جمہوریت کا یہ چہرہ!

جنگ آزادی کی تاریخ خون سے رنگین ہے، بے شمار افراد کا خون ہندوستان کی مٹی میں  شامل ہے، بہت سی حسین اور خوبصورت دوشیزاؤں  کی تمنائیں  اس میں  مدفون ہیں، بہت سی سہاگنوں  کے حسیں  خواب اس مٹی میں  ملے ہوئے ہیں ، بہت سے بچوں  کے کھلونے اس مٹی نے نگل لئے، بہت سے بوڑھوں  کے سہارے اس مٹی کے سینہ کو چیر کر دفن کردئے گئے، تب جاکر وہ صبح آئی جس کے انتظار میں  لاکھوں  دئے تیز آندھیوں  سے لڑتے ہوئے اپنا وجود کھو بیٹھے، مگر رات کی خوف ناک تاریکی، شدید ہوائیں ، ان کے حوصلوں  کو پست نہ کرسکیں  اور چراغوں  سے چراغ جلتے رہے، صبح تک یہ مقابلہ جارہی رہا اور آخر کار اس خوف ناک رات کا زوال ہوا اور صبح کی روشن سنہری خوبصورت کرنیں  ملک پر پڑی۔ کہسار لالہ زار ہوگئے، کھیت کھلیان، چٹیل میدان طویل و عریض صحرا ان خوبصورت کرنوں  سے چمک اٹھے، منظر بدلا ہوا تھا، صورت حال تبدیل ہوچکی تھی، قلوب پر خوشی کے اثرات تھے اور یہ خوشیاں  مرہون منت تھیں ، ان قربانیوں  کوششوں  اور محنتوں  کی جو ہندوستان کے باشندوں  نے اس خوبصورت اور تاریخی لمحہ کے لئے دیں ۔

آج ہر شخص کھلی فضا میں  سانس لے رہا تھا، زندگی کے معنی ہی بدل گئے تھے،  غلامی اور آزادی کا فرق سمجھ میں  آگیا تھا، بزرگوں  کی قربانی کا مفہوم قلوب پر ظاہر ہو چکا تھا، حقائق سے آشنائی ہوگئی تھی، ہر شخص خوشی سے جھوم رہا تھا،  سینے فخر سے چوڑے ہوئے جارہے تھے، زبانیں  ترانے گنگنا رہی تھیں ، بچا بوڑھا جوان ہر کسی پر ایک ہی کیفیت طاری تھی، ایک جیسے جذبات تھے۔ اب تو اپنا ضابطہ اپنا قانون اپنی حکومت ہوگی ہماری آرزوؤں  اور تمناؤں  کا خیال کیا جائے گا، ہمارے حقوق میسر آئیں  گے، اب کوئی ہمارے حوصلوں  کو روند نہیں  پائے گا، ہمارے جذبات سے کوئی کھلواڑ نہیں  کر پائے گا، ہماری آبادیاں  ویران نہیں  ہوں گی، ہمارے ہاتھ سے نوالے نہیں  چھینے جائیں  گے، لوہے کی زنجیریں  اب ہمارے پاوں  میں  نہیں  ہوں گی،قید و بند کی صعوبتیں  اب ہمارا استقبال نہیں  کریں گی، ان خوشیوں  میں  ڈھائی سال کا عرصہ لمحہ کی طرح بیت گیا اور 26 جنوری 1950 کو ہمارا اپنا آئین نافذ کیا جس میں  ملک کے ہر شہری کا خیال کیا گیا، ہر ذات اور برادری کے حقوق یکساں  کردئے گئے، پسماندہ طبقات کو خصوصی رعایتیں  دی گئیں  اور سب سے خوش آئند پہلو یہ تھا کہ قانون ساز کونسل میں  سب اہم عہدہ اس شخص کے نام تھا، جو ذات پات کا تعصب جھیل کر آیا تھا، جس کا تعلق دلت برادری سے تھا۔

 جسے حصول تعلیم میں  بے پناہ قربانیاں  دینی پڑی تھیں ، حوصلہ شکن حالات کا سامنا کرنا پڑا تھا، اس صورت حال نے یہ احساس کرادیا تھا کہ اب تعصب نفرت وعناد کی دیواریں  ختم ہوجائیں گی اور جمہوریت ہمارے لئے خدائی عطیہ سے کم نہیں  ہوگی،بڑے تزک و احتشام کے ساتھ جمہوریت کا جشن منایا گیا اور جب سے آج تک یہ روایت برقرار ہے، جب بھی یہ دن آتا ہے، ہمارے قلوب پر وہی کیفیات اور تاثرات جلوہ فگن ہوتے ہیں ، جمہوریت کا جشن آج بھی جوش و خروش کے ساتھ منایا جاتا ہے، اگر جمہوریت کے پاک و صاف دامن پر بھی کچھ داغ لگے اس کے باوجود ہمیشہ اس موقع پر دل مسرور ہی رہا، لیکن اس یوم جمہوریہ قلب کی عجیب و غریب کیفیت ہے، دل رنجیدہ ہے، جمہوریت کی توہین محسوس کررہا ہے اور یہ سوچنے پر مجبور ہے کہ جمہوریت کا جشن منائیں  یا اس کی آبروریزی کا غم، خوشی کے جذبات سے متاثر ہوں  یا غم اندوہ کی کیفیت سے، دلی کے مشہور ادارہ جو اپنے سیکولر ماحول کی وجہ سے پورے ہندوستان میں  مشہور ہے۔ اس کا وقار و مقام اس کی حیثیت مسلم ہے، وہاں  سے ایک طالب علم اغوا کرلیا گیا، سو دن گذر گئے آج تک کوئی سراغ نہیں  کوئی خبر نہیں  کچھ پتا نہیں  پولس کے ہاتھ خالی ہیں ، آج تک یہ علم نہ ہو سکا نجیب کہاں  گیا، کون سی طاقت ہے جو اسے نگل گئی، ان حقائق پر آج بھی پردہ ہی پڑا ہوا ہے، اس ماں  کی آنکھیں  روتے روتے پتھر ہوگئیں  بہنیں  اپنے بھائی کے غم میں  ٹوٹ چکیں ،سیاسی رہنما غافل ہیں  پولس غافل ہے اور سماج بھی نجیب کی والدہ کے معیارات پر کھڑا نہیں  ہوسکا اور محض چند آوازوں  کے پورا ملک اس معاملہ میں  قبرستان ہی محسوس ہوتا رہا اور آج تک اسی صورت حال کا شکار ہے، عدلیہ پولیس کو تاکید و تنبیہ کررہا ہے، مگر خاطر خواہ نتیجہ آج بھی برآمد نہ ہوسکا، آج تک کوئی شخص سلاخوں  کے پیچھے نہیں  ہے، کوئی خبر نہیں  ہے، اتنے مشکل اور صبر آزما مراحل جن کا تحمل نجیب کی والدہ نے پچھلے 100 دنوں  کیا ہے، ان سے چٹان بھی ریزہ ریزہ ہو کر بکھر جاتی ہے، ایک ماں  ہی اس غم کا اندازہ کرسکتی ہے، لیکن درد و تکلیف کی وجہ ایک ماں  کا غم اور ایک بہن کے آنسو ہی نہیں  ہیں  بلکہ وہ فکر وہ سوچ اور تعصب ہے، جو ہمارے ملک میں  پنپ رہا ہے، اور جمہوریت کی بنیادوں  کو دیمک کی طرح چاٹ رہا ہے اور اس کے مستقبل پر خطرات کی چادرتان رہا ہے،  تو پھر کیوں  اس سانحہ پر آنسو نہ بہا جائیں  کیوں  درد غم و کا اظہار نہ کیا جائے،کیا نجیب کی گمشدگی محض ایک چھوٹی سی جھڑپ کا ثمرہ ہے،  یا اس فکر کا نتیجہ ہے، جو نئی نسل کے دلوں  میں  پیدا کیا جارہا ہے اور ان کے ذہنوں  میں  بھردیاگیا اور ایک انتہائی درجہ سیکولر ادارہ بھی اس سے محفوظ نہ رہ سکا، بے شک سیاسی رہنما اگر تعصب کی بات کرتے ہیں ، مسجد و مندر کی بات کرتے ہیں ، تو کوئی چونکانے والا معاملہ نہیں  ہے، ان کا طریقہ کار یہی ہے، ان کا طرز و انداز یہی ہے، انہوں  نے تو کسی نہ کسی طرح جذبات کو بھڑکانہ اور سادہ لوح عوام کو چھینا ہی ہے لیکن ایک تعلیمی ادارہ میں  ایسا واقعہ انتہائی سنگین اور اس کے سماج پولیس انتظامیہ ان تمام کا رد عمل بھی انتہائی خطرناک اور قابل تشویش ہے، یہ تو ایسے موقع تھا، جب ہم ہندوستان کے مستقبل کے لئے بلاتفریق مذہب و ملت کوشش کرتے پولیس پر دباؤ بناتے اور پولیس جو جانور تک تلاش لاتی ہے اس سے سوال کرتے تمہاری طاقت و قوت کہاں  گئی ؟تم ایک طالب علم کو تلاش کیوں  نہیں  کرپائے اور اس سوچ کو جو مستقبل خطرہ بن سکتی ہے،پورا ہندوستان مل کر کچل دیتا،  اس واقعہ کے بعد اس طرح کی کرتوت کرنے والوں  کے حوصلے بلند ہوں گے اور تعلیمی اداروں  میں  بھی غنڈہ گردی کے واقعات میں  اضافہ ہونے کا خطرہ ہے، جو بہت سے لوگوں  کے حوصلوں  کو پست کرے گا، ان کی راہ میں  روڑا بن جائے گا اور ہندوستان جہاں  تعلیم کا اوسط بہت کم ہے وہاں  یہ صورت حال انتہائی خطرناک ہوگی، اس لئے ضروری ہے کہ نجیب کی تلاش میں  ایڑی چوٹی کا زور صرف کیا جائے، اور جمہوریت کی آن بان شان کو برقرار رکھا جائے، حکومت بھی آنکھوں  سے پٹی اتار لے اور اس مسئلے پر توجہ دے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔