جمہوریت  کا تحفظ اور ہماری ذمہ داری

ڈاکٹر ظفردارک قاسمی

ہندوستان دنیا کا وہ واحد ملک ہے جو سب سے ممتاز و جدا جمہوریت کا علبردار کہا جاتا  ہے، دنیا کے جس حصہ میں بھی جمہوریت ہے وہاں نوع انسانیت اپنے آپ کو  فکری، عملی، مذہبی، لسانی، تہذیبی اور ثقافتی اعتبار سے آزاد تصور کرتی ہے، برعکس ان ممالک کے جن پر  ملوکیت یا بادشاہت کا تسلط ہے۔     حقیقتا جمہوریت کا مفہوم و معنی بھی یہی ہے کہ انسانی گروہ کے ساتھ کسی بھی طرح کی پابندی و زیادتی نہ کیجائے، مذہب زبان اور رنگ و نسل  کا امتیاز نہ برتا جائے دنیا کی تاریخ شاہد ہے کہ جن معاشروں میں اونچ نیچ، بھید بھاؤ جیسا مکروہ  عمل کیا گیا ہے وہ تہذیبیں اور معاشرے تباہ و برباد ہوکر نابود ہو چکے ہیں، اس لئے ملک، قوم، سماج، کی تعمیرو ترقی  کا راز اسی میں مضمر ہے کہ انسانی گروہ کے ساتھ یکساں سلوک و رویہ اپنایا جائے، زیادتی اور تعصب سے حتی الوسع پرہیز کرنے کی کوشش کی جائے۔  اگر ہمارے سماج میں عدل بین الناس اور مساوات کا اصول نافذ ہونے لگے تو پورے وثوق سے   کہا جا سکتا ہے کہ کوئی بھی چیز ہماری ترقی میں رکاوٹ  واقع نہیں ہوسکتی  ہے، جب انسانی سماج کی بنیادیں انصاف، رواداری اور مساوات پر مبنی ہونگی تو لا محالہ معاشرہ میں باہم ادیان کا احترام، انسان دوستی، بھائی چارگی جیسی تابناک روایتیں پروان چڑھینگیں، ظاہر ہے آج کے اس پر تشدد دور میں نوع انسانی کو خلوص و للہیت اور پیار و وفا کی سخت ترین ضرورت ہے۔

اسی کے ساتھ یہ بات بھی گوش گزار کردوں کہ آج ہندوستان جیسی مقدس سر زمین پر چند سیاسی عناصر مذہب جیسے پاک و پبتر رشتہ کو ذاتی مفاد، سیاسی قوت و طاقت کے حصول کے لئے استعمال کر رہے ہیں، شرمناک بات یہ بھی  ہیکہ مذہب کی تعبیر  وتشریح اپنے مفاد اور بالادستی کے حصول کے لئے کی جارہی ہے۔ اگر فلاسفر سائنسداں اور مذہبی رہنماؤں کے افکار کا تجزیہ گہرائی تجزیہ اور انصاف سے کریں تو یہ حقیقت طشت ازبام ہوتی ہے کہ جن اقوام و افراد نے مذہب کا استعمال  سیاسی مقاصد کی حصولیابی، اقتدار و قوت کے غلبہ  کے لئے  کیا ہے تو وہ قومیں ترقی  و فلاح سے کوسوں دور رہیں ہیں۔ اس لئے آج ضرورت اس بات کی ہے مذہب کو  مفاد پرستی، اقتدار کی حرص میں نہ جھونکا جائے، اگر ہم فوز و فلاح کی راہ پر چلنے کے متمنی ہیں تو ضروری ہیکہ حکمراں جماعت اور اس سے وابستہ افراد سماجی ہم آہنگی کی درخشاں روایت کو زندہ کریں مسلم اقلیت اور دلتوں کے ساتھ جو مظالم ہو رہے ہیں ان کو فوری طور ختم کیا جائے۔

 ملک کے بیشتر حصوں میں مسلمانوں  ہجومی تشدد  کا شکار ہو رہے ہیں، آخر ایسا کیوں؟   اور اسی کے ساتھ ساتھ  اجتماعی و عوامی  مفاد کو ذاتی  مفاد پر ترجیح دینی ہوگی، افسوس تو اس بات پر بھی ہوتا ہیکہ آج کے دور میں انسانی اقدار اور اس سے  ہمدردی، تسلی اور انسیت  کی اہمیت و معنویت مفقود ہوتی جارہی ہے، باہم الفت و تعاون نہ کرنے کے نتیجہ میں ہمارا سماج خود غرضی، انارکی، اور بد عنوانی جیسی لعنتوں کا مسلسل شکار ہوتا نظر آرہا ہے، نیز نسل نو پر اس کے منفی اثرات مرتب ہوتے دکھائی دیرہے ہیں، ضمنا یہ عرض کردوں  جملہ  مذاہب  نے اپنے متبعین کو انسانی خدمت اور سماجی ورفاعی کام کی انجام دہی کے لئے کافی حدتک ابھارا ہے، خصوصا مذہب اسلام کے دو بنیادی اور اہم ماخذ قرآن و حدیث میں جا بجا یہ حکم آیا ہے کہ نوع انسانی کی خدمت گزاری ہر باحیثیت مرد اور عورت کا فرض ہے اس کے علاوہ فقہاء  نے بھی سماجی خدمت کی ضرورت سے عوام الناس کو آگاہ کیا ہے۔

در اصل اسـکے پس پردہ جو حکمت و مصلحت ہے وہ یہ ہیکہ سماج میں نفرت، بے چینی اور بد امنی نہ پنپ سکے انسانی برادری کا باہم تعلق و رشتہ روشن خطوط پر استوار ہو، جب معاشرہ میں ایسیے پاکیزہ اوصاف کا چلن ہو گا تو یقینا انسانیت کی بنیاد پر ایک قوم دوسری قوم سے، نہ ایک قبیلہ دوسرے قبیلہ سے اور نہ ایک خاندان دوسرے خاندان سے  اور نہ مغایر مذہب والے آپس میں دست و گریباں ہونگے، شرمناک بات یہ ہیکہ کیرالہ جو افراد سیلاب سے متائثر ہوئے ہیں انہیں بھی حکمراں جماعت ہندو مسلم کے چشمہ سے دیکھ رہی ہے، مزید حیرت یہ کہ حکمراں جماعت کے افراد سیلاب کا سبب غیر منطقی اور بے تکی باتیں بتارہے ہیں ان کے خیالات کا جائزہ لیکر پتہ چلتا ہے کہ  ایسے افراد تعصب و جانبداری کی بھنور میں پھنسے ہوئے ہیں، تصور کیجئے جب سیاست میں سماوی آفات کو بھی مذہب کے نام پر تقسیم کیا جانے لگے تو یہ کہنا پڑتا ہے کہ ہندوستانی سماج دن بدن غلط سمت جارہا ہے اور ہندوستان میں سیاسی اخلاقیات اور اس کی تابناک قدروں کے نقوش عوام کے دل و دماغ سے مٹائے جارہے ہیں، لہذا ہندوستانی معاشرہ کی قدیم روایت ہم آہنگی کو بچانے کی سخت ضرورت ہے، اس لئے کیرلا کے فساد زدگان کی امداد و نصرت اپنی حیثیت کے اعتبار سے ضرور کیجئے یہ ہمارا  وطنی، قومی، اخلاقی اور ملی فریضہ ہے۔

اس وقت ہندوستان میں زعفرانی طاقتوں کا بول بالا ہے، گزشتہ چار برسوں میں ملک نے جو سیاہ دن دیکھے ہیں وہ ہندوستانی عوام کبھی نہیں بھلا پائے گی۔ حکمراں جماعت کے ایجنڈوں اور منصو بوں کا بغور جائزہ لیا جائے تو یہ اندازہ لگانا چنداں مشکل نہیں ہے کہ اب ملک میں جمہوریت جیسا مقدس نظام بھی چرمرا رہا ہے، لگاتا ر نفرت کی آبیاری کیجارہی ہے، مذہب کے نام پر سیاست کی بساط بچھادی گئی ہے۔ بلکہ مزید تعجب خیز امر یہ ہیکہ حکمراں جماعت نے اپنے دور اقتدار میں سیاست کی اخلاقی قدریں اور اس کا معنی و مفہوم ہی بدل ڈالا ہے، یاد کیجئے   2014  کے وہ وعدے جو ملک کے موجودہ وزیر اعظم نے عوام سے کئے تھے  اس لئے یہ سوال کرنا ضروری ہے کہ اب تک کتنے وعدے پایئہ تکمیل کو پہنچے ہیں؟  سیاسی ماہرین سماجی تجزیہ نگاروں، دانشوروں قومی اور بین الاقوامی اداروں  کا ماننا ہے کہ اس وقت ہندوستان میں  مہنگائی آسمان چھو رہی ہے، جی ایس ٹی اور نوٹ بندی نے تاجروں کی کمر توڑ ڈالی ہے، کسان خود کشی کرنے پر مجبور ہے، نوجوان بے روزگاری کے عالم میں زندگی بسر کررہے ہیں، اس کے با وجود اس بات کی دھائی دیجا رہی ہے کہ ملک ترقی کی طرف رواں دواں ہے، یہاں یہ عرض کرنا بھی ضروری معلوم ہو تا ہیکہ جس مقصد کی خاطر نوٹ بندی کی گئی تھی اب وہ مقصد بھی حکومت کا فیل ہو چکا ہے، کیونکہ نہ ہی کالا دھن واپس آیا اور نہ قومی سلامتی محفوظ رہی،

عام انتخابات کا وقت قریب آچکا ہے اس کے لئے تمام سیاسی جماعتوں نے کمر کس لی ہے، اب دیکھنا یہ ہیکہ اس میدان کو کون فتح کرتا ہے اگر عوام انصاف سے کام لے اور حکمراں جماعت کی گزشتہ سوا چار برسوں کی کاردگی کا جائزہ لے  تو ووٹ کا حق ان جماعتوں کا ہے جو ملک میں سیکولر روایات کی بقاء اور جمہوری نظام کے تقدس کو پامال کرنے سے بچانے میں لگی ہوئیں، بر عکس اس کے اگر حکمراں جماعت کودوبارہ اقتدار ملتا ہے تو نہ یہ ملک کے لئے بہتر ثابت ہوگا اور نہ  عوام کے لئے۔ اس لئے ملک کے ہر شہری کو انتھائی سنجید گی سے مستقبل کا لائحہ عمل طے کرنا ہوگا۔ ادھر ملک کی کئی ریاستوں میں گانگریس نے علاقائی جماعتوں سے اتحاد کرلیا ہے، اس کا بھی کافی اثر ہوگا دوسری اہم بات یہ ہیکہ ایک اخباری رپورٹ کے مطابق   وزیر اعظم کی مقبولیت میں چار فیصد کمی واقع ہوئی ہے، یہ تمام چیزیں حکمراں جماعت کے لئے ٹھیک نہیں ہے، ان اشارات و سفارشات کے تناظر میں یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ اب اگلا الیکشن بی جے پی کے حق میں جانا بہت مشکل ہے، مگر ہارنا اتنا آسان بھی نہیں ہے وہیں سیکولر برادری کو یہ بات بھی ذہن میں رکھنی ہوگی کہ  حکمراں جماعت اقتدار تک دوبارہ پہنچنے کے لئے کچھ بھی کرسکتی ہے، آخر میں یہ عرض کرتا چلوں کہ آج ملک میں ضرورت اس بات کی ہیکہ عوام کی خوشحالی اور اس کی آشائش و فروانی کے لئے تگ ودو کیجائے مظلوموں کو انصاف دلایا جائے  مسلم اقلیت اور دلتوں کی سلامتی کے لئے ٹھوس قدم اٹھا یاجائے تاکہ ہندوستان کی  کوئی بھی قوم یا مذہب کا شخص یہ نہ محسوس کرے کہ اس کے  ساتھ کسی طرح کا سوتیلہ رویہ اپنایا جارہا ہے کیوںکہ یہ ملک تمام لوگوں کا برابر ہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔