گردشِ لیل و نہار اورباطل اقتدار

ڈاکٹر سلیم خان

کائناتِ ہستی میں انسان وقت اور مقام یا علاقہ کے تانے بانے میں جکڑا ہوا ہے۔ کرۂ ارض  کے مختلف مقامات  پر وقت الگ الگ ہوتا ہے۔ رات اور دن کے اوقات بھی یکساں  نہیں ہوتے یعنی بیک وقت کہیں دن تو کہیں رات ہوتی ہے۔ ایسے میں کسی مخصوص  مقام کی بات کریں  تو زمین کی گردش کے سبب جیسے جیسے وہ علاقہ  سورج کے سامنے آتا جاتا ہے وہاں  روشنی کی تمازت بڑھتی جاتی ہے  لیکن یہ تبدیلی یک رخی نہیں ہوتی۔ ایک انتہا پر پہنچ کر زمین کا وہ حصہ سورج سے پرے ہٹنا شروع ہوجاتا ہے۔ اسی کے ساتھ  اجالا گھٹنے لگتا ہے یہاں تک کہ وہ سورج کے غروب   ہوجانے پر چہار سو تاریکی پھیل جاتی ہے۔ سورج کی مانند  دنیوی اقتدار بھی  ایک ہلکی سی کرن کی صورت نمودار ہوکر نصف النہار تک  پہنچ جاتاہےاور وقتِ مقررہ پر اپنے عروج کی منزل سے  روبہ زوال ہوجاتا ہے۔ ایسے میں دن کے وقتچاند ستاروں بے نیازلوگوں کو رات  کی تاریکی  ان  کا محتاج بنادیتی ہے۔

اس تناظر میں فرمانِ خداوندی ہے :’’کہو! خدایا! مُلک کے مالک! تو جسے چاہے، حکومت دے اور جس سے چاہے، چھین لے ۰۰۰ ‘‘۔ یہ آیت گواہ ہے کہ   ہر اقتدار کا بڑھتا گھٹتا سایہ  ایک خاص وقت  پر معدوم ہوجاتا ہے۔ ایسے میں باطل حکمرانوں سے رابطے کے لیے بے چین  زعمائے ملت  کے لیے فرمانِ قرآنی ہے:’’مومنین اہل ایمان کو چھوڑ کر کافروں کو اپنا رفیق اور دوست ہرگز نہ بنائیں جو ایسا کرے گا اس کا اللہ سے کوئی تعلق نہیں ‘‘۔ آگے رخصت کی یہ سہولت بھی دی گئی کہ :’’ ہاں یہ معاف ہے کہ تم ان کے ظلم سے بچنے کے لیے بظاہر ایسا طرز عمل اختیار کر جاؤ  ‘‘۔ آج کل امت کے اندر  ایسےلوگ  بھی  موجود ہیں جو ظلم سے محفوظ ہونے کے باوجود   گوناگوں وجوہات کی بناء پر ظالم  اقتدار سے قربت  کے آرزومند     ہیں۔ ایسے دہشت زدہ  لوگوں کے لیے فرمانِ  ربانی ہے :’’ مگر اللہ تمہیں اپنے آپ سے ڈراتا ہے اور تمہیں اسی کی طرف پلٹ کر جانا ہے‘‘۔ یعنی دنیا کا اقتدار تو فانی   ہے مگر آخرت اور بعد کا مرحلہ ابدی ہے۔ اس لیے عزیمت کا تقاضہ  یہی ہے کہ  عارضی  خسارے پرابدی کامیابی کو ترجیح  دی جائے۔

ارشادِ ربانی ہے :’’تم سارے انسانوں کو پیدا کرنا اور پھر دوبارہ جِلا اُٹھانا تو (اُس کے لیے) بس ایسا ہے جیسے ایک متنفس کو (پیدا کرنا اور جِلا اٹھانا) حقیقت یہ ہے کہ اللہ سب کچھ سُننے اور دیکھنے والا ہے‘‘۔ اس حقیقت بیانی کے بعد پھر گردشِ ایام کا حوالہ دے کر فرمایا :’’ کیا تم دیکھتے نہیں ہو کہ اللہ رات کو دن میں پروتا ہوا لے آتا ہے اور دن کو رات میں ؟ اُس نے سُورج اور چاند کو مسخر کر رکھا ہے، سب ایک وقت مقرر تک چلے جا رہے ہیں ،‘‘۔ یعنی  اذنِ خداوندی سے جب صدیوں  سے چمکنے دمکنے والے شمس و قمر ایک   وقت خاص پر  لپیٹ دیئے جائیں گے تو چند سالوں کے مہلت یافتہ انسانی اقتدار کی کیا بساط ؟ اس کے بعد یہ تنبیہ آئی  ہے کہ:’’اور جو کچھ بھی تم کرتے ہو اللہ اُس سے باخبر ہے‘‘۔ دنیوی اقتدار کی مرعوبیت سے بے نیاز کرنے والی ہدایت متصل  آیت میں ہے فرمایا:’’ یہ سب کچھ اس وجہ سے ہے کہ اللہ ہی حق ہے اور اسے چھوڑ کر جن دُوسری چیزوں کو یہ لوگ پکارتے ہیں وہ سب باطل ہیں ، اور اللہ ہی بزرگ و برتر ہے ‘‘۔ عام طور پر اسی کو   پکارا جاتا ہے جس سے   توقعات وابستہ  ہوں جس پر  اعتماد و بھروسا کیا جاتا ہو۔

مشکل حالات میں اہل ایمان   کا موقف یہ ہوتا ہےکہ :’’اور ہم کیوں نہ اللہ پر بھروسہ کریں جبکہ ہماری زندگی کی راہوں میں اس نے ہماری رہنمائی کی ہے؟ جو اذیتیں تم لوگ ہمیں دے رہے ہو اُن پر ہم صبر کریں گے اور بھروسا کرنے والوں کا بھروسا اللہ ہی پر ہونا چاہیے‘‘۔ اس کے جواب میں  منکرین کا ردعمل یہ ہوتا ہے کہ :’’یا تو تمہیں ہماری ملت میں واپس آنا ہوگا ورنہ ہم تمہیں اپنے ملک سے نکال دیں گے‘‘۔ گھر واپسی کی ایسی  خطرناک دھمکی کےبعد کہ تمہارا نام این آر سی سے نکال دیا جائےگا  وحی کے ذریعہ  صابرین کی  ڈھارس  اس طرح  بندھائی گئی ہےکہ:’’ہم اِن ظالموں کو ہلا ک کر دیں گےاور اُن کے بعد تمہیں زمین میں آباد کریں گے یہ انعام ہے اُس کا جو میرے حضور جواب دہی کا خوف رکھتا ہو اور میری وعید سے ڈرتا ہو‘‘۔

تبصرے بند ہیں۔