جمہوریت کی توہین، شہادت کی رسوائی

راحت علی صدیقی قاسمی

تاریخ انسانی کے صفحات گواہ ہیں دنیائے آدمیت اس امر کی عکاسی کرتی ہے،بہتے زخموں پر مرہم رکھنا، درد و کرب سے تڑپتے انسان کے لئے نفع رسانی کا ذریعہ بننا،مشکل ادوار سے گذرتے افراد کے لئے آسانی مہیا کرنا،زخم خوردہ انسانوں کی حوصلہ افزائی کے لئے کمربستہ ہونا ان کی مشکلات و مصائب کا علاج تلاش کرنا،غموں سے چور افراد کے لئے مداوائے غم کرنا انسانی تقاضوں اور آدمیت کے کی دلیل ہے، سماجی علوم اور معاشرتی کتب سے دلچسپی رکھنے والے افراد سے دریافت کرلیجئے وہ بلاتامل ان تمام باتوں کی تصدیق کرینگے کوئی کتاب ایسی نہیں ہے جو اسکے برخلاف انسانیت کے تقاضے شمار کراتی ہے،کچھ غم گسارانسانیت، ہمدردی و رواداری کے پیکر اس سے آگے بڑھ جاتے ہیں اورانسانیت کے لئے بے انتہاء قربانیاں دیتے ہیں،آنے والے انسانوں کے لئے راہ متعین کرتے ہیں اور انمٹ نقوش چھوڑتے ہیں راستہ بناتے ہیں جس کی اتباع کائنات انسانی کی فلاح و کامیابی کی ضامن ہے،سماجی علوم، سماجی شخصیات سے اسی طرز پر انسانیت سے محبت کی مثالیں ملتی ہیں یہی پیمانہ ہے جس پر حیوانیت اور انسانیت کی اقدار کو جدا کیا جاتاہے،انسانیت و درندگی کا فرق نمایاں ہوجاتا ہے،نہتے پر وار کرنے والا کمزور کو ستانے والا بے گناہ کو سزا دینے والا کسی انسان پر ظلم جور کی تاریخ رقم کرنے والا، دنیا کی ہر کتاب دنیا کے تمام ضابطوں اور قانون کے مطابق مورد الزام اور موجب سزا ہے کوئی مذہب کوئی فکر کوء قانون اسے اچھا یا بہتر انسان تو دور انسان بھی نہ کہے بلکہ وہ انسانی شکل میں بھیڑیا ہے اس کی شکل تو انسانوں کے مثل ہیں،پر وہ کسی حیوان و درندہ سے کم نہیں خونریزی نے اسے لائق نفرت بنادیا اور انسانوں کی نظروں میں حقیر کردیا ہے،لیکن ہندوستان میں معاشرہ اور سماج کی بنیاد ان اقدار پر نہیں ہے یہاں انسانیت کا پیمانہ الگ ہے،یہاں مجرم کو انعام اور بے گناہ کو سزا ملتی ہے،ایسے الفاظ جب کسی زبان پر جاری ہوتے تھے،تو ملکی محبت جوش میں آجاتی تھی اور غصہ ساتویںآسمان کو چھوتا تھا،مگر گذشتہ سال ستمبر کے ایک دلدوز واقعہ نے اس دعوی کو حقیقت میں بدل دیا اور ان الفاظ کو زمینی حقائق عطا کردئے،جب ایک مذہبی مقام سے عقیدت و محبت کے بجائے نفرت بھرے وزہر آلود الفاظ کا استعمال کیا گیا ہندوستانی کی دھرتی کا یہ سب سے بدتر واقعہ تھا،افراد مجتمع ہوئے پوجا و عبادت کے لئے نہیں کسی شخصیت کی مدح و ستائش کے لئے نہیں بلکہ ایک مفلس بے قصور انسان کے قتل کے لئے،اور انہوں نے اپنے اس ارادے اور بھیانک منصوبہ کو پایہ تکمیل تک پہونچایا،اور بڑی بے رحمی کے ساتھ پیٹ پیٹ کراخلاق کو قتل کردیا ہر ہندوستانی جانتا ہیکہ یہ سانحہ ہندوستان کے سینہ پر زخم سے کم نہیں ہے ملک کی پیشانی پر اس واقعہ نے سیاہی پوت دی جو رسوائی اور شرمندگی اس واقعہ کے بعد دنیا بھر میں ہندوستان کو جھیلنی پڑی، وہ اس بات کی شہادت دیتی ہے اور اس دعوے کو سچ ثابت کردیتی ہے،کہ یقیناًملک کی شبیہ کو اس واقعہ نے نقصان پہونچایا،ہرانسان چاہتا تھا کہ ان درندوں اور قاتلوں کو پھانسی کے پھندے پر لٹکا دیا جائے انکے جرائم کی سزا دی جائے،انکے گناہوں کا پورا پورا بدلہ دیاجائے،مگر دنیا نے دیکھا، اسکے برعکس معاملہ ہوا،ایک سال سے زائد عرصہ گذر چکا ہے جس میں ہر دن یہ تحقیقات ہوتی رہیں کہ گوشت گائے کاتھا؟یا نہیں پولیس کی تحقیقات مکمل ہوچکی ہیں یہ ثابت ہو چکا کہ گھر میں رکھا ہوا گوشت گائے کا تھا،اور اخلاق کا قتل حیوانیت و درندگی کی منھ بولتی تصویر ہے جسے فراموش کرنا ناممکن ہے،اب قاتلوں کو سزا دینے کا معاملہ تھا،اس سلسلہ میں عدالت کا فیصلہ آنا ابھی باقی ہے،اخلاق کے گھروالوں نے رات و دن غم واندوہ اور خوف وہراس کے عالم میں گزارے ہر روز چمکتی دمکتی صبح بھی انکی زندگی میں خوشیوں کا نور نہیں لاپاتی تھی،گرفتاری اور استحصال کا خوف ہمیشہ ذہن و دماغ پر سوار رہتا تھا،پولس کی تحقیقات مکمل ہوئی اور گرفتاری کے خوف سے آزادی ملی مگر کون جانتا تھا کہ قسمت میں ایسا غم لکھا ہے جس سے اخلاق کا خاندان نہیں پورا ہندوستان بلبلا اٹھے گا سیکولر طبقات خون کے آنسو روئیں گے جمہوریت ماتم کناں ہوگی آزادی شرمندہ ہو جائیگی ایک قاتل کو اعزاز دیا جائیگا،ایسا اعزاز کہ تاریخ انسانی شرما جائے اور آدمیت کی نگاہیں جھک جائیں اخلاق کے قاتلوں میں سے ایک شخص رابن کو موت نے آپکڑاا اس کے گردے خراب ہوگئے اور سانس میں دشواری ہوئی جس کے باعث اس کی جان گئی،ساری دنیا جانتی ہے اگر کوئی ملزم مرتا ہے جس کے جرم کے پختہ ثبوت ہیں تو اسے حقارت کی نظر سے دیکھا جاتا ہے لوگ طعنہ زنی کرتے ہیں فقرے کستے ہیں،مگر دادری میں جو ہوا اس نے صدیوں کی تاریخ تبدیل کردی اور ایک قاتل کو معزز بنادیا گیا،اسے عزت بخشی گئے، وہ لازوال اکرام اس کے ساتھ کیا گیا جو ملک کی خاطر سرحد پر جان نچھاور کرنے والے فوجی کے ساتھ کیا جاتا ہے،ملک کی عزت و آبرو ترنگے میں لپیٹ کر اس کی آخری رسومات ادا کی گئیں،ایسا محسوس ہوا کہ ترنگے ہی کی آخری رسومات ادا کی گئی ہوں،ہماری عزت و توقیر کے علم کو دفن کر دیا گیا ہو، اسکے دو رنگ وقت کے تھپیڑوں نے ختم کردئے ہوں اور اس پر صرف کیسریا رنگ باقی رہا ہو جو بھگوا شکل اختیار کرچکا ہے،اگر ایسا نا ہوتا تو کہاں تھے ہمارے ملک کے نامور افراد؟کہاں تھی انتظامیہ؟ کہاں تھا پولیس محکمہ جب ایک قاتل کے جسم سے ہندوستان کی عزت لپیٹی جارہی تھی،اسے شہادت جیسا عظیم منصب عطا کیا جارہا تھا،اگرحکومت اس طرح عوام کے سامنے گھٹنے ٹیکتے رہے گی تو ملکی نظام درہم برہم ہو جائیگا خانہ جنگی ہوگی اور جمہوریت کی جگہ کچھ اور ہی ہوگا جس کا تصور بھی خوفناک ہے،جس طرح عام شہری کا فرض ہے کہ وہ جمہوریت کی عزت کرے اسی طرح حکومت کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ جمہوریت کا اکرام کرے،دادری میں جو ہوا وہ جمہوریت کی توہین ہے حکومت کو اس حقیقت کا اعتراف کرنا چاہئے،یہاں یہ بات بھی سمجھ لینے کی ہے کہ ہندوستانی حکومت کا جھکاؤ ایک جانب محسوس کیا جاتا رہا ہے،جاٹوں کی تحریک شروع ہوئی حکومت مجبور محض ہوگء،گجرات،اونا،دہلی،تمام تحریکات کے نتائج یکساں ہیں مگر کشمیر میں مہینوں ظلم و ستم کی چکی چلتی رہی اور معصوم افراد بھی اس کی زد میں آتے رہے،یہاں کوئی شاید یہ کہدے کہ نوعیتیں مختلف تھیں،مگر دادری، ایک حادثہ، ایک نوعیت، مقتول مجرم، قانون توڑنیوالا قتل میں ملوث شخص شہید اسکو اعزاز و اکرام اسکی بیوی کو انعام یہاں کیا تاویل اور توجیہ انکے طریقہ کار پر پردہ ڈال سکتی ہے یہاں تو حکومت کا مسلم مخالف رویہ عیاں ہورہا ہے،بلکہ جمہوریت مخالف، نعرے لگائے جاتے رہے اور حکومت خاموش ہے اس کے ہم خیالوں کو جیسے سانپ سونگھ گیا ہے انکے مزاج و طبائع میں کوئی تغییر محسوس نہیں ہوا انکی حب الوطنی پر کوئی اثر نہیں چیخنے چلانے والے اینکرس حق اور سچ کے ٹھیکیدار نیوز چینلس بھی خاموش ہیں،ارنب گوسوامی کی زبان نے کوء جملہ نہیں اگلا مفکر سمجھے جانے والے افراد خاموش ہیں،ہر ذی شعور احساس کر سکتا ہے ملک کس سمت میں جارہا ہے سوچ و فکر میں بدلاؤ ہے کرسی کے پجاری مال ودولت کے حریص اپنی زبانوں پر تالے ڈالے ہوئے ہیں مطلع صاف ہے لاشیں بیچی اور خریدی جاتی رہینگی انصاف کے نام پر معاوضوں کی بھیک ملتی رہیگی،کرسی کے پایہ ہلنے کے خوف سے حکومتیں اکثریت کے سامنے جھکتی رہینگی،تو ملک کا کیا ہوگا؟سماج و معاشرہ کا کیا ہوگا؟ ضرورت اس بات کی ہیکہ سماج و افراد زندہ ہوں انسانوں میں بیداری آئے،وہ دن دور نہیں اکثریت کے غلام ملک کو بھیانک حالات سے دوچار کردینگے،اور ہر دن دادری و بابری جیسے واقعات رونما ہونگے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔