جمہوریت کا مستقبل

راحت علی صدیقی قاسمی

 انسانوں کی عزت و ناموس, جان و مال کی حفاظت جمہوریت کا نمایاں وصف ہے، حکمراں منتخب کرنے کا عوام کو مکمل اختیار ہوتا ہے، حکمراں خوف زدہ رہتے ہیں، عوام بے خوف, خوش پُر سکون رہتی ہے، اس کے برخلاف بادشاہت میں انسان کچلا جاتا تھا، اس کی عزت نیلام کی جاتی تھی، اس کی آبرو سے کھیلا جاتا تھا، اس کے عقائد پر چوٹ پہنچائی جاتی تھی، اس کے حقوق تلف ہوتے ہیں، بسا اوقات اس کی جان تک لینے سے دریغ نہیں کیا جاتا تھا، بادشاہ جس کو چاہتا اذیت دے سکتا تھا، اس کے حقوق تلف کرسکتا تھا، ٹیکس کے نام پر اس کی دولت ہڑپ سکتا تھا، بادشاہی نظام کی یہ خرابیاں تھیں جن کی وجہ سے پوری دنیا نے اس نظام کو ٹھکرایا، نظام جمہوری کا انتخاب کیا، پوری کائنات نظام جمہوری کی اسیر ہو گئی ، مختلف مصائب و مشکلات جھیل کر، جانوں کی قربانی دے کر اس نظام کو حاصل کیا گیا، ہمارے ملک کے باشندوں نے بے انتہا جد و جہد اور قربانیوں کے بعد انگریزوں سے آزادی حاصل کی، جمہوریت سا عمدہ طرز حکومت منتخب کیا گیا ، آزادی کے لئے کتنی جانیں دی گئیں، کتنی عورتوں کا سہاگ داؤ پر لگا۔

تاریخ آزادی کے صفحات الٹتے جائیے حقائق آپ کے ذہنوں میں مثل چراغ روشن ہوتے چلے جائیں گے، بہت سے افراد ایسے بھی موجود ہو سکتے ہیں، جنہوں نے ظلم و بربریت کا یہ ننگا ناچ اپنی آنکھوں سے دیکھا ہوگا ، اتنا طویل عرصہ نہیں گذرا کہ ماضی کے وہ دردناک، عبرت انگیز فسانے ذہنوں سے محو ہوجائیں، ملک کا ہر شہری اُن دلدوذ داستانوں سے بخوبی واقف ہے ، مختصر سے عرصہ میں آزادی جیسی عظیم نعمت جس کو جان و مال عزت و آبرو سب کچھ داؤ پر لگا کر حاصل کیا گیا تھا، اس کے مستقبل پر خطرات کے بادل تنے ہوئے محسوس ہورہے ہیں، اس کی دلکشی ختم ہوتی جارہی ہے، اس کے چہرے پر جھریوں کا احساس ہورہا ہے، واقعات سوالات کو جنم دے رہے ہیں، شکوک و شبہات ذہنوں پر مسلط کررہے ہیں، ہر گذرنے والا لمحہ خوف و ہراس کو جنم دے رہا ہے، سیاسی رہنماؤں کی مطلب پرستی نے ہندوستان کو خطرناک دوراہے پر لاکھڑا کیا ہے، ان کی زبانیں آگ اگل رہی ہیں، ووٹ حاصل کرنے کے لئے نفرت کے بیج بوئے جارہے ہیں، اقلیت و اکثریت کے درمیان تفریق کی بنیاد پر انتخابات میں کامیابی حاصل کی جارہی ہے، کبھی لو جہاد کے نام پر، کبھی پاکستان کا بہانہ بنا کر، کبھی انتخاب کو ہندوؤں کی ناک کا مسئلہ بتا کر مسلمانوں کے خلاف سخت ترین جملے استعمال کرکے ہندو مسلمان کے درمیان آسمان چومتی مضبوط دیواریں حائل کردی گئیں، ایک دوسرے پر جان لٹانے والوں کو جانی دشمن بنا دیا گیا، کل تک جو ساتھ کھاتے پیتے تھے۔

آج ایک دوسرے کو دیکھ کر ان کے قلوب میں تنگی، پیشانی پر بل، آنکھوں میں نفرت کے آثار نمایاں ہوجاتے ہیں، بسا اوقات ایسے جملے بھی زبانوں سے ادا ہوتے ہیں، جو ایک دوسرے کے جذبات کو ٹھیس پہنچاتے ہیں، معاملہ صرف جملوں یا طنز تک محدود نہیں ہے، بلکہ صورت حال اتنی بھیانک ہوگئی کہ جان لینا باعث ثواب گردانا جارہا ہے۔ جنید، پہلو خان، اخلاق اس کے بین دلائل ہیں، جس وحشت و درندگی کا مظاہرہ ان کے قتل میں نظر آیا، اس نے ہندوستان کی گنگا جمنی تہذیب کو مسخ کردیا ہے، اس سب بڑھ کر راجستھان میں ایک ایسا واقعہ پیش آیا، جس سے دل دہل گیا، کلیجہ منھ کو آگیا، قبائلی نظام اور بادشاہی نظام کی تاریخ بھی شاید ایسے واقعات سے خالی ہے، ملک کا سیکولر طبقہ دم بخود رہ گیا، لوگ دانتوں تلے انگلیاں دبانے پر مجبور ہوئے، افراز الاسلام کو زندہ جلا دیا گیا، لو جہاد کے نام پر شمبھو ناتھ نے اپنے ہاتھ خون سے رنگین کرلئے، اسی پر بس نہیں کیا گیا، اس قتل کی ویڈیو گرافی کی گئی، لوگوں کو پیغامات دئے گئے، نفرت بھرے جملے کہے گئے، قاتل قتل پر فخر کرتا ہوا نظر آیا، مستقبل میں اس طرح کے کرتوت کرنے کا عزم کرتا ہوا دکھائی پڑا،اس قلب شکن واقعہ سے پورا ملک غمگین ہوجانا چاہئے تھا، لوگوں کی آنکھوں سے آنسوؤں کا سیلاب جاری ہو جانا چاہیے تھا، افرازالاسلام کے گھر والوں کی حمایت میں کھڑا ہونا چاہیے تھا، اس کے غم میں شریک ہونا چاہئے تھا، یہی فطرت کا تقاضہ اور انسانیت کی دلیل تھی، اسی طرز عمل سے جمہوریت کی ٹوٹتی سانسیں، چھوٹتی نبض درست ہوسکتی تھی، اقلیتوں کا اعتماد بحال ہو سکتا تھا، لیکن جس صورت حال سے نگاہیں چار ہوئیں، وہ ناقابل یقین اور ناقابل بیان ہے، انسانی کھالوں میں بھیڑئے دکھائی دئے، انسانیت کے قاتل اور دشمن نظر آئے، شمبھو ناتھ کی حمایت کی گئی، اس کے ساتھ کھڑے رہنے کے دعوے کئے گئے، مسلمانوں کا مذاق اڑایا گیا، ملک کی عزت سے کھیلا گیا، ترنگے کے بجائے چھتوں پر بھگوا پرچم لہرایا گیا، اس کیفیت سے اندازہ لگایا جا سکتا جمہوریت کا مستقبل کیا ہے؟

حالانکہ شمبھو ناتھ کو گرفتار کیا جاچکا ہے، تحقیقات کی جارہی ہیں، لیکن شمبھو ناتھ کی فکر ہندوستانی فضاؤں میں تیر رہی ہے، اسے کیسے گرفتار کیا جائے گا؟ وہ سینکڑوں لوگ جو اس جذبہ سے متاثر ہیں، جن کی رگوں میں نفرت مانند لہو دوڑ رہا ہے، اسے کیسے قید کیا جاے گا؟ کون سی دیواریں ہیں جو ان خیالات کو قید کر سکتی ہیں؟ کیا افرازالاسلام کے قتل پر یہ وحشت و بربریت کا باب ختم ہو چکا؟ کیا سنگین واقعات کا اعادہ نہیں ہوگا؟ قاتل سے لوگوں کی ہمدردی ان سوالات کو ذہن میں پیدا کررہی، جو قلب کو بے چین کرتے ہیں، افراز کاخون دیکھ کر دل نہیں پسیجے، اس سے صورت حال کی وحشت کا اندازہ ہوتا ہے، آخر کیوں؟ انسانیت کیوں مردہ ہوگئی؟ جمہوریت کیوں پسپا ہوگئی؟ کیا اس کے نگہبان ہی اس کے قاتل ہیں؟ غور کیجیے حالات کا جائزہ لیجئے، اتنی نفرت کس راستے سے ہمارے قلب میں آئی ہے، کون ہے جو ہمارے جذبات سے کھیل رہا ہے؟

سوچئے! ہوش میں آئیے، کیا یہ ان لوگوں کا کیا دھرا نہیں ہے جو اپنی کرسی بچانے کی خاطر زہریلی زبان بولتے ہیں، بہار میں جیتنے کے لئے پاکستان کے پٹاخے پھوڑنے کی دہائی دیتے ہیں، گجرات میں کانگریس کے جیتنے پر احمد پٹیل وزیر اعلیٰ ہوںگے پاکستان یہی چاہتا ہے، عام میٹنگ اور گفتگو کو سازش کا روپ دے دیتے ہیں، ایسا لگتا ہے پاکستان کی ہر خواہش ان کے علم میں ہے، آخر کیسے؟ اترپردیش میں مظفرنگر دنگوں کا راگ الاپتے ہیں، کہیں لو جہاد پر گفتگو کرتے ہیں، اس سے ان کی کرسی تو محفوظ ہوگئی، ان کی سیاست تو چمک اٹھی، گجرات میں وہ کامیاب ہوگئے، اترپردیش میں انہوں نے کئی ریکارڈ اپنے نام کرلئے، بہار بھی بالآخر ان کے زیر نگیں ہو ہی گیا، لیکن جمہوریت کا کیا ہوا؟ حقوق کا کیا ہوا؟ محبت کا کیا ہوا؟ سوچئے اور بتائے کیا یہاں کامیابی حاصل ہوئی؟ اگر آپ ہاں کہیں گے تو شمبھو ناتھ کا عمل آپ کو جھوٹا ثابت کردے گا، اتنی سخت ترین صورت حال کے بعد کیا ہمارے رہنماؤں کو اپنی تدابیر پر نظر ثانی نہیں کرنی چاہیے؟ اپنی تقاریر اور فکر کو تبدیل نہیں کرنا چاہیے، جب ہندوستانی قانون کسی بھی مذہب کی لڑکی کو اجازت دیتا ہے، وہ جس سے چاہے شادی کرے، پھر سیاسی رہنماؤں کا اس پر اتنا ہنگامہ کیوں؟ ملک کا قانون ان کی نظر میں کوئی اہمیت نہیں رکھتا؟ کیا انتخاب میں کامیابی حاصل کرنا ہی سب کچھ ہے؟

یہ پہلو بھی غور کرنے کا ہے، کہیں ایسا نہ ہو، جمہوریت کا جسم باقی رہے اس میں روح نہ ہو، اس کا لاشہ سڑ جائے، ملک قبائلی نظام سے بھی بدتر صورت حال کا مشاہدہ کرے، اس کے علاوہ ملک کے ہر شہری کو غور کرنا چاہیے کہ وہ نفرت کے کڑوے زہر کو خوشی خوشی کیوں پی رہا ہے؟ بے بنیاد باتوں پر کیوں یقین کررہا ہے؟ اپنے پڑوسی دوست قریبی سے اس کے نام کی وجہ سے کیوں نفرت کررہا ہے؟ اس صورت حال پر اگر غور و فکر نہ ہوا، اس روش کو اگر نہ بدلا گیا تو اتنے تکلیف دہ مراحل نگاہوں کا استقبال کریں گے جس کا تصور ہی خوف زدہ کرنے والا ہے، جس میں عام آدمی کا نقصان ہوگا اور جمہوریت کا نام باقی رہ جائے گا، حکمرانی نفرت و عداوت کی ہوگی، سوچئے ، طرز بدلئے نفرت کو شکست دیجئے، محبت کو کامیاب کیجئے، اس جذبہ کو شکست دیجئے، جس نے شمبھو ناتھ کو اتنا عظیم جرم کرنے پر آمادہ کیا اور نہ جانے کتنے شمبھو ناتھ پیدا کرسکتا ہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔